امام جواد علیہ السلام
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
امام جواد، ابو جعفر محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابیطالب علیھمالسلام،
بارہ آئمہؑ میں سے نویں امام اور
چہاردہ معصومینؑ میں سے ایک ہیں۔ آپؑ پہلے امامؑ ہیں جنہوں نے بچپن میں امامت کی ذمہ داری کو سنبھالا کہ جس کی وجہ سے اپنے پرائے شکوک و شبہات کا بھی شکار ہوئے؛ تاہم امامؑ کے علم لدنی کے مظاہر کو دیکھ کر شیعہ مسرور اور دشمن مایوس ہوئے۔ آپؑ نے اپنے والد گرامی حضرت امام رضاؑ کے مشن کو آگے بڑھایا اور انتہائی کٹھن اور مشکل حالات میں
اسلام کے تصور سیاست کے خدوخال واضح کیے نیز
وکلا کے نظام کا جال پورے عالم اسلام میں پھیلا دیا۔ درحقیقت امام جوادؑ کی جدوجہد اہل تشیع کو غیبت کبریٰ کیلئے آمادہ کرنے کے حوالے سے نہایت اہم ہے۔ آپؑ نے اہل تشیع کو یہ تربیت دی کہ کس طرح امامؑ کی غیر موجودگی میں اپنے
شرعی واجبات کو ادا بھی کرنا ہے اور اپنے امامؑ سے مربوط بھی رہنا ہے۔
[ترمیم]
اہل تشیع کے
رجالی و
حدیثی منابع میں حضرتؑ کی کنیت کے
امام محمد باقرؑ کی کنیت ساتھ اشتراک کی وجہ سے آپؑ کو
ابو جعفر ثانی کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔
حضرتؑ کی خاص کنیت ابو علی ہے۔
[ترمیم]
معتبر کتب میں معروف
لقب جواد
کے علاوہ متعدد دیگر القاب بھی حضرتؑ سے منسوب ہیں؛ منجملہ تقی، زکی، مرتضیٰ، قانع، رضی، مختار، متوکل، مرضی، متقی، منتجب، عالم ربّانی و ہادی۔
ایک روایت
کے مطابق
امام رضاؑ نے آپؑ کو صادق، صابر، فاضل، قرۃ اعین المؤمنین اور غیظ الملحدین کے القاب سے یاد کیا ہے۔
کتاب القاب الرسول و عترته کے نامعلوم مؤلف،
کے نزدیک امام جوادؑ لوگوں کے مابین
اہل بیتؑ کے عجائب روزگار، نادرۃ الدھر، بدیع الزمان، عیسیٰ ثانی اور ذوالکرامات کے القاب سے مشہور تھے۔
[ترمیم]
امام محمّدتقی دیگر
آئمہ معصومینؑ کی مانند نیک خصائل اور پسندیدہ
اخلاقیات میں اپنے
جد رسول خداؐ کی مثل تھے۔
عبادت و
زہد میں پوری طرح شہرت رکھتے تھے۔ اکثر و بشتر
روزے سے رہتے اور راتوں کو عبادت و راز و نیاز میں مشغول رہتے۔ اکثر اوقات رسول گرامیؑ کی یہ
حدیث آپؑ کی زبان مبارک پر ہوتی: جو شخص
نماز شب ادا کرے اس کا چہرہ
دن بھر زیبا و نورانی رہتا ہے۔
امام محمّد تقیؑ کی تواضع، آپؑ کی برجستہ صفت ہے۔ لوگوں کے ساتھ نہایت
تواضع اور مہربانی سے پیش آتے تھے اور فرماتے تھے:
تواضع زینت اور حسب و نسب کی
شرافت ہے۔
آپؑ کے جود و سخا کا تذکرہ سب لوگ کرتے تھے۔ آج بھی
امامؑ کو اس
صفت سے جانا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ’’جواد الآئمہؑ‘‘ آپؑ کا مشہور لقب ہے۔ جس کو آپؑ کی ضرورت پڑتی وہ حاجت لے کر واپس آتا تھا۔
بنو ہاشم اور آپؑ کے معصوم اجداد کے موقوفات میں سے جو کچھ آتا، آپؑ اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔
[ترمیم]
آپؑ کی
انگشتر کا نقش اپنے والد بزرگوار کی مانند «العزۃ للّه» تھا
اگرچہ آپؑ کی انگوٹھی کا نقش «حسبی اللّه حافظی»
اور «نِعْمَ الْقادِرُ اللّهُ»
بھی ذکر کیا گیا ہے۔
[ترمیم]
امام جواد،امام رضاؑ کے اکلوتے فرزند ہیں۔
آپؑ کی والدہ گرامی امام رضاؑ کی (
امّ ولد ) کنیز تھیں کہ جن کے معتبر کتب میں مختلف نام مذکور ہیں۔
شیخ مفید نے ان کا نام
سبیکہ اور ان کے وطن کا نام ’’نوبہ‘‘ لکھا ہے، بعض دیگر کتب میں سکینہ نام شاید اسی سبیکہ کی غیر صحیح قرائت و کتابت ہے۔۔
اسی طرح کہا گیا ہے کہ آپ کا نام’’دُرّه‘‘ تھا اور امام رضاؑ نے آپ کو ’’خیزران‘‘ کا نام دیا؛
(کہ سب نے خیزران و درہ کی غلط قرائت کو نقل کیا ہے) آپ کو
ام المومنین ماریہ قبطیہ کے خاندان سے بھی قرار دیا گیا ہے۔
دلائل الامامۃ میں آپ کا نام ریحانہ اور کنیت ام الحسن ذکر کی گئی ہے۔ ناموں میں تعدد کی بسا اوقات وجہ یہ ہوتی ہے کہ کنیزوں کو ان کے مالک بوجوہ مختلف اسما اور کنیات سے پکارا کرتے تھے۔
[ترمیم]
تمام معتبر کتب کے مطابق حضرتؑ کی ولادت
مدینہ میں ہوئی۔
آپؑ کی ولادت کا سال ۱۹۵ ہجری ہے۔
تاہم ولادت کی تاریخ میں اختلاف رائے ہے۔ مشہور قول کے مطابق آپؑ دس
رجب کو پیدا ہوئے جیسا کہ
شیخ طوسیؒ نے
مصباح المتھجد میں نقل کیا ہے، مگر زیادہ تر معتبر کتب نے امام کی تاریخ ولادت کو نیمہ
رمضان میں قرار دیا ہے۔
حضرت جوادؑ کی شہادت
بغداد میں ہوئی۔
زیادہ تر کتابوں کے مطابق آپ کی شہادت ۲۲۰ہجری کے آخر میں ہوئی۔
مسعودی
نے سنہ شہادت ۲۱۹ ذکر کیا ہے مگر
تستری نے یہ قول نادرست قرار دیا ہے۔ امام کی شہادت کا دن کچھ کتب میں پانچ یا چھ
ذی الحج اور بعض میں
ذی القعد مذکور ہے۔ اس طرح حضرتؑ کا سن مبارک ۲۵ سال سے کچھ زیادہ تھا۔
[ترمیم]
اکثر قدیم کتب میں امام جوادؑ کی
شہادت کو بصراحت بیان نہیں کیا گیا۔
تاہم مسعودی سے منسوب کتاب
اثبات الوصیہ ، میں امامؑ کے اپنی زوجہ ام فضل کے ہاتھوں مسموم ہونے کی مفصل روایت منقول ہے۔ اس کے مطابق ام فضل نے اپنے بھائیوں
معتصم عباسی اور جعفر کے ورغلانے اور امامؑ کی دوسری زوجہ سے حسد کی وجہ سے امامؑ کو زہر دیا مگر بعد میں پشیمان ہوئی۔
دیگر روایات کے مطابق معتصم کے ایک وزیر نے
خلیفہ کے حکم پر امام جوادؑ کو زہر دیا۔
بعض نے امام کی مسمومیت کا واقعہ قول مرجوح کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔
تاہم
شیخ مفیدؒ و
طبرسی
نے واضح لکھا ہے کہ یہ بات ان کے نزدیک ثابت نہیں ہوئی ہے۔ اگرچہ
کلینیؒ ،
مفیدؒ اور
طوسیؒ کے امامؑ کی طبعی رحلت پر مبنی اقوال کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا مگر بہت سے قرائن منجملہ امامؑ کی جوانی، بغداد میں امامؑ کی معتصم کے دربار میں طلبی اور وہیں اچانک رحلت سے امامؑ کی شہادت کے احتمال کو تقویت ملتی ہے۔
تاریخی کتب کے مطابق معتصم کے بیٹے واثق نے امامؑ کے جنازے پر
نماز ادا کی۔
امام جوادؑ کا مزار بغداد میں اپنے جد
موسیٰ بن جعفر کی قبر کے نزدیک بغداد کے مقابرِ
قریش میں واقع ہے۔
آج اس مقام کو
کاظمین کہا جاتا ہے۔
[ترمیم]
امام جوادؑ نے سات سال سے کچھ زیادہ عرصے تک امام رضاؑ کو درک کیا۔
آپؑ دو عباسی خلفا،
مأمون اور معتصم کے معاصر تھے۔
اس بنا پر، بعض کتب کی یہ روایت کہ
واثق عباسی (خلافت: ۲۲۷ـ۲۳۲) کے زمانے میں آپؑ کی رحلت ہوئی تھی،
درست نہیں ہے؛ چونکہ واثق ۲۲۷ہجری یعنی معتصم کی وفات کے وقت خلیفہ بنا۔
شاید حضرتؑ کی نماز جنازہ واثق کی جانب سے پڑھائے جانے کی روایت اس اشتباہ کا منشا ہے۔
امام جوادؑ کی زندگی کے واقعات سے متعلق تاریخی روایات کم ہیں۔ سیاسی پابندیاں بھی آئمہؑ کے بارے میں معلومات کی نشر و اشاعت کا راستہ روکتی تھیں، اس کے علاوہ حضرتؑ کی مختصر زندگی بھی تاریخی منابع میں روایات کے فقدان کی ایک وجہ ہے۔ اس کے علاوہ حضرت نے اپنی زیادہ تر زندگی مدینہ سے دور مرکزِ خلافت میں بسر کی ہے۔ سنہ ۲۰۰ھ میں مامون کے ایک امیر
رجا بن ابیضحاک نے مامون کے حکم سے امام رضاؑ کو مدینہ سے مرو کی طرف روانہ کر دیا۔
بیہقی کی
تاریخ بیھق ،
کے مطابق امام جواد سنہ ۲۰۲ھ، میں اپنے والد بزرگوار کی زیارت کیلئے بیھق سے
طوس تشریف لے گئے۔ بعض تاریخی کتب میں یہ روایت ہے کہ مامون نے اسی سال اپنی بیٹی ام حبیب کو امام رضاؑ کے عقد میں اور دوسری بیٹی ام فضل کو امام جوادؑ کے عقد میں دے دیا؛ یہ امر بیقہی کی روایت کی درستگی پر قرینہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح کچھ شیعہ
روایات کے مطابق امام جوادؑ اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے وقت سنہ ۲۰۳ھ میں مدینہ میں ہی رہائش پذیر تھے اور امام رضاؑ کو
غسل و
کفن دینے اور ان کی نماز جنازہ کی ادائیگی کیلئے
طوس تشریف لے گئے تھے۔
[ترمیم]
بظاہر امامؑ نے تین مرتبہ بغداد کا
سفر کیا۔
جعفر مرتضیٰ عاملی، (
کے مطابق پہلا سفر مامون کے بغداد آمد کے فوری بعد سنہ ۲۰۴ھ میں انجام پایا کہ جب اس نے امام جوادؑ کو مدینہ سے بغداد طلب کر لیا۔ اس کی تائید نعیبی
کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ جس کے مطابق امامؑ بچپن میں بغداد کے اندر موجود تھے اور آپؑ نے مامون کے ساتھ گفتگو کی۔
اگرچہ اس
روایت پر تنقید کی گئی ہے،
جعفر مرتضی عاملی نے سعی کی ہے کہ اس کی تائید کریں اور اس پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیں۔ دوسرا شاہد شیخ مفیدؒ کی روایت
ہے جس کے مطابق امام جوادؑ کے ام فضل کے ساتھ ازدواج کے وقت آپؑ کا سن مبارک نو برس تھا۔
دلائل الامامۃ
میں اس سے ملتی جلتی روایت منقول ہے مگر مذکور ہے کہ امامؑ کا سن مبارک سولہ برس تھا کہ جو بظاہر اشتباہ ہے؛
(چونکہ اس وقت امامؑ کا سن مبارک دس برس ہے اور یہ شیخ مفیدؒ کی روایت پر قابل تطبیق ہے)
امامؑ کا بغداد کی جانب ایک اور سفر سنہ ۲۱۵ھ میں ہے۔
جب مامون روم کے خلاف جنگ پر جا رہا تھا تو امام جوادؑ مدینہ سے بغداد پہنچے۔ آپؑ مامون سے ملاقات کیلئے تکریت شہر گئے اور وہاں سے ام فضل مامون کی اجازت سے امامؑ کے ساتھ ملحق ہو گئی۔ ایام
حج کی آمد تک امامؑ بغداد میں رہائش پذیر رہے، پھر اپنی زوجہ کے ہمراہ حج کی ادائیگی کیلئے
مکہ گئے اور وہاں سے مدینہ اپنے گھر واپس آ گئے۔
آخری مرتبہ ماہ
محرّم سنہ ۲۲۰ھ میں
معتصم عباسی نے امام کو مدینہ طلب کیا اور آپؑ نے ام فضل کے ہمراہ بغداد کا سفر کیا اور اپنی رحلت تک وہیں پر رہائش پذیر رہے۔
[ترمیم]
ولایت عہدی کے بعد مامون نے امام رضاؑ سے اپنی بیٹی ام حبیب کا عقد کیا اور اپنی دوسری بیٹی ام فضل کو امام جوادؑ کی زوجیت میں دے دیا۔
آیا حضرتؑ کی ام فضل سے تزویج امام رضاؑ کی شہادت سے پہلے تھی یا بعد میں؟! اس میں اختلاف ہے۔
شیعہ منابع میں مفصل روایت موجود ہے جسے شیخ مفیدؒ نے
الارشاد میں نقل کیا ہے؛
م
جو امامؑ کے اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد ام فضل سے ازدواج کی حکایت کرتی ہے۔ اس روایت کے مطابق حضرت جوادؑ کے ساتھ بہت محبت کی وجہ سے مامون نے اپنی بیٹی ام فضل کا آپؑ سے عقد کیا، مگر عباسی اس بات پر ناخوش تھے اور وہ امامؑ کی کم سنی کے بہانے اسے اس کام سے منع کر رہے تھے۔ مامون نے انہیں مطمئن کرنے کیلئے تجویز دی کہ حضرتؑ کا امتحان کیا جائے۔ امتحان کے دن عباسیوں نے
قاضی یحییٰ بن اکثم کو حاضر کیا تاکہ امامؑ کے ساتھ فقہی بحث کرے۔ مامون نے امام جوادؑ کے یحییٰ بن اکثم پر غالب آنے کے بعد اسی محفل میں اپنی بیٹی کا امامؑ سے عقد کر دیا اور عظیم الشان تقریب منعقد کی۔ سنہ ۲۰۴ھ میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں فقط عقد پڑھا گیا جبکہ ام فضل کو ۲۱۵ھ میں رخصتی کر کے مدینہ لے جایا گیا۔
[ترمیم]
امام جوادؑ سے ام فضل کا سلوک بظاہر ناروا تھا؛ یہاں تک کہ ام فضل نے ایک خط میں اپنے باپ کو شکایت کی کہ امامؑ نے اپنی
کنیز سے ازدواج کر لیا ہے مگر مامون نے اس کی شکایت پر توجہ نہیں دی اور اسے دوبارہ شکایت کرنے سے منع کر دیا۔
پہلے کہا جا چکا ہے کہ بعض نے حضرتؑ کے ام فضل کے ہاتھوں مسموم ہونے کی وجہ یہی بیان کی ہے۔
امفضل، امامؑ کی شہادت کے بعد معتصم عباسی کی زوجیت میں چلی گئی۔
حضرتؑ کی ام فضل سے اولاد نہیں تھی اور سمانہ نامی کنیز (ام ولد) سے آپؑ کے ہاں اولاد ہوئی۔
[ترمیم]
تمام تاریخی کتب میں امامؑ کے دو بیٹوں
علی الہادی (اہل تشیع کے دسویں امام) اور
موسی مُبَرقَع کا نام مذکور ہے؛
امامؑ کی نسل مبارک انہی دو سے آگے چلی۔
انساب کی بعض کتب میں اختلاف کے ساتھ چند اور بیٹوں کی بھی امامؑ سے نسبت دی گئی ہے۔
مگر قدیم منابع میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ امامؑ کی بیٹیوں کے مختلف نام ذکر کیے گئے ہیں؛ شیخ مفیدؒ
،
نے فاطمہ اور اَمامه دو نام لکھے ہیں۔ تاہم دلائل الامامۃ
میں امام کی بیٹیوں کے نام خدیجہ، حکیمہ اور ام کلثوم مذکور ہیں۔
فخر رازی نے بہجت اور بریھہ کے ناموں کا اضافہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان بیٹیوں کی نسل سے کوئی باقی نہیں رہا ہے۔ بظاہر امامؑ کی سب اولاد کی ماں سمانہ ہیں۔
[ترمیم]
منابع میں امامؑ کے ظاہری اوصاف کے بارے میں روایات نقل ہوئی ہیں، تاہم سب سے پہلے آپؑ کی اخلاقی صفات و کردار پر زور دیا گیا ہے؛ جیسا کہ جواد لقب اس امر کا حاکی ہے کہ حضرتؑ جود و سخا کے عنوان سے معروف تھے۔
آپؑ ہر ماہ کی ابتدا میں
صدقہ دیتے تھے،
لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے اور انہیں
سلام کرتے تھے،
لوگوں کی مشکلات کو برطرف کرنے کیلئے حکام کے سامنے ان کی
سفارش کرتے تھے۔
خطاؤں سے درگزر کرتے تھے
اور اپنے اصحاب کیلئے
دعا فرماتے تھے
. لوگ بھی آپؑ کا احترام کرتے تھے اور آپ سے محبت کرتے تھے۔
.
امام جوادؑ ہر روز
مسجد النبی میں تشریف لے جاتے تھے اور
پیغمبر اکرمؐ کو سلام کرتے تھے اور
حضرت فاطمہؑ کے گھر میں جا کر نماز ادا کرتے تھے۔
آپ کو نماز و دعا اور
عبادت میں بہت رغبت تھی؛ حضرتؑ سے منسوب ایک مخصوص نماز ہے۔
آپ سے منقول بڑی مقدار میں دعاؤں اور مناجات سے آپ کی دعاؤں میں رغبت کا اندازہ ہوتا ہے۔
ایام ہفتہ کے
تعویذات اور مشہور
حرز امامؑ سے منقول ہیں۔
[ترمیم]
امام جوادؑ کی امامت کے دلائل دیگر آئمہ کی طرح
نصوصِ عام اور
نصوصِ خاص پر مشتمل ہیں۔ یہ نصوص پیغمبر اکرمؐ بالخصوص امام رضاؑ سے اس باب میں وارد ہوئی ہیں۔ شیعہ حدیثی کتب میں صریح نصوص و احادیث امام رضاؑ کی زبانی اس عنوان سے وارد ہوئی ہیں کہ میرے بعد امام یہ ہوں گے۔ اس نص کے راویوں میں
علی بن جعفر ،
صفوان بن یحییٰ ،
معمر بن خالد ،
حسین بن یسار اور امام رضاؑ کے دیگر معتبر و معتمد اصحاب شامل ہیں۔کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۳۲۰ـ۳۲۳۔
امام رضاؑ کے ہاں بہت تاخیر سے اولاد نرینہ ہوئی تھی، اس لیے شیعوں کے درمیان تشویش پائی جاتی تھی حتی
واقفیہ نے اس امر کے بہانے حضرت رضاؑ کی امامت کا بھی انکار کر دیا تھا۔ اسی وجہ سے آپؑ نے امام جوادؑ کی ولادت کے موقع پر فرمایا کہ اس فرزند نے حق کو باطل سے جدا کر دیا ہے۔
[ترمیم]
امام جوادؑ کی ولادت کے بعد حضرت رضاؑ نے مختلف طریقوں سے آپؑ کی امامت کو ثابت کیا۔ لوگوں کو مطمئن کرنے کیلئے آپ نے اپنے اصحاب کو نومولود کے بدن پر مہرِ امامت کا نشان بھی دکھایا نیز یہ فرمایا کہ یہ انتہائی بابرکت فرزند ہے کیونکہ اس نے
واقفیہ کے شبہات کو زائل کر دیا ہے۔
امام رضاؑ، نے کم سنی میں امامت پر مبنی واقفیہ کے شبہات کو
حضرت عیسیٰ کے ساتھ آپؑ کا موازنہ کر کے برطرف کیا اور واضح کیا کہ کم سنی الہٰی امامت کے مقام پر فائز ہونے سے مانع نہیں ہوتی۔
[ترمیم]
شیخ مفیدؒ نے لکھا ہے کہ
حضرت رضاؑ دنیا سے تشریف لے گئے اور ہمیں ابو جعفر محمدؑ کے علاوہ ان کے کسی فرزند کا علم نہیں ہے۔ ابو جعفر محمدؑ نے اپنے والد بزرگوار کے بعد امامت کے فرائض کو سنبھالا۔
اسی طرح، امام رضاؑ سے منقول ہے کہ آپؑ نے بصراحت اپنے فرزند ارجمند کو
وصی و
امام کے عنوان سے یاد کیا تھا۔
اس کے علاوہ امام محمد تقیؑ کی اپنے اہل زمان پر آشکار برتری آپؑ کی
امامت پر ایک اور دلیل ہے۔
[ترمیم]
ان روشن دلیلوں کے باوجود امام رضاؑ کی رحلت کے بعد
شیعوں میں امامؑ کی امامت کے حوالے سے اختلاف پیدا ہوا۔
اس اختلاف کا بنیادی سبب امام جوادؑ کا بچپن تھا۔ اس حوالے سے جب امام جوادؑ سے سوال ہوا تو حضرتؑ نے اپنے حالات کا
امام علیؑ کے ساتھ موازنہ کیا کہ آپؑ نے بھی نو سال کے سن میں قبولِ
اسلام کا اعلان کیا تھا یا
حضرت سلیمانؑ سے موازنہ کیا کہ داؤدؑ نے بچپن میں ہی انہیں اپنا جانشین بنایا تھا۔
افواہیں پھیلانے والے یہ کہتے پھرتے تھے کہ
بلوغ، امامت کی شرط ہے اور بچہ
احکام و
عقائد کے دقیق مسائل کے ادراک پر قادر نہیں ہے کہ جن کی امت کو ضرورت ہے۔
[ترمیم]
اس کے مقابلے میں امام جوادؑ کی امامت کے قائلین کا استدلال یہ تھا کہ آئمہؑ
زمین پر
خدا کا
برہان اور اس کی حجت ہیں اور ان کے ظاہری سن و سال کو معیار نہیں بنایا جا سکتا۔
[ترمیم]
یہ جماعت
علمِ امام کی کیفیت و منشا کے حوالے سے چند نظریات رکھتی تھی۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ آپؑ نے اپنے والد سے علم لیا ہے۔ کچھ نے کہا ہے امامت کے بالفعل آغاز کو بلوغ کے بعد تک موخر کر دیا تھا اور ان کا خیال تھا کہ امام بلوغ کے بعد مختلف راہوں؛ مثلا
الہام و
خواب کے ذریعے امامت کے علوم تک دسترس حاصل کرتا ہے؛ اگرچہ بلوغ سے پہلے بھی امامت ان کا حق ہے؛ کیونکہ امام رضاؑ کی آپؑ کی امامت پر نص موجود ہے اور آپؑ امامؑ کے اکلوتے
فرزند ہیں۔
بعض کا یہ خیال بھی تھا کہ بلوغ سے قبل امام کے
اوامر و
نواہی کی اطاعت
واجب نہیں ہے اور ضروری ہے کہ علوم
دین اور امت کی مصلحت سے آگاہ کوئی اور شخص امور کو اپنے ہاتھ میں لے جب تک امام ضروری شرائط کو کسب کر لیں۔
ان کے نزدیک علمِ امام کا منشا بلوغ کے بعد
الہام یا کوئی مخصوص طریقہ نہیں ہے بلکہ ان کے آباؤ اجداد سے پہنچنے والی کتب اور علمی میراث ہی ان کے علم کا منشا ہے؛ حتی بعض نے علم نہ رکھنے کی صورت میں گمان کیا ہے کہ آئمہؑ کیلئے قیاس بھی روا ہے، اگرچہ وہ اشتباہ و خطا سے محفوظ ہیں۔
کچھ اور لوگوں کے نزدیک امام کے بچپن میں
علمِ الہٰی سے برخوردار ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ وہ خدا کی حجت ہیں؛ ان کیلئے تمام قدرتی اسباب و عوامل فراہم ہیں اور اس بارے میں چند انبیائے سابق جیسے
یحییؑ ،
عیسیؑ ،
یوسفؑ اور
سلیمانؑ کو بطور دلیل پیش کرتے تھے کہ اس بنیاد پر علمِ لدنّی حجت خدا کو حاصل ہو سکتا ہے خواہ وہ نابالغ ہی کیوں نہ ہو!
شیعہ، مسئلہ امامت کا الہٰی جنبے کے تناظر میں جائزہ لیتے ہیں۔ ان کے عقیدے میں امامؑ کے کم سن ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر اس کے باوجود ان کا اس بات پر اصرار تھا کہ اس الہٰی علم کے اظہار کیلئے ضروری ہے کہ سوالات پیش کر کے آپؑ کو آزمایا جائے؛
چنانچہ
ایام حج میں فقہا نے یہ کام انجام دیا۔
اس کے علاوہ مختلف اوقات اور مواقع پر امام جوادؑ سے متعدد سوالات پوچھے گئے اور حضرتؑ نے کم سنی کے باوجود ان سب کا جواب دیا۔
اس زمانے میں اختلافات اور شکوک و شبہات کے باوجود
شیعہ قوم کے اندر کوئی بحرانی کیفیت پیدا نہیں ہوئی۔
نظریاتی مسائل کا امام رضاؑ کی وفات کے بعد مناسب جواب ملنے کے بعد تمام اہل تشیع نے امام جوادؑ کی امامت کو قبول کر لیا؛
اگرچہ کچھ گروہوں جیسے
زیدیہ و
اسماعیلیہ ، بعض اوقات امام جوادؑ کی امامت پر تنقید بھی کرتے تھے۔
[ترمیم]
امام جوادؑ شیعہ کے بارہ
آئمہؑ میں سے پہلے فرد تھے جو
بچپن میں امامت کے منصب پر فائز ہوئے۔ آپؑ کے بعد
امام ہادیؑ اور
امام مہدیؑ بھی بچپن میں ہی امامت پر فائز ہوئے۔
کچھ لوگ اس مسئلے کو بہانہ بنا کر
شبہہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سعی کرتے ہیں کہ امام جوادؑ کی امامت کو تردید کا نشانہ بنائیں۔
اگرچہ
بشر کی
تاریخ میں ایسے لوگوں کو دیکھا جا سکتا ہے جو
بچپن میں ہی غیر معمولی خداداد ذہانت و فطانت سے بہرہ مند ہوتے تھے؛ اس رو سے امامؑ کی کم سنی کو امامت کے رد پر دلیل شمار نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم
شیعوں کے پاس اس حوالے سے مزید دلائل بھی موجود ہیں:
[ترمیم]
۱۔ خدا پر
ایمان کا لازمہ یہ ہے کہ
انسان اس امر پر بھی ایمان لائے کہ اللہ کے تمام افعال
مصلحت کے تحت ہیں اور بلا چون و چرا ان کے سامنے سر تسلیم خم کیا جائے۔
خدا،
قادر و
حکیم ہے اور مصلحت کی بنیاد پر اپنے
منتخب بندے کو کم سنی میں امامت عطا کر دیتا ہے، یہ بات نہ ہی محال ہے اور نہ ہی اس سے کوئی تناقض پیش آتا ہے۔
۲۔
نصّ قرآن، کی بنیاد پر
حضرت عیسیؑ اور
یحییؑ کم سنی میں
نبوت کے منصب پر فائز ہوئے۔
۳۔
اسلامی تاریخ میں ایسے نمونے موجود ہیں کہ عظیم اور اہم کام کم سن افراد کے سپرد کیے گئے؛ جیسے
امام علیؑ کی جانب سے
پیغمبرؐ کی بچپن میں بیعت،
مباہلے میں
امام حسنؑ،
امام حسینؑ کا کردار نیز
فدک کے معاملے میں ان کی
خلیفہ اول کے سامنے گواہی!
۴۔ حضرت جوادؑ کی کم سنی میں امامت نے مسلمانوں کے ذہن کو
حضرت مہدیؑ کی امامت اور بچپن میں غیبت کو قبول کرنے پر آمادہ کیا۔
۵۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جوادؑ کی کم سنی میں امامت
شیعوں کا ایک سخت
امتحان تھا تاکہ حقیقی
مومنین کا پتہ چل سکے اور وہ ایمان کے بلند مقام پر فائز ہو سکیں۔ اس واقعے میں کچھ ایسے لوگ راستے سے ہٹ گئے جن کا
ایمان کمزور تھا یا وہ شک و تردید کا شکار تھے۔
[ترمیم]
شیعہ منابع میں امام جوادؑ کی طرف بعض
کرامات اور غیر معمولی افعال کی نسبت دی گئی ہے، منجملہ ولادت کے وقت بات کرنا،
مدینہ سے خراسان
طیالارض کر کے امام رضاؑ کے غسل و کفن کیلئے پہنچنا،
مریضوں کو شفا دینا،
اپنے دوستوں کے حق میں دعاؤں کا قبول ہونا اور دشمنوں کے خلاف بددعا کا قبول ہونا،
لوگوں کے باطن اور اندرونی حالات کی خبر دینا،
مستقبل کے واقعات کی خبر دینا
؛
اپنی شہادت کے وقت سے آگاہی
یہ کرامات اور بالخصوص جو بیانات آپؑ کے علم لدنی کی نشانی ہیں؛ حتی حضرتؑ کے مخالفین و منکرین کے دلوں پر بھی ان کا اثر ہوتا تھا اور وہ آپؑ کی امامت کی تصدیق کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔
[ترمیم]
عباسی خلفا نے امام موسیٰ کاظمؑ کی امامت کے زمانے سے یہ طے کر رکھا تھا کہ علویوں اور آئمہؑ کے محبین کی مزاحمت اور آزادی پسند تحریکوں کو کچلنے کیلئے شیعہ ائمہؑ کو نظر بند رکھا جائے۔ اسی وجہ سے
ساتویں امام کو اسیر کیا گیا۔
مأمون نے امام رضاؑ کے خلاف مختلف نوعیت کی سیاسی چال کھیلی۔
اس نے حضرتؑ کی
ولایت عہدی پر نامزدگی اور اپنی بیٹی کی امامؑ سے تزویج کر کے یہ کوشش کی کہ امامؑ کے ساتھ اپنا رابطہ مضبوط کر کے علویوں کے درمیان پھوٹ ڈال دے کہ جو مسلح مزاحمت کا ارادہ رکھتے تھے اور امامؑ کو عباسیوں کے محل میں محصور کر دے۔
اس نے امام جوادؑ کے خلاف بھی اسی سیاست سے کام لیا اور ام فضل کو حضرتؑ کے عقد میں دے دیا تاکہ اس طرح انہیں زیر نگرانی رکھا جا سکے۔
یہ فیصلہ عباسیوں کیلئے خوش آئند نہ تھا اور انہوں نے اسے خبردار کیا کہ امام جوادؑ کے ساتھ بھی آخر کار تمہارا وہی معاملہ ہو سکتا ہے جو امام رضاؑ کے ساتھ پیش آیا تھا۔
اس کے باوجود مامون، امام جوادؑ سے بہت اظہار محبت کرتا تھا اور آپؑ کی تعظیم و تکریم کرتا تھا۔
[ترمیم]
امام صادقؑ کے زمانے سے ہی آئمہؑ اپنے شیعوں سے شرعی وجوہات اور ہدایا قبول کرتے تھے؛
مگر امام صادقؑ نے کسی کو اموال کی وصولی پر وکیل نہیں بنایا تھا۔
نظامِ وکالت کی بنیاد امام کاظمؑ نے رکھی۔ امامؑ کے وکلا مختلف شہروں میں زندگی بسر کرتے تھے۔
امام رضاؑ نے اپنے والد گرامی کے قائم کردہ منظم سلسلے کو باقی رکھا اور اپنی جانب سے تمام مقامات پر وکیل منصوب فرمائے۔
امام رضاؑ کے وکلا نے بھی ایام حج میں حضرت جوادؑ کا امتحان لینے اور آپؑ کی حقانیت پر یقین کرنے کے بعد اپنا کام پہلے کی طرح جاری رکھا۔
[ترمیم]
شیعہ امامیہ سارے اسلامی ممالک میں بکھرے ہوئے تھے،
ایام حج، میں ان کی امام جوادؑ سے براہ راست ملاقات ہوا کرتی تھی جبکہ عام دنوں میں دیگر شہروں میں موجود وکلا کے ذریعے وہ امامؑ سے مربوط رہتے تھے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:
علی بن مَہزیار اہواز میں،
ابراہیم بن محمد ہمدانی ہمدان میں،
یحییٰ بن ابی عمران ری میں،
یونس بن عبدالرحمٰن اور
ابوعمرو حَذّاء بصره میں،
علی بن حسان واسطی بغداد میں،
علی بن اسباط، مصر میں،
صفوان بن یحییٰ،
کوفہ میں،
صالح بن محمد بن سہل اور
زکریا بن آدم ،
قم میں۔
حضرت جوادؑ کے مستقل نمائندگان کے علاوہ خصوصی نمائندے بھی ہوا کرتے تھے جنہیں امامؑ مختلف شہروں میں روانہ کیا کرتے تھے تاکہ مستقل نمائندگان کے پاس جمع شدہ شرعی وجوہات کو جمع کر کے لائیں۔
امامؑ کے چند شیعوں کو یہ اجازت بھی ملی کہ حکومت میں شامل ہو جائیں اور ان میں سے بعض افراد اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہوئے،
منجملہ
محمد بن اسماعیل بن بَزِیع ، وزیر تھے۔
یہ سب امور مخفیانہ نظام وکالت کی سرگرمیوں کا حصہ تھے کہ جس کا ہدف،
شیعہ امامیہ کے مالی و مذہبی فرائض کی ادائیگی کا سامان فراہم کرنا تھا۔
[ترمیم]
امامیه کی معتبر کتب میں نظام وکالت کے تحت کسی قسم کے فوجی اقدامات کا ذکر نہیں ملتا، تاہم
جاسم حسین نے اہل قم کی مسلح مزاحمت کو امام جوادؑ سے مربوط قرار دیا ہے؛ قابل ذکر ہے کہ اس مزاحمت کو مامون کے حکم پر سنہ ۲۱۰ھ میں کچل دیا گیا اور اس میں امام جوادؑ کے ایک وکیل
یحییٰ بن عمران کو قتل کیا گیا۔
ان کے نزدیک
مأمون، امام جوادؑ کو اس مسلح مزاحمت سے مربوط سمجھتا تھا؛ اس لیے سنہ ۲۱۵ھ میں اس نے امامؑ کو مدینہ سے بلا بھیجا اور ان پر دباؤ ڈالا کہ اپنی زوجہ ام فضل جو ابھی باپ کے گھر میں تھی؛ کو اپنے ساتھ مدینہ لے جائیں۔ یہ ازدواج نہ امامیہ کی مامون کیلئے ہمدردی کا سبب بنا اور نہ ہی اس سے اہل قم کی مزاحمت میں کوئی فرق آیا۔
اس مسلح مزاحمت کے ایک رہنما
جعفر بن داؤد قمی، کو مصر جلا وطن کر دیا گیا تھا مگر سنہ ۲۱۶ھ میں وہ ایک مرتبہ پھر مصر سے فرار ہو کر قم پہنچے اور مامون کی فوج کو شکست سے دوچار کیا۔
سنہ ۲۱۷ھ میں عباسیوں نے ان کے قیام کو کچل کر انہیں قتل کر دیا؛
مگر اس کے بعد علویوں کے مخفی قیام زیادہ وسیع ہو گئے اور معتصم نے ناچار امام جوادؑ اور
امام زین العابدینؑ کے ایک پوتے
محمد بن قاسم کو بغداد طلب کر لیا تاکہ شیعہ کی مخفی مزاحمت پر ان کے اثر و رسوخ کا جائزہ لے سکے۔
[ترمیم]
امام جوادؑ کی امامت کے آخری سالوں میں آپؑ کے وکلا کی سرگرمیاں مزید پھیل چکی تھیں؛
یہاں تک کہ امام جوادؑ نے ’’جنگ خرمیہ‘‘ میں شرکت کرنے والے خراسان کے شیعوں کو حکم دیا کہ اپنا خمس وکلا کے ذریعے انہیں ادا کریں۔
اسی طرح امامؑ نے معتصم کی جانب سے بغداد طلبی کا حکم نامہ سنے کے بعد اپنے نمائندے محمد بن فرج سے کہا کہ خمس ان کے سپرد کر دیں۔
[ترمیم]
اگرچہ امام جوادؑ بچپن میں امامت کے منصب پر فائز ہو گئے تھے اور آپ کی امامت کا دورانیہ بھی مختصر تھا، مگر اس کے باوجود شیعہ اور بہت سے اہل سنت منابع میں آپؑ سے منسوب دو سو احادیث منقول ہیں؛ جن سے آپ کے علمی مقام اور فقہی، تفسیری، عقائدی اور اخلاقی مسائل پر احاطے کا اندازہ ہوتا ہے۔ مشکل سیاسی حالات کے باعث کچھ عرصے تک حضرتؑ نے اپنی امامت کو مخفی رکھا؛
؛ اس اعتبار سے شیعوں کے امام سے ارتباط کا سادہ ترین راستہ نامہ نگاری تھا۔
حضرتؑ سے منقول بہت سے معارف و مطالب آپؑ کے اپنے شیعوں کی طرف ارسال کردہ خطوط میں درج ہیں۔
شیعہ، بذریعہ خطوط اپنے سوالات جو زیادہ تر فقہی نوعیت کے ہوتے تھے؛ امامؑ کو ارسال کرتے تھے اور امامؑ ان کا جواب دیتے تھے۔
امامؑ جن افراد کو نامہ لکھا کرتے تھے، ان کے نام اکثر مقامات پر مشخص ہیں۔
موسوعۃ الامام الجواد ،
میں تمام
حدیثی اور
رجالی منابع سے تریسٹھ افراد کے نام جمع کیے گئے ہیں کہ جن کے ساتھ امامؑ، خط و کتابت کیا کرتے تھے، تاہم کچھ خطوط شیعوں کے کسی گروہ کے جواب میں تحریر کیے جاتے تھے۔
اور کچھ مقامات پر خط لکھنے والے کا نام معلوم نہیں ہے۔
[ترمیم]
حدیثی منابع کے مطابق، امام جوادؑ نے بہت سی احادیث کی روایت پیغمبرؐ یا سابق آئمہؑ سے کی ہے۔
شیعہ کی چار حدیثی کتب اور دیگر روائی کتب میں حضرت جوادؑ سے متعدد فقہی احادیث منقول ہیں کہ جن کے موضوعات میں تنوّع قابل توجہ ہے۔ تقریبا آدھے سے زیادہ فقہی ابواب و موضوعات میں آپؑ سے احادیث منقول ہوئی ہیں۔
اسی طرح عقائد جیسے توحید، صفاتِ خدا اور نبوت و امامت کے بارے میں امام جوادؑ سے احادیث مرویّ ہیں۔
[ترمیم]
حضرتؑ سے منقول احادیث کا ایک حصہ
تفسیری روایات پر مشتمل ہے۔ یہ احادیث زیادہ تر فقہی
و کلامی
انداز کی حامل ہیں اور بعض اوقات ان میں بعض آیات کی تاویل بھی کی گئی ہے۔
[ترمیم]
حضرتؑ سے مروی احادیث کا ایک حصہ فقہی و کلامی مسائل میں آپؑ کے مناظرات و احتجاجات پر مبنی ہے۔ امام جوادؑ کو دو گروہوں کی طرف سے مناظرے کی دعوت دی گئی: بعض شیعوں کی جانب سے کم سنی کے باعث اور مامون و معتصم کی جانب سے جو بظاہر آئمہؑ سے محبت اور علم دوستی کے دعویدار تھے مگر درحقیقت آئمہؑ کے علم لدنی کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔
ان میں امام جوادؑ کا یحییٰ بن اکثم کے ساتھ مناظرہ مشہور ہے جو
صید اور
حرم کے احکام سے متعلق تھا۔ اس مناظرے میں پہلے امامؑ نے مسئلے کی شقیں بیان کیں جنہیں سن کر یحییٰ حیران و پریشان ہو گیا اور مامون نے خوشی کا اظہار کیا۔
ابن تیمیہ ،
نے امام جوادؑ، کی تعریف و تمجید کے ضمن میں اس روایت کی صحت پر اظہار تردید کیا ہے اور اس کے مضمون پر تنقید کی ہے۔
حسینیمیلانی نے اس کی تنقید کو بے جا قرار دیا ہے کیونکہ ابن تیمیہ کی تنقید اس کی تلخیص پر ہے جسے
علامہ حلیؒ نے
منہاج الکرامۃ میں روایت کیا ہے، مگر مکمل روایت کو
شیخ مفیدؒ نے نقل کیا ہے؛
جس کے مطابق، امامؑ نے مامون کی خواہش پر ان فروض میں سے ہر ایک کا جواب بھی دیا اور پھر
یحییٰ بن اکثم سے ایک سوال کیا کہ جس کا جواب دینے سے وہ قاصر رہا اور پھر امامؑ نے اس کا جواب بھی دیا۔
ایک اور مناظرہ معتصم کی موجودگی میں
سارق کی حد کے بارے میں انجام پایا کہ جس میں امامؑ کے جواب نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
اس روایت میں آیا ہے کہ اسی مناظرے کے نتیجے میں معتصم نے امامؑ کو زہر دینے کا ارادہ کیا۔
[ترمیم]
حضرتؑ کے
اخلاقی مواعظ اور حکمت آمیز
کلماتِ قصار حدیث و
ادب کی کتب میں مذکور ہیں۔
آپؑ کے کچھ حکیمانہ کلمات
ابن حمدون کی کتاب
التذکرۃ الحمدونیۃ میں بھی منقول ہیں۔ ان اقوال کے زیادہ تر موضوعات اخلاقی ہیں؛ از قبیل
تقویٰ ،
اخلاص ،
توکل ،
شکر نعمت ،
توبہ ،
حصولِ
علم کی تلقین،
ہوائے نفس و اور نفاق جیسے رذائل سے پرہیز۔
ان میں سے کچھ
احادیث [[طب]] کے حوالے سے ہیں کہ جن میں بعض بیماریوں کا علاج امامؑ سے منقول ہے۔
[ترمیم]
حضرت جوادؑ کی احادیث کے راوی بہت زیادہ ہیں۔
شیخ طوسیؒ نے ان میں سے ایک سو سولہ اشخاص کو شمار کیا ہے؛ اگرچہ ان میں سے خاص اور بااعتماد اصحاب کی تعداد قلیل ہے۔
علی بن مہزیار اہوازی ،
ابو ہاشم داؤد بن قاسم جعفری،
عبد العظیم حسنی،
احمد بن محمد بَزَنطی اور
علی بن اسباط کوفی؛ امامؑ کے بااعتماد اور
ثقہ اصحاب میں سے ہیں اور انہوں نے دوسروں کی نسبت آپؑ سے زیادہ احادیث نقل کی ہیں۔
اسی طرح
احمد بن ابی خالد اور
موفق بن ہارون ، دونوں امامؑ کے خادم ہیں جبکہ
عثمان بن سعید عَمْری اور
عمرو بن فرات ،
حضرتؑ کے علم کے ابواب تھے اور انہوں نے آپؑ سے روایات نقل کی ہیں۔
[ترمیم]
امامؑ نے کچھ افراد پر طعن بھی کیا ہے اور ان کی مذمت کی ہے؛ منجملہ غالی کہ جن کا شیعوں کو بدنام کرنے میں بڑا حصہ ہے اور آئمہؑ ان سے متنفر تھے، وہ غلو آمیز روایات وضع کرتے اور انہیں آئمہؑ سے منسوب کرتے تھے جبکہ خود کو آئمہؑ کے نمائندے ظاہر کرتے تھے۔
علی بن مہزیار سے منقول ایک روایت میں امام جوادؑ نے غالیوں کے سرغنہ
ابو الخطاب محمد بن ابی زینب اور اس کے ساتھیوں (
ابو الغمر ،
جعفر بن واقد اور
ہاشم بن ابی ہاشم ) پر
لعنت کی ہے۔
ایک اور روایت کے مطابق، امامؑ نے اپنے ایک صحابی کو حکم دیا کہ دو غالیوں
ابو السمہری اور
ابن ابی الزرقاء ، کو قتل کر دے۔
[ترمیم]
امام جوادؑ،
واقفہ /
واقفیہ اور
زیدیہ کی مذمت کرتے تھے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
(۱) ابن ابیالثلج، تاریخالائمه، در مجموعه نفیسه فی تاریخالائمه، چاپ محمود مرعشی، قم: کتابخانه آیهاللّه مرعشینجفی، ۱۴۰۶۔
(۲) ابن ابیطاهر، کتاببغداد، چاپ محمد زاهد بن حسن کوثری، قاهره ۱۳۶۸/ ۱۹۴۹۔
(۳) ابن اثیر، الکامل فی التاریخ۔
(۴) ابن بابویه، الامالی، قم۱۴۱۷۔
(۵) ابن بابویه، التوحید، چاپ هاشم حسینیطهرانی، قم۱۳۸۷۔
(۶) ابن بابویه، عیون اخبارالرضا، چاپ مهدی لاجوردی، قم۱۳۶۳ شمسی۔
(۷) ابن بابویه، کتاب من لایحضره الفقیه، چاپ علیاکبر غفاری، قم ۱۴۰۴۔
(۸) ابن بابویه، معانیالاخبار، چاپ علیاکبر غفاری، قم۱۳۶۱ شمسی۔
(۹) ابن بسطام (حسین بن بسطام) و ابن بسطام (عبداللّه بن بسطام)، طب الائمه علیهمالسلام، نجف) ۱۳۸۵ (، چاپ افستبیروت)۔
(۱۰) ابن تیمیه، منهاج السنه النبویه، چاپ محمدرشاد سالم، حجاز ۱۴۰۶/۱۹۸۶۔
(۱۱) ابن جوزی، المنتظم فی تاریخالملوک و الامم، چاپمحمد عبدالقادر عطا و مصطفیعبدالقادر عطا، بیروت۱۴۱۲/۱۹۹۲۔
(۱۲) ابن حمدون، التذکرهالحمدونیه، چاپ احسان عباس، بیروت۱۹۸۳ـ ۱۹۸۴۔
(۱۳) ابن حمزه، الثاقب فی المناقب، چاپ نبیل رضا علوان، قم ۱۴۱۲۔
(۱۴) ابن خشاب، تاریخ موالید الائمه و وفیاتهم، در مجموعه نفیسه فی تاریخالائمه۔
(۱۵) ابن خلّکان، وفیات الاعیان وأنباء ابناء الزمان۔
(۱۶) ابن شعبه، تحف العقول عن آلالرسول، چاپعلیاکبر غفاری، قم۱۳۶۳ شمسی۔
(۱۷) ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
(۱۸) ابن صباغ، الفصول المهمه فی معرفه احوال الائمه علیهمالسلام، بیروت۱۴۰۸/۱۹۸۸۔
(۱۹) ابن طاووس، جمال الاسبوع بکمال العمل المشروع، چاپجواد قیومیاصفهانی، مؤسسهالا´فاق، ۱۳۷۱ شمسی۔
(۲۰) ابن طاووس، الدروع الواقیه، چاپجواد قیومیاصفهانی، قم۱۴۱۴الف۔
(۲۱) ابن طاووس، مهجالدعوات و منهجالعبادات، قدم له و علق علیه حسیناعلمی، بیروت۱۴۱۴ھ۔
(۲۲) ابن طولون، الائمه الاثناعشر، چاپ صلاحالدینمنجد، بیروت ۱۳۷۷/ ۱۹۵۸۔
(۲۳) ابن عنبه، عمدهالطالب فی انساب آلابیطالب، چاپ مهدی رجائی، قم۱۳۸۳ شمسی۔
(۲۴) الاختصاص، منسوب به محمد بن محمد مفید، چاپعلیاکبر غفاری، قم: جامعه مدرسین حوزه علمیه قم۔
(۲۵) یزید بن محمد ازدی، تاریخ الموصل، چاپ علی حبیبه، قاهره۱۳۸۷/ ۱۹۶۷۔
(۲۶) سعد بن عبداللّهاشعری، کتاب المقالات و الفرق، چاپ محمدجواد مشکور، تهران۱۳۴۱شمسی۔
(۲۷) علی بن اسماعیلاشعری، کتابمقالاتالاسلامیین و اختلافالمصلّین، چاپ هلموت ریتر، ویسبادن۱۴۰۰/ ۱۹۸۰۔
(۲۸) احمد بن محمدبرقی، کتابالمحاسن، چاپ جلالالدین محدثارموی، تهران ۱۳۳۰ شمسی۔
(۲۹) علی بن عیسیبهاءالدیناربلی، کشفالغمه فی معرفهالائمه، چاپ هاشم رسولیمحلاتی، بیروت ۱۴۰۱/ ۱۹۸۱۔
(۳۰) علی بن زید بیهقی، تاریخ بیهق، چاپاحمد بهمنیار، تهران۱۳۶۱ شمسی۔
(۳۱) محمدتقی تستری، رساله فی تواریخ النبی و الا´ل علیهمالسلام، قم ۱۴۲۳۔
(۳۲) محمدرضا جباری، سازمان وکالت و نقش آن در عصر ائمه (علیهمالسلام)، قم۱۳۸۲ شمسی۔
(۳۳) رسولجعفریان، حیات فکری و سیاسی امامانشیعه علیهمالسلام، قم۱۳۸۴ شمسی۔
(۳۴) حسین بن عبدالوهاب، عیون المعجزات، نجف ۱۳۶۹/ ۱۹۵۰۔
(۳۵) محمدحسین حسینیجلالی، مزارات اهلالبیت «ع» و تأریخها، بیروت۱۴۱۵/ ۱۹۹۵۔
(۳۶) علیحسینی میلانی، شرح منهاج الکرامه فی معرفهالامامه، قم۱۳۷۶ شمسی۔
(۳۷) حسین بن محمد حلوانی، نزهه الناظر و تنبیه الخاطر، قم ۱۴۰۸۔
(۳۸) حسین بن حمدانخصیبی، الهدایهالکبری، بیروت ۱۴۰۶/۱۹۸۶۔
(۳۹) خطیب بغدادی، تاریخ بغدادی ۔
(۴۰) دلائلالامامه، منسوب به محمد بن جریر طبری آملی، قم: مؤسسه البعثه، ۱۴۱۳۔
(۴۱) محمد بن حسن دیلمی، اعلام الدین فی صفات المؤمنین، قم ۱۴۰۸۔
(۴۲) محمد بن احمد ذهبی، تاریخالاسلام و وفیات المشاهیر و الاعلام، چاپ بشارعوّاد معروف، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
(۴۳) قاسم بن ابراهیم رسی، الرد علی الرافضه، چاپ حنفیعبداللّه، قاهره۱۴۲۰/۲۰۰۰۔
(۴۴) سبط ابن جوزی، تذکرهالخواص، بیروت۱۴۰۱/۱۹۸۱۔
(۴۵) حسین شاکری، الجواد محمد علیهالسلام، قم ۱۴۱۹۔
(۴۶) جلاء العیون، چاپ علی بن محمد، نجف۱۳۷۴/۱۹۵۴۔
(۴۷) محمد بن حسن صفار قمی، بصائر الدرجات الکبری فی فضائل آلمحمد (ع)، چاپ محسن کوچه باغی تبریزی، تهران ۱۳۶۲ شمسی۔
(۴۸) ضامن بن شدقم، تحفه الازهار و زلال الانهار فی نسب ابناء الائمه الاطهار، چاپ کامل سلمان جبوری، تهران۱۳۷۸ شمسی۔
(۴۹) احمد بن علیطبرسی، الاحتجاج، چاپ محمدباقر موسویخرسان، نجف۱۳۸۶/ ۱۹۶۶ چاپ افست قم۔
(۵۰) حسن بن فضلطبرسی، مکارمالاخلاق، قم۱۳۹۲/۱۹۷۲۔
(۵۱) فضل بن حسنطبرسی، اعلام الوری باعلامالهدی، قم۱۴۱۷۔
(۵۲) فضل بن حسنطبرسی، تاج الموالید فی موالید الائمه و وفیاتهم، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه۔
(۵۳) طبری، تاریخ طبری، (بیروت)۔
(۵۴) محمد بن حسن طوسی، الاستبصار، چاپ حسن موسویخرسان، نجف ۱۳۷۵ ـ۱۳۷۶/ ۱۹۵۶ـ۱۹۵۷، چاپ افست تهران ۱۳۶۳ شمسی۔
(۵۵) محمد بن حسن طوسی، تهذیبالاحکام، چاپ حسن موسویخرسان، تهران۱۳۹۰۔
(۵۶) محمد بن حسن طوسی، رجال الطوسی، چاپ جواد قیومیاصفهانی، قم۱۴۱۵۔
(۵۷) محمد بن حسن طوسی، مصباح المتهجد، بیروت۱۴۱۱ /۱۹۹۱۔
(۵۸) جعفرمرتضیعاملی، الحیاه السیاسیه للامامالجواد علیهالسلام: نبذه یسیره، بیروت۱۴۰۵/۱۹۸۵۔
(۵۹) عزیزاللّه عطاردیقوچانی، مسند الامامالجواد ابیجعفر محمد بن علیالرضا علیهماالسلام، قم ۱۴۱۰۔
(۶۰) حسن بن یوسف علامهحلّی، منهاج الکرامه فی معرفه الامامه، چاپ عبدالرحیم مبارک، مشهد ۱۳۷۹ شمسی۔
(۶۱) علی بن محمد عمری، المجدی فی انساب الطالبیین، چاپ احمد مهدوی دامغانی، قم۱۴۰۹۔
(۶۲) محمد بن مسعود عیاشی، کتاب التفسیر، چاپ هاشم رسولی محلاتی، قم۱۳۸۰ـ۱۳۸۱، چاپ افست تهران۔
(۶۳) محمد بن حسن فتال نیشابوری ، روضه الواعظین، چاپ محمدمهدی خرسان، قم: منشوراتالرضی۔
(۶۴) محمد بن عمر فخررازی، الشجره المبارکه فی انساب الطالبیه، چاپ مهدی رجائی، قم۱۴۰۹۔
(۶۵) سعید بن هبهاللّه قطبراوندی، الخرائج و الجرائح، قم: مؤسسه الامامالمهدی (ع)۔
(۶۶) سعید بن هبهاللّه قطبراوندی، سلوه الحزین، المعروف به الدعوات، قم: مدرسه الامام المهدی۔
(۶۷) حسن بن محمدتقی، کتاب تاریخ قم، ترجمه حسن بن علی قمی، چاپ جلالالدین طهرانی، تهران۱۳۶۱ شمسی۔
(۶۸) علی بن ابراهیم قمی، تفسیر القمی، چاپ طیب موسوی جزائری، قم ۱۴۰۴۔
(۶۹) کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
(۷۰) کلینی، اصول کافی۔
(۷۱) مجلسی، بحارالانوار۔
(۷۲) حسینمدرسی طباطبائی، مکتب در فرآیند تکامل: نظری بر نظور مبانی فکری تشیع در سه قرن نخستین، ترجمه هاشمایزدپناه، نیوجرسی۱۳۷۵ شمسی۔
(۷۳) علی بن حسین مسعودی ، اثباتالوصیه للامام علی بن ابیطالب، قم۱۳۸۲ شمسی۔
(۷۴) علی بن حسین مسعودی، مروجالذهب و معادنالجوهر، چاپ شارلپلاّ، بیروت ۱۹۶۵ـ ۱۹۷۹۔
(۷۵) محمد بن محمد مفید، الارشاد فی معرفه حججاللّه علی العباد، بیروت۱۴۱۴/۱۹۹۳۔
(۷۶) محمد بن محمد مفید، الفصول المختاره من العیون و المحاسن، بیروت۱۴۰۵/ ۱۹۸۵۔
(۷۷) محمد بن محمد مفید، کتاب الامالی، چاپ حسناستاد ولی و علیاکبر غفاری، قم۱۴۰۳۔
(۷۸) محمد بن محمد مفید، مسارّ الشیعه، در مجموعه نفیسه فی تاریخالائمه، همان۔
(۷۹) محمد بن محمد مفید، المقنعه، قم۱۴۱۰۔
(۸۰) محمدباقر موحدی ابطحی، مستدرک عوالمالعلوم و المعارف و الاحوال من الایات و الاخبار و الاقوال، ج۲۳، قم ۱۴۱۳۔
(۸۱) موسوعه الامامالجواد علیهالسلام، قم: مؤسسه ولیالعصر علیهالسلام للدراساتالاسلامیه، ۱۴۱۹۔
(۸۲) احمد بن علی نجاشی، فهرست اسماء مصنّفی الشیعه المشتهر ب رجال النجاشی، چاپ موسی شبیری زنجانی، قم۱۴۰۷۔
(۸۳) محمد بن طلحه نعیبی، مطالب السؤول فی مناقب الالرسول، چاپ ماجد بن احمد عطیه، بیروت۱۴۲۰۔
(۸۴) حسن بن موسینوبختی، فرقالشیعه، چاپ محمدصادق آلبحرالعلوم، نجف۱۳۵۵/۱۹۳۶۔
(۸۵) جعفر بن منصوریمنی، سرائر و اسرارالنطقاء، چاپ مصطفی غالب، بیروت۱۴۰۴/۱۹۸۴۔
(۸۶) جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم۔
[ترمیم]
[ترمیم]
دانشنامه جهان اسلام، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، ماخوذ از مقالہ «امام محمد تقی»، شماره ۔