امام علیؑ اور قبولِ حکومت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
امام علیؑ نہج البلاغہ کے خطبہ ۹۲ میں قتل
عثمان کے بعد لوگوں کی
بیعت کے دوران فرماتے ہیں: مجھے چھوڑ دو، کسی اور کو طلب کرو ۔۔۔ ؛ بعض
اہل سنت نے امامؑ کے اس خطبے پر شبہات پیدا کیے ہیں اور کہتے ہیں: اگر آپؑ
پیغمبرؐ کی طرف سے
خلافت پر منصوب تھے تو ایسی بات نہیں کرنی چاہئے تھی۔
اس گروہ کا جواب، حضرتؑ کی بلا فصل
ولایت و
خلافت پر شیعہ سنی کتب میں منقول بے شمار دلائل کے علاوہ امامؑ کے اسی خطبے میں بیان ہوا ہے۔ لہٰذا جب لوگ آپؑ کی بیعت کرنا چاہ رہے تھے، تو انہیں پیشگی خطرے سے آگاہ کرنے کے عنوان سے فرماتے ہیں: مجھے چھوڑ دو کیونکہ تم میری
عدالت کے اجرا کا تحمل نہیں کر سکو گے۔
اب امامؑ کے کلام پر اٹھائے جانے والے شبہات کا اجمالی طور پر تحقیقی جائزہ لیں گے۔
[ترمیم]
نہج البلاغہ کے خطبہ ۹۲ پر چند شبہات اٹھائے گئے ہیں کہ آگے چل کر خطبے اور شبہات کو بیان کر کے ان کا اجمالی جواب دیں گے۔
امیرالمؤمنین علی (علیهالسّلام) در خطبه ۹۲ نهج البلاغه میفرماید: دَعُونِی وَ الَْتمِسُوا غَیْرِی فَاِنَّا مُسْتَقْبِلُونَ اَمْراً لَهُ وُجُوهٌ وَ اَلْوَانٌ لَا تَقُومُ لَهُ الْقُلُوبُ وَ لَا تَثْبُتُ عَلَیْهِ الْعُقُولُ وَ اِنَّ الْ آفَاقَ قَدْ اَغَامَتْ وَ الَْمحَجَّه قَدْ تَنَکَّرَتْ. وَ اعْلَمُوا اَنِّی اِنْ اَجَبْتُکُمْ رَکِبْتُ بِکُمْ مَا اَعْلَمُ وَ لَمْ اُصْغِ اِلَی قَوْلِ الْقَائِلِ وَ عَتْبِ الْعَاتِبِ وَ اِنْ تَرَکْتُمُونِی فَاَنَا کَاَحَدِکُمْ وَ لَعَلِّی اَسْمَعُکُمْ وَ اَطْوَعُکُمْ لِمَنْ وَلَّیْتُمُوهُ اَمْرَکُمْ وَ اَنَا لَکُمْ وَزِیراً خَیْرٌ لَکُمْ مِنِّی اَمِیراً
مجھے چھوڑ دو اور جاؤ کسی اور کو تلاش کر لو۔ ہمارے سامنے وہ معاملہ ہے جس کے بہت سے رنگ اور رخ ہیں جن کی نہ دلوں میں تاب ہے اور نہ عقلیں انہیں برداشت کرسکتی ہیں۔ دیکھو افق کس قدر ابر آلود ہے اور راستے کس قدر انجانے ہوگئے ہیں۔ یاد رکھو کہ اگر میں نے بیعت کی دعوت کو قبول کرلیا تو تمہیں اپنے علم ہی کے راستے پر چلاؤں گا اور کسی کی کوئی بات یا سرزنش نہیں سنوں گا۔ لیکن اگر تم نے مجھے چھوڑ دیا تو تمہاری ہی ایک فرد کی طرح زندگی گزار دوں گا بلکہ شائد تم سب سے زیادہ تمہارے حاکم کے احکام کا خیال رکھوں گا۔ میں تمہارے لئے وزیر کی حیثیت سے امیر کی بہ نسبت زیادہ بہتر رہوں گا۔
پہلا شبہہ: اگر امامت،
اصول دین میں سے ایک اصول ہے، اگر علیؑ
پیغمبروں کی طرح خدا کی طرف سے منتخب ہوئے ہیں، اگر
آیت تبلیغ ،
آیت تطہیر ،
حدیث غدیر اور
حدیث منزلت کی رو سے انہیں بارہا
پیغمبرؐ کے جانشین کے عنوان سے نامزد کیا گیا ہے تو آپ کو کیا حق ہے کہ یہ کہیں: مجھے چھوڑ دو اور جاؤ کسی اور کو تلاش کر لو؟!
پہلی بات: حضرت علیؑ کا یہ خطبہ ایک ایسے وقت میں دیا گیا جب فتنہ و آشوب پھیل چکا تھا اور بدعتوں اور
خلفا کے غیر اسلامی احکام کی وجہ سے لوگ حقیقی اسلام سے دور ہو چکے تھے اور حقیقی سنت کو فراموش کر دیا گیا تھا کہ
امام شافعی کتاب الام میں
وہب بن کیسان سے نقل کرتے ہیں: کلّ سنن رسول الله قد غیّرت حتی الصلاة.
ابن سعد نے
طبقات الکبریٰ میں نقل کیا ہے: عن الزهری قال: دخلت علی انس ابن مالک بدمشق و هو وحده یبکی، فقلت: ما یبکیک؟ قال: لا اعرف شیئا مما ادرکت، الا هذه الصلاه وقد ضیّعت.
امام مالک نے کتاب
الموطا میں اپنے جد سے نقل کیا ہے: ما اعرف شیئاً ممّا ادرکت الناس الا النداء بالصلاة.
اسی طرح دسیوں دیگر مقامات ہیں کہ معاشرے کے حکام کی
اسلام سے عدم آشنائی اور خلافِ سنت عمل کے باعث لوگوں میں حقیقی اسلام کی علامات نہیں رہی تھیں۔ معاملات اس حد تک جا پہنچے تھے کہ جب علیؑ نے نماز پڑھائی تو لوگوں نے کہا: علیؑ کی نماز سے پیغمبرؐ کی نماز کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔
کما روی مسلم باسناده عن مطرف قال: صلّیت انا و عمران بن حصین خلف علی بن ابی طالب فکان اذا سجد کبر، واذا نهض من الرکعتین کبر، فلما انصرفنا من الصلاه قال: اخذ عمران بیدی، ثم قال: لقد صلی بنا هذا صلاه محمد (صلیاللهعلیهوسلم)، او قال: قد ذکرنی هذا صلاه محمّد (صلیاللهعلیهوسلم)۔
روی البخاری، عن عمران بن حصین قال: صلّی مع علی بالبصره فقال: ذکرنا هذا الرجل صلاه کنّا نصلیها مع رسول اللّه (صلیاللهعلیهوسلم)۔
و فی روایه اخری عن مطرف بن عبداللّه، قال: صلیت خلف علی بن ابی طالب انا وعمران بن حصین فکان اذا سجد کبر، واذا رفع راسه کبر، واذا نهض من الرکعتین کبر، فلما قضی الصلوات اخذ بیدی عمران بن حصین فقال: لقدذکرنی هذا صلاه محمّد (صلیاللهعلیهوسلم)، او قال: لقد صلّی بنا صلواه محمّد (صلیاللهعلیهوسلم).
دوسری بات: لوگوں میں سے ایک گروہ جو
عثمان کے زمانے میں
بیت المال پر بلا حساب و کتاب ہاتھ صاف کرنے کا عادی ہو چکا تھا، انہیں توقع تھی کہ علیؑ کے زمانے میں بھی اسی طرح چلتا رہے گا۔ لہٰذا ان وجوہات کے پیش نظر علیؑ نے لوگوں کو فرمایا: اگر تمہارا مقصد یہ ہے کہ میری حکومت بھی گزشتہ خلفا کی طرح ہو،
کتاب خدا اور
سنت پیغمبرؐ کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو میں حاضر نہیں ہوں کہ ایسی حکومت کو قبول کروں) جیسا کہ
عمر کی وفات کے بعد چھ افراد کی شوریٰ میں عبد الرحمن نے علیؑ کو تجویز دی کہ حکومت کو
شیخین کی سیرت پر عمل کی شرط پر پیش کرتا ہوں مگر علیؑ نے یہ شرط قبول نہیں کی۔
وخلا (عبدالرحمن بن عوف) بعلی بن ابی طالب، فقال: لنا اللّه علیک، ان ولیّت هذا الامر، ان تسیر فینا بکتاب اللّه، وسنّه نبیّه، وسیره ابی بکر وعمر. فقال: اسیر فیکم بکتاب اللّه، وسنّه نبیّه ما استطعت. فخلا بعثمان فقال له: لنا اللّه علیک، ان ولیّت هذا الامر، ان تسیر فینا بکتاب اللّه، وسنّه نبیّه، وسیره ابی بکر وعمر. فقال: لکم ان اسیر فیکم بکتاب اللّه، وسنه نبیه، وسیره ابی بکر وعمر
عاص بن وائل کہتا ہے: علیؑ جیسی شخصیت کے ہوتے ہوئے کس طرح تم نے عثمان کی بیعت کر لی؟! اس نے جواب دیا: میرا کیا گناہ ہے کہ میں نے تین مرتبہ علیؑ کو پیشکش کی کہ خلافت کو کتاب خدا و سنت پیغمبرؐ اور سیرت
ابوبکر و
عمر کی شرط پر قبول کر لیں لیکن علیؑ نے انکار کر دیا اور عثمان نے اس پیشکش کو قبول کر لیا۔
عن عاصم، عن ابی وائل، قال: قلت: لعبد الرحمن بن عوف کیف بایعتم عثمان وترکتم علیا رضی اللّه عنه، قال: ما ذنبی قد بدات بعلی فقلت ابایعک علی کتاب اللّه، وسنه رسوله، وسیره ابی بکر وعمر رضی اللّه عنهما، قال: فقال: فیما استطعت، قال: ثم عرضتها علی عثمان رضی اللّه عنه فقبلها
حضرت علیؑ کے زیرنظر خطبے میں اسی قضیے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور فرماتے ہیں: (فَاِنَّا مُسْتَقْبِلُونَ اَمْراً لَهُ وُجُوهٌ وَ اَلْوَانٌ لَا تَقُومُ لَهُ الْقُلُوبُ وَ لَا تَثْبُتُ عَلَیْهِ الْعُقُولُ وَ اِنَّ الْ آفَاقَ قَدْ اَغَامَتْ وَ الَْمحَجَّه قَدْ تَنَکَّرَتْ). (ہمارے سامنے وہ معاملہ ہے جس کے بہت سے رنگ اور رخ ہیں جن کی نہ دلوں میں تاب ہے اور نہ عقلیں انہیں برداشت کرسکتی ہیں۔ دیکھو افق کس قدر ابر آلود ہے اور راستے کس قدر انجانے ہوگئے ہیں)
پس واضح ہے کہ حضرت علیؑ کا یہ فرمان کہ : (مجھے چھوڑ دو اور کسی دوسرے کو تلاش کرو) یعنی اگر چاہتے ہو کہ وہی خلفا والے راستے کو آگے بڑھاؤں تو میں حاضر نہیں ہوں بلکہ ایسے لوگوں کے پیچھے چلو جو اس کیفیت کے ساتھ حکومت کرنے پر آمادہ ہوں۔ ان شرائط کے ساتھ حکومت کو قبول کرنا نہ صرف آیت شریفہ وما کان لمؤمن ولا مؤمنه اذا قضی اللّه ورسوله امراً..۔
کے مشمول نہیں ہے بلکہ خدائے عزوجل کی مصلحت کے بھی خلاف ہے جیسا کہ
حضرت داؤدؑ کو ارشاد ہوتا ہے: یا داود انّا جعلناک خلیفه فی الارض فاحکم بین الناس بالحق
.
اسلام کا حاکم ایسی صورت میں حق کی حکومت کو قائم کر سکتا ہے جب معاشرہ اسے قبول کرے۔ اگر خدا کی طرف سے مقرر کردہ حاکم حق کے اجرا پر قادر نہ ہو تو حکومت کی تشکیل یا حکومت کو قبول کرنا اس پر واجب نہیں ہے۔ جیسا کہ رسول اکرمؐ جب
مکہ میں تھے تو حکومت کی تشکیل کا اقدام نہیں کیا مگر
مدینہ آمد اور لوگوں کی آمادگی کو دیکھ کر حکومت قائم کر دی۔
اس نکتے کی طرف توجہ بھی ضروری ہے کہ
امامت کا مسئلہ
حکومت کے موضوع سے جدا ہے؛ کیونکہ امامت ایک خدائی منصب ہے لیکن حکومت امامت کی ایک شعاع ہے پس جس کو خدا اس بلند مقام پر منصوب کر دے وہ امام ہے، خواہ لوگ اسے چاہیں یا نہ چاہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خدائے تبارک و تعالیٰ
حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: ہم تجھے لوگوں کے امام و پیشوا کے عنوان سے مقرر کرتے ہیں: انّی جاعلک للنّاس اماماً
اور حضرت داؤدؑ کے بارے میں فرماتا ہے: ہم نے تجھے روئے زمین پر خلیفہ بنایا ہے پس لوگوں میں حق کے ساتھ حکم کرو۔ یا داود انّا جعلناک خلیفه فی الارض فاحکم بین الناس بالحق
حضرت موسیٰ خدا سے یہ دعا کرتے ہیں کہ ان کا جانشین کو مقرر کر دے: واجعل لی وزیراً من اهلی
خدا نے بھی حضرت موسیؑ کی دعا کے جواب میں فرمایا: قال قد اوتیت سؤلک یا موسی
اور خدا تعالیٰ
بنی اسرائیل کے بارے میں فرماتا ہے: ہم نے
بنی اسرائیل میں سے کچھ افراد کو رہبر و امام کے عنوان سے انختاب کیا ہے۔ وجعلنا منهم ائمّه یهدون بامرنا
پس ان سب آیات میں خلیفہ و پیشوا کے انتخاب کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے۔
اسی طرح اہل سنت کے بزرگ علما جیسے
ابن ہشام ،
ابن کثیر ،
ابن حبان اور دیگر افراد نے نقل کیا ہے کہ
رسول اکرمؐ نے جب
بنی عامر بن صعصعہ جیسے عرب قبائل کی بعض بڑی شخصیات کو
اسلام کی طرف دعوت دی تو انہوں نے حضرتؐ سے کہا: اگر ہم آپ کا ساتھ دیں اور آپؐ غالب ہو جائیں تو آپ کے بعد ریاست و جانشینی ہمارے پاس ہو گی؟! (ایکون لنا الامر من بعدک؟) حضرتؐ نے جواب دیا: رہبر کی تقرری میرے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے اور جس کو چاہے گا، انتخاب کرے گا۔ (الامر الی اللّه یضعه حیث یشاء).
اس نے کہا: ہمیں آپ کے کام میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ ہم خود کو آپ کے اہداف پر فدا کریں اور کامیابی کے بعد ریاست کا عہدہ دوسرے افراد کو مل جائے۔ فقالوا: انهدف نحورنا للعرب دونک، فاذا ظهرت کان الامر فی غیرنا؟ لا حاجه لنا فی هذا من امرک.
اسی طرح اس سے ملتا جلتا واقعہ قشیر بن کعب بن ربیعہ کا ہے، اس نے بھی رسول اکرمؐ سے کہا: اگر اسلامی حکومت میں سے کوئی حصہ ہمیں نہ ملے تو ہم آپ پر ایمان لانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
رسول گرامیؐ بدترین حالات کہ جب فوج اور امداد کی سخت ضرورت تھی؛ میں بھی حاضر نہیں ہوئے کہ جانشینی کا وعدہ دے کر قبائل کی امداد حاصل کر لیتے، خواہ حکومت بنانے کے حالات فراہم ہوں یا نہ ہوں: (الحسن و الحسین امامان قاما او قعدا)
ابن شہرآشوب نے لکھا ہے: واجتمع اهل القبله علی انّ الرسول قال: الحسن والحسین امامان، قاما او قعدا۔
مگر جب تک معاشرہ حکومت کو قبول نہ کرے اور حکومت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرے تو اسلامی حاکم کیلئے حکومت کی تشکیل واجب نہیں ہے؛ جونہی موانع برطرف ہو جائیں اور اسلامی حکومت کے نفاذ کی شرائط پوری ہو جائیں تو وہ حکومت سازی کا اقدام کریں گے۔ واضح ہے کہ لوگوں کی بیعت نے حکومت کے نفاذ کے موانع کو برطرف کر کے حکومت سازی کیلئے ماحول کو سازگار کیا ہے، ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے اسلامی حاکم کو مشروعیت دی ہو!
رسول گرامیؐ کے بعد خلفائے ثلاثہ کی خلافت کے دوران بھی علیؑ خدا کے حکم سے پیغمبرؐ کے مقرر کردہ امام ہیں اور وہ تنہا فرد ہیں جو تمام لوگوں پر ان کے نفسوں سے اولیٰ ہیں۔ اگر خلفا کے زمانے میں اسلام کی نصرت کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور دین کی نجات کیلئے کوئی عمل انجام دیتے ہیں تو یہ خلفا کے ساتھ تعاون کے عنوان سے نہیں ہے بلکہ ممکنہ حد تک ذمہ داری پر عمل کے عنوان سے ہے یا افسد کو فاسد کے ذریعے دفع کرنے کے باب سے ہے اور نہج البلاغہ میں حضرت کا کلام اس حقیقت کو بیان کر رہا ہے: فنهضت فی تلک الاحداث حتی زاح الباطل وزهق، واطمانّ الدین وتنَهْنَه.
کچھ مفکرین کا بڑا اشتباہ یہ ہے کہ انہوں نے حکومت کو امامت کے مترادف خیال کر لیا ہے حالانکہ حکومت امامت کی ایک شعاع ہے۔ جس طرح لوگوں کی ہدایت، شریعت کا تحفظ، پوری کائنات پر فیض کی وساطت اور عدالت کا قیام امامت کے امور میں سے ہے۔ معاشرے میں حکومتی سطح پر عدالت کے قیام کے سوا یہ تمام امور خلفائے ثلاثہ کی خلافت کے زمانے میں بھی امیر المومنینؑ کے مقدس وجود پر مترتب تھے مگر حکومت کے سائے تلے عدالت کا قیام حالات کی سازگاری اور لوگوں کے ارادے سے مشروط تھا اور قتلِ عثمان کے بعد یہ شرط بھی پوری ہو گئی۔
[ترمیم]
دوسرا شبہہ یہ ہے کہ آیا یہ لہجہ اس کا ہے جو خدا کی طرف سے متعین ہوا ہے؟! اگر واقعا خدائے عزّوجل اور رسول اللہ کے واسطے سے متعین ہوا ہے تو پھر یہ پیشگی شرائط کیسی ہیں؟! کیا ایسا سنا گیا ہے کہ کوئی پیغمبر آئے اور کہے، ابھی حالات سازگار نہیں ہیں اور مجھے چھوڑ دو دعونی و التمسوا غیری»
ثانیا: اگر اصرار کرو گے تو اس شرط سے قبول کروں گا کہ جیسے چاہوں گا، اسی طرح معاشرے کی قیادت کروں گا؟!
اس کے جواب میں سب سے پہلے یہ کہنا چاہئے:
حضرت علیؑ کی مراد یہ ہے کہ اگر حکومت قبول کر لوں تو میں کتاب و سنت کا جو میرے پاس علم ہے؛ اس کے مطابق تمہارے اوپر حکومت کروں گا نہ اس طرح کہ جیسے تم چاہو اور اسی شرط کو چھ افراد کی شوریٰ میں بھی بیان فرمایا تھا۔
ثانیا:
قرآن پوری وضاحت کے ساتھھ کہتا ہے کہ اسلامی حاکم کا منشور الہٰی دستور کے مطابق ہونا چاہئے نہ لوگوں کی مرضی سے۔ (لتحکم بین الناس بما اراک اللّه) (ومن لم یحکم بما انزل اللّه فاولئک هم الکافرون الفاسقون الظالمون)
ثالثا: کیا حضرت موسیؑ اپنی مرضی سے لوگوں پر حکومت کرتے تھے اگر ایسا تھا تو
گوسالہ پرستی اور دیگر دسیوں موارد کہ جہاں لوگوں کی مرضی کچھ اور تھی؛ تو ان کی مخالفت نہ کرتے۔
رابعا: ہر اسلامی اور غیر اسلامی حاکم اگر لوگوں کی مرضی سے حکومت کرنا شروع کر دے تو معاشرے کا شیرازہ بکھر جائے گا کیونکہ لوگوں کا ہر طبقہ ایک ایسی چیز چاہے گا جو دوسروں کی مرضی کے خلاف ہو۔
بہرحال یہ قول کہ: علیؑ نے کیوں سکوت کر لیا حالانکہ ان کے چند حامی اور مددگار موجود تھے؛ تو اس کے جواب میں کہنا چاہئے: اگر آپ خود
نہج البلاغہ اور اہل سنت کی بعض کتب کی طرف مراجعہ کر لیتے تو یہ شبہہ پیدا نہ ہوتا۔
اس لیے کہ حضرت علیؑ نہج البلاغہ میں صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں: اللهمّ انی استعدیک علی قریش فانهم قد قطعوا رحمی، واکفاوا انائی، واجمعوا علی منازعتی حقا کنت اولی به من غیری، وقالوا: الا ان فی الحق ان تاخذه وفی الحق ان تمنعه، فاصبر مغموما او مت متاسفا، فنظرت فاذا لیس لی رافد ولا ذاب ولا مساعد الا اهل بیتی، فضننت بهم عن المنیه فاغضیت علی القذی، وجرعت ریقی علی الشجی، و صبرت من کظم الغیظ علی امر من العلقم، وآلم للقلب من حز الشفار۔
ابن ابی الحدید معتزلی نے اس خطبے کو
شرح نہج البلاغہ جو ساری کی ساری اہل سنت کے دفاع اور
شیعہ عقائد کے رد میں لکھی گئی ہے؛
میں نقل کیا ہے، اسی طرح
ابن قتیبہ دینوری نے
الامامۃ و السیاسۃ میں کچھ اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔
ایک اور مقام پر حضرتؑ فرماتے ہیں: اگر نوخیز اسلامی امت میں تفرقہ پیدا ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو تم میرے قاطعانہ رد عمل کو دیکھتے: وایم الله لولا مخافه الفرقه بین المسلمین، وان یعود الکفر، ویبور الدین، لکنا علی غیر ما کنا لهم علیه..۔
اسی طرح پوری صراحت کے ساتھ کہتے ہیں: میں
ابو بکر و
عمر سے خلافت کیلئے زیادہ شائستہ تھا، مگر اس کے باوجود جب میں نے دیکھا کہ اگر ساکت نہ رہا اور اطاعت نہ کی تو لوگ
کفر کی طرف پلٹ جائیں گے اور ملت اختلاف میں گرفتار ہو جائے گی اور داخلی جنگ شروع ہو جائے گی۔
قال عامر بن واثله: کنت علی الباب یوم الشوری، فارتفعت الاصوات بینهم، فسمعت علیا (علیهالسّلام) یقول: بایع الناس ابا بکر وانا والله اولی بالامر واحق به، فسمعت واطعت مخافه ان یرجع الناس کفارا، یضرب بعضهم رقاب بعض بالسیف، ثم بایع ابو بکر لعمر وانا والله اولی بالامر منه، فسمعت واطعت مخافه ان یرجع الناس کفارا.
[ترمیم]
تیسرے شبہے میں کہتے ہیں: حضرتؑ فرماتے ہیں: اگر مجھے چھوڑ دو تو تمہیں میں سے ایک فرد ہو جاؤں گا؟! کیسے؟! یعنی جس کی ذمہ داری پیغمبروں کی ذمہ داری سے زیادہ اہم ہے! اس حد تک ذمہ داری سے گریز کر رہے ہیں کہ خود کو باقی عوام کی طرح شمار کرتے ہیں کہ جن پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے، مزید برآں یہ فرماتے ہیں: (تم حکومت جس کے سپرد کرو گے؛ شاید تمہارے سے زیادہ اس کی بات سنوں گا اور اس کی فرمانبرداری کروں گا۔
چوتھے شبہے میں کہتے ہیں: حضرتؑ نے فرمایا: (لِمَنْ وَلَّیْتُمُوهُ اَمْرَکُمْ) تم اپنی حکومت جس کے سپرد کرو گے) کیوں فرمایا: اپنی حکومت کو؟! کیا حکومت لوگوں کی مرہون منت ہے اور انہیں اختیار ہے کہ جس کے سپرد کرنا چاہیں، سپرد کر دیں؟! کیا ایسا نہیں ہے کہ امام و خلیفہ کو
خدائے عزوجل متعین کرتا ہے اور لوگوں کو اس کے متعین کرنے میں کوئی حق نہیں ہے؟! کیا وہ نہیں کہتے کہ خلیفہ کی تقرری شورائی نہیں ہے؟! کیا ایسا نہیں ہے کہ اہل شوریٰ کو غاصب کہتے ہیں؟! تو کس طرح
حضرت علیؑ فرماتے ہیں: تم جس کے سپرد اپنی حکومت کرو گے میں اس کی اطاعت کروں گا: ولیتموه»، کیوں نہیں کہا: ولاه الله» جس کو خدا متعین کرے گا، میں اس کی اطاعت کروں گا۔
حضرتؑ فرماتے ہیں: (وَ اِنْ تَرَکْتُمُونِی فَاَنَا کَاَحَدِکُمْ) اگر مجھے چھوڑ دو تو تم میں سے ایک ہوں گا۔ حضرتؑ کا مقصود ذمہ داری سے کنارہ کشی نہیں ہے؛ بلکہ غیر الہٰی حکومت کو قبول نہ کرنا ہے کہ جس کو لوگ چاہتے ہیں۔ جملہ (لِمَنْ وَلَّیْتُمُوهُ اَمْرَکُمْ) اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ یہ ولایت جو تم چاہتے ہو؛ مجھے قبول نہیں ہے اور جو تمہیں پسند ہے، اس کے حوالے کر دو اور اس کے پیچھے چلے جاؤ جو ایسی حکومت کو قبول کرنے پر تیار ہو۔
[ترمیم]
پانچویں شبہے میں کہتے ہیں: حضرتؑ نے فرمایا کہ : وَ اَنَا لَکُمْ وَزِیراً خَیْرٌ لَکُمْ مِنِّی اَمِیراً میں تمہارے لئے وزیر کی حیثیت سے امیر کی بہ نسبت زیادہ بہتر رہوں گا۔
کیوں؟! جس کو خدا نے متعین کیا، جس کو
پیغمبرؐ نے نامزد کیا، جو دسیوں اور سینکڑوں آیات و احادیث کی روشنی میں
امامت کیلئے متعین ہوا تو اس کا دائرہ اختیار کس قدر ہے کہ اپنی طرف سے الہٰی منصب کو نظرانداز کر دے اور کھلے دل سے یہ پیشکش کرے کہ اصرار نہ کرو؛ میرا تمہارے لیے وزیر یعنی مشاور ہونا؛ امیر (امام و خلیفہ ]] ہونے سے بہتر ہے، اگر آپؑ خدائے عزوجل اور پیغمبرؐ کی طرف سے متعین ہوتے تو کیا وہ یہ اظہار کرتے کہ میرا مشیر ہونا امام ہونے سے بہتر ہے؟! مصلحت کی تشخیص کس کے ہاتھ میں ہے؟! کیا خدا یہ تشخیص دیتا ہے کہ امام ہونا بہتر ہے یا مشیر! یا یہ مکلف؟! چلیں قبول کر لیتے ہیں کہ حضرت علیؑ
معصوم بھی تھے تو کیا معصومؑ اپنی صلاح دید کے مطابق حکمِ خدا کو بدل سکتا ہے؟! کیا دلیل ہے اس کی؟!
حضرتؑ کا مقصود یہ ہے کہ اگر میں حکومت کو قبول کر لوں تو تمام گزشتہ غلط معیارات کو ایک طرف کر دوں گا اور نالائق افراد کو مناصب سے ہٹا دوں گا اور لائق افراد کہ جن کو نظر انداز کیا گیا ہے؛ ان کو عہدوں پر منصوب کروں گا: (ولتساطنّ سوط القدر حتّی یعود اسفلکم اعلاکم واعلاکم اسفلکم.
اور تمام اموال کہ جن پر ناجائز قبضہ کیا جا چکا ہے؛
بیت المال کو واپس لوٹاؤں گا۔ واللّه لو وجدته قد تزوّج به النساء وملک به الاماء لررددته.
خلاصہ کلام اگر میں حکومت کو قبول کر لوں تو رسول اکرمؐ کے زمانے والی روش کو واپس لے آؤں گا۔ وان بلیتکم قد عادت کهیئتها یوم بعث اللّه نبیّکم والذی بعثه بالحق.
قطعا ایسا کام تمہارے لیے سنگین ہو گا اور تم لوگ اس طرح کی عدالت کو برداشت نہیں کر سکو گے اور اس میں تمہاری مصلحت نہیں ہے۔ تاہم اگر معاشرے میں میری کوئی ذمہ داری نہ ہو تو میرے اوپر کوئی تکلیف بھی نہ ہو گی اور ضروری مقامات پر مشاور کے عنوان سے پہلے کی طرح عمل کرتا رہوں گا اور یہ تمہارے فائدے کی بات ہے۔ لہٰذا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حضرتؑ نے جملہ (خَیْرٌ لَکُمْ) استعمال کیا ہے یعنی تمہارے فائدے میں ہے، یہ جملہ الہٰی خلافت سے چشم پوشی کا معنی نہیں دے رہا بلکہ اعتراض ہے لوگوں کی نامشروع خواہشات پر؛ ایسی صورت میں حکومت کو قبول نہ کرنے کا معنی شریعت کے خلاف نہ جانا ہے۔
[ترمیم]
مذکورہ خطبے کے علاوہ نہج البلاغہ کے خطبہ ۳ میں امام علیؑ صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں: آگاہ ہو جاؤ کہ خدا کی قسم فلاں شخص ( ابن ابی قحافہ) نے قمیص خلافت کو کھینچ تان کر پہن لیا ہے حالانکہ اسے معلوم ہے کہ خلافت کی چکی کے لئے میری حیثیت مرکزی کیل کی ہے۔علم کا سیلاب میری ذات سے گزر کرنیچے جاتا ہے اور میری بلندی تک کسی کا طائر فکر بھی پرواز نہیں کر سکتا ہے۔ پھر بھی میں نے خلافت کے آگے پردہ ڈال دیا اور اس سے پہلو تہی کر لی اور یہ سوچنا شروع کر دیا کہ کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کردوں یا اسی بھیانک اندھیرے پرصبر کر لوں جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف ہو جائے اور بچہ بوڑھا ہو جائے اور مومن محنت کرتے کرتے خدا کی بارگاہ تک پہنچ جائے۔ تو میں نے دیکھا کہ ان حالات میں صبر ہی قرینِ عقل ہے تو میں نے اس عالم میں صبر کر لیا کہ آنکھوں میں مصائب کی کھٹک تھی اور گلے میں رنج و غم کے پھندے تھے۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا۔
اما واللّه، لقد تقمّصها ابن ابی قحافه، وانّه لیعلم انّ محلی منها محل القطب من الرحا، ینحدر عنی السیل، ولا یرقی الی الطیر. فسدلت دونها ثوبا، وطویت عنها کشحا، وطفقت ارتئی بین ان اصول بید جذاء، او اصبر علی طخیه عمیاء، یهرم فیها الکبیر، ویشیب فیها الصغیر، ویکدح فیها مؤمن حتی یلقی ربه، فرایت ان الصبر علیهاتا احجی، فصبرت وفی العین قذی، وفی الحلق شجا، اری تراثی نهبا۔
اسی طرح امام عبدہ کی نہج البلاغہ میں جب یہ جملہ (اما والله لقد تقمصها فلان) آیا تو انہوں نے فوری طور پر وضاحت کی ہے کہ (وفلان کنایه عن الخلیفه الاول ابیبکر رضی الله عنه).
کیا حضرتؑ نے نہج البلاغہ کے دوسرے خطبے میں صراحت کے ساتھ نہیں فرمایا ہے: آل محمد(ص) دین کی اساس اوریقین کا ستون ہیں۔ ان سے آگے بڑھ جانے والا پلٹ کرانہیں کی طرف آتا ہے اور پیچھے رہ جانے والا بھی انہیں سے آکر ملتا ہے۔ یہ حق ولایت کی خصوصیات و شرائط کے حامل ہیں اور انہی کے درمیان پیغمبر(ص) کی وصیت اور ان کی وراثت ہے۔ اب جب کہ حق اپنے اہل کے پاس واپس آ گیا ہے اور اپنی منزل کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔
اہل مصر کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں: خدا گواہ ہے کہ یہ بات میرے خیال میں بھی نہ تھی اور نہ میرے دل سے گزری تھی کہ عرب اس منصب کو ان کے اہل بیتؑ سے اس طرح موڑ دیں گے اور مجھ سے اس طرح دور کر دیں گے کہ میں نے اچانک یہ دیکھا کہ لوگ فلاں شخص کی بیعت کے لئے ٹوٹے پڑ رہے ہیں تو میں نے اپنے ہاتھ کو روک لیا یہاں تک کہ یہ دیکھا کہ لوگ دین اسلام سے واپس جا رہے ہیں اور پیغمبر کے قانون کو برباد کردینا چاہتے ہیں تو مجھے یہ خوف پیدا ہو گیا کہ اگر اس رخنہ اوربربادی کو دیکھنے کے بعد بھی میں نے اسلام اور مسلمانوں کی مدد نہ کی تو اس کی مصیبت روز قیامت اس سے زیادہ عظیم ہوگی جو آج اس حکومت کے چلے جانے سے سامنے آرہی ہے جو صرف چند دن رہنے والی ہے اورایک دن اسی طرح ختم ہوجائے گی جس طرح سراب کی چمک دمک ختم ہوجاتی ہے با آسمان کے بادل چھٹ جاتے ہیں تو میں نے ان حالات میں قیام کیا یہاں تک کہ باطل زائل ہوگیا۔اوردین مطمئن ہو کراپنی جگہ پر ثابت ہوگیا۔
[ترمیم]
ان شبہات کے جواب میں یہ پوچھنا چاہئے کہ کیا پیغمبر اکرمؐ نے خلیفہ کو معین نہیں کیا اور اس کی تقرری کو لوگوں کے سپرد کر دیا؟!
اگر حضرتؐ کا یہ کام حق تھا اور امت کے نفع و ہدایت کا ضامن تھا تو سب پر
واجب ہے کہ اس کی پیروی کریں کیونکہ ان کا کام
قیامت پر یقین رکھنے والے تمام خدا پرستوں کیلئے نمونہ ہونا چاہئے: لقد کان لکم فی رسول اللّه اسوه حسنه لمن کان یرجوا اللّه والیوم الآخر؛
اس بنا پر ابوبکر کی طرف سے سنت پیغمبرؐ کے برخلاف خلیفہ کی تقرری
امت کی ضلالت کی موجب ٹھہری۔ اسی طرح
عمر کا کام کہ خلافت کو چھ افراد کی شوریٰ کے سپرد کر دیا، سنتِ پیغمبرؐ اور سیرتِ ابوبکر کے خلاف تھا۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ابوبکر و عمر کا کام امت کے نفع میں تھا تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ رسول اکرمؐ کا کام صحیح نہ تھا ونعوذ باللہ من ذلک!
[ترمیم]
پیغمبر گرامیؐ چند دنوں کیلئے جب
مدینہ سے باہر جاتے تھے تو اپنے ایک صحابی کو جانشین کے عنوان سے نامزد فرما دیتے تھے: لانّ النبی (صلیاللهعلیهوسلم) استخلف فی کلّ غزاه غزاها رجلاً من اصحابه.
ابن ام مکتوم کو ۱۳ غزوات جیسے
بدر،
احد،
ابواء،
سویق،
ذات الرقاع،
حجّة الوداع و ... کے مواقع پر مدینہ میں اپنے جانشین کے عنوان سے مقرر فرما کر گئے تھے۔
اسی طرح ابو رہم کو
مکہ اور
جنگ حنین کی طرف روانگی کے موقع پر اور
محمد بن مسلمہ کو
جنگ قرقرہ کے دوران اور نمیلۃ بن عبد اللہ کو
بنی المصطلق میں اور
عویف کو
جنگ حدیبیّہ و ... میں اپنے خلیفہ کے عنوان سے مقرر کیا۔
اس بنا پر آیا یہ معقول ہے کہ حضرت رسول اکرمؐ جو مدینہ سے ایک دن کیلئے نکلتے وقت جیسے جنگ احد جو مدینہ سے ایک میل کے فاصلے پر لڑی گئی؛ اپنے لیے جانشین مقرر فرماتے تھے، اسلامی امت کو ہمیشہ کیلئے جانشین کے بغیر چھوڑ گئے ہوں؟!
کیا یہ درست ہے کہ مدینہ کے اطراف میں لڑی جانے والی جنگ خندق کے دوران اپنا جانشین مقرر کیا مگر اپنے بعد تا قیام قیامت کسی کو اپنے جانشین کے عنوان سے مقرر نہ کیا ہو؟! کیا مذکورہ بالا موارد میں سے آپ کو کسی ایک ایسے مورد کی اطلاع ہے کہ حضرتؐ نے جانشین کے انتخاب کو لوگوں کے حوالے کر دیا ہو؟! یا کسی ایک مورد میں مسلمانوں کے ساتھ جانشین کی تقرری کے حوالے سے
مشورہ کیا ہو ؟!
[ترمیم]
اہل سنت کی روائی کتب میں
رسول اکرمؐ سے منقول ہے کہ فرمایا: تمام پیغمبروں کے وصی اور جانشین تھے: لکل نبیّ وصیّ ووارث.
حضرت سلمان فارسیؓ سے منقول ہے کہ حضرت رسول اکرمؐ سے سوال ہوا: ہر پیغمبرؐ کیلئے کوئی وصی اور جانشین تھا، آپ کا وصی کون ہے؟!انّ لکلّ نبیّ وصیّاً، فمن وصیّک؟
مگر دوسری جانب سے اہل سنت کہتے ہیں کہ پیغمبرؐ نے کسی کو اپنے جانشین کے عنوان سے مقرر نہیں کیا۔
کیا تمام الہی پیغمبروں میں سے رسول اکرمؐ مستثنیٰ تھھے اور یہ حضرتؑ کا خاصہ تھا؟! یا پھر آپؐ نے تمام پیغمبروں کی سنت کے برخلاف عمل کیا؟! حالانکہ خدا نے
قرآن میں بزرگ پیغمبروں کے اسما کو ذکر کرنے کے بعد اپنے رسول گرامیؐ کو امر فرمایا کہ ان کی ہدایت کی پیروی کیجئے: (اولئک الذین هدی اللّه فبهداهم اقتده)
وہ کہتے ہیں: رسول گرامیؐ نے اس امت کو خلیفہ و جانشین کی تعیین کے بغیر چھوڑ دیا ہے اور دنیا سے رحلت فرما گئے ہیں، کیا رسول اکرمؐ نے خلیفہ کی تعیین کو امت کے ذمے چھوڑ دیا کہ جس طرح صلاح سمجھیں اور جس کو پسند کر لیں اسے خلیفہ کے عنوان سے انتخاب کر لیں اور خود حضرتؐ نے اس بارے میں انتخاب کی شرائط، رہبری کی شرائط اور انتخابات میں شرکت کرنے والوں کی شرائط بیان نہیں فرمائیں؟!
یہ کام قطعا معقول نہیں ہے کیونکہ رسول گرامیؐ ایک ایسے موقع پر دنیا سے گئے کہ اسلامی معاشرہ بدترین صورتحال سے دوچار تھا؛ کیونکہ ایک طرف سے
روم و
ایران کی طاقتور حکومتیں اسلامی حکومت کو دھمکا رہی تھیں کہ حضرتؐ کا
جیش اسامہ کی روانگی پر اصرار اس مطلب پر بہترین گواہ ہے۔ دوسری طرف سے
منافقین ،
مشرکین اور
یہودی آئے دن اسلامی معاشرے کیلئے کوئی نہ کوئی مشکل کھڑی کر رہے تھے۔ واضح ہے کہ ایسے موقع پر اگر معاشرے کا حاکم اگر کوئی عام فرد ہوتا تو بھی معاشرے کو جانشین کے بغیر نہ چھوڑتا! تو کس طرح معقول ہے کہ رسول اکرمؐ نے اس معاشرے کو خلیفہ و جانشین کی تعیین کے بغیر چھوڑ دیا ہو؟! حالانکہ حضرتؐ ہر ایک سے زیادہ مسلمانوں کے غم خوار تھے اور ان کی خوشحالی کیلئے کسی قسم کی کوشش سے دریغ نہیں کرتے تھے اور آیت شریفہ لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیه ما عنتّم، حریص علیکم بالمؤمنین رئوف رحیم
، اس بات کی بہترین دلیل ہے۔ ایسے امر کا عقیدہ رکھنا رسول خداؐ کی سب سے بڑی توہین ہے کہ ایسا فیصلہ کر کے اسلامی معاشرے کو سخت ترین مشکل سے دوچار کر دیا، جیسا کہ ڈاکٹر احمد امین مصری نے صراحت سے کہا ہے: پیغمبر گرامیؐ جانشین معین کیے بغیر اور حاکم کی صفات و شرائط کو بیان کیے بغیر وصال فرما گئے اور یوں آپؐ نے اسلامی معاشرے کو مشکل ترین اور خطرناک ترین صورتحال میں چھوڑ دیا (معاذ اللہ)۔ توفّی رسول اللّه (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) ولم یعیّن من یخلفه، ولم یبیّن کیف یکون اختیاره، فواجه المسلمون اشق مساله واخطرها!!۔
اسی طرح
ابن خلدون کہتے ہیں: محال ہے کہ معاشرے کو رہبر و سرپرست کے بغیر چھوڑ دیا جائے کیونکہ یہ لوگوں اوور سیاستدانوں میں لڑائی کا باعث ہو گا، اسی لیے ہر معاشرے میں حاکم کے تقرر کی سخت ضرورت ہے جو ہرج و مرج کا راستہ روکے: فاستحال بقاؤهم فوضیّ دون حاکم یزع بعضهم عن بعض واحتاجوا من اجل ذلک الی الوازع وهو الحاکم علیهم)
[ترمیم]
صحیح مسلم کی نقل کے مطابق
حفصہ عمر سے کہتی ہیں کہ کسی کو اپنے جانشین کے عنوان سے معین کر دیں، اس کے بعد
عبد اللہ بن عمر اپنے والد سے کہتے ہیں: اگر تمہارا چرواہا، بھیڑوں اور بکریوں کو سرپرست کے بغیر چھوڑ دے تو تم اس پر اعتراض کرو گے کہ کیوں ان کی نابودی کے باعث بنے ہو؟! پس اس امت کی فکر کرو! اور کسی کو ان کے خلیفہ کے عنوان سے مقرر کر دو! کیونکہ اس امت کے حال کی رعایت اونٹوں اور بکریوں کے حال کی رعایت سے زیادہ ضروری ہے: عن ابن عمر قال: دخلت علی حفصه فقالت: اعلمت انّ اباک غیر مستخلف؟ قال: قلت: ما کان لیفعل. قالت: انّه فاعل. قال ابن عمر: فحلفت انّی اکلّمه فی ذلک. فسکت، حتّی غدوت. ولم اکلّمه. قال: فکنت کانّما احمل بیمینی جبلاً، حتی رجعت فدخلت علیه، فقلت له: انّی سمعت، الناس یقولون مقاله فآلیت ان اقولها لک، زعموا انّک غیر مستخلف، وانّه لو کان لک راعی ابل، او راعی غنم ثمّ جاءک وترکها رایت ان قد ضیّع، فرعایه الناس اشدّ.
اسی طرح
عائشہ عبد اللہ بن عمر کے واسطے سے انہیں پیغام دیتی ہیں: امتِ محمدؐ کو چرواہے کے بغیر مت چھوڑو اور کسی کو جانشین کے عنوان سے مقرر کر دو؛ کیونکہ مجھے یہ فکر ہے کہ وہ
فتنے میں گرفتار ہو جائیں: (ثمّ قالت (ای عائشه): یا بُنیّ! ابلغ عمر سلامی، وقل له: لا تدع امّه محمد بلاراع، استخلف علیهم ولا تدعهم بعدک هملاً، فانّی اخشی علیهم الفتنه۔
اسی طرح
معاویہ یزید کیلئے بیعت لینے کے قصد سے جب مدینہ پہنچا تو
صحابہ کے اجتماع میں اور عبد اللہ بن عمر کے ساتھ گفتگو کے ضمن میں کہنے لگا: انّی ارهب ان ادع امّه محمد بعدی کالضان لا راعی لها؛ من وحشت دارم، که امت پیامبر را همانند گوسفند بدون چوپان رها سازم و بروم۔
ابن سعد کی
طبقات الکبریٰ میں نقل کے مطابق عبد اللہ بن عمر نے اپنے والد سے کہا: اگر زرعی زمینوں پر مقرر کردہ اپنے وکیل کو تم واپس بلاؤ تو کیا کسی کو اس کا قائمقام کرو گے یا نہیں؟! کہنے لگے: ہاں! اور پوچھا: اگر اپنی بکریاں چرانے والے کو طلب کرو تو کیا کسی کو اس کی جگہ مقرر کرو گے یا نہیں؟! کہنے لگے: ہاں!
وقال عبدالله بن عمر لابیه: لو استخلفت؟ قال: من؟ قال: تجتهد فانّک لست لهم بربّ، تجتهد، ارایت لو انّک بعثت الی قیّم ارضک الم تکن تحبّ ان یستخلف مکانه حتی یرجع الی الارض؟ قال: بلی. قال: ارایت لو بعثت الی راعی غنمک الم تکن تحبّ ان یستخلف رجلاً حتی یرجع؟
کیا یہ رسول خداؐ کی بڑی اہانت نہیں ہے کہ اپنی امت کیلئے عائشہ، حفصہ یا معاویہ جتنے فکر مند بھی نہیں تھے؟! اور انہوں نے احساس نہیں فرمایا کہ اپنی امت کو چرواہے کے بغیر نہ چھوڑ کر جائیں؟! کیا کوئی ایسا نہیں تھا کہ رسول اکرمؐ کے سامنے یہ عرض کرے کہ کسی کو اپنے جانشین کے عنوان سے متعین کر دیں؟! یا حضرتؐ سے خلیفہ کے تعین کا طریقہ کار پوچھ لے؟!
[ترمیم]
آپ جو کہہ رہے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ
وصیت کیے بغیر اس دنیا سے چلے گئے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے
قرآن و
سنت کے برخلاف کام کی حضرتؐ کی طرف نسبت دی ہے؟! کیونکہ قرآن تمام مسلمانوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ وصیت کے بغیر دنیا سے نہ جائیں: کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیراً الوصیّه
. کیونکہ جملہ (کتب علیکم) آیت شریفہ (کتب علیکم الصیام) کی طرح اہمیت اور لزوم پر دلالت کر رہا ہے۔
دوسری طرف سے رسول اکرمؐ نے فرمایا: ہر مسلمان کا فریضہ یہ ہے کہ وصیت نامے کا حامل ہو، کسی مسلمان کی زندگی کی تین راتیں نہ گزریں مگر یہ کہ وصیت اس کے ہمراہ ہو: ما حق امرئ مسلم له شئ یوصی به، یبیت ثلاث لیال الا ووصیّته عنده مکتوبة.
اس طور کہ عبد اللّه بن عمر کہتے ہیں: جب ہم نے رسول اکرمؐ سے یہ حدیث سنی تو اس وقت سے کوئی رات وصیت نامے کے بغیر بسر نہیں کی: قال عبداللّه بن عمر: ما مرّت علیّ لیله منذ سمعت رسول اللّه (صلیاللهعلیهوسلم) قال ذلک، الّا وعندی وصیّتی.
کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ عبد اللہ بن عمر رسول گرامیؐ کے قول پر خود آنحضرتؐ سے زیادہ پابند تھے؟! کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ:
پیغمبر اکرمؐ کوئی ایسی بات کریں کہ جس پر خود عمل نہ کریں؟! خدا فرماتا ہے: کیوں ایسی بات کہتے ہو کہ جس پر عمل نہیں کرتے؟! عمل و گفتار میں اس آشکار تناقض کا نتیجہ خدا کا غضب ہے: یا ایّها الذین آمنوا لِمَ تقولون ما لا تفعلون کبر مقتاً عند اللّه ان تقولوا ما لاتفعلون؛
یہ تناقض اس قدر روشن تھا کہ بعض راویوں جیسے
طلحہ بن مصرف نے اس حوالے سے اعتراض بھی کیا، یہ راوی عبد اللہ بن اوفی سے کہتے ہیں: کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر گرامیؐ لوگوں کو وصیت کا حکم دیں مگر خود ترک کر دیں: عن طلحه بن مصرف، قال: سالت عبداللّه بن ابی اوفی: هل کان النبی (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) اوصی؟ قال: لا. فقلت: کیف کتب علی الناس الوصیّه، ثمّ ترکها - قال: اوصی بکتاب اللّه۔
وفی روایه احمد: فکیف امر المؤمنین بالوصیّه ولم یوص؟ قال: اوصی بکتاب اللّه۔
وصیت کی آیت و حدیث اگر وصیت کے لزوم پر دلالت نہیں کرتی تو کم از کم وصیت کے جواز پر دلالت کرتی ہے اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ وصیت کرنا ایک نیک اور پسندیدہ عمل ہے اور پیغمبر گرامیؐ کے شایان شان نہیں ہے کہ اسے ترک کر دیں کیونکہ قرآن کہتا ہے: کیا لوگوں کو نیک کام کی دعوت دیتے ہوتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو: اتامرون الناس بالبرّ وتنسون انفسکم
.
[ترمیم]
آپ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ پیغمبر گرامیؐ جانشین کے بغیر رحلت فرما گئے اور خلیفہ کی تعیین کو امت کے سپرد کر گئے ہیں، کیا معاشرے کے رہبر اور اسی طرح رہبری کے انتخابات میں شرکت کرنے والے کی شرائط کو متعین فرمایا یا نہیں؟! اگر متعین فرمایا تو یہ شرائط کون سی حدیث یا روایت میں بیان ہوئی ہیں؟! اگر یہ شرائط حضرت رسول اکرمؐ کے کلام میں بیان ہوئی ہیں تو کیوں
سقیفہ بنی ساعدہ میں سقیفہ کے فاتحین میں سے کسی ایک نے ان سے استدلال نہیں کیا؟!
پھر
ابوبکر کا انتخاب پیغمبر اکرمؐ کی بیان کردہ شرائط کے مطابق تھا تو کیوں ابوبکر نے کہا: میری بیعت اتفاقیہ، اچانک اور سوچے سمجھے بغیر ہوئی ہے اور خدا نے اس کے شر کو دفع کر دیا: قال ابوبکر فی اوائل خلافته: انّ بیعتی کانت فلته وقی اللّه شرّها وخشیت الفتنه۔
یعنی طبیعتا یہ شر انگیز کام تھا مگر خدا نے اس کے شر کو برطرف کر دیا۔ قال ابن الاثیر: اراد بالفلته الفجاه، ومثل هذه البیعه جدیره بان تکون مهیّجه للشر.
یہی بات عمر نے اپنی خلافت کے اواخر میں منبر پر بیان کی اور کہا: اگر کسی نے ایسا اقدام اٹھایا تو اس کو قتل کر دیا جائے: انّ بیعه ابی بکر کانت فلته وقی اللّه شرّها فمن عاد الی مثلها فاقتلوه
ابن اثیر کہتے ہیں: بلا سوچے سمجھے کام کو ’’فلتة‘‘ کہتے ہیں اور
خلافت کے معاملے میں انتشار کے خوف کی وجہ سے ابوبکر کی بیعت میں جلدی کی گئی: (والفلته کلّ شی ء من غیر رویّه وانّما بودر بها خوف انتشار الامر)۔
اے کاش! ابن اثیر سے کوئی پوچھتا کہ کس کی خلافت سے خوف تھا؟! اس کی خلافت سے کہ جسے رسول اکرمؐ متعین فرما گئے تھے؟! یا ابوبکر جیسے افراد کے خلافت کا امیدوار بننے سے خوف تھا؟!
رسول گرامیؐ کی معین کردہ خلافت اگر قائم ہو جاتی تو نہ صرف یہ کہ اس سے کسی کو خوف نہ ہوتا بلکہ ملت کی بہتری اور خیر کی ضامن ہوتی اور سب پر لازم تھا کہ پیغمبرؐ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں اور کسی کو مخالفت یا اظہار خیال کا حق نہیں تھا۔ ما کان لمؤمن و لا مؤمنه اذا قضی اللّه ورسوله امراً ان یکون لهم الخیره من امرهم
اور اسی طرح دیگر افراد کے امیدوار بن جانے کا بھی خطرہ نہ ہوتا کیونکہ جانچ پڑتال کے بعد اگر لوگ اسے ابوبکر کا ہم پلہ نہ پاتے تو قطعا اس کی بیعت نہ کرتے اور اگر وہ ابوبکر کا ہم پلہ ہوتا تو اس کی اور ابوبکر کی بیعت میں کیا فرق رہ جاتا؟! لیکن اگر وہ ابوبکر کی نسبت بہتر خصوصیات و صفات کا حامل ہوتا اور ابوبکر سے بہتر انداز میں جامعہ کی اصلاح کیلئے کوشاں ہوتا تو کیا ابوبکر کا یہ کام معاشرے کو خیر پہنچنے سے مانع نہ ہوتا؟!
سب سے زیادہ اہم چیز یہ کہ اگر واقعا ابوبکر کی خلافت سنت رسول اکرمؐ کے اصولوں اور شرائط کے مطابق انجام پائی ہوتی تو کیوں عمر کہتے کہ: (فمن عاد الی مثلها فاقتلوه).
[ترمیم]
آپ ایک طرف سے کہتے ہیں کہ پیغمبر گرامیؐ نے کسی کو جانشین کے عنوان سے معین نہیں فرمایا اور کسی کو حکم بھی نہیں دیا کہ کسی شخص کو خلیفہ نامزد کرے بلکہ لوگوں نے ابوبکر کو خلیفہ کے عنوان سے معین کر لیا اور ابوبکر نے عمر کو خلیفہ بنا دیا اور
عثمان کو چھ افراد کی شوریٰ نے معین کیا اور دوسری طرف سے کہتے ہیں کہ یہ پیغمبرؐ کے خلیفہ و جانشین تھے اور ان پر (خلیفۃ الرسول) کا اطلاق کرتے ہیں۔ کیا یہ رسول گرامیؐ پر جھوٹ باندھنا نہیں ہے؟! اور حدیث متواتر کے مطابق: من کذب علیّ متعمداً فلیتبؤ مقعده من النار
قال ابن الجوزی: رواه من الصحابه ثمانیه و تسعون نفساً.
وقال النووی: قال بعضهم: رواه مائتان من الصحابه.
پیغمبرؐ کی نسبت ہر قسم کی جھوٹی نسبت
گناہ ہے۔ پس اس بنا پر یا آپ کی یہ بات کہ پیغمبر اکرمؐ نے خلیفہ نامزد نہیں کیا؛ صحیح ہے؟! یا یہ درست ہےکہ خلفائے راشدین کو پیغمبرؐ کا خلیفہ سمجھتے ہو؟!
[ترمیم]
[ترمیم]
موسسه ولیعصر، ماخوذ از مقالہ امام علی (علیهالسلام) و قبول حکومت»۔