امام حسن عسکریؑ کی شہادت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



کوئی ایسا مسلمان نہیں ہے کہ جو امام عسکریؑ کو امام و رہبر کے عنوان سے نہ پہچانتا ہو۔ آپؑ علما کے استاد، عابدین کے پیشوا اور حکومت مخالف سیاسی گروہوں کے رہنما تھے۔ اس زمانے میں ہر جگہ خوف کا راج تھا۔ حکمران امامؑ اور آپؑ کے اصحاب کے سخت دشمن تھے اور سب اہل ایمان کو قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا تھا۔
[۱] شریفی، محمود، سرچشمه‌های نور امام حسن عسکری علیه‌السّلام، ج۱، ص۳۳-۳۴، انتشارات تبلیغات اسلامی، ۱۳۷۰، چ اول۔



زندگی‌ نامہ

[ترمیم]

حضرتؑ کا اسم شریف حسن اور کنیت ابومحمد اور لقب زکی و عسکری ہے۔
[۲] قمی، عباس، منتهی الامال، ج۲، ص۵۰۷، اوج علم، ۱۳۸۶، چ۲۔
آپؑ کی ولادت سنہ ۲۳۲ھ کو مدینہ میں ہوئی اور شہادت آٹھ ربیع الاول بروز جمعۃ المبارک ۲۶۰ھ کو اٹھائیس برس کے سن مبارک میں ہوئی
[۳] صالحی کرمانی، محمدرضا، پیرامون زندگانی چهارده معصوم علیهم‌السّلام، ج۱، ص۲۶۵، قربانیان عدالت، مدرسه آیة گلپایگانی، ۱۳۶۸۔
آپؑ کو سامرہ میں سپرد خاک کیا گیا۔

جلاوطنی میں والد گرامی کی ہمراہی

[ترمیم]

عباسی خلفا آئمہ معصومینؑ کی فکری و سیاسی سرگرمیوں کو زیرنظر رکھنے کیلئے ان سے درخواست کرتے تھے کہ مرکز علم و دین مدینہ منورہ سے بغداد اور سامرا و خراسان کی طرف نقل مکانی کریں کہ جن پر حکومت کا پورا کنٹرول تھا۔ اسی وجہ سے امام حسن عسکریؑ نے تقریبا ساری زندگی زندان یا جلا وطنی میں گزار دی۔ آپؑ دو سال کے تھے کہ اپنے والد کے ہمراہ جلاوطن کر دئیے گئے اور بیس برس تک حضرتؑ کے ساتھ وطن سے دور رہے۔ امام ہادیؑ کی شہادت اور آپؑ کی شہادت کے مابین چھ سال کا فاصلہ تھا۔ آپؑ نے یہ عرصہ جلاوطنی یا زندان میں گزارا۔ اسی وجہ سے اصحاب آپؑ کی خدمت میں حاضری سے شرفیاب نہیں ہو سکتے تھے لیکن پھر بھی امام حسن عسکریؑ نے مخفیانہ نظام قائم کر کے اپنے پیروکاروں کو منظم کیا۔
[۵] مظاهری، حسین، زندگی چهارده معصوم علیهم‌السلام، ج۱، ص۱۶۱، پیام آزادی، ۱۳۷۳، چ۴۔


حضرتؑ کے ہم عصر خلفا

[ترمیم]

حضرت امام حسن عسکریؑ کئی عباسی خلفا کے ہم عصر تھے۔ معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعمین، معتز، مھتدی اور معتمد۔ ان میں سے معتز، مھتدی اور معتمد حضرتؑ کے زمانہ امامت میں حکمران تھے۔ یہ سب حضرتؑ کو تکلیف و اذیت میں مبتلا رکھتے تھے۔ حضرت عسکریؑ اپنی چھ سالہ امامت کے دوران یا زندان میں رہے یا آپؑ کو حکومت کی کڑی نگرانی کا سامنا رہا۔

← سنگدل داروغہ


معتمد کا زندان بان کہتا ہے:
مجھے حکم دیا گیا تھا کہ سختی کروں چنانچہ میں نے قساوت و رذالت میں مشہور دو افراد کو امام عسکریؑ کو اذیت و تکلیف دینے پر مامور کیا۔ تھوڑا وقت ہی گزرا تھا کہ وہ دونوں افراد نماز اور مستحبی روزے کے عادی ہو گئے۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ حسن بن علیؑ پر سختی کیوں نہیں کرتے؟! تو کہنے لگے: ان کے بارے میں کیا کہیں! جو ہر وقت مشغول عبادت ہو۔ دن بھر حالت روزہ میں ہو اور ساری رات صبح تک عبادت میں مشغول رہے۔ ان کی شخصیت ایسی پروقار اور بارعب ہے کہ جب ہماری طرف دیکھتے ہیں تو ہم لرزنے لگتے ہیں۔

← کڑی نگرانی


گیارہویں امامؑ پر انتہائی غیر معمولی سختی تھی اور آپؑ کو ہر طرف سے کڑی نگرانی میں رکھا گیا تھا۔ عباسی حکومت امامؑ کے معاشرتی اثر و رسوخ سے اس قدر خائف تھی کہ امامؑ کو مجبور کیا کہ ہر ہفتے دربار میں حاضر ہوں۔ وہ اس قدر وحشت زدہ تھے کہ اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے امامؑ کو گرفتار کر کے سامرہ کے علاقے عسکر میں جلا وطن کر دیا، اسی لیے آپؑ عسکری کے لقب سے معروف ہوئے۔
[۶] مظاهری، حسین، زندگی چهارده معصوم علیهم‌السلام، ج۱، ص۱۶۳-۱۶۴، پیام آزادی، ۱۳۷۳، چ۴۔


رابطہ نیٹ ورک کی ایجاد

[ترمیم]

امام حسن عسکریؑ کے زمانے میں شیعہ مختلف علاقوں اور متعدد شہروں میں پھیل چکے تھے۔ شیعوں کے مختلف مراکز کی تشکیل کا تقاضا تھا کہ ان کا ایک منظم نیٹ ورک ایجاد کیا جائے تاکہ وہ ایک جانب سے امامت کے ساتھ منسلک ہوں اور دوسری جانب سے ان کا ایک دوسرے سے رابطہ استوار ہو۔ یہ ضرورت نویں امامؑ کے زمانے سے ہی محسوس کی جا رہی تھی۔ وکالت کا نیٹ ورک اور مختلف علاقوں کے نمائندوں کی تقرری اسی غرض سے کی گئی تھی۔ یہ پروگرام امام عسکریؑ کے زمانے میں بھی جاری رہا۔ امام حسن عسکریؑ نے نمایاں شیعہ شخصیات کو مختلف علاقوں میں متعین فرمایا اور یوں اپنے پیروکاروں کے ساتھ رابطے میں رہے۔
[۷] پیشوایی، مهدی، سیره پیشوایان، ج۱، ص۶۲۲، مؤسسه امام صادق علیه‌السّلام، چ۱۳، ۱۳۸۱، قم۔
[۸] پیشوایی، مهدی، سیره پیشوایان، ج۱، ص۶۱۶، مؤسسه امام صادق علیه‌السّلام، چ۱۳، ۱۳۸۱۔
امامؑ مختلف وفود روانہ کر کے بھی شیعوں اور اپنے پیروکاروں کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے اور یوں ان کی مشکلات کو برطرف کرنے میں کردار ادا کرتے تھے۔ بطور نمونہ امامؑ کے قریبی ساتھی ابو الاربان کی سرگرمیوں کا ذکر کیا جا سکتا تھا، وہ امامؑ کے پیروکاروں کو حضرتؑ کے خطوط اور پیغامات بھجواتے تھے اور دوسری جانب سے شیعوں کے ارسال کردہ سوالات، مشکلات اور اموال خمس کو سامرا میں امامؑ کی خدمت میں بھجواتے تھے۔
[۹] پیشوایی، مهدی، سیره پیشوایان، ج۱، ص۶۳۲-۶۳۳، مؤسسه امام صادق علیه‌السّلام، چ۱۳، ۱۳۸۱، قم۔


امامؑ کی شہادت میں اختلاف

[ترمیم]

اس حوالے سے کہ آیا امامؑ کی طبعی موت کے ساتھ رحلت ہوئی تھی یا شہادت واقع ہوئی، بدستور اختلاف ہے؛ اگرچہ طبرسی کی نقل کے مطابق بعض علمائے شیعہ امام صادقؑ کے اس فرمان کہ: ما منّا الّا مَسموم أو مَقتول؛ (ہم میں سے کوئی نہیں ہے مگر یہ کہ اسے زہر دیا گیا یا قتل کیا گیا) کو دلیل بناتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ خلفائے جور نے آپؑ کو شہید کیا ہے۔
[۱۲] موسوی، شرف الدین، الفصول المهمه، ص ۲۹۰۔


روایات کی روشنی میں امامؑ کی شہادت کا جائزہ

[ترمیم]

البتہ امام عسکریؑ کی شہادت کے بارے میں ایک روایت چھٹی صدی ہجری کے تاریخی منابع میں منقول ہے۔
[۱۳] ابن شادی، محمد، مجمل التواریخ و القصص، ص ۴۵۸۔
ایک قول ہے کہ آپؑ کو زہر دیا گیا، لہٰذا یہ قوی احتمال موجود ہے کہ حضرتؑ کو شہید کیا گیا چونکہ حضرتؑ حکمرانوں کے سیاسی مخالف تھے اور دوسرا یہ کہ آپؑ کی رحلت جوانی میں ہوئی؛ ان امور سے شہادت کی تائید ہوتی ہے۔ امامؑ چونکہ سامرا کی جانی پہچانی شخصیت تھے، آپؑ کی رحلت کے وقت سوگ اور غم کا ماحول فضا پر چھایا ہوا تھا۔ احمد بن عبید اللہ نے ایک روایت میں اس منظر کی ان الفاظ میں توصیف کی ہے: جب امام حسن عسکریؑ کی رحلت ہوئی، تو ہر طرف آہ و بکار کی آوازیں بلند ہو گئیں۔ لوگ فریاد کرتے رہے: ابن الرضاؑ وصال فرما گئے ہیں۔ پھر تدفین کیلئے آمادہ ہو گئے، بازار میں عام تعطیل ہو گئی۔ میرے والد (معتمد عباسی کا وزیر)، بنی ہاشم ، فوجی و عدالتی شخصیات، منشی اور عوام جنازے پر جمع ہو گئے۔ اس دن سامرا میں قیامت کا سماں تھا۔
[۱۵] شبلنجی، مومن بن حسن، نورالابصار، ص۶۸۔
سامرا میں امامؑ اور آپؑ کے پدر بزرگوار کی (کم از کم سترہ سال تک) موجودگی سے نہ صرف یہ کہ لوگ آپؑ کے گرویدہ ہو گئے تھے بلکہ بہت سے شیعہ بھی اس شہر میں سکونت پذیر ہو گئے تھے۔ اس وقت پورا سامرا غم میں ڈوبا ہوا تھا اور لوگ رسول خداؐ کے فرزند کے فراق میں عزاداری کر رہے تھے۔
[۱۷] جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی، ص ۵۶۰۔


شہادت کی کیفیت

[ترمیم]

امام حسن عسکریؑ اپنے آباؤ اجداد کی مانند شیعوں کے رہبر تھے اور خلفائے جور کے خلاف عوامی جدوجہد کے قائد تھے۔ حضرتؑ نے اپنی امامت کے آخری ایام معتمد عباسی کے دور میں گزارے۔ وہ ایک سفاک اور خونخوار شخص تھا۔ اپنے مخالفین کو سختی سے کچلتا تھا اور امام حسن عسکریؑ کی نسبت بھی خاموش نہیں تھا۔ اسی وجہ سے امامؑ نے اپنی زیادہ تر زندگی زندان میں گزاری، کبھی صالح بن رصیف نے انہیں زندان میں ڈالا اور کبھی علی بن حزین کی قید میں تھے اور کبھی نحریر نامی ذلیل شخص کے زندان میں رہے۔ آخر کار معتمد جو حضرتؑ کی نسبت شدید کینہ و عداوت رکھتا تھا؛ نے حضرتؑ کو قتل کرنے کا عزم کیا اور حضرتؑ کو زہر کے ساتھ شہید کر دیا۔
رحلت کے وقت آپ کی کنیز صیقل، آپ کے غلام عقید اور حضرت امام زمانہؑ حاضر تھے۔ حضرت نے پانی طلب فرمایا اور پینا چاہا جب ہم نے پانی پیش کیا تو فرمایا: پہلے پانی لاؤ تاکہ نماز پڑھ لیں۔ جب پانی پیش کیا گیا تو وضو فرما کر نماز فجر ادا کی اتنے میں آپ کی پاکیزہ روح عالم قدس کی طرف پرواز کر گئی۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. شریفی، محمود، سرچشمه‌های نور امام حسن عسکری علیه‌السّلام، ج۱، ص۳۳-۳۴، انتشارات تبلیغات اسلامی، ۱۳۷۰، چ اول۔
۲. قمی، عباس، منتهی الامال، ج۲، ص۵۰۷، اوج علم، ۱۳۸۶، چ۲۔
۳. صالحی کرمانی، محمدرضا، پیرامون زندگانی چهارده معصوم علیهم‌السّلام، ج۱، ص۲۶۵، قربانیان عدالت، مدرسه آیة گلپایگانی، ۱۳۶۸۔
۴. ابلی، علی، کشف الغمه فی معرفه الائمه، ج۳، ص۱۷۷، کتابچی حقیقت، ۱۳۸۱، ۶۹۳ھ۔    
۵. مظاهری، حسین، زندگی چهارده معصوم علیهم‌السلام، ج۱، ص۱۶۱، پیام آزادی، ۱۳۷۳، چ۴۔
۶. مظاهری، حسین، زندگی چهارده معصوم علیهم‌السلام، ج۱، ص۱۶۳-۱۶۴، پیام آزادی، ۱۳۷۳، چ۴۔
۷. پیشوایی، مهدی، سیره پیشوایان، ج۱، ص۶۲۲، مؤسسه امام صادق علیه‌السّلام، چ۱۳، ۱۳۸۱، قم۔
۸. پیشوایی، مهدی، سیره پیشوایان، ج۱، ص۶۱۶، مؤسسه امام صادق علیه‌السّلام، چ۱۳، ۱۳۸۱۔
۹. پیشوایی، مهدی، سیره پیشوایان، ج۱، ص۶۳۲-۶۳۳، مؤسسه امام صادق علیه‌السّلام، چ۱۳، ۱۳۸۱، قم۔
۱۰. مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج ۵۰، ص ۲۳۸۔    
۱۱. طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری، ج ۲، ص ۱۳۲۔    
۱۲. موسوی، شرف الدین، الفصول المهمه، ص ۲۹۰۔
۱۳. ابن شادی، محمد، مجمل التواریخ و القصص، ص ۴۵۸۔
۱۴. شیخ صدوق، کمال الدین، ج۱، ص۴۳۔    
۱۵. شبلنجی، مومن بن حسن، نورالابصار، ص۶۸۔
۱۶. طوسی، نصیر الدین، غیبة شیخ طوسی، ص۲۱۹۔    
۱۷. جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی، ص ۵۶۰۔


ماخذ

[ترمیم]
سائٹ پژوھہ، ماخوذ از مقالہ «شهادت امام حسن عسکری»، نظرثانی ۲۰۱۶/۰۴/۰۶۔    
حوزوی سائٹ اندیشہ قم نظرثانی ۲۰۱۵/۱۰/۲۰۔    






جعبه ابزار