امام رضاؑ کی ولادت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
حقیقی و محمدی
اسلام اور علوی تشیع کی ترقی
آئمہ معصومینؑ کی ہدایات اور فداکاریوں کے مرہون منت ہے۔ یہ ہستیاں
توحید کی علمبردار ہیں؛ بالخصوص
ایران میں تشیع کی ترقی اور تبلیغ حضرت
امام رضاؑ اور آپ کے آبا و اجداد کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
[ترمیم]
تاریخی کتب کے مطابق حضرت
امام رضاؑ کی تاریخ ولادت میں اختلاف ہے؛ پس بعض نے
جمعرات اور بعض نے
جمعۃ المبارک کو آپ کا یوم ولادت قرار دیا ہے۔
طبرسی نے
اعلام الوریٰ میں،
کفعمی نے
مصباح میں اور شہید نے
دروس میں
ذیقعدہ کو حضرتؑ کی ولادت کا مہینہ قرار دیا ہے۔ کچھ علما جیسے
شیخ صدوقؒ نے
عیون اخبار الرضا میں
ربیع الاول کو آپ کی ولادت کا مہینہ قرار دیا ہے۔ آپ کی ولادت کے سال کے بارے میں شیخ
کلینیؒ نے
کافی میں، طبرسی نے اعلام الوریٰ میں، کفعمی نے مصباح میں شہید نے دروس میں اور
مفید نے
ارشاد میں سنہ ۱۴۸ھ یعنی جس سال امام صادقؑ کی شہادت ہوئی؛ کو امام رضاؑ کی ولادت کا سال قرار دیا ہے۔ کچھ شخصیات جیسے حافظ عبد العزیز، اربلی نے
کشف الغمہ میں، صدوق نے عیون اخبار الرضا میں سنہ ۱۵۳ھ کو امامؑ کی ولادت کا سال قرار دیا ہے؛ اس اعتبار سے امام صادقؑ کی شہادت کے پانچ سال بعد امام کی ولادت ہوئی ہے۔
بعض نے سنہ ۱۵۱ھ کو حضرتؑ کی ولادت کا سال قرار دیا ہے۔
مگر اکثر مورخین اور قدما جیسے کلینی (متوفی ۳۲۸ھ) اور مفید (متوفی ۴۱۳ھ) کے بقول یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرتؑ کی ولادت ۱۴۸ھ میں ہوئی مگر حضرتؑ کا سال ولادت سنہ ۱۵۳ھ قرار دینے والے افراد نے
ان روایات سے استناد کیا ہے جو ان کے نزدیک اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت رضاؑ امام صادقؑ کی شہادت کے چند سال بعد پیدا ہوئے؛ کیونکہ حضرت امام صادقؑ علی بن موسی الرضا کو دیکھنے کی آرزو رکھتے تھے۔ منجملہ حضرت
موسی بن جعفرؑ سے مروی ہے کہ فرماتے تھے:
میں نے اپنے والد جعفر بن محمد سے سنا جو بارہا فرماتے تھے کہ آل محمد کے عالم تمہاری صلب میں ہیں؛ اے کاش! میں انہیں دیکھ پاتا۔ وہ
امیر المومنینؑ علیؑ کے ہم نام ہیں۔
مگر یہ کہا جانا چاہئے کہ اس روایت اور اس کی مشابہہ دیگر روایات سے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت امام رضاؑ امام صادقؑ کی شہادت کے پانچ سال بعد متولد ہوئے ہوں۔
لہٰذا قول مشہور کے مطابق حضرتؑ ۱۱ ذیقعدہ سنہ ۱۴۸ھ کو
مدینہ میں پیدا ہوئے اور اپنے نورانی وجود سے ساری کائنات کو روشنی عطا فرمائی۔
[ترمیم]
حضرتؑ کا نام،
کنیت ، القاب اور انگشتر کا نقش: حضرت علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن ابی طالبؑ؛ بارہ آئمہؑ میں سے آٹھویں ہیں جو پیغمبرؐ کے واسطے سے منجانب اللہ منصوص ہیں۔ آپ کی کنیت ابو الحسن اور آپؑ کے خواص کو ابو علی کہا جاتا ہے۔
آپ کے القاب
رضا،
صابر،
زکی،
ولی،
وفی، سراج الله، نورالهدی، قرة عین المؤمنین، مکیدة الملحدین، کفو، الملک، کافی الخلق، رب السریر ہیں۔
کافی میں یونس سے منقول ہے کہ حضرتؑ نے فرمایا: میری انگشتر کا نقش ما شاء الله لا قوة الا بالله ہے۔
کچھ مورخین نے آپؑ کی انگشتر کا نقش ’’حسبی الله‘‘ ذکر کیا ہے۔
عیون اخبار الرضا
میں وارد ہے کہ
بزنطی کہتے ہیں:
میں نے
امام جوادؑ سے عرض کی کہ آپ کے کچھ مخالفین کا خیال ہے کہ ’رضا‘‘ کا لقب
مامون نے آپؑ کے والد کو دیا چونکہ وہ اس کی ولی عہدی پر راضی ہو گئے تھے۔ حضرتؑ نے فرمایا: خدا کی قسم! انہوں نے جھوٹ کہا اور ناروا کام کیا ہے۔ خدائے عظیم نے ان کا نام رضا رکھا چونکہ وہ آسمانوں میں خدا کی رضایت کے حامل تھے اور زمین میں
پیغمبر اکرمؐ اور آئمہ طاہرین کے پسندیدہ تھے۔
میں نے عرض کی: کیا آپ کے تمام آبا و اجداد خدا، پیغمبر اور آئمہ طاہرینؑ کے پسندیدہ نہ تھے؟! فرمایا: کیوں نہیں!
میں نے عرض کیا کہ پھر کیوں آپ کے والد بزرگوار کو رضا لقب عطا ہوا؟ فرمایا: چونکہ مخالفین نے بھی انہیں محبین اور ساتھیوں کی طرح پسند کیا۔ مگر یہ فرصت آپ کے اجداد میں سے کسی کو نہیں ملی۔ اسی وجہ سے آئمہؑ میں سے صرف آپ کو رضا کا لقب دیا گیا۔
[ترمیم]
کشف الغمہ میں منقول ہے کہ امام رضاؑ کی والدہ
خیزران مرسیہ نامی ایک کنیز تھیں۔
بعض نے ان کا نام
شقراء نوبیہ لکھا ہے؛ اسی طرح نام ’’اروی‘‘ اور لقب شقراء بھی منقول ہے۔ حافظ عبد العزیز لکھتے ہیں: امام رضاؑ کی والدہ کا نام
سکینہ ثوبیہ تھا۔
طبرسی نے اعلام الوریٰ میں لکھا ہے: آپ کی والدہ
ام البنین نام کی کنیز تھیں کہ جنہیں
نجمہ کہا جاتا تھا۔ بعض نے ’’سکن ثوبیہ‘‘ بھی کہا ہے۔
عیون اخبار الرضا میں منقول ہے کہ: حضرت موسیٰ بن جعفرؑ کی والدہ گرامی ’’حمیدہ مصطفاۃ‘‘
عجم کے اشراف کی بیٹی تھیں؛ انہوں نے اپنے لیے ’’تکتم‘‘ نام کی کنیز خرید کی۔ یہ خاتون اپنی مالکہ ’’حمیدہ مصطفاۃ‘‘ کے سامنے نہایت احترام سے پیش آتی تھیں حتی جب تک ان کے اختیار میں رہیں، ان کے احترام میں کبھی ان کے سامنے نہیں بیٹھتی تھیں۔ یہ کنیز دین اور عقل کے اعتبار سے بھی دیگر خواتین سے نمایاں تھیں۔ انہوں نے ایک دن اپنے فرزند موسیٰ بن جعفر سے فرمایا:
تکتم ایسی خاتون ہے کہ ابھی تک میں نے اس سے بہتر کو نہیں دیکھا ہے۔ مجھے یقین ہے اگر اس سے کوئی بچہ ہوا تو اس کی نسل پاک ہو گی۔ میں نے اس کو تمہیں بخشا، اس کی قدر کرو۔ جب حضرت رضاؑ کی ان سے ولادت ہوئی تو انہیں ’’طاہرہ‘‘ کا لقب دیا۔ پھر کہنے لگیں: رضاؑ زیادہ
دودھ پیتے ہیں، یہ صحت مند اور چاق و چوبند ہوں گے۔ ’’تکتم‘‘ نے کہا: کسی دایہ کو تلاش کریں۔ پوچھا: کیا تمہارا دودھ کم ہو گیا ہے؟ کہنے لگیں: میں غلط بیانی نہیں کر رہی، کم نہیں ہوا ہے! مگر میں جو دعائیں اور نمازیں پڑھا کرتی تھی، ان کی ولادت کے بعد اس کا سلسلہ کم ہو گیا ہے۔ بعض لوگ قائل ہیں کہ حضرت رضاؑ کی والدہ کا نام تکتم ہونے کی وجہ یہ شعر ہے کہ جس میں آنجناب کی مدح کی گئی ہے:
الا ان خیر الناس نفسا ووالدا ورهطا و اجدادا علی المعظماتتنا به للعلم والحلم ثامنا اماما یؤدی حجة الله تکتم عیون اخبار الرضا میں منقول ہے کہ: علی بن میثم نے اپنے والد سے نقل کیا ہے جب موسیٰ بن جعفر کی والدہ حمیدہ نے حضرت رضاؑ کی والدہ (نجمہ) کو خرید کیا، کہنے لگیں:
خواب میں
پیغمبر اکرمؐ کو دیکھا، جنہوں نے فرمایا: حمیدہ، نجمہ کا تعلق موسیٰ بن جعفر کے فرزند سے ہے کیونکہ اس کا ان سے ایک فرزند متولد ہو گا جو روئے زمین پر بہترین فرد ہو گا۔
لہٰذا حمیدہ نے
نجمہ موسیٰ بن جعفرؑ کو عطا کر دی۔ انہوں نے حضرت رضاؑ کی ولادت کے بعد ان کا نام طاہرہ رکھا۔ ان کے چند دیگر نام نجمہ، اروی، سکن، سمانہ، تکتم ۔۔۔ بھی منقول ہیں۔ عیون اخبار الرضا میں ہشام بن احمد سے منقول ہے کہ امام موسیٰ بن جعفرؑ نے مجھے فرمایا:
کیا تجھے معلوم ہے کہ
مراکش سے کوئی بردہ فروش آیا ہو؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: نہیں، ایک شخص آیا ہوا ہے، چلو مل کر اس کے پاس چلتے ہیں۔ دونوں سوار ہو کر گئے۔ دیکھا: ایک شخص مراکش سے چند غلام اور کنیزیں لایا ہوا تھا۔ اس سے فرمایا: اپنی کنیزیں دکھاؤ۔ اس نے نو کنیزیں سامنے کیں۔ مگر موسیٰ بن جعفرؑ نے کسی کو قبول نہیں کیا۔ فرمایا: کوئی اور بھی پیش کرو۔ اس نے کہا: مزید کوئی کنیز نہیں ہے۔ حضرتؑ نے فرمایا: نہیں، ابھی ہے۔ اس مرد نے کہا: نہیں، بخدا ایک مریض کنیز ہے۔ حضرتؑ نے فرمایا: کیا حرج ہے، اسے بھی دکھا دو۔ اس مرد نے انکار کر دیا۔ حضرتؑ بھی واپس آ گئے۔ اگلی
صبح مجھے اس کے پاس بھیجا کہ اسے کہو:
کنیز کو کتنی رقم کے عوض فروخت کرو گے؟ وہ کہے گا: اتنی رقم! تو کہہ دینا: میں نے خرید لیا۔ میں نے اس مرد کو پیغام دے دیا۔ اس نے کہا: فلاں قیمت سے کم نہیں دوں گا، میں نے کہا کہ اسی قیمت کے عوض میں نے خرید لی۔ اس نے قبول کر لیا۔ کہنے لگا: کل جو آدمی تمہارے ساتھ تھا، وہ کون ہے؟ میں نے کہا:
بنو ہاشم میں سے ایک مرد ۔۔۔۔ ۔ پھر کہا: میں اس کنیز کی داستان تمہارے لیے نقل کرتا ہوں! اسے میں نے مراکش کے آخری حصے سے خریدا ہے۔ ایک
اہل کتاب خاتون نے مجھے دیکھا۔ کہنے لگی: یہ کون کنیز ہے تمہارے ہمراہ؟ میں نے کہا: اسے میں نے اپنے لیے خرید کیا ہے۔ کہنے لگی: ایسی کنیز شائستہ نہیں ہے کہ تمہارے جیسوں کے پاس ہو۔ اسے روئے زمین کے بہترین فرد کی ملکیت میں ہونا چاہئیے۔ جلد اس سے ایسا فرزند متولد ہو گا کہ
شرق و
غرب اس کی پیروی کریں گے۔
کہتا ہے: میں کنیز کو موسی بن جعفرؑ کے پاس لے آیا۔ کچھ مدت کے بعد اس سے
حضرت رضاؑ کی ولادت ہوئی۔
امام رضاؑ کی والدہ نجمہ سے منقول ہے کہ جب میں حاملہ تھی تو مجھے حمل کی سنگینی کا احساس نہیں ہوتا تھا اور خواب میں اپنے شکم سے
تسبیح و
تہلیل و
تمجید کی آواز سنا کرتی تھی جس سے کچھ خوفزدہ سی ہو جاتی تھی۔ جب بیدار ہوتی تھی تو یہ آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ اِدھر حضرتؑ کی ولادت ہوئی اُدھر آپ نے زمین پر ہاتھ رکھے اور
آسمان کی طرف سر بلند کر کے ہونٹوں کو حرکت دینے لگے۔ گویا کچھ کہہ رہے ہوں۔ آپؑ کے والد موسیٰ بن جعفر داخل ہوئے، فرمایا: نجمہ، تمہیں مبارک ہو! یہ کیسا لطف و کرم ہے جو خدا نے تیرے شامل حال کیا ہے۔۔۔ ۔ایک سفید کپڑے میں انہیں لپیٹ کر حضرتؑ کے ہاتھوں میں دیا۔ انہوں نے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی، پھر واپس میرے حوالے کر دیا: لو، یہ روئے زمین پر بقیۃ اللہ ہیں۔
[ترمیم]
حضرت امام رضاؑ کی امامت پر نصوص اور اصحاب کا اس مسئلے پر رد عمل:
حضرت امام رضاؑ سنہ ۱۸۳ھ میں اپنے والد گرامی موسیٰ بن جعفرؑ کی شہادت کے بعد ۳۵ برس کے سن میں امامت کے منصب پر فائز ہوئے۔ امامت کا مسئلہ موسیٰ بن جعفرؑ کی زندگی کے آخری دنوں میں بہت پیچیدہ اور مشکل تھا۔ تاہم اکثر اصحاب نے
امام کاظمؑ کے جانشین کی امامت کو قبول کیا۔
شیخ مفیدؒ نے ان بارہ اصحاب کے نام نقل کیے ہیں جنہوں نے امام موسیٰ بن جعفرؑ کے بعد امام رضاؑ کی جانشینی و امامت کو نقل کیا ہے؛ ان میں سے اہم ترین نام یہ ہیں:
داود بن کثیر الرقی، محمد بن اسحاق بن عمار،
علی بن یقطین اور
محمد بن سنان۔
نصر بن قابوس کہتے ہیں: میں نے ابو ابراہیم (موسیٰ بن جعفرؑ) سے عرض کیا: میں نے آپ کے والد سے جانشینی کے بارے میں سوال کیا، انہوں نے آپ کو نامزد کیا ہے۔ پس میں نے حضرتؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ جب حضرت صادقؑ کی شہادت ہوئی تو لوگوں میں اختلاف پیدا ہو گیا
ذهب الناس یمینا و شمالا لوگ دائیں بائیں ہو گئے، میں نے اور میرے ساتھیوں نے آپ کا انتخاب کیا ہے، اب ہمیں مطلع فرمائیں کہ آپؑ کا جانشین کون ہو گا؟ امامؑ نے اپنے فرزند علیؑ کا نام ذکر کیا۔
[ترمیم]
اس امر میں مورخین کا اختلاف ہے کہ امام رضاؑ کا ایک فرزند تھا یا زیادہ اولاد تھی۔ مشہور قول یہ ہے کہ حضرتؑ کے ایک ہی بیٹے تھے جن کا نام محمد تھا۔
ابن شہر آشوب نے محمد بن طلحہ کے حوالے سے لکھا ہے: حضرت رضاؑ کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ بیٹوں کے نام محمد، قانع، حسن، جعفر، ابراہیم اور حسین جبکہ بیٹی کا نام عائشہ تھا۔
دلائل الحمیری میں ہے کہ
حنان بن سدیر نے کہا: میں نے حضرت رضاؑ سے عرض کیا کہ آیا ممکن ہے کہ امامؑ کا کوئی بیٹا نہ ہو؟! فرمایا: میرا صرف ایک بیٹا ہو گا مگر اس کی اولاد بکثرت ہو گی۔
ابن حشاب (متوفی ۵۶۷ھ) کے بقول حضرتؑ کے پانچ لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئے۔ بیٹوں کے نام محمد امام ابوجعفر ثانی، ابو محمد حسن، جعفر، ابراہیم اور حسین جبکہ لڑکی کا نام عائشہ ہے۔
مگر
العدد القویہ میں منقول ہے کہ حضرتؑ کے دو بیٹے تھے: ایک محمد اور دوسرے موسیٰ۔
شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ
قرب الاسناد کی روایت پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی تائید کی جا سکے؛ چونکہ قرب الاسناد میں منقول ہے کہ
بزنطی نے امام رضاؑ سے سوال کیا: میں کئی سالوں سے آپ کے بعد آنے والے خلیفہ کی بابت سوال کر رہا ہوں جس کے جواب میں آپؑ یہ فرماتے تھے: میرا فرزند۔ ان دنوں آپ کا ایک ہی بیٹا تھا۔ مگر آج اللہ نے آپ دو فرزند عطا کیے ہیں تو ان میں سے کون آپ کا جانشین ہو گا
نیز کتاب عیون اخبار الرضا میں منقول ہے کہ حضرتؑ کی فاطمہ نام کی ایک بیٹی بھی تھی۔
اعلام الوریٰ اور مناقب ابن شہر آشوب میں منقول ہے کہ حضرت رضاؑ کے ایک ہی فرزند تھے جن کا نام محمد بن علی جواد ہے اور آپ کی مزید کوئی اولاد نہیں ہے۔
رافعی لکھتے ہیں: مشہور یہ ہے کہ
علی بن موسی الرضاؑ ایک سفر میں
قزوین تشریف لے گئے اور داؤد بن سلیمان کے گھر میں مخفی ہو گئے؛ جیسا کہ اسحاق بن محمد اور علی بن مہرویہ نے ایک تحریر میں اسی داؤد کے واسطے سے امامؑ سے نقل کیا ہے کہ حضرتؑ کے ایک فرزند کا سن دو سال یا اس سے کم تھا کہ ان کا انتقال ہو گیا اور انہیں قزوین میں دفن کیا گیا۔
یہ وہی امام زادہ حسین ہیں جن کا مدفن آج قزوین میں موجود ہے۔ احتمال یہ ہے کہ یہ سفر سنہ ۱۹۳ہجری میں
ہارون الرشید کی موت کے بعد کیا گیا تھا۔
[ترمیم]
[ترمیم]
سایت پژوهه، ماخوذ از مقاله «ولادت امام رضا»۔