فاطمہ بنت حسن

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



حسن بن علی بن ابی‌ طالب کی ایک بیٹی فاطمہ ہیں جوکہ کربلا میں موجود تھیں اور دیگر قیدیوں کے ساتھ قیدی بنا کر شام لے جائی گئیں۔ امام سجادؑ نے جناب فاطمہ بنت حسن مجتبیؑ سے ازدواج کیا اور آپ سے امام باقرؑ کی ولادت با سعادت ہوئی۔ جناب فاطمہ بنت حسنؑ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ جہاں کربلا کے میدان میں امام حسینؑ کی نصرت کرنے والی اور امامت کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے والی با عظمت اور جلیل القدر خاتون ہیں وہاں امّ الامام ہونے کا بھی آپ کو شرف حاصل ہے۔ آپ امام باقرؑ کی والدہ ماجدہ قرار پائیں۔ اس طرح سے امام باقرؑ واحد امام ہیں جو امام حسنؑ اور امام حسینؑ ہر دو کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔


جناب فاطمہ بنت حسن کا نسب

[ترمیم]

آپ کا نام فاطمہ
[۱] حائری مازندرانی، مہدی، معالى السبطين، ج۲، ص۲۳۱۔
[۲] کحالۃ، عمر رضا، اعلام النساء، ص۶۰۳۔
اور کنیت ام عبد اللہ تھی۔ بعض نے کنیت ام محمد بھی نقل کی ہے۔نسب کے اعتبار سے آپ ہاشمیہ، قرشیہ اور امام حسن مجتبیؑ کی اولاد ہونے کی وجہ سے اولادِ رسولؐ سے تعلق رکھتی ہیں۔ آپ کی والدہ ام ولد تھیں جن کا نام صافیہ اور کنیت ام عبدہ تھی۔ نیز ان کی والدہ طلحۃ بن عبید الله التیمی کی بیٹی ام اسحاق کو بھی شمار کیا گیا ہے۔ آپ کی معروف کنیت ام عبد اللہ ہے۔ بعض نے آپ کی کنیت ام الحسن بھی ذکر کی ہے۔

فاطمہ بنت حسن کا ازدواج

[ترمیم]

جناب فاطمہ بنت حسنؑ کا ازدواج امام سجادؑ سے ہوا۔ آپ سے امام سجادؑ کے چار فرزند متولد ہوئے جن کے نام امام محمد باقرؑ، حسن، على اور عبد الله ہیں۔ آپ پہلی علوی خاتون ہیں جن کا ازدواج دوسرے علوی سے ہوا۔ اسی لیے امام باقرؑ کو دو اماموں کا فرزند کہا جاتا ہے۔ امام باقرؑ کو دو ہاشمیوں کی ہاشمی اولاد اور دو علوی کی علوی اولاد سے بھی متصف کیا جاتا ہے؛ کیونکہ امام باقرؑ والدہ کی جانب سے امام حسنؑ کی اولاد اور والد گرامی کی جانب سے امام حسینؑ کے نسب سے ہیں۔ جناب فاطمہ کا شمار امام حسنؑ کے بلند ترین خاندان سے تھا اور آپ صداقت اور سچائی میں بے نظیر تھیں۔ آپ پہلی علوی خاتون ہیں جن سے علوی فرزند یعنی امام باقرؑ کی ولادت ہوئی۔

کربلا میں حاضر ہونا

[ترمیم]

ام عبد اللہ فاطمہ بنت حسن اپنے چچا امام حسینؑ کے ساتھ کربلا تشریف لے آئیں اور اپنے دور کی حجتِ الہی کی نصرت کا وظیفہ انجام دیا۔ کربلا میں جب مخدراتِ عصمت کو اسیر کیا گیا تو آپ بھی دیگر قیدیوں کے ہمراہ اسیر کی گئیں اور آپ نے کوفہ و شام میں قید و اسارت کی سختیوں کو جھیلا۔ اسارت کے دوران آپ کو کئی مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ شاید آپ کے لیے اپنی اسارت و قید اس قدر دشوار نہیں تھی جتنی تکلیف آپ کو نیزوں پر آل رسولؐ کے سر مبارک کو دیکھ کر، خصوصا اپنے شوہر نامدار امام سجادؑ کو زنجیر و بیڑیوں میں جکڑا دیکھ کر اور اپنے فرزند امام باقرؑ کی تشنگی و پیاس کی سختی جو دل و جگر کو چیر کر رکھ دیتی ہے کو دیکھ کر ہوا۔
[۲۷] محلاتی، ذبیح الله، رياحين الشريعۃ، ج ۳، ص ۱۵۔
[۲۸] حسون، محمد و ام علی مشکور، اعلام النساء المؤمنات، ص ۴۹۔
[۲۹] حائری مازندرانی، مہدی، معالى السبطين، ج ۲، ص ۲۳۶۔
آپ کی زندگی کے آخری لمحات و حالات تاریخی منابع وارد نہیں ہوئے۔

فضائل

[ترمیم]

جناب فاطمہ امام حسن مجتبیؑ کی بیٹی، امام سجادؑ کی زوجہ اور امام باقرؑ کی والدہ ماجدہ ہیں۔ آپ کا شمار ان با عظمت خواتین میں ہوتا ہے جن کے فضائل و کرامات روائی منابع میں وارد ہوئے ہیں۔ الکافی میں محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی سند سے امام باقرؑ سے نقل کیا ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں: كَانَتْ أُمِّي قَاعِدَةً عِنْدَ جِدَارٍ فَتَصَدَّعَ الْجِدَارُ وَسَمِعْنَا هَدَّةً شَدِيدَةً فَقَالَتْ بِيَدِهَا لَا وَحَقِّ الْمُصْطَفَى مَا أَذِنَ اللَّهُ لَكَ فِي السُّقُوطِ فَبَقِيَ مُعَلَّقاً فِي الْجَوِّ حَتَّى جَازَتْهُ فَتَصَدَّقَ أَبِي عَنْهَا بِمِائَةِ دِينَار؛ میری والدہ دیوار کے نیچے بیٹھی تھیں، اتنے میں دیوار میں دراڑھ پڑ گئی اور ہم نے ایک بھاری آوار سنی (جیسے دیوار زمین بوس ہو رہی ہو)، ایسے میں والدہ نے اپنے ہاتھ سے کہا: نہیں! مصطفی کے حق کی قسم، اللہ تم تجھے گرنے کا اذن نہیں دیا، وہ دیوار ہوا میں معلق ہو کر رہ گئی یہاں تک کہ والدہ اس کے نیچے سے نکل کر باہر آ گئیں۔ پھر میرے والد آئے اور انہوں نے والدہ کی جانب سے سو (۱۰۰) دینار صدقہ دیا۔ امام صادق علیہ السلام اپنی دادی کی عظمت و فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کانَتْ صِدِّیقَةً لَمْ تُدْرَکْ فِی آلِ‌الْحَسَنِ امْرَاَةٌ مِثْلُهَا؛ وہ صدیقہ تھیں، امام حسنؑ کی اولاد میں ان جیسی کوئی خاتون نہیں۔ کتبِ احادیث میں بعض ایسی احادیث وارد ہوئی ہیں جو آپ نے اپنے والد بزرگوار امام حسن مجتبیؑ سے نقل کی ہیں۔

اولاد

[ترمیم]

جناب فاطمہ بنت حسن کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کے بطن سے امام معصوم امام باقرؑ متولد ہوئے۔ امام باقرؑ کے علاوہ آپ کے ایک اور فرزند عبد اللہ باہر بھی متولد ہوئے۔ عبد اللہ باہر ایک پاکیزہ، فاضل اور فقیہ شخصیت تھے اور رسول اللہؐ کے اوقاف کے متولی تھے۔ نیز آپ امام علیؑ کے اوقاف کے بھی متولی قرار پائے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. حائری مازندرانی، مہدی، معالى السبطين، ج۲، ص۲۳۱۔
۲. کحالۃ، عمر رضا، اعلام النساء، ص۶۰۳۔
۳. ابن ابی‌ الثلج بغدادی، محمد بن احمد، تاریخ اہل البیت، ص۱۲۲۔    
۴. ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب علیہم‌السلام، ج ۳، ص ۳۴۰۔    
۵. بغدادی، محمد بن سعد، ترجمۃ الامام الحسین‌ بن علی علیہما السلام و مقتلہ، ص ۷۸۔    
۶. سبط بن جوزی‌، یوسف بن حسام، تذکرة الخواص، ص۱۹۵۔    
۷. شیخ مفید، محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، ج۲، ص۲۰۔    
۸. مغربی، قاضی نعمان‌، شرح الاخبار فی فضائل الائمۃ الاطہار (ع‌)، ج۳، ص۲۷۶۔    
۹. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۷۳۔    
۱۰. اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، ج۲، ص۱۹۸ ۱۹۹۔    
۱۱. سبط بن جوزی‌، یوسف بن حسام، تذکرة الخواص، ص۱۹۵۔    
۱۲. اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، ج۲، ص۱۹۸ ۱۹۹۔    
۱۳. اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، ج۲، ص۳۵۰۔    
۱۴. ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب علیہم‌السلام، ج ۳، ص ۳۱۱۔    
۱۵. شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج ۲، ص ۱۵۵۔    
۱۶. یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۳۲۰۔    
۱۷. دینوری، ابن قتیبۃ، المعارف، ص ۲۱۲۔    
۱۸. علوی، علی بن محمد، المجدی فی انساب الطالبین، ص۲۰۔    
۱۹. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۴۷۔    
۲۰. طبری آملی، محمد بن جریر، دلائل الامامۃ، ص۲۱۷۔    
۲۱. ابن شہر آشوب مازندرانی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۳، ص۳۳۸۔    
۲۲. شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعۃ، ص۴۷۳۔    
۲۳. شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، ج۶، ص۷۷۔    
۲۴. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۴۶، ص۲۱۵۔    
۲۵. طبری شیعی، محمد بن جریر، دلائل الامامۃ، ص ۲۱۷۔    
۲۶. ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب علیہم‌السلام، ج ۳، ص ۳۳۸۔    
۲۷. محلاتی، ذبیح الله، رياحين الشريعۃ، ج ۳، ص ۱۵۔
۲۸. حسون، محمد و ام علی مشکور، اعلام النساء المؤمنات، ص ۴۹۔
۲۹. حائری مازندرانی، مہدی، معالى السبطين، ج ۲، ص ۲۳۶۔
۳۰. بغدادی، محمد بن سعد، ترجمۃ الامام الحسین‌ بن علی علیہما السلام و مقتلۃ، ص ۷۸۔    
۳۱. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۶۹۔    
۳۲. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۶۹۔    
۳۳. سید بن طاووس، رضی‌ الدین علی، فلاح السائل و نجاح المسائل، ص۱۳۸۔    
۳۴. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۴۷۔    
۳۵. شیخ مفید، محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، ج۲، ص۱۶۹۔    


مأخذ

[ترمیم]

اسیران و جانبازان کربلا، مظفری سعید، محمد، ص۱۴۱-۱۴۲۔    
پایگاه اسلام کوئست، مقالہ فاطمہ بنت الحسن سے یہ تحریر لی گئی ہے، سائٹ مشاہدہ کرنے کی تاریخ:۱۳۹۵/۱۲/۰۴۔    






جعبه ابزار