حدیث (روایت)

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



قول، فعل یا تقریرِ معصومؑ کو حدیث کہتے ہیں۔ اس کو خبر، سنت اور روایت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔


حدیث کے لغوی معنی

[ترمیم]

عربی لغت کے قدیم ترین مصدر کتاب العین میں حدیث کا لغوی معنی ہر نئی اور جدید چیز کے وارد ہوئے ہیں، جیسے شَابٌ حَدَثٌ؛ یعنی نوجوان لڑکا، شابة حَدَثَة، یعنی نوجوان لڑکی۔ احمد بن فارس نے تحریر کیا ہے کہ حدیث کے اصلی حروف ح ـ د ـ ث ہیں جس کے لغوی معنی کسی چیز کے موجود نہ ہونے کے بعد رونما ہونے کے ہیں، مثلا کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز موجود نہیں تھی پھر وہ وجود میں آئی۔ ابن منظور بیان کرتے ہیں کہ ہر اس کلام کو حدیث کہتے ہیں جو بولنے والا زبان پر لاتا ہے، قرآن کریم کی آیت و اِذْ اَسَّرَ النّبیُ اِلی بَعْضِ اَزْواجِهِ حَدِیۡثاً؛ اور نبیؐ نے اپنی بعض ازواج کو جب رازدارانہ طور پر بات بتائی، میں لفظِ حدیث اسی معنی میں آیا ہے۔

مجمع البحرین میں فخر الدین طریحی نے بھی حدیث کو کلام کا مترادف قرار دیا ہے۔ فیومی کلمہ حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ بولی جانی والی اور نقل کی جانے والی چیزوں کو حدیث کہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حدیثِ رسولؐ کو حدیث کہتے ہیں۔ معروف لغوی و نحوی فرّاء نے تحریر کیا ہے کہ حقیقت میں لفظِ احادیث کا مفرد کلمہِ أحدوثۃ آتا ہے، اس لیے حدیث کو اس کی مفرد قرار دینا خلافِ قیاس ہے۔ صاحب کشاف نے احادیث کو اسم جمع قرار دیا ہے۔ عصر حاضر کے بعض محققین نے کلمہ حدیث کے بارے میں علماء لغت کے اقوال نقل کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس کلمہ کے معنی کسی چیز معدوم ہونے کے بعد وجود میں آنے کے ہیں، فرق نہیں پڑتا یہ جواہر و اعراض میں ایسا ہو یا اقوال وافعال میں۔ پس لغت کے اعتبار سے ہر نئی چیز کو جدید من الاشیاء حدیث کہتے ہیں۔ نیز اس چیز کو بھی حدیث کہتے ہیں جو عدم کے بعد وجود میں آئے، حدوث امر بعد ان لم یکن؛ یعنی کسی امر کا نہ ہونے کے بعد رونما ہونا۔ انہی لغوی معانی کی مناسبت سے ہر کلام پر حدیث کا اطلاق ہوتا ہے۔

← عبد اللہ مامقانی کی نگاہ میں


معروف رجالی عبد اللہ مامقانی لفظِ حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وجود الشيء بعدما كان معدوما ضد القديم؛ حدیث یعنی شیء کے معدوم ہونے کے بعد اس کا موجود ہونا، قدیم کی ضد حدیث کہلاتی ہے، اسی طرح روایت میں وارد ہوا ہے: إیّاکم ومحدثات الامور؛ امور کے ایجاد کرنے سے بچو، ابن فارس نے تحریر کیا ہے کہ اس کا مطلب یہ بنے گا کہ اس کا مطلب ہے کہ اس سے بچو جو نہ کتاب میں ہے نہ سنت میں اور نہ ہی اجماع میں۔

حدیث کے اصطلاحی معنی

[ترمیم]

علماء اور محدثین نے حدیث کی متعدد تعریفیں بیان کی ہیں۔ ذیل میں ہم حدیث کی چند اصطلاحی تعریفیں ملاحظہ کرتے ہیں:

← شہید ثانی کی نگاہ میں


شہید ثانی خبر اور حدیث کو مترادف قرار دینے کے بعدفرماتے ہیں کہ خبر سے مراد وہی حدیث ہے جس کا اطلاق قول رسولؐ، قولِ امامؑ ،قول صحابی اور قول تابعی پر ہوتا ہے، اسی طرح ان کے فعل اور تقریر کو بھی حدیث کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ حدیث کا مذکورہ معنی زیادہ مشہور اور اس کے لغوی معنی کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ شہید ثانی کی یہ تعریف حدیث کے لغوی معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے اور اکثر علماء اہل سنت نے بھی حدیث کی یہی تعریف بیان کی ہے جس کے مطابق خبر اور حدیث آپس میں مترادف ہیں۔

← شیخ بہائی کی نگاہ میں


شیخ بہائی اپنے رسالہ الوجیزۃ میں حدیث کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: الحديث كلام يحكى قول المعصوم أو فعله أو تقريره؛ حدیث اس کلام کو کہتے ہیں جو معصومؑ کے قول کی حکایت کرے اور اس کے فعل کی اور اس کی تقریر کی۔ البتہ شیخ بہائی کی مذکورہ تعریف جامع اور مانع نہ ہونے کی بناء پر قابل اعتراض قرار دی گئی ہے۔ یہ تعریف اس اعتبار سے جامع نہیں ہے کیونکہ وہ احادیث جو بالمعنی نقل کی گئی ہیں وہ مذکورہ تعریف سے خارج ہو جاتی ہیں جبکہ انہیں حدیث شمار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ تعریف مانع نہیں ہے کیونکہ قدیم فقہاءِ امامیہ نے اپنی کتب میں متعدد احادیث معصومؑ کی اسانید کو حذف کر کے فتاوی و اقوال کی شکل میں تحریر کیا ہے۔ اب یہ اقوال اور فتاوی اگرچے احادیث بلا اسانید ہیں لیکن علمی طور پر فتاوی یا اقوال کہلاتے ہیں۔ شیخ بہائی کی مذکورہ تعریف قدماء کے اس نوعیت کے فتاوی اور اقوال کو بھی شامل ہو رہی ہے جبکہ اس کو حدیث کی تعریف سے خارج ہونا چاہیے۔ قدماء کی اس روش کے مصادیق ہمیں متعدد فقہی کتب میں نظر آتے ہیں، جیسے علی بن بابویہ کی شرائع، شیخ صدوق کی المقنع اور الہدایہ وغیرہ۔ شیخ بہائی حدیث کی تعریف کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ولو قيل الحديث قول أو حكاية قوله أو فعله أو تقريره لم يكن بعيدا وأمّا نفس الفعل والتّقرير عليهما اسم السّنة لا الحديث؛ اگرچے قول یا ان کے قول یا ان کے فعل یا ان کی تقریر سے حکایت کو حدیث کہا جاتا ہے، البتہ بذاتِ خود فعل اور تقریر ہر دو کو سنت کہتے ہیں نہ کہ حدیث۔

← میرزا قمی کی نگاہ میں


میرزا قمی اصولی اعتبار سے حدیث کا جائزہ لیتے ہوئے نقل کرتے ہیں کہ قول ،فعل اور تقریر معصومؑ سے حکایت کو حدیث قرار دیا ہے۔ آیت اللہ مامقانی نے بھی اپنی کتاب مقباس الہدایۃ میں حدیث کے بارے میں مختلف اقوال اور نظریات ذکر کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں: وذكر جمع من أصحابنا أن الحديث في الاصطلاح هو ما يحكي قول المعصوم أو فعله أو تقريره؛ ہمارے اصحاب کی ایک جماعت نے ذکر کیا ہے کہ اصطلاح میں حدیث سے مراد وہ ہے جو قولِ معصومؑ یا اس کے فعل یا اس کی تقریر سے حکایت کرے۔ حدیث کی مذکورہ تعریف شیعہ علماء اور محدثین کے نزدیک صحیح اور مشہور ترین تعریف ہے۔

← جلال الدین سیوطی کی نگاہ میں


سیوطی نے علماء اور محدثین کی نظر میں حدیث کی تعریف اس طرح سے بیان کی ہے کہ رسول اللہؐ، صحابہ اور تابعین کے قول ،فعل اور تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔ نیز ان علماء نے خبر کو حدیث کا مترادف قرار دیا ہے۔ چنانچہ حدیث اور خبر ہر دو کا اطلاق حدیث کی تینوں اقسام یعنی حدیث مرفوع (جو رسول اللہؐ کی طرف منسوب ہو)، حدیث موقوف (جو صحابی کی طرف منسوب ہو) اور حدیث مقطوع (جو تابعی کی طرف منسوب ہو) پر یکساں طور ہوتا ہے۔البتہ اہل سنت کے ہاں مذکورہ تعریف کے علاوہ دیگر تعریفیں بھی بیان کی گئی ہیں جن میں خبر اور حدیث میں فرق بھی بیان کیا گیا ہے۔ تدریب الراوی میں سیوطی نے ان تمام اقوال کو رقم کیا ہے جس کے بعد یہ تبصرہ کیا ہے کہ رسول اللہؐ کی طرف منسوب چیز کو حدیث کہتے ہیں، جبکہ ان کے علاوہ صحابی اور تابعین وغیرہ کی طرف منسوب چیزوں کو خبر کہا جاتا ہے۔ چنانچہ جو شخص سنت کے درس و تدریس اور نقل وکتابت میں مشغول ہو اس کو محدث کہا جاتا ہے اور تاریخ، واقعات اور حوادث کے نقل کرنے والے کو اخباری کہا جاتا ہے۔

بعض اہل سنت محققین قائل ہیں کہ ابتداء میں حدیث کی اصطلاح کا اطلاق فقط رسول اللہؐ کے قول پر ہوتا تھا لیکن آپؐ کی رحلت کے بعد اس کے معنی میں وسعت آ گئی اور آنحضرتؐ سے منقول ہر چیز کو حدیث کہا جانے لگا۔ لہذا رسول اللہؐ کے قول، ان کے فعل اور تقریر کو حدیث سے تعبیر کیا جانے لگا۔ ابن حجر عسقلانی نے بیان کیا ہے کہ شریعت کی اصطلاح میں ہر وہ شیء جو رسول اللہؐ کی طرف منسوب ہو حدیث کہلاتی ہے اور آنحضرتؐ کے قول و فعل و تقریر وغیرہ کو حدیث کہنا درحقیقت قرآن اور حدیث میں فرق کرنے کی خاطر ہے۔ کیونکہ حدیث کی ضد قدیم ہے اور قرآن کریم قدیم ہے۔

حدیث کو حدیث کہنے کی وجہ تسمیہ

[ترمیم]

کلامی و حدیثی کتب میں وارد ہونے والے اقوال و آراء سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کے اکثر علماء قرآن کریم کے قدیم ہونے کے قائل ہیں۔ اس بناء پر انہوں نے قرآن کے مقابلے میں رسول اللہؐ کے توسط سے آنے والے احکام کو حدیث کہاہے۔ ان کی نظر میں چونکہ کلامِ الہی قدیم ہے اس لیے اس سے فرق کرنے کے لیے کلامِ رسولؐ کو حدیث کہہ دیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ رسول اللہؐ اور امام کے قول کو بھی اسی وجہ سے حدیث کہہ دیا گیا ہو۔ کیونکہ معصومؑ کا قول الہی قوانین اور تشریعِ اسلامی کے اعتبار سے تازگی اور جدت کو لیے ہوئے ہے۔ نیز اسی معنی جدت، تازگی اور طروات کو ملاحظہ کرتے ہوئے خود قرآن کریم کو بعض آیاتِ مبارکہ میں حدیث کہا گیا ہے۔ درج ذیل آیات میں قرآن کریم کو حدیث سے تعبیر کیا گیا ہے:
۱۔ اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَديثِ؛ اللہ نے اس بہترین حدیث (کلام ) کو نازل کیا۔
۲۔ فَلْيَأْتُوا بِحَديثٍ مِثْلِهِ إِنْ كانُوا صادِقين‌؛ اگر وہ سچے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اس کی مثل کلام لے کر آئیں۔
۳۔ فَبِأَيِّ حَديثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُون‌؛ اس کے بعد آخر وہ کس کلام پر ایمان لائیں گے۔
۴۔ فَذَرْني‌ وَ مَنْ يُكَذِّبُ بِهذَا الْحَديثِ؛ جو اس حدیث (کلام) کا انکار کرتا ہے اسے آپ مجھے پر چھوڑ دیجیے۔

← حدیث کو حدیث کہنے کی دیگر وجوہ


بعض نے یہ احتمال دیا ہے کہ حدیث میں چونکہ حروف قہری طور پر پے در پے اور یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور بعد والا حرف پہلے والے حرف کے بعد وجود میں آتا ہے اس لیے اس کو حدیث کہہ دیا جاتا ہے۔ بعض نے یہ احتمال بھی دیا ہے کہ حدیث کو اس لیے حدیث کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے سامع کے دل میں نئے علوم اور معانی ایجاد ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بات محققین کی نظر میں درست نہیں ہے کیونکہ یہ بعض اہل سنت کا نظریہ ہے کہ حدیث میں چونکہ تازگی، طراوت اور جدت ہوتی ہے اس لیے اس کو حدیث کہا جاتا ہے یا کلامِ الہی قدیم ہے جس سے فرق کرنے کے لیے مقابل کلام کو حدیث کہا گیا ہے۔

← حدیث کا خبر کے معنی میں آنا


بعض اوقات حدیث خبر کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ لفظِ خبر سے مراد مُخۡبَر بِہِ لیا جاتا ہے۔ تاج العروس میں خبر کی تعریف اس طرح سے وارد ہوئی ہے کہ دوسرے سے نقل کی جانے والی چیز کو خبر کہتے ہیں۔ اہل عرب نے اس میں لذاتہِ صدق اور کذب کی قید اضافہ کیا ہے۔ محدثین نے خبر کو حدیث کا مترادف قرار دیا ہے۔

← قابل توجہ نکتہ


اس طرف توجہ رہنی چاہیے کہ علماءِ لغت عموما ایک لفظ کے مواردِ استعمال کو اپنی لغت کی کتابوں میں ذکر کرتے ہیں۔ لفظ کے استعمال میں ان کی توجہ اس طرف نہیں ہوتی کہ ایک لفظ کے لغوی معنی اور اس کے مصادیق میں کیا فرق ہے، چنانچہ وہ بعض اوقات مصادیق کو لغوی معنی قرار دے دیتے ہیں، مثلا خبر کا ظاہری طور پر معنی دوسر ے کو مطلع اور باخبر کرنا ہے، جیساکہ المصباح المنیر و المنجد وغیرہ مذکور ہے۔ اسی طرح الخَبِیۡر جوکہ اسماء الہی میں سے ہے کے معنی علم رکھنے والا بیان کیے گئے ہیں۔ یہی معنی قرآن کریم میں وارد ہوا ہے: وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلى‌ ما لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرا؛ اور بھلا آپ کیسے اس پر صبر کر سکتے ہیں جس کے بارے میں آپ کو علم نہیں ہے۔ مفسرین نے اس آیت کریمہ کی تفسیر خبر کا معنی علم کیا ہے۔ پس رسول اللہؐ کے قول کو خبر قرار دینا اس کے مضمون اور مُخۡبَر بِہِ (جس چیز کے بارے میں خبر دی گئی ہے) کی وجہ سے ہے۔

سنت کا حدیث کے ساتھ تعلق

[ترمیم]

قول ،فعل اور تقریر معصوم کو سنت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظِ سنت کے اصلی حروف س- ن - ن ہیں جس کے لغوی معنی پسندیدہ راستے کے ہیں۔ یہ کلمہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ذکر ہوا ہے، جیسے: فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّـهِ تَبْدِیلاً؛ آپ ہر گز اللہ کی سنت میں تبدیلی نہیں پائیں گے۔ اسی طرح ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے: سُنَّةَ مَنْ قَدْ أَرْسَلْنا قَبْلَكَ مِنْ رُسُلِنا؛ آپ سے قبل ہم نے اپنے رسولوں میں سے جن کو بھیجا ان کی سنت۔ بعض اوقات یہی کلمہ پسندیدہ راستے کی بجائے ناپسندیدہ چیزوں کے معنی میں بھی آتا ہے لیکن اس صورت میں کلام میں ایسا قرینہ قائم کرنا ضروری ہے جس کی وجہ سے ناپسندیدہ کا معنی لیا جا سکے، جیساکہ نبی اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں وارد ہوا ہے: وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً، فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، كُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا؛ اور جس نے اسلام میں بری سنت ایجاد کی پھر اس سنت کے مطابق عمل انجام دیا گیا ہے تو سنت ایجاد کرنے والے کے لیے وہی لکھ دیا جائے گا جو اس سنت پر عمل کرنے والے کے لیے قرار پایا ہے۔ اس حدیث میں سنت کے لفظ کے ساتھ سیئہ کی قید ذکر کی گئی ہے۔

← لفظ سنت کا علم فقہ میں استعمال


محدثین کی اصطلاح میں سنت سے مراد معصومؑ کا راستہ اور ان کے اقوال وافعال وتقریرات ہیں، جیساکہ حدیث مبارک میں وارد ہوا ہے:مَنْ‌ رَغِبَ‌ عَنْ‌ سُنَّتِي‌ فَلَيْسَ مِنِّي‌؛ جس نے میری سنت سے روگردانی کی وہ مجھ سے نہیں ہے۔ اسی طرح علم فقہ میں لفظِ سنت اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ نیز علم فقہ میں سنت کا لفظ بدعی کے مقابل بھی استعمال ہوا جیساکہ طلاق کی اقسام ذکر کی جاتی ہیں: طلاقِ سنی اور طلاق بدعی۔ نیز لفظِ سنت بعض اوقات مستحب کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، مثلا کہتے ہیں کہ نماز میں قنوت سنت ہے۔ مذکور بیان کردہ مطالب سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سنت کا اطلاق واجب اور مستحب ہر دو پر کیا جاسکتا ہے اور اسی معنی کو قول ،فعل اور تقریر معصومؑ کہتے ہیں۔ نیز اس کو خبر، حدیث اور روایت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ بعض علماء نے اپنی حدیث کی کتابوں کے نام سنن رکھے ہیں، جیسے سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، سنن بیہقی وغیرہ۔

روایت کا حدیث کے ساتھ تعلق

[ترمیم]

فخر الدین طریحی نے مجمع البحرین میں ذکر کیا ہے کہ اصطلاح میں روایت اس خبر کو کہتے ہیں جس کی نسبت معصومؑ پر ختم ہو۔ روایت لغت کے لحاظ سے روی البعیر الماء ای حمله سے ماخوذ ہے جس کے معنی اٹھانے اور نقل کرنے کے ہیں۔ اور روای کو راوی کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ حامل اور ناقل حدیث ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ سب معانی جو روی کے مادہ سے ماخوذ ہیں حمل و نقل کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں، جیساکہ ریان سیراب ہونے کے معنی میں آتا ہے،یوم الترویۃ اس دن کو کہتے ہیں جو دن حاجی حضرات اپنا کھانا پینا اٹھا کر میدان عرفات میں گزارتے ہیں۔ امیر المومنینؑ کا خطبہ شقشقیہ میں وارد ہوا ہے: وَطَفِقْتُ أَرْتَئِي‌ بَيْنَ‌ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاء أی تفکرت فی الامر فوجدت الصبر اولی؛ یعنی میں نے اس امر میں خوب تفکر کیا اور صبر کرنے کو سب سے بہتر پایا۔ امام علیؑ کے کلام لفظ أَرۡتَائِی وارد ہوا ہے جس کا معنی فکر کو اٹھانا اور حمل کرنا ہے۔ پس روایت کے معنی کھانا پینا ، زاد راہ اور فکر ونظر اور حدیث اٹھانے اور نقل کرنے کے ہیں۔

حدیث کا اثر کے ساتھ تعلق

[ترمیم]

اثر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی جوہری نے ان الفاظ میں ذکر کیے ہیں: اثرت الحدیث اذا ذکرته غیرک. و منه قیل حدیث مأثور ای ینقله خلف عن سلف؛ اثرت الحدیث یعنی جب آپ نے اپنے غیر کا ذکر کیا، اسی سے کہا جاتا ہے: حدیثِ مأثور یعنی وہ حدیث جس کو بعد والوں نے اسلاف سے نقل کیا ہے۔

صاحب قاموس تحریر کرتے ہیں کہ نقل الحدیث و روایته یعنی حدیث کو نقل اور روایت کرنا۔ المنجد اور مجمع البحرین میں بھی یہی معنی بیان کیے گئے ہیں۔ شیخ بہائی اپنی کتاب الوجیزہ میں فرماتے ہیں کہ حدیث کا مترادف اثر ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اثر کا معنی حدیث سے وسیع تر ہے ۔ بعض دیگر نے اثر کو صحابہ کے ساتھ مختص کیا ہے اور حدیث کو رسول اللہؐ کے ساتھ۔ لیکن اثر کے لغوی اور اصطلاحی معنی ایک ہی ہیں، کیونکہ اس کے استعمال کے موارد اور مصادیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے معنی کسی چیز کے باقی ماندہ کے ہیں۔ اس لحاظ سے علم حدیث میں اثر کے معنی اسلاف اور بالخصوص رسول اللہؐ کے اقوال اور افعال کے باقی ماندہ کے ہوں گے۔

تحمل حدیث کے صیغے

[ترمیم]

لفظِ حدیث کو باب تفعیل میں استعمال کیا جاتا ہے، مثلا حَدّثَهُ بکذا وَحَدَّثَه کذا أَی أَخۡبَرَهُ بِهِ؛ میں اس کو فلاں کے متعلق بتایا یعنی میں اس کو اس کی خبر دی۔ اسی طرح کلمہِ خبر ہے لیکن لفظِ خبر باب افعال اور باب تفعیل ہر دو ابواب سے آتا ہے، مثلا خَبَّرَه و أَخۡبَرَه الشیء أی أنباه به۔ راوی جب اپنے شیخ سے حدیث سننے میں تنہا ہو تو وہ حَدَّثَنِی کہہ کر حدیث ذکر کرتا ہے۔ نیز اگر سننے والے اس کے علاوہ دیگر افراد بھی ہوں تو اس صورت میں راوی حَدَّثَنَا کہہ کر حدیث نقل کرتا ہے۔ اسی طرح کلمہ أخبرکو مفرد ہونے کی صورت میں راوی أَخۡبَرَنِی کہہ کر نقل کرتا ہے۔ لیکن جمع کی صورت میں أَخۡبَرَنَا کہہ کر حدیث کو نقل کرتا ہت۔ جوامعِ حدیثی جیسے کتبِ اربعہ وغیرہ معصومینؑ کے زمانے کے بعد تدوین ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ایک حدیث ان کتب کے مؤلفین تک کئی واسطوں کے ذریعے پہنچتی ہے۔ لہذا راوی یا حدیث نقل کرنے والا جب حدیث بیان کرتا ہے تو حدّثنا اور أَخۡبَرَنا یا حدّثنی یا أَخبرنی وغیرہ کہہ کر نقل کرتا ہے۔

تحدیث کے صیغوں کو مختصر کرنے کا طریقہ

[ترمیم]

متقدمین کی روش یہ تھی کہ وہ حَدَّثَنَا وأَخۡبَرَنَا وغیرہ کو مکمل لکھتے تھے لیکن متاخرین نے اپنی کتب حدیث میں ان کلمات کو مختصر کر کے ان کے لئے رموز اور اشارات استعمال کیے ہیں، جیسے : حدّثنا میں (ثنا) یا فقط ( نا ) لکھتے ہیں اور أَخۡبَرَنَا میں (انا) استعمال کرتے ہیں۔

تحویل سند کی علامت

[ترمیم]

کوئی محدث جب کسی حدیث کو دو یا دو سے زیادہ اسانید کے ساتھ نقل کرتا ہے تو وہ ایک سند سے دوسری سند کی طرف منتقل ہونے کی صورت میں (ح) لکھے گا جو حیلولہ ،تحویل یا انتقال پر دلالت کرے گا۔ اسی طرح سند میں (قال )جو تکرار ہوتا ہے اسکو حذف کردیا جاتا ہے اورفقط ایک (قال)کو باقی رہنے دیا جاتا ہے جیسے: محمد بن یعقوب قال، حدثنی علی بن ابراهیم قال، قال حدثنی أَبِي ابراهیم بن هاشم...اس قسم کی اسانید میں عموما پہلے قَالَ کو حذف کر دیا جاتا ہے ۔

سند کے فقط آخری راوی کو ذکر کرنے کا طریقہ

[ترمیم]

محدثین حدیث کو مختصر کرنے کیلئے ایک اور طریقے کو بروئے کار لاتے ہیں وہ یہ کہ حدیث کو نقل کرنے والے راویوں میں سے فقط آخری راوی کا نام ذکر کرلیتے ہیں اسکے بعد متن ذکر کرتے ہیں باقی ماندہ سند کو ذکر نہیں کرتے ،جیسے : صحیحہ زرارہ ، صحیحہ محمد بن مسلم ، یا موثقہ سکونی وغیرہ۔ واضح رہے اس طریقہ کے مطابق نقل ہونے والی احادیث ایک جیسے نہیں ہوتی بلکہ ممکن ہے اسطرح منقول حدیث متصل اور مسند ہو اور ممکن ہے مرسل اور ضعیف کے حکم میں ہو ، یعنی اگر حدیث مشہور کتب جیسے کتب اربعہ سے منقول ہو تو مسند اور متصل شمار ہوگی اور انکے علاوہ دیگر کتب سے منقول ہو تو مرسل شمار ہوگی ۔ اختصار سند کی خاطر محدثین کے ہاں ایک اور طریقہ بھی رائج ہے وہ یہ کہ اگر متعدد احادیث ایک ہی راوی سے منقول ہوں تو پہلی حدیث میں پوری سند کو ذکر کردی جاتی ہے اسکے بعدوالی احادیث میں فقط و بهذا الاسناد کہہ کردوبارہ سند کا تکرار نہیں کیا جاتا۔ اختصار سند کے بارے میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اسکا مشاہدہ شیخ صدوق کی کتاب من لا یحضرہ الفقیہ اور شیخ طوسی کی تہذیب الأحکام میں واضح طور کیا جا سکتا ہے۔

کتب اربعہ میں اسانید ذکر کرنے کی روش

[ترمیم]

صاحب معالم فرماتے ہیں کہ یہ بات جاننا ضروری ہے کہ کتب اربعہ کے مصنفین کی سند ذکر کرنے کی روش ایک جیسی نہیں ہے بلکہ ہر ایک نے اسانید ذکر کرنے کے لئے ایک خاص طریقہ اختیار کیا ہے، مثلا ثقۃ الاسلام کلینی پوری سند کو ذکر کرتے ہیں۔ البتہ اگر حدیث معنی کے اعتبار سے یکساں ہوں جوکہ متعدد اسانید کے ساتھ ایک ہی مقام پر وارد ہوئی ہے تو شیخ کلینی ما قبل حدیث کی سند پر اکتفا کرتے ہیں۔ شیخ صدوق اکثر و بیشتر احادیث کو بغیر سند اور مرسل ذکر کرتے ہیں لیکن اپنی کتاب کے آخر میں مشیخہ کے نام سے انہوں نے تمام راویوں کو ذکر کر دیا ہے جس کتاب میں موجود ہر حدیث کی کامل سند میسر آ جاتی ہے۔

شیخ طوسیؒ کی روش شیخ کلینیؒ اور شیخ طوسیؒ دونوں سے مختلف ہے یعنی وہ کبھی پوری سند کو ذکر کرتے ہیں اور کھبی کھبار سند کے کچھ حصے کو ذکر کرتے ہیں اور اسکے ابتداء کو حذف کرتے ہیں جسکو حدیث کی اصطلاح میں( تعلیق) کہتے ہیں ، لیکن شیخ طوسی ؒنے تہذیب الاحکام اور الاستبصار میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ جس حدیث کی سند کے پہلے حصہ کو ذکر نہیں کیا ہے وہ اسی صاحب کتاب کی جانب سے ہے کہ جسکی کتاب سے مذکورہ حدیث اخذ کی گئی ہے ،اور اپنی کتاب فہرست میں اصحاب کتب حدیث تک اپنی سند اور طریق کو بیان کیا ہے۔ صاحب معالم نے بھی اپنی کتاب منتقی الجمان میں شیخ طوسیؒ کی اصحاب کتب اور اصول حدیث تک طریق اور سند کو تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. فراہیدی، خلیل، کتاب العین، ج ۳، ص ۱۷۷۔    
۲. ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۲، ص ۳۶۔    
۳. تحریم/سوره۶۶، آیت ۳۔    
۴. ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ج ۹، ص ۲۳۷۔    
۵. طبرسی، فضل بن حسن، مجمع‌ البیان، ج ۱۰، ص ۵۸۔    
۶. طریحی، فخر الدین بن محمد، مجمع البحرین، ج ۱، ص ۴۷۰۔    
۷. فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر، ج ۱، ص ۶۸۔    
۸. قاسمی، جمال‌ الدین، قواعد التحدیث، ص۶۱۔    
۹. مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن، ج ۲، ص ۱۷۷۔    
۱۰. مامقانی، عبد الله، مقباس الہدایۃ، ج ۱، ص ۵۶۔    
۱۱. طریحی، فخر الدین بن محمد، مجمع البحرین، ج ۱، ص ۳۷۰۔    
۱۲. ابن اثیر، مبارک بن محمد، النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر، ج ۱، ص ۳۵۰۔    
۱۳. ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۲، ص ۳۶۔    
۱۴. شہید ثانی، علی بن احمد، الرعایۃ فی علم الدرایۃ، ص ۵۰۔    
۱۵. شیخ بہائی، محمد بن حسین، الوجیزہ فی الدرایۃ، ص ۴۔    
۱۶. شیخ بہائی، محمد بن حسین، الوجیزة فی الدرایۃ، ص ۴۔    
۱۷. میرزا قمی، ابو القاسم بن محمد، قوانین الاصول، ص ۴۰۹۔    
۱۸. مامقانی، عبد الله، مقباس الهدایة، ج ۱، ص ۵۷۔    
۱۹. سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، تدریب الراوی، ج ۱، ص ۲۳۔    
۲۰. شہید ثانی، علی بن احمد، الرعایۃ فی علم الدرایہ، ص ۵۰۔    
۲۱. عبد المجید، محمود، الاتجاہات الفقہیہ عند اصحاب الحدیث فی القرن الثالث الہجری، ص ۱۲-۱۳۔    
۲۲. عسقلانی، ابن حجر، فتح الباری فی شرح صحیح البخاری، ج ۱، ص ۱۷۳۔    
۲۳. عسقلانی، ابن حجر، فتح الباری فی شرح صحیح البخاری، ج ۱، ص ۱۷۳۔    
۲۴. زمر/سوره ۳۹، آیت ۲۳۔    
۲۵. طور/سوره ۵۲، آیت ۳۴۔    
۲۶. مرسلات/سوره ۷۷، آیت ۵۰۔    
۲۷. القلم/سوره ۶۸، آیت ۴۴۔    
۲۸. قاسمی، جمال‌ الدین، قواعد التحدیث، ص ۶۱۔    
۲۹. زببدی، مرتضی، تاج العروس، ج ۱۱، ص ۱۲۵۔    
۳۰. کہف/سوره ۱۸، آیت ۶۸۔    
۳۱. فاطر/ سوره ۳۵، آیت ۴۳۔    
۳۲. اسراء/سوره ۱۷، آیت ۷۷۔    
۳۳. نیشاپوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج ۴، ص ۲۰۵۹۔    
۳۴. محدث نوری، حسین بن محمد، مستدرک الوسائل، ج ۳، ص ۲۸۹۔    
۳۵. طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، ج ۲، ص ۲۵۶۔    
۳۶. عبده، محمد، شرح نہج‌ البلاغۃ، ج۱، ص۲۶۔    
۳۷. جوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح تاج اللغۃ، ج ۲، ص ۵۷۴۔    
۳۸. شیخ بہائی، محمد بن حسین، الوجیزۃ، ص ۴۔    
۳۹. عاملی، حسن بن زین العابدین، منتقی الجمان، ج۱، ص ۲۱۔    


مأخذ

[ترمیم]

سایت اندیشہ قم۔    
سایت پژوہہ، مقالہ تدوین حدیث (قسمت اول) سے یہ تحریر لی گئی ہے، تاریخ مشاہدہ:۱۳۹۵/۱۲/۱۶۔    






جعبه ابزار