امام علی کا فدک نہ لوٹانا
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
سرزمین حجاز میں
مدینہ کے نزدیک خیبر کے علاقہ میں ایک گاؤں کا نام فدک ہے۔ فدک میں پہلے دو حروف متحرك ہيں اور آخر ميں كاف ہے۔ فدك حجاز مىں ایک گاؤں كا نام ہے جس كے اور مدینہ كے درمىان ۲ دن كا یا تین دن كا فاصلہ ہے۔ يہ گاؤں ۷ ھ ميں مصالحت كى بناء پر بعنوان
الفیء رسول اللہؐ کو عنایت ہوا۔ نبى اکرمؐ جب خیبر میں تشریف لائے اور امام علیؑ نے اس كے قلعوں كو فتح كیا تو صرف تیسرا حصہ باقى رہ گیا۔ رسول اللہؐ نے اس کا شدید محاصرہ کیا۔ اس محاصرہ کی تاب نہ لاتے ہوئے وہاں کے باشندوں نے اپنا ایک نمائندہ رسول اللہؐ کی خدمت میں بھیجا اور آنحضرتؐ سے مطالبہ كیا كہ آپؐ ان سے
جزیہ لے لیں۔
رسول اللہؐ نے ان کی بات قبول کر لی اور اس نمائندہ کو خبر دینے کے لیے واپس بھیج دیا۔ يہ خبر اہلِ فدک کو پہنچ گئى۔ انہوں نے بھى اپنا نمائندہ رسول اللہؐ كى طرف بھیجا تاكہ وہ بھی آپؐ سے مصالحت کر لیں اور ان كا نصف پھل و ثمرہ اور نصف اموال آپؐ کو دیئے جائیں۔ آپؐ نے ان كا يہ مطالبہ قبول كر لىا ۔ پس
فدک وہ علاقہ ہے جہاں نہ مسلمانوں نے گھوڑے دوڑائے اور نہ كوئى جنگ لڑى۔ يہ گاؤں رسول اللہؐ كى خالص ملكیت تھا۔ فدک میں پانى كے متعدد چشمے اور كثیر كھجور كے درخت تھے۔ فدک وہ جگہ ہے جس كے بارے مىں
سیدہ فاطمہؑ نے فرمایا: بے شک رسول اللہؐ نے مجھ يہ علاقہ عطاء كر دیا تھا۔ ابو بكر نے كہا: مجھے اس پر شاہد و گواہ چاہیے۔ خلیفہ اول نے فدک دینے سے انکار کر دیا۔
یہاں ایک شبہ قائم کیا جاتا ہے کہ اگر خلیفہ اول نے فدک نہیں دیا تو جب حکومت امام علیؑ کے ہاتھ آئی تو انہوں نے فدک کیوں واپس نہیں کیا تھا؟ ان سطور میں اس شبہ کا ہم جائزہ لیں گے۔
[ترمیم]
امام علیؑ کو جب خلافت ملی تو اس وقت جناب فاطمہؑ قیدِ حیات میں نہیں تھیں۔ جب وہ ذات جس کا حق غصب کیا گیا تھا وہ موجود ہی نہیں ہے تو کیسے انہیں واپس کیا جا سکتا ہے؟!! اگر کوئی شخص کہے کہ وہ ان کی اولاد کو دے دیا جاتا تو امیر المؤمنینؑ خود ان تمام اموال کے متولی تھے اور فدک امام علیؑ ہی کے ماتحت تھا۔
اگر یہ کہا جائے کہ فدک کے مسئلہ کو اٹھایا جاتا اور اس کا فیصلہ جناب سیدہؑ کی اولاد کے حق میں دے دیا جاتا اور اس کی تولیت انہی کے سپرد کر دی جاتی تو حقیقت یہ ہے کہ اس کی نوبت اور فرصت مہیا نہیں ہوئی۔
امام علیؑ نے سب سے پہلے جس مسئلہ کو حل کرنا ضروری قرار دیا وہ شام کے فتنے تھے جس نے عالم اسلام کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا تھا۔
نیز صرف یہ مسئلہ نہیں بلکہ بہت سے مسائل معاشرے میں ایسے تھے جو سابقہ خلفاء کے دور پر پیدا ہوئے جن کی وجہ سے سنت رسول ؐ مٹ کر رہ گئی۔ امام علیؑ چاہتے تھے کہ ان سب کو عدالت کے ساتھ اپنی جگہ پر لوٹایا جائے لیکن
شام کے باغیوں کے فتنے اور عالم اسلام میں انتشار نے امام علیؑ کو یہ فرصت نہیں دی۔ ذیل میں چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں جن سے معلوم ہو گا کہ معاشرے میں کس قدر دین میں تغیر و تبدل آ گیا تھا اور ان سب کو فورا پلٹانا ممکن نہیں تھا بلکہ خاص وقت کا انتظار ضروری تھا جس میں رفتہ رفتہ معاشرے میں پھیلی ہوئے بدعتوں کا خاتمہ کیا جائے۔
[ترمیم]
امام علیؑ سے
خلافت کو جب سلب کر لیا گیا تو خلفاء کے دور میں بہت سے بدعات ایجاد ہوئیں اور
رسول اللہؐ کی سنّت کو مٹا دیا گیا۔ پس
سنت کی جگہ بدعتوں نے جگہ لے لی۔ چنانچہ امیر المؤمنینؑ جب مسندِ خلافت پر تشریف لائے تو یہ احساس کیا کہ پہلے شام کے باغیوں کا خاتمہ ضروری ہے اور رفتہ رفتہ سنت رسولؐ کو معاشرے میں دوبارہ سے پلٹایا جائے۔ کیونکہ اگر فوری تبدیلی کی جائے تو معاشرہ اس کی تاب نہیں لے سکے گا اور لوگ اس کے متحمل نہیں ہوں گے۔ یہ وجہ بنی کہ امام علیؑ نے اپنے دور میں بہت سے امور کو اس وقت تک نہیں چھیڑا جب تک اس کا مناسب وقت نہیں آن پہنچا۔
امام شافعی اپنی کتاب الام میں وہب بن کیسان سے نقل کرتے ہیں:
کلّ سنن رسول اللّه قد غیّرت حتی الصلاة؛ رسول اللہؐ کی تمام کی تمام سنتوں کو تبدیل کر دیا گیا حتی کہ نماز بھی۔
امام مالک اپنے عم ابو سہیل بن مالک سے اور انہوں نے اپنے والد مالک سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:
مَا أَعْرِفُ شَيْئًا مِمَّا أَدْرَكْتُ النَّاسَ عَلَيْهِ إِلَّا النِّدَاءَ بِالصَّلَاة؛ جو میں نے رسول اللہؐ کے زمانے میں درک کیا اس میں سے ایک چیز بھی لوگوں میں نہیں جس پر لوگ کاربند ہوں سوائے نماز کے لیے اس پکار کے (یعنی آذان کے)۔
حسن بصری معروف تابعین میں سے ہیں اور اہل سنت کے علماء و فقہاء میں شمار کیے جاتے ہیں، وہ کہتے ہیں:
لو خرج علیکم اصحاب رسول اللّه ما عَرَفوا منکم الاّ قبلکتم؛ اگر تمہارے درمیان رسول اللہؐ کے اصحاب آ جائیں تو وہ تمہارے ان اعمال میں سے کسی کو نہیں پہچانیں گے سوائے تمہارے قبلہ کے۔
رسول اللہؐ نے صحابہ کرام اور عامۃ الناس کے سامنے کثرت سے نماز ادا کی لیکن لوگ آپؐ کے طریقہ نماز کو یاد نہ کر سکے۔ یہاں تک کہ نماز کے مختلف طریقے اسی خلفاء کے دور میں ہی رائج ہو گئے۔ امام علیؑ اس صحیح طریقہ کو جانتے تھے لیکن اس مسئلہ کو آپؑ نے برملا طور پر نہیں اٹھایا کیونکہ اس سے معاشرے میں مزید انتشار کا خدشہ موجود تھا۔ جب امیر المؤمنینؑ نے نماز ادا کی تو
صحابہ کرام کو رسول اللہؐ کی نماز یاد آ گئی۔ ذیل میں ہم اس حقیقت کو اہل سنت کی معتبر ترین کتب سے ملاحظہ کرتے ہیں:
بخاری نے اپنی کتاب الصحیح میں صحابی رسولؐ
عمران بن حصین سے روایت نقل کی ہے کہ بصرہ میں انہوں نے امام علیؑ کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب نماز ختم ہو گئی تو عمران بن حصین نے کہا کہ اس شخص نے ہمیں رسول اللہؐ کی نماز یاد دلا دی ہے۔ بخاری نے اس کو اس طرح سے نقل کیا ہے:
عن عمران بن حُصین قال: صَلَّى مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِالْبَصْرَةِ فَقَالَ: «ذَكَّرَنَا هَذَا الرَّجُلُ صَلاَةً كُنَّا نُصَلِّيهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ علیؑ کے ساتھ بصرہ میں نماز ادا کی گئی، پھر انہوں نے کہا: اس شخص نے ہم وہ نماز یاد دلا دی ہے جو ہم رسول اللہؐ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔
اسی طرح یہ روایت بخاری اور مسلم ہر دو نے
مطرف بن عبد اللہ کے طریق سے اسی طرح نقل کی ہے کہ مطرف بن عبد اللہ کہتے ہیں:
صَلَّيْتُ خَلْفَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، «فَكَانَ إِذَا سَجَدَ كَبَّرَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ كَبَّرَ وَإِذَا نَهَضَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ»، فَلَمَّا قَضَى الصَّلاَةَ أَخَذَ بِيَدِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَّرَنِي هَذَا صَلاَةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَوْ قَالَ: لَقَدْ صَلَّى بِنَا صَلاَةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ میں نے علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ (علیہ السلام) کے پیچھے نماز پڑھی، میں اور عمران بن حصین ہر دو تھے، وہ جب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے اور جب سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے اور جب دونوں رکعتوں میں اٹھتے تو تکبیر کہتے، جب انہوں نے نماز ختم کر لی تو عمران بن حصین نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: اس نے مجھے وہ نماز یاد دلا دی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم کی نماز تھی یا کہا: ہمارے سامنے محمد صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم نے کی نماز پڑھی گئی اس کی یاد دلا دی ہے۔
یہ روایت عمران بن حصین کے علاوہ
ابو موسی اشعری سے بھی صحیح السند طریق سے نقل ہوئی ہے جیساکہ
احمد بن حنبل نے اپنی مسند نے درج کیا ہے:
حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ آدَمَ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ بُرَيدَ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنِ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: لَقَدْ ذَكَّرَنَا ابْنُ أَبِي طَالِبٍ وَنَحْنُ بِالْبَصْرَةِ، صَلَاةً كُنَّا نُصَلِّيهَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُكَبِّرُ إِذَا سَجَدَ وَإِذَا قَامَ "، فَلَا أَدْرِي أَنَسِينَاهَا أَمْ تَرَكْنَاهَا عَمْدًا؛ اشعری نے کہا: بصرہ کے مقام میں ابن ابی طالب نے ہمیں وہ نماز یاد دلا دی جو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم کے ساتھ پڑھا کرتے تھے، جب وہ سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے، جب کھڑے ہوتے تو بھی تکبیر کہتے، مجھے معلوم نہیں ہم یہ طریقہ بھول گئے تھے یا ہم نے جان بوجھ کر اس کو ترک کر دیا تھا۔
رسول اللہؐ کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرہ میں اس قدر شدت کے ساتھ انحراف اور بدعات رائج ہو گئیں لوگ اس کو دین سمجھ کر انجام دیتے۔ حتی نماز کے طریقے محفوظ نہیں رہے! ایسے میں اگر امام علیؑ ان انحرافات سے فورا ٹکرا جاتے تو پورا معاشرہ کئی حصوں میں تقسیم ہو جاتا۔ چنانچہ امام علیؑ نے سب سے پہلے شام کے فتنے کا اہتمام کیا اور تمام توجہ اس شیطانی مرکز کے خاتمے کی طرف دی تاکہ فرصت پیدا ہو سکے اور اسلامی معاشرہ میں رسول اللہؐ کی سنتوں کو واپس لے آیا جائے۔ انہی بدعتوں میں سے ایک بدعت تراویح ہے جس کو خیلفہ ثانی نے
نعم البدعۃ قرار دیا، یعنی بہترین بدعت۔
بعض کتب میں وارد ہوا ہے کہ امام علیؑ نے
امام حسنؑ کو حکم دیا کہ
مسجد کوفہ سے
نماز تراویح سے لوگوں کو منع کر دو ، جب امام علیؑ کا حکم سنایا گیا تو لوگوں کی فریاد شروع ہو گئی: ہائے عمر !! ہائے عمر !۔
شیخ طوسی نے اپنے طریق سے اس واقعہ کو
امام جعفر صادقؑ سے نقل کیا ہے کہ صدقہ بن عمار کہتے ہیں:
عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فَضَّالٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ الْمَدَائِنِيِّ عَنْ مُصَدِّقِ بْنِ صَدَقَةَ عَنْ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الصَّلَاةِ فِي رَمَضَانَ فِي الْمَسَاجِدِ قَالَ لَمَّا قَدِمَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع الْكُوفَةَ أَمَرَ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ ع أَنْ يُنَادِيَ فِي النَّاسِ لَا صَلَاةَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فِي الْمَسَاجِدِ جَمَاعَةً فَنَادَى فِي النَّاسِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ع بِمَا أَمَرَهُ بِهِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع فَلَمَّا سَمِعَ النَّاسُ مَقَالَةَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ صَاحُوا وَا عُمَرَاهْ وَا عُمَرَاهْ فَلَمَّا رَجَعَ الْحَسَنُ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع قَالَ لَهُ مَا هَذَا الصَّوْتُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ النَّاسُ يَصِيحُونَ وَا عُمَرَاهْ وَا عُمَرَاهْ فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع قُلْ لَهُمْ صَلُّوا؛ میں امام صادقؑ سے
ماہِ رمضان میں مساجد میں پڑھی جانے والی نماز (تراویح) کے بارے میں دریافت کیا؟ امامؑ نے فرمایا: جب امیر المؤمنینؑ
کوفہ تشریف لائے تو حسن بن علی (علیہما السلام) کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کرا دیں کہ ماہِ رمضان میں مساجد میں کوئی نماز (تراویح) جماعت سے ادا نہیں کی جائے گی، حسن بن علی (علیہما السلام) نے لوگوں میں اعلان کر دیا جیساکہ امیر المؤمنینؑ نے انہیں حکم دیا تھا، جب لوگوں نے حسن بن علی ( علیہما السلام) کی بات سنی تو چیخنے لگے: ہائے عمر، ہائے عمر، امام حسن بن علیؑ یہ اعلان سنا کر واپس امیر المؤمنینؑ کے پاس لوٹ آئے، امام علیؑ نے ان سے پوچھا: یہ آوازیں کیسی ہیں؟ انہوں نے فرمایا: اے امیر المؤمنینؑ ! یہ لوگوں چیخ پکار کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں: ہائے عمر ہائے عمر، امیر المؤمنینؑ نے فرمایا: جاؤ انہیں کہو : اپنی نمازیں پڑھو۔
[ترمیم]
[ترمیم]
مؤسسہ ولیعصر، یہ تحریر مقالہ حضرت علیؑ نے حکومت لینے کے بعد فدک واپس کیوں نہیں کیا؟ سے لی گئی ہے۔ بعض مطالب محققین ویکی فقہ اردو کی طرف سے اضافہ کیے گئے ہیں۔