امام حسنؑ کی شہادت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



شیعہ کی تمام معتبر کتب اور اہل سنت کے قریب بہ اتفاق منابع کی رو سے امام حسنؑ معاویہ بن ابی سفیان کے اکسانے پر اپنی زوجہ جعدہ کے ہاتھوں زہر سے مسموم ہو کر شہید ہوئے۔


شہادت امامؑ کا ماجرا

[ترمیم]
معاویہ نے بارہا امام مجتبیؑ کو زہر دینے کا ارادہ کیا اور بہت سے خفیہ واسطوں کا سہارا لیتا رہا۔ حاکم نیشاپوری نے معتبر سند کے ساتھ ام بکر بنت مسور سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: کان الحسن بن علیؑ سم مرارا کل ذلک یغلت حتی کانت مره الاخیره التی مات فیها فانه کان یختلف کبده، فلم لبث بعد ذلک الا ثلاثا حتی توفی
حسن بن علیؑ کو بارہا مسموم کیا جاتا رہا لیکن اس کا کوئی خاص اثر نہ ہوا مگر آخری مرتبہ زہر نے ان کے جگر کو پارہ پارہ کر دیا اور اس کے بعد آپؑ تین دنوں سے زیادہ زندہ نہ رہے۔ بعض اقوال کی رو سے امامؑ کو شہادت سے قبل کئی مرتبہ زہر دیا گیا مگر سازش کامیاب نہ ہو سکی۔ یعقوبی لکھتا ہے: امام حسنؑ نے موت کے وقت اپنے بھائی حسینؑ سے فرمایا: اے برادر! یہ تیسری مرتبہ مجھے زہر دیا گیا ہے اور اس سے قبل ایسا زہر نہیں دیا گیا اور میں آج دنیا سے چلا جاؤں گا۔ جب میرا انتقال ہو جائے تو مجھے رسول خداؐ کے ساتھ دفن کرنا چونکہ آپؑ کے قرب کا مجھ سے زیادہ کوئی سزاوار نہیں ہے اور اگر اس کام سے روکا جائے تو اس صورت میں حجامت کی مقدار بھی خونریزی نہیں ہونی چاہئیے۔
امام مجتبیؑ کی ایک زوجہ جعدہ بنت اشعت ہے۔ ابو الفرج اصفہانی کی نقل کے مطابق اس کیلئے سکینہ، عائشہ اور شعثاء جیسے نام بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ مگر انہوں نے اس کا درست نام جعدہ قرار دیا ہے۔ بلاذری کی نقل کے مطابق جعدہ اپنے والد کے مکر و فریب کے باعث امام حسن مجتبیؑ کے عقد میں آئی۔ امام مجتبیؑ کی شہادت کے واقعے کا صحیح اور مشہور قول یہ ہے کہ معاویہ نے بہت زیادہ مال و دولت اور یزید کے ساتھ شادی کا جھانسہ دے کر اسے لالچ دیا کہ امام حسنؑ کو زہر دے اور اس نے یہ کام کر دیا کہ جس کی وجہ سے امامؑ شہید ہوئے۔ طبرسی کی روایت کے مطابق معاویہ نے جعدہ کو زہر بھجوایا تھا۔
سخاوی کی ابن عبد البر سے منقول روایت کے مطابق جعدہ نے امام حسنؑ کے ساتھ کینہ رکھنے کی وجہ سے انہیں زہر دیا اور امام علیؑ کے خاندان سے دشمنی اس کے گھر والوں میں بھی موجود تھی؛ جیسا کہ ایک روایت میں امام صادقؑ نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ان الاشعث شرک فی دم امیرالمؤمنین و ابنته جعده سمت الحسن، و ابنه شرک فی دم الحسین اشعث نے امیر المومنینؑ کے خون میں شرکت کی، اس کی بیٹی جعدہ نے امام حسنؑ کو زہر دیا اور اس کے بیٹے (محمد بن اشعث) نے خون حسینؑ میں شرکت کی۔
[۲۸] رسولی محلاتی، سید‌ هاشم، زندگانی امام حسن مجتبی (علیه‌السّلام)، ص۴۴۲۔
روایات میں آیا ہے کہ جب قریش کا جعدہ کی اولاد کے ساتھ تنازعہ ہوا تو وہ انہیں بَنی‌ مُسِمَّه الازْواج‌ (یعنی شوہر کو زہر دینے والی کی اولاد) کہہ کر مخاطب کر رہے تھے۔ البتہ کچھ غیر شیعہ معتبر کتب میں بیماری کے زیر اثر امام حسنؑ کی طبیعی موت کی بات بھی کی گئی ہے۔ جو اکثر بلکہ قریب بہ اتفاق دیگر تاریخی و حدیثی منابع سے متعارض ہے۔ دوسری طرف سے ایسی روایات بھی موجود ہیں کہ جن میں تمام آئمہؑ کی زندگی کا اختتام شہادت اور غیر طبعی موت پر بیان کیا گیا ہے۔ امام حسنؑ سے منقول ہے کہ فرمایا: مَا مِنَّا اِلَّا مَقْتُولٌ اَوْ مَسْمُومٌ ہم آئمہؑ میں سے کوئی نہیں ہے مگر یہ کہ اسے قتل کیا گیا یا زہر دیا گیا۔
شیخ صدوق، ابا صلت ہروی سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں: میں نے امام رضاؑ سے سنا کہ فرمایا: وَ اللَّهِ مَا مِنَّا اِلَّا مَقْتُولٌ شَهِیدٌ خدا کی قسم! ہم میں سے کوئی ایک ایسا نہیں ہے جسے قتل و شہید نہ کیا گیا ہو؛ زہر کارگر ہونے کے بعد معاویہ نے جعدہ کو جو مال و دولت کا وعدہ دیا تھا؛ پورا کر دیا لیکن یزید کے ساتھ شادی کرانے پر راضی نہیں ہوا اور اسے کہنے لگا: مجھے خوف ہے کہ یزید کو بھی حسن بن علیؑ کی طرح قتل نہ کر دو۔
[۳۸] مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج۳، ص۱۸۲۔
یہاں پر اس کے بارے میں امام مجتبیٰ کی پیشگوئی سچ ثابت ہوئی کہ آپؑ نے فرمایا تھا: خدا کی قسم! معاویہ نے تمہیں دھوکہ دیا ہے اور وہ اپنے عہد و پیمان کو پورا نہیں کرے گا۔
[۴۰] قائمی، علی، در مکتب کریم اهل بیت، ص۴۵۶۔
امام حسنؑ کو زہر دینے کے بعد جعدہ کو حضرت کی لعن و نفرین نے آن لیا اور کہا جاتا ہے کہ اسے انتہائی متعفن بیماری لگی اور وہ دردناک موت سے دوچار ہوئی۔
[۴۲] قائمی، علی، در مکتب کریم اهل بیت، ص۴۵۶۔

تاریخ شہادت

[ترمیم]

مورخین اور علمائے مسلمین میں مشہور یہ ہے کہ امام مجتبیؑ معاویہ کی جانب سے جعدہ کے ذریعے دئیے گئے زہر کی وجہ سے ۲۸ صفر بروز جمعرات سنہ ۵۰ھ کو ۴۸ سال کے سن میں شہید ہوئے جیسا کہ شیخ مفید اور عظیم مفسر شیخ طبرسی نے اس کی تصریح کی ہے۔
حضرتؑ کی تاریخ شہادت اور عمر مبارک کے حوالے سے شیعہ اور اہل سنت روایات میں بہت اختلاف ہے کہ جن میں سے زیادہ نمایاں اقوال درج ذیل ہیں:
۱۔ ۴۷ سال کے سن مبارک میں بمطابق آخر ماہ صفر سنہ ۴۹ھ ؛
۲۔ ۴۷ یا ۴۸ سال کے سن مبارک میں بمطابق ۷ صفر سنہ ۴۹ یا ۵۰ھ ؛
۳۔ ۴۷ یا ۴۸ سال کے سن مبارک میں بمطابق ۲۸ صفر ۴۹ یا ۵۰ھ؛
۴۔ ۴۷ سال کے سن مبارک میں بمطابق ۵ ربیع الاول سنہ ۴۹ یا ۵۰ھ ؛
جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ اس کے بارے میں مشہور ترین اقوال وہی قول دوم اور قول سوم ہیں اور ان میں سے ضعیف ترین قول پانچواں ہے جبکہ سن مبارک کے اعتبار سے مشہور ترین قول ۴۸ سال کے سن مبارک کا ہے جیسا کہ علامہ مجلسیؒ اور شیخ مفیدؒ نے بھی اسی کو نقل کیا ہے۔ اسی طرح کتاب منتخب التواریخ کے مصنف کہتے ہیں: اس امر میں اختلاف نہیں ہے کہ حضرتؑ کی وفات جمعرات کے دن ہوئی ہے۔
[۶۰] بداونی، عبدالقادر، منتخب التواریخ، ص۵۶۔


معاویہ کا کردار

[ترمیم]

امام مجتبیؑ کی شہادت معاویہ کی سازش اور اس کی جانب سے بھجوائے گئے زہر کی وجہ سے ہوئی۔ یہ امر تاریخ اور شیعہ و سنی کے متواترات میں سے ہے اور اس میں کوئی شک و تردید نہیں ہے۔ اسی طرح معتبر تاریخی کتب کے مطابق معاویہ نے امام مجتبیؑ کی زندگی کے دوران یزید کو اپنا ولی عہد اور جانشین بنانے کا ارادہ کر لیا تھا حالانکہ اس نے یہ عہد کیا تھا کہ ولی عہد مقرر نہیں کرے گا اور اپنے بعد خلافت امام حسنؑ کے سپرد کر دے گا۔ یزید کیلئے لوگوں سے بیعت لینے کے راستے میں معاویہ کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ امام حسن مجتبیؑ کا وجود تھا۔ معروف مورخ ابو الفرج اصفہانی لکھتے ہیں: معاویہ چاہتا تھا کہ اپنے بیٹے یزید کیلئے لوگوں سے بیعت لے لیکن امام حسنؑ اور سعد بن ابی وقّاص کا وجود اس کیلئے مشکل ساز تھا۔ اسی لیے اس نے ان دونوں کو زہر دے دیا۔ معاویہ کی طرف سے امام مجتبیؑ کو زہر دینے کی ذمہ داری آپؑ کی زوجہ جعدہ کو دی گئی تھی۔ ابن ابی الحدید لکھتا ہے: معاویہ اپنے بیٹے یزید کیلئے بیعت لینا چاہتا تھا؛ اس لیے اس نے امام مجتبیؑ کو زہر دلوانے کی سازش تیار کی۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے بیٹے کیلئے بیعت لینے اور اپنی حکومت کو موروثی بنانے کی راہ میں حسن بن علیؑ سے زیادہ مضبوط اور بڑی رکاوٹ کسی اور کو نہیں سمجھتا تھا۔ پس معاویہ نے یہ قدم اٹھایا اور حضرتؑ کی شہادت کا باعث بنا۔
ابن اعثم شافعی، کتاب الفتوح میں لکھتے ہیں: میں نے بااعتماد افراد سے سنا ہے کہ معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنانے کا ارادہ کیا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ یہ کام نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ اس کے اور امام حسنؑ کے درمیان جو صلح نامہ طے پایا تھا اس کی ایک شرط یہ تھی کہ معاویہ اپنی موت کے بعد خلافت کو مسلمانوں کی مشاورت پر چھوڑ دے گا؛ لہٰذا اس نے امام حسنؑ کے قتل کی پوری کوشش کی، مروان بن حکم وہی کہ جسے پیغمبرؐ نے جلا وطن کیا تھا؛ کو مدینہ بھجوایا اور اسے ایک زہر آلود رومال دیا اور یہ حکم دیا کہ اسے امام حسنؑ کی زوجہ جعدہ بنت اشعث بن قیس کو پہنچا دے اور اسے ہر طرح کے مکر و حیلے سے قائل کرے کہ حسن بن علیؑ اس رومال کو استعمال کریں اور جعدہ کو یقین دلائے کہ اسے پچاس ہزار درہم دئیے جائیں گے اور اس کا نکاح یزید سے کر دیا جائے گا۔ مروان معاویہ کی ہدایات کے مطابق امام حسنؑ کی زوجہ کو فریب دینے میں کامیاب ہوا اور امام حسنؑ کی شہادت کا سبب بنا۔ جعدہ مروان کے جال میں پھنس گئی اور اس قبیح گناہ کی مرتکب ہوئی۔
اس مسئلے کے اثبات کہ امام مجتبیؑ کا اصل قاتل معاویہ بن ابو سفیان ہے اور اسی نے جعدہ کو زہر بھجوایا اور اسے یزید کے ساتھ شادی کا وعدہ دے کر ابھارا تاکہ وہ نواسہ رسولؐ کو زہر دے؛ کیلئے اہل سنت کے تاریخی اور حدیثی منابع میں اتنے زیادہ مطالب ہیں کہ شیعہ منابع کی ضرورت نہیں ہے۔
[۶۵] سبط ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکره الخواص، ص۱۹۱-۱۹۲۔


معاویہ کی خوشی

[ترمیم]
تاریخ میں منقول ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان جہاں امام مجتبیؑ کی شہادت کا اصل ذمہ دار تھا، وہیں پر امامؑ کی شہادت کی خبر سننے کے بعد اپنی خوشی کو نہیں چھپا سکا حالانکہ اس کی کوشش تھی کہ اس سانحے میں اپنے کردار کو مخفی رکھے اور اس کی یہ حرکت اس کی بیوی کیلئے بڑی تعجب انگیزتھی۔ اہل سنت کے علمی ستون ابن خلکان اس حوالے سے لکھتے ہیں: جب حسنؑ کی شہادت کی خبر معاویہ کو پہنچی تو اس کے قصر خضراء سے صدائے تکبیر سنی گئی۔ پس اس کی پیروی میں اہل شام نے بھی نعرہ تکبیر بلند کیا۔ معاویہ کی بیوی فاختہ نے اس سے کہا: اے امیر المومنین! آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں، نعرہ تکبیر بلند کرنے کی کیا وجہ ہے؟! معاویہ نے کہا: حسن دنیا سے چلا گیا ہے۔ فاختہ نے کہا: کیا فرزند فاطمہؑ کی وفات پر نعرہ تکبیر بلند کر رہے ہو؟! معاویہ نے کہا: خدا کی قسم! اس کی موت سے خوشی کے باعث میں نے تکبیر نہیں کہی بلکہ اب میں پرسکون ہو گیا ہوں۔ اس وقت ابن عباس شام میں تھے، وہ معاویہ کے پاس آئے۔ معاویہ نے کہا: اے ابن عباس! کیا تجھے معلوم ہے کہ تمہارے خاندان میں کیا ہوا ہے؟ ابن عباس نے کہا: مجھے نہیں معلوم! البتہ تمہیں خوش و خرم دیکھ رہا ہوں اور تیرے نعرہ تکبیر اور سجدہ شکر کی خبر مجھ تک پہنچی ہے۔ معاویہ نے کہا: حسن دنیا سے جا چکے ہیں۔ ابن عباس نے کہا: خدا ابو محمد پر رحمت کرے اور اس جملے کا تین مرتبہ تکرار کیا۔ خدا کی قسم! ان کا بدن تیری قبر کو بند نہیں کرے گا اور ان کی کم عمری سے تیری عمر نہیں بڑھے گی۔ اگر ہم امام حسنؑ کے ساتھ ملحق ہو جائیں تو متقیوں کے پیشوا اور پیغمبروں کے نگین کے ساتھ ملحق ہوں گے اور خدا اس دوری کا جبران کرے گا اور اس غم و اندوہ کو تسکین دے گا اور ان کے بعد خدا ہمارے لیے جانشین کا انتخاب کرے گا۔ اسی مطلب کو زمخشری نے ربیع الابرار میں اور انصاری تلمستانی نے الجوہرۃ فی النسب میں نقل کیا ہے۔
ابن عبد ربہ، العقد الفرید میں لکھتے ہیں: جب حسن بن علیؑ کی شہادت کی خبر معاویہ تک پہنچی تو وہ سجدہ شکر بجا لایا، فورا کسی کو بھیج کر ابن عباس کو طلب کیا جو اس وقت شام میں موجود تھے۔ پھر ان سے تعزیت کی جبکہ خود خوش تھا۔ ابن عباس سے کہا: ابو محمد کی کتنے برس بعد رحلت ہوئی؟! ابن عباس نے کہا: ان کا سن مبارک پورے قریش کو معلوم ہے۔ تعجب ہے کہ تجھ جیسا آدمی اس سے مطلع نہیں ہے۔ پھر معاویہ نے کہا: میں نے سنا ہے کہ ان کے پسماندگان میں چھوٹے اور کم سن بچے ہیں؟! ابن عباس نے کہا: ہر چھوٹا، بڑا ہو جائے گا، ہمارے چھوٹے اور کم سن بھی بڑے ہو جائیں گے۔ پھر عبد اللہ بن عباس نے کہا: اے معاویہ! تم کیوں حسن بن علیؑ کی شہادت پر خوش ہوئے ہو؟! خدا کی قسم! ان کی موت تمہاری اجل کو موخر نہ کرے گی اور ان کا بدن تمہاری قبر کو نہیں بھرے گا۔ امام حسنؑ کے بعد تیری اور میری زندگی کس قدر کم ہے!
احمد زکی صفوت جمہرۃ خطب العرب میں لکھتے ہیں: جب حسن بن علیؑ کی وفات کی خبر معاویہ تک پہنچی تو اس نے کھلم کھلا خوشی کی اور بھنگڑا ڈالا۔ ابن قتیبہ دینوری، کتاب الامامۃ والسیاسۃ میں لکھتے ہیں: جب امام حسنؑ دنیا سے رخصت ہوئے تو حاکم مدینہ نے یہ خبر معاویہ تک پہنچائی۔ جب معاویہ کو پتہ چلا تو اس نے برملا خوشی کی اور بھنگڑا ڈالا۔
یہ واقعہ اہل سنت کے منابع میں اس حال میں وارد ہوا ہے کہ شیعہ و سنی کتب کی روایات کے مطابق اہل بیتؑ کے ساتھ دشمنی اور جنگ رسول خداؐ کے ساتھ جنگ اور دشمنی ہے جبکہ امام حسنؑ بھی اہل سنت روایات کی رو سے قطعی طور پر اس کا حصہ ہیں۔ من احب الحسن و الحسین فقد احبنی و من ابغضهما فقد ابغضنی؛ جیسی روایات کہ جو بھی حسن و حسین سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور جو بھی ان دونوں سے دشمنی کرے اس نے میرے ساتھ دشمنی کی ہے اور من احبهما فقد احبنی و من ابغضهما فقد ابغضنی. یعنی الحسن و الحسین رضی الله عنهما جو بھی حسن و حسین سے محبت کرتا ہے، وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور جو بھی انہیں ناراض کرتا ہے وہ مجھے ناراض کرتا ہے۔
ابن حبان اپنی صحیح میں لکھتے ہیں: اَنّ النَّبِیَّ قَالَ لِفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ اَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَکُمْ وسلم لِمَنْ سَالَمَکُمْ رسول خداؐ نے حضرت فاطمہؑ اور حسنؑ و حسینؑ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: میں اس کا دشمن ہوں جو تہمارے دشمن ہیں اور ان کا دوست ہوں جو تمہارے دوست ہیں۔ حاکم نیشاپوری بھی المستدرک میں لکھتے ہیں: نظر النبی الی علی وفاطمة والحسن والحسین فقال انا حرب لمن حاربکم وسلم لمن سالمکم رسول خداؐ نے علی، فاطمہ، حسن و حسینؑ پر نگاہ کی اور فرمایا: میں اس کا دشمن ہوں جو آپ کے ساتھ دشمنی کرے اور اس کا دوست ہوں جو آپ سے دوستی رکھے۔ پس روایات کے مطابق، اہل بیتؑ کے ساتھ دشمنی اور جنگ رسول خداؐ کے ساتھ جنگ اور دشمنی ہے جبکہ امام مجتبیؑ اہل سنت روایات کی تصریح کے مطابق قطعی طور پر ان میں شامل ہیں۔

عائشہ کی ممانعت

[ترمیم]
شیخ طوسیؒ کی روایت کے مطابق امام حسنؑ نے اپنے بھائی امام حسینؑ کو وصیت کی تھی کہ انہیں پیغمبر اکرمؐ کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ تاہم اگر لوگوں نے رکاوٹ ڈالی تو ہرگز اصرار نہ کریں مبادا کوئی خونریزی ہو۔ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ امام حسنؑ نے وصیت کی تھی کہ ان کے جسد کو غسل و کفن کے بعد تجدید عہد کیلئے رسول خداؐ کی قبر کے پاس لایا جائے اور پھر انہیں ان کی دادی فاطمہ بنت اسد کے پاس دفن کر دیا جائے۔
جب حضرتؑ کا پاکیزہ جنازہ رسول اللہ کی قبر کے پاس دفن کیلئے لایا جا رہا تھا تو اس قدر ہجوم تھا کہ سوئی کے برابر بھی جگہ خالی نہیں تھی۔ عائشہ نے امام حسنؑ کو پیغمبرؐ کے نزدیک دفن ہونے سے روک دیا۔ شاید عائشہ کی جانب سے امام حسنؑ کے پیکر کو روضہ رسول کے پاس دفن کرنے کی ممانعت کی وجہ یہ ہو کہ امام حسنؑ نے جنگ جمل کو امیر المومنینؑ کی سپاہ کے حق میں تمام کیا تھا۔ عبد اللہ بن زبیر کہتے ہیں: حسن بن علیؑ کے دفن کے دن میں نے عائشہ کو یہ کہتے سنا: ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، انہیں بقیع میں دفن کیا جائے اور ان تین افراد کے ساتھ دفن نہ کیا جائے۔ مشہور اہل سنت عالم ابن عبد البر قرطبی، کتاب بھجۃ المجالس میں لکھتے ہیں: لما مات الحسن ارادوا ان یدفنوه فی بیت رسول الله، فابت ذلک عائشة ورکبت بغلة وجمعت الناس، فقال لها ابن عباس: کانک اردت ان یقال: یوم البغلة کما قیل یوم الجمل
جب حسنؑ دنیا سے چلے گئے تو ورثا نے انہیں رسول اللہؐ کے گھر دفن کرنا چاہا؛ پس عائشہ نے انہیں ایسا کرنے سے روکا، وہ ایک خچر پر سوار ہوئیں اور لوگوں کو اکٹھا کر لیا۔ ابن عباس نے انہیں کہا: تو چاہتی ہے کہ وہ کام کرے جو جمل کے دن کیا تھا اور لوگ کہیں: یوم قاطر(خچر کا دن)، جس طرح وہ کہہ رہے ہیں یوم جمل۔
بلاذری نے انساب الاشراف میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں لکھا ہے: قالت: البیت بیتی ولا آذن ان یدفن فیه احد عائشہ نے کہا: یہ گھر میرا ہے میں اجازت نہیں دوں گی کہ کوئی اس میں دفن ہو۔ یعقوبی بھی اپنی تاریخ میں لکھتا ہے: وقیل ان عائشة رکبت بغلة شهباء وقالت بیتی لا آذن فیه لاحد فاتاها القاسم بن محمد بن ابی بکر فقال لها یا عمة ما غسلنا رؤوسنا من یوم الجمل الاحمر اتریدین ان یقال یوم البغلة الشهباء فرجعت عائشہ ایک مٹیالے رنگ کے خچر پر سوار تھیں اور کہہ رہی تھیں: یہ گھر میرا ہے، میں کسی کو یہاں دفن ہونے کی اجازت نہیں دوں گی۔ قاسم بن محمد بن ابو بکر سامنے آیا اور کہا: پھوپھی جان! ابھی تک ہمارے سر سرخ اونٹ والے دن کی ننگ و عار سے جھکے ہوئے ہیں، آپ چاہتی ہیں کہ لوگ یہ کہیں خاکستری رنگ کے خچر والا دن؟! پس عائشہ واپس چلی گئیں۔
عائشہ کا یہ اقدام اس امر کا موجب بنا کہ بنو امیہ اور مروانی بالخصوص مروان اپنے ساتھیوں کے ساتھ درپردہ عائشہ کی حمایت کے ساتھ امامؑ کی نسبت اپنا بغض و کینہ آشکار کریں اور انہوں نے اسلحہ تان لیا۔
ابن شہر آشوب لکھتے ہیں: ورموا بالنبال جنازته حتی سل منها سبعون نبلا؛ انہوں نے حضرتؑ کے جنازے پر تیروں کی بوچھاڑ کر دی یہاں تک کہ تابوت پر ستر تیر پیوست ہو گئے۔ مروان اس فتنے میں عائشہ کے حامی کے عنوان سے کہہ رہا تھا کہ کیوں عثمان کو مدینہ سے باہر دفن کیا جائے اور حسنؑ کو پیغمبرؐ کے ساتھ؟! اس وقت آل امیہ، آل ابی سفیان اور عثمان کی اولاد ان کے ہم صدا ہو گئے اور اس کام سے روک دیا۔

تشییع جنازہ اور تدفین

[ترمیم]

تاریخی منابع میں وارد ہوا ہے کہ حاکم مدینہ سعید بن عاص نے امام حسینؑ کی درخواست پر امام حسنؑ کے پیکر پر نماز پڑھی۔ مگر اس بارے میں روایات کہ امام معصوم کو فقط امام معصوم ہی غسل دے سکتا ہے اور ان پر نماز میت پڑھ سکتا ہے، سے یہی معلوم یہی ہوتا ہے کہ امام حسینؑ پہلے خود بھائی کے جنازے پر نماز پڑھ چکے تھے مگر قبرستان بقیع میں بطور تقیہ سعید بن عاص کو نماز کا کہا اور اس نے اس تجویز کو قبول کر لیا۔
[۱۰۴] رسولی محلاتی، سید هاشم، زندگانی امام حسن، ص۴۵۲۔

شیخ مفیدؒ ارشاد میں لکھتے ہیں: ابن عباسؒ آگے بڑھے اور عائشہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا: واسواتاه فیوما علی بغل و یوما علی جمل، تریدین ان تطفئی نورالله و تقاتلی اولیاءالله ارجعی فقد کفیت الذی تخافین و بلغت ما تحبین و الله منتصر لاهل البیت و لو بعد حین
یہ کیسی رسوائی ہے؟! عائشہ! ایک دن خچر کے اوپر اور ایک دن اونٹ کے اوپر! (جنگ جمل کی طرف اشارہ) کیا چاہتی ہو کہ نور خدا کو بجھا دو اور خدا کے اولیا سے جنگ کرو؟! واپس چلی جاؤ! اور جس چیز کا تمہیں خوف ہے پریشان نہ ہو چونکہ ہم وصیت کے مطابق بدن مطہر کو یہاں دفن نہیں کریں گے، خوش ہو جاؤ کہ تمہارا مقصد پورا ہو چکا ہے؛ خدا اہل بیتؑ کی مدد فرمائے گا خواہ زمانہ گزر جائے۔ پھر امام حسنؑ کے جنازے کو بقیع کی طرف لے جایا گیا اور آپ کی دادی حضرت فاطمہ بنت اسد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابو الفرج اصفهانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، ص۸۰-۸۱۔    
۲. حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۱۹۳۔    
۳. شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، ج۲، ص۱۶۔    
۴. ابن اثیر، ابو الحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، ج۲، ص۱۵۔    
۵. قرشی، باقر شریف، حیاة الامام الحسن (علیه‌السّلام)، ج۲، ص۴۷۰۔    
۶. حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۱۸۹۔    
۷. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۵۵۔    
۸. ابو الفرج اصفهانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، ص۸۱۔    
۹. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۸، ص۴۶۔    
۱۰. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابه فی تمییز الصحابه، ج۲، ص۶۶۔    
۱۱. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۲۵۔    
۱۲. طبرسی، فضل بن الحسن، اعلام الوری، ص۴۱۴۔    
۱۳. ابوالحسن اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمه عن معرفه الائمه، ج۲، ص۲۰۷۔    
۱۴. ابن عبد البر، یوسف‌ بن‌ عبدالله، الاستیعاب فی معرفه الاصحاب، ج۱، ص۳۹۰۔    
۱۵. ابو الفرج اصفهانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، ص۶۰۔    
۱۶. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۴۔    
۱۷. قرشی، باقر شریف، حیاة الامام الحسن (علیه‌السّلام)، ج۲، ص۴۵۸۔    
۱۸. ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینه الدمشق، ج۱۳، ص۲۸۴۔    
۱۹. شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، ‌ج۲، ص۱۵۔    
۲۰. ابن شهر آشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۳، ص۲۰۲۔    
۲۱. ابوالحسن اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمه عن معرفه الائمه، ج۲، ص۲۰۷۔    
۲۲. ابوالحسن اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمه عن معرفه الائمه، ج۲، ص۱۳۸۔    
۲۳. طبرسی، فضل بن الحسن، اعلام الوری، ص۴۰۳۔    
۲۴. طبرسی، فضل بن حسن، الاحتجاج علی اهل اللجاج، ‌ج۲، ص۱۳۔    
۲۵. شمس الدین سخاوی‌، محمد بن عبدالرحمان‌، التحفه اللطیفه فی‌ تاریخ‌ المدینه الشریفه، ج۱، ص۲۸۳۔    
۲۶. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۸، ص۱۶۷۔    
۲۷. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۴۲۔    
۲۸. رسولی محلاتی، سید‌ هاشم، زندگانی امام حسن مجتبی (علیه‌السّلام)، ص۴۴۲۔
۲۹. ابوالحسن اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمه عن معرفه الائمه، ج۲، ص۲۰۸۔    
۳۰. ابو الفرج اصفهانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، ص۸۰۔    
۳۱. شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، ج۲، ص۱۶۔    
۳۲. موسسه دائره المعارف اسلامی، دانشنامه جهان اسلام، ج۱، ص۴۶۹۲۔    
۳۳. ابن قتیبه الدینوری، عبدالله بن مسلم، الامامه و السیاسه، ج۱، ص۱۹۶۔    
۳۴. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۵۵۔    
۳۵. خزاز قمی، علی‌ بن محمد، کفایة الاثر، ص۲۲۷۔    
۳۶. شیخ صدوق، من لایحضره الفقیه، ج۲، ص۵۸۵۔    
۳۷. ابو الفرج اصفهانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، ص۸۰۔    
۳۸. مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج۳، ص۱۸۲۔
۳۹. طبرسی، فضل بن حسن، الاحتجاج علی اهل اللجاج، ج۲، ص۱۳۔    
۴۰. قائمی، علی، در مکتب کریم اهل بیت، ص۴۵۶۔
۴۱. قطب‌ راوندی‌، سعید بن هبه اللّه‌، الخرائج‌ و الجرائح‌، ج۱، ص۲۴۲۔    
۴۲. قائمی، علی، در مکتب کریم اهل بیت، ص۴۵۶۔
۴۳. شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، ج۲، ص۱۵۔    
۴۴. شوشتری، محمدتقی، رساله فی تواریخ النبی، ص۳۳۔    
۴۵. ابن عبد البر، یوسف‌ بن‌ عبدالله، الاستیعاب فی معرفه الاصحاب، ج۱، ص۳۸۹۔    
۴۶. ابن عبد البر، یوسف‌ بن‌ عبدالله، الاستیعاب فی معرفه الاصحاب، ج۱، ص۳۸۹۔    
۴۷. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۳۴۔    
۴۸. شیخ طوسی، محمد بن حسن، تهذیب الاحکام، ج۶، ص۴۰۔    
۴۹. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۳۴۔    
۵۰. شهید اول، محمد بن مکی‌ عاملی، الدروس الشرعیه، ج۲، ص۷۔    
۵۱. ابن شهر آشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۳، ص۱۹۲۔    
۵۲. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۶۱۔    
۵۳. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۴۹۔    
۵۴. ابوالحسن اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمه عن معرفه الائمه، ج۲، ص۱۳۸۔    
۵۵. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۸، ص۴۸۔    
۵۶. طبرسی، فضل بن الحسن، اعلام الوری، ص۴۰۳۔    
۵۷. ابن قتیبه الدینوری، عبدالله بن مسلم، المعارف، ص۲۱۲۔    
۵۸. حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۱۸۹۔    
۵۹. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۸، ص۳۷۔    
۶۰. بداونی، عبدالقادر، منتخب التواریخ، ص۵۶۔
۶۱. ابن قتیبه الدینوری، عبد الله بن مسلم، الامامه و السیاسه، ج۱، ص۱۹۱-۱۹۴۔    
۶۲. ابو الفرج اصفهانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۶۰۔    
۶۳. ابوحامد عبدالحمید، ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج۱۶، ص۲۹۔    
۶۴. ابن اعثم کوفی، ابومحمد احمد بن اعثم، الفتوح، ج۴، ص۳۱۸۔    
۶۵. سبط ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکره الخواص، ص۱۹۱-۱۹۲۔
۶۶. زمخشری، محمود بن عمر، ربیع الابرار و نصوص الاخیار، ج۵، ص۱۵۶۔    
۶۷. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۵۵۔    
۶۸. ابو الفرج اصفهانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۸۰۔    
۶۹. تلمسانی انصاری، محمد بن ابی بکر، الجوهره فی نسب النبی واصحابه العشره، ج۲، ص۲۰۷۔    
۷۰. ابن عبد البر، یوسف‌ بن‌ عبد الله، الاستیعاب فی معرفه الاصحاب، ج۱، ص۳۸۹۔    
۷۱. مقدسی، مطهر بن طاهر، البدء و التاریخ، ج۶، ص۵۔    
۷۲. ابن خلکان، احمد بن محمد، وفیات الاعیان، ج۲، ص۶۶-۶۷۔    
۷۳. زمخشری، محمود بن عمر، ربیع الابرار ونصوص الاخیار، ج۵، ص۱۵۷۔    
۷۴. تلمسانی انصاری، محمد بن ابی بکر، الجوهره فی نسب النبی واصحابه العشره، ج۲، ص۲۰۸۔    
۷۵. ابن عبد ربه اندلسی، احمد بن محمد، العقد الفرید، ج۵، ص۱۱۰۔    
۷۶. صفوت، احمد زکی، جمهرة خطب العرب، ج۲، ص۹۹۔    
۷۷. ابن قتیبه الدینوری، عبد الله بن مسلم، الامامه و السیاسه، ج۱، ص۱۹۶۔    
۷۸. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۶۴۔    
۷۹. حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۱۸۷۔    
۸۰. ابن حِبّان‌ بستی، محمد بن حبان، صحیح ابن حبان، ج۱۵، ص۴۳۳۔    
۸۱. حاکم نیشابوری، محمد بن عبد الله، مستدرک حاکم، ج۳، ص۱۶۱۔    
۸۲. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۸، ص۴۰۔    
۸۳. شیخ طوسی، محمد بن حسن، الامالی، ص۱۶۰۔    
۸۴. شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، ج۲، ص۱۷۔    
۸۵. حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۱۸۹۔    
۸۶. ابوالحسن اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمه عن معرفه الائمه، ج۲، ص۲۰۹۔    
۸۷. طبرسی، فضل بن الحسن، اعلام الوری، ص۴۱۴۔    
۸۸. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۳، ص۳۴۵۔    
۸۹. ابن شهر آشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی طالب (علیهم‌السلام)، ج۳، ص۱۸۵۔    
۹۰. ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینه الدمشق، ج۱۳، ص۲۸۹۔    
۹۱. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲ ص۲۲۵۔    
۹۲. جمعی از نویسندگان، دانشنامه امام حسن (علیه‌السّلام)، ص۹۱۳۔    
۹۳. ابن عبد البر، یوسف‌ بن‌ عبد الله، بهجة المجالس و انس المجالس، ص۱۶۔    
۹۴. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳ ص۶۱۔    
۹۵. ابوحامد عبدالحمید، ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج۱۶، ص۱۴۔    
۹۶. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۲۵۔    
۹۷. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۶۰۔    
۹۸. ابو الفرج اصفهانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، ص۸۲۔    
۹۹. ابن شهر آشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۳، ص۲۰۴۔    
۱۰۰. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۸، ص۴۸۔    
۱۰۱. ابو الفرج اصفهانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، ص۸۳۔    
۱۰۲. ابن عبد البر، یوسف‌ بن‌ عبدالله، الاستیعاب فی معرفه الاصحاب، ج۱، ص۳۹۲۔    
۱۰۳. حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۱۸۹۔    
۱۰۴. رسولی محلاتی، سید هاشم، زندگانی امام حسن، ص۴۵۲۔
۱۰۵. ابوالحسن اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمه عن معرفه الائمه، ج۲، ص۲۰۹۔    
۱۰۶. شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، ج۲، ص۱۸۔    
۱۰۷. ابن شهر آشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۳، ص۲۰۴۔    
۱۰۸. ابوالحسن اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمه عن معرفه الائمه، ج۲، ص۲۰۹۔    
۱۰۹. طبرسی، فضل بن الحسن، اعلام الوری، ص۴۰۳۔    


ماخذ

[ترمیم]
پایگاه اطلاع‌رسانی حوزه، ماخوذ از مقالہ «امام حسن مجتبی»، جدید تحریر:ویکی فقہ گروہ تحقیق۔    



جعبه ابزار