امام موسیٰ کاظم
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
امام موسیٰ کاظمؑ
اہل تشیع کے ساتویں امام اور نویں
معصومؑ ہیں۔ آپؑ کو انتہائی پیچیدہ علمی اور سیاسی مسائل درپیش تھے کہ جن کا آپؑ نے خداداد فراست اور تدبیر سے سامنا کیا۔ امام جعفر صادقؑ کی علمی میراث کی حفاظت اور امت تک منتقلی آپؑ کے کارہائے نمایاں میں سے ہے۔ یہ امام موسیٰ کاظمؑ کی خفیہ جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ
مامون عباسی اپنی حکومت کو بچانے کیلئے
امام رضاؑ کو ولی عہد بنانے پر مجبور ہو گیا۔ آپؑ کے علم، تقویٰ، اخلاق اور حلم کے سب دوست و دشمن معترف تھے۔ ہارون الرشید نے اپنی حکومت کیلئے بہت بڑا خطرہ ہونے کی وجہ سے آپؑ کو طولانی مدت تک قید رکھا اور آخرکار زہر دلوا کر شہید کر دیا۔
[ترمیم]
امام کاظمؑ کی ولادت سات
صفر بروز اتوار سنہ ۱۲۸ ہجری میں مکہ اور مدینہ کے مابین واقع مقام
ابواء میں ہوئی اور آپؑ پچپن برس کے سن میں شہید ہوئے۔
[ترمیم]
ابو الحسن موسی بن جعفر بارہ اماموں میں سے ساتویں امام اور چودہ معصومینؑ میں سے نویں معصومؑ ہیں۔ بکثرت
زہد اور عبادت کے باعث العبد الصالح کے نام سے معروف ہوئے اور
حلم،
غصہ پینے اور زمانے کے مصائب و آلام پر
صبر کی وجہ سے ’’الکاظمؑ‘‘ کے لقب سے معروف ہوئے۔ حضرتؑ کی کنیت ابو ابراہیم ہے مگر ابو علی بھی آپؑ کی معروف کنیت ہے۔ آپ کے مشہور القاب یہ ہیں: كاظم، العبد الصالح اور باب الحوائج جبکہ کنیت ابو الحسن اور ابو ابراہیم ہے۔
[ترمیم]
آپؑ کے والد گرامی
امام جعفر بن محمدؑ اور والدہ حُمَيْدَه ہیں۔ حمیده
بربر(
مراکش) یا اندلس (اسپین) سے تعلق رکھنے والی کنیز تھیں۔ ان معظمہ کے والد کا نام
صاعد بربری بیان کیا گیا ہے۔ حمیدہ، ’’حمیدة البربریۃ‘‘ اور ’’حمیدۃ المصفاۃ‘‘ کے القاب سے بھی معروف ہیں۔ امامؑ کے برادران اسحاق اور
محمد دیباج بھی آپ کے بطن سے ہی ہیں۔
[ترمیم]
ارشاد میں
شیخ مفیدؒ کے بقول امام موسیٰ کاظمؑ کے بچوں کی تعداد سینتیس تھی۔ ان میں سے اٹھارہ فرزند تھے کہ جن میں سے آٹھویں امام
علی بن موسی الرضاؑ افضل ترین تھے۔
آپ کے مشہور بیٹوں میں
احمد بن موسیٰ،
محمد بن موسیٰ اور
ابراہیم بن موسیٰ شامل ہیں۔
حضرتؑ کی ایک دختر حضرت
فاطمہ معصومہؑ ہیں۔ آپؑ معصومہؑ کے نام سے معروف ہیں اور آپ کا
قم میں واقع روضہ مبارک دنیا بھر کے اہل تشیع کیلئے زیارتگاہ ہے۔
آپؑ کی اولاد اس سے کم یا زیادہ ہونے کے اقوال بھی موجود ہیں۔
[ترمیم]
امام کاظمؑ اپنے پاکیزہ آباؤ اجداد کی طرح اخلاقی و عملی فضائل میں دوسروں کیلئے نمونہ اور سرمشق تھے۔
آپؑ
علم،
حلم،
تواضع، اعلیٰ
اخلاق، کثیر
الصدقات ہونے،
سخاوت اور
بخشش و عطا میں ضرب المثل تھے۔
بدکاروں اور بدخواہوں کی اپنے وسیع
عفو و
احسان کے ذریعے
تربیت فرماتے تھے۔ حلیہ بدل کر
مدینہ کے گلی کوچوں میں گشت کرتے تھے اور ضرورت مندوں کی امداد کرتے تھے۔ تھیلیوں میں دو سو، تین سو یا چار سو دینار رکھ کر مدینہ کے محتاجوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔
موسیٰ بن جعفرؑ کی تھیلیاں مدینہ میں معروف تھیں اور اگر کسی کو ایک بھی تھیلی مل جاتی تو وہ بے نیاز ہو جاتا۔ اس کے باوجود جس حجرے میں
نماز ادا کرتے تھے، اس میں ایک چٹائی،
قرآن اور شمشیر کے سوا کچھ نہیں تھا۔
آپؑ کا برتاؤ سب کیلئے متاثر کن تھا؛ چنانچہ روایات کی بنا پر جب آپ کو مختلف
زندانوں میں قید کیا جاتا تو آپؑ زندان بانوں کو منقلب کر دیتے تھے اور وہ آپؑ پر ایمان لے آتے تھے۔
امامؑ کے علم کے بارے میں
روایت منقول ہے کہ آپؑ نے بچپن سے ہی لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا تھا۔
امام موسی کاظمؑ ابھی کم سن تھے کہ
ابو حنیفہ جیسے مشہور فقہا آپؑ سے مسئلہ دریافت کرتے تھے اور علم حاصل کرتے تھے۔
زہد و
عبادت میں آپؑ اپنے ہم عصر لوگوں پر برتری رکھتے تھے۔
اس اعتبار سے آپؑ کو ’’العبدالصّالح‘‘ لقب دیا گیا تھا جبکہ اہل
مدینہ آپؑ کو ’’ زَيْنَ المتَهجِّدينَ‘‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔
امام کاظمؑ کی اعلیٰ صفات میں سے ایک لوگوں پر
احسان کرنا تھا۔ ضرورت مند آپؑ کے پاس اپنی حاجات لے کر آتے اور امامؑ ان کی ضروریات کو پورا کرتے تھے اور لوگ آپؑ کو باب الحوائج سمجھتے تھے۔ امامؑ کا مشہور لقب کاظم ہے اس معنی میں کہ
غصے پر قابو پا لیتے تھے اور بڑی آسانی کے ساتھ دوسروں کو معاف کر دیتے تھے۔
[ترمیم]
آپ کا قد متوسط، رنگ روشن اور ریش مبارک گھنی تھی۔ آپؑ کی انگشتر کا نقش ’’حسبی اللہ‘‘ اور ایک دوسری روایت کے مطابق ’’الملک للہ وحدہ‘‘ تھا۔
[ترمیم]
آپؑ کے والد بزرگوار
امام صادقؑ کی سنہ ۱۴۸ہجری میں رحلت کے بعد بیس برس کے سن میں آپؑ
امامت پر فائز ہوئے اور ۳۵ برس تک آپؑ نے شیعوں کی
قیادت اور
ولایت کی ذمہ داری ادا کی۔
پیغمبر اکرمؐ نے ایک مشہور
حدیث میں
جابر انصاری کے سامنے حضرت کاظمؑ کی امامت کا بصراحت تذکرہ فرمایا تھا اور وضاحت کے ساتھ اپنے بعد امام صادقؑ کو بھی امام قرار دیا تھا۔
امام كاظمؑ کی اہل زمانہ پر برتری بھی آپؑ کی امامت پر ایک اور دلیل ہے؛ چنانچہ اہل سنت عالم
ابن حجر ہیثمی اس بارے میں کہتے ہیں: موسیٰ کاظمؑ علم و
معرفت اور کمال میں اپنے والد گرامی کے وارث تھے۔ آپؑ سب سے زیادہ متقی، دانا اور اہل بخشش تھے۔
امام موسىٰ بن جعفرؑ سنہ ۱۴۸ ہجری سے سنہ ۱۸۳ ہجری تک مسند امامت پر جلوہ فگن رہے۔ آپؑ کے معاصر خلفا سب
بنو عباس سے تھے کہ جن کے نام یہ ہیں:
منصور دوانیقی ،
مہدی عبّاسی ،
ہادی عبّاسی اور
ہارون الرّشید ۔ امامؑ ہارون کے دور میں سالہا سال تک زندان میں رہے۔
امام کاظمؑ کی کاوشیں دو طرح کی ہیں:
۱۔ علمی و فکری کاوش اور نادرست عقائد و بدعات اور عقب ماندگیوں کا سامنا کرنے کی تدابیر؛
اس حوالے سے امامؑ نے ایسے شاگردوں کی تربیت کی کہ جن کے ذریعے حقیقی دینی و شیعہ تعلیمات کو لوگوں میں رائج کیا۔ شاگرد، امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ان کی مجلس میں بیٹھتے، جب کوئی حکم یا علمی کلام سنتے تو اسے لکھ کر محفوظ کر لیتے۔
۲۔ امامؑ کی دوسری کاوش اپنے چاہنے والوں کے مراکز کی نگرانی تھی۔ امامؑ اس طرح یہ سعی فرماتے تھے کہ
شیعوں کے ساتھ اپنے رابطے کو باقی رکھتے ہوئے
حکومت کے خلاف اپنا نقطہ نظر بھی ان تک پہنچائیں۔ آپؑ حکومتی عہدیداروں کی نسبت اپنی ناراضگی کو ہمیشہ برملا کرتے تھے اور ان کے ساتھ تعاون کو
حرام قرار دیتے تھے۔
روضہ رسولؐ پر امامؑ کا ہارون الرشید کے ساتھ ملکی اور فوجی حکام کی موجودگی میں سرزنش آمیز مناظرہ اسی قبیل کی فعالیت میں شمار ہوتا ہے۔
امام کاظمؑ کے زمانے سے تعلق رکھنے والے بعض اہم ترین امور درج ذیل ہیں:
الف۔ انقلابی تحریکوں کا سر اٹھانا کہ جن میں سے بعض کی امامؑ نے تائید فرمائی تھی؛ جیسے
شہید فخ کی تحریک؛
ب۔ امامؑ کی جانب سے لوگوں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کے ایک خفیہ نظام کا قیام کہ جس کی ذمہ داری عوام کے امامؑ سے ارتباط کو منظم کرنا اور ان تک امامؑ کے احکام پہنچانا تھی۔
ج۔ بعض انحرافی مسالک کی پیدائش اور ان کی مذہبی و سیاسی سرگرمیاں۔
ان مسالک میں سے بعض
تشیع کا دعویٰ بھی کرتے تھے مگر امامؑ انہیں کسی طور تسلیم نہیں کرتے تھے۔
ناووسیّہ ،
اسماعیلیّہ ،
مبارکیّہ ،
سمطیّہ اور
فطحیّہ اسی قبیل سے تھے۔ ان فرقوں نے شیعہ مکتبہ فکر کے دائرے میں امامؑ کیلئے نازک صورتحال پیدا کر دی جس کی ان سے پہلے کوئی نظیر نہ تھی۔ امامؑ نے خاص تدبیر کے ساتھ شیعوں کو اس فکری اور عقائدی مشکل سے نجات دلائی اور اسلامی نقطہ نظر کی رو سے قابل قبول امامت کا تصور ان کیلئے واضح کیا۔
د۔ امام کاظمؑ حکومت کی سازشوں اور معاشرے کی دیگر کجرویوں کے خلاف ڈٹے رہے کہ جس کی وجہ سے آپؑ کو ایک طولانی مدت تک قید کر دیا گیا۔
عباسی حکمران امامؑ کے وجود سے خوفزدہ تھے اور ہر تھوڑے عرصے کے بعد آپؑ کو زندان میں ڈال دیتے تھے۔ ہارون الرشید کے زمانے میں امامؑ کی قید بہت طولانی رہی اور کئی مرتبہ قید کیا گیا۔
ساتویں امامؑ نے اپنے والد بزرگوار کی
روایات،
احادیث،
احکام اور
سنن کے احیا اور
شیعوں کو
تعلیم اور وعظ و
ارشاد کے ذریعے حقیقی
اسلام سے روشناس کیا۔ آپؑ نے اپنے والد گرامی
جعفر بن محمدؑ کی جدوجہد کو مستحکم و منظم کیا۔ الہٰی فرائض کی انجام دہی میں آپؑ نے اس قدر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا کہ اپنی
جان کو قربان کر دیا۔
[ترمیم]
امام صادقؑ کے زمانہ حیات میں کچھ
اصحاب کا یہ خیال تھا کہ آپؑ کے بعد
اسماعیل امام ہوں گے۔
اسماعیل کا اپنے والد کی زندگی میں ہی انتقال ہو گیا مگر کچھ لوگوں نے ان کی
موت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں اپنا امام قرار دیا۔
حضرت صادقؑ کی
شہادت کے بعد ان میں سے کچھ لوگ جب اسماعیل کی حیات سے مایوس ہو گئے تو انہوں نے اسماعیل کے بیٹے
محمد بن اسماعیل کو اپنا امام قرار دیا اور
اسماعیلیہ کا آج تک یہی عقیدہ ہے۔ وہ اسماعیل کے بیٹے کو امام مانتے ہیں، پھر ان کے بیٹے کو اور پھر ان کے بیٹے کو اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔۔۔۔ اس کی تفصیلات اسماعیلیہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔
[ترمیم]
امام صادقؑ کی وفات کے بعد آپؑ کے سب سے بڑے بیٹے کا نام عبد اللہ تھا جنہیں بعض
عبداللّه افطح کہتے ہیں۔ عبد اللہ، امام صادقؑ کے دیگر بیٹوں جیسے مقام و منزلت کے حامل نہیں تھے اور
ارشاد میں
شیخ مفیدؒ کے بقول ان پر یہ تہمت تھی کہ وہ اپنے والد ماجد کے عقائد کی مخالفت کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بھائیوں سے سن و سال میں بڑا ہونے کی وجہ سے امامت کا دعویٰ کر دیا اور کچھ لوگ ان کے پیروکار بن گئے۔ مگر ان کے دعوے اور
علم کا ضعف دیکھ کر ان سے روگردان ہو گئے اور ایک مٹھی بھر جماعت ان کی پیروی پر کاربند رہی کہ جنہیں
فطحیہ کہا جاتا ہے۔
[ترمیم]
امام کاظمؑ کے ایک اور بھائی اسحاق
تقویٰ و
پارسائی اور
اجتہاد میں معروف تھے۔ وہ اپنے بھائی امام موسیٰ کاظمؑ کی امامت کو تسلیم کرتے تھے اور انہوں نے اپنے والد بزرگوار سے یہ
روایت بھی نقل کی کہ انہوں نے حضرتؑ کی امامت پر تصریح فرمائی تھی۔
حضرتؑ کے ایک اور بھائی
محمد بن جعفر تھے۔ محمد ایک
سخی اور
شجاع انسان تھے۔ وہ
زیدیہ جارودیہ سے منسلک تھے۔ ان کی وفات
مامون کے زمانے میں
خراسان میں ہوئی۔
[ترمیم]
حضرت امام موسیٰ کاظمؑ کی عظمت و شان اور بلند
اخلاق اس قدر نمایاں اور آشکار تھے کہ اکثر شیعوں نے
امام صادقؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کی امامت کو تسلیم کر لیا۔ اس کے علاوہ
حضرت صادقؑ کے متعدد شیوخ و خواص جیسے
مفضل بن عمر جعفی،
معاذ بن کثیر،
صفوان جمال اور
یعقوب سراج نے حضرت موسی کاظمؑ کی امامت پر
صریح نص کو امام صادقؑ سے نقل کیا ہے اور یوں، آپؑ کی امامت اکثر شیعوں کے نزدیک ثابت ہو گئی۔
[ترمیم]
عباسی خلیفہ مہدی نے امام کو
بغداد میں قید کر دیا۔ تاہم خواب دیکھنے اور امامؑ کی شخصیت سے متاثر ہونے کے نتیجے میں اس نے عذر خواہی کی اور امامؑ کو مدینہ واپس بھیج دیا۔ کہا جاتا ہے کہ مہدی نے امامؑ سے یہ عہد لیا کہ وہ اس کے اور اس کی اولاد کے خلاف قیام نہیں کریں گے۔
اس
روایت سے پتہ چلتا ہے کہ امام کاظمؑ اس دور میں
قیام کو خلافِ مصلحت سمجھتے تھے۔
امامؑ، بکثرت
عبادت و
زہد کے باعث لوگوں میں ’’العبد الصالح‘‘ کے لقب سے معروف تھے۔ آپؑ کا مقام لوگوں میں اتنا بلند اور عظیم تھا کہ وہ آپؑ کو ظاہری خلافت کیلئے بھی شائستہ سمجھتے تھے۔ یہ بات حکومت کے اندر تشویش و اضطراب کی باعث بنی اور مہدی نے امامؑ کو قید کرنے کا حکم دے دیا۔
[ترمیم]
زمخشری نے
ربیع الابرار میں نقل کیا ہے کہ مہدی کے بیٹے ہارون نے امامؑ کے ساتھ اپنی ایک ملاقات میں
فدک کو واپس کرنے کی تجویز پیش کی مگر حضرتؑ نے قبول نہیں فرمایا۔ جب بہت اصرار کیا تو حضرتؑ نے فرمایا کہ قبول کرتا ہوں بشرطیکہ اس ملکیت کی تمام حدود جو میں متعین کروں گا، وہ میرے سپرد کر دو۔
ہارون نے کہا کہ اس کی حدود کیا ہے؟! امامؑ نے فرمایا کہ اس کی ایک حد
عدن ہے، دوسری حد
سمرقند ہے اور تیسری حد افریقہ جبکہ چوتھا کنارہ امینیہ و خزر کے ساحل تک ہے۔
ہارون یہ بات سن کر سخت غصے میں آ گیا اور کہنے لگا: پس ہمارے لیے کیا بچے گا؟! امامؑ نے فرمایا: مجھے معلوم تھا کہ اگر فدک کی حدود کو متعین کروں گا تو اسے واپس نہیں کرو گے۔ (یعنی
خلافت اور ساری اسلامی سلطنت کی سربراہی میرا حق ہے) اس دن سے ہارون موسیٰ بن جعفرؑ کے قتل پر کمربستہ ہو گیا تھا۔
ہارون نے مدینہ سفر کے دوران قبر رسولؐ کی زیارت کرتے ہوئے
قریش کی بڑی شخصیات اور قبائل کے سربراہوں اور اسلامی ممالک کے علما و قضات کی موجودگی میں کہا:
السلام علیک یا رسول اللّه، السلام علیک یا ابن عم!اس نے یہ جملہ دوسروں پر فخر و مباہات کی غرض سے کہا تھا۔
امام کاظمؑ بھی موجود تھے، آپؑ نے فرمایا:
السلام علیک یا رسول اللّه، السلام علیک یا ابت (یعنی اے بابا جان! آپ پر سلام)
منقول ہے کہ اس پر ہارون کا رنگ اڑ گیا اور اس کے چہرے سے
غصے کے آثار نمایاں تھے۔
امام موسیٰ کاظمؑ کی
ہارون الرشید کے ہاتھوں قید کی بابت
شیخ مفیدؒ،
ارشاد میں روایت کرتے ہیں کہ امامؑ کی گرفتاری اور قید کا باعث
یحییٰ بن خالد بن برمک ہے؛ چونکہ ہارون نے اپنے بیٹے امین کو اپنے ایک قریبی
جعفر بن محمد بن اشعث کے سپرد کیا تھا۔ یہ شخص کچھ مدت تک ہارون کی طرف سے
خراسان کا والی بھی مقرر ہوا تھا اور یحییٰ بن خالد کو یہ خوف تھا کہ اگر
خلافت امین کو ملی تو جعفر بن محمد بن اشعث حکومتی باگ ڈور سنبھال لے گا اور یحییٰ اور برمکی اپنے مقام سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
جعفر بن محمد بن اشعث
شیعہ تھا اور امام موسیٰ کاظمؑ کی
امامت کا قائل تھا۔ یحییٰ نے یہ بات ہارون کو بتا دی۔ آخر کار یحییٰ بن خالد نے امام کے بھتیجے
علی بن اسماعیل بن جعفر کو مدینہ سے طلب کیا تاکہ ہارون کے پاس جا کر امام اور جعفر کے خلاف شکایت کرے۔
منقول ہے کہ مدینہ سے روانگی کے وقت امامؑ نے علی بن اسماعیل کو طلب کیا اور اسے اس
سفر پر جانے سے منع کیا اور نصیحت کی کہ اگر جانے پر مجبور کیا جائے تو ہارون کے ساتھ تعاون نہ کرے۔ علی نے قبول نہیں کیا اور وہ یحییٰ کے پاس چلا گیا، پھر ہارون کے پاس جا کر شکایت کی کہ اسلامی ممالک کے شرق و غرب سے انہیں مال آتا ہے، یہاں تک کہ انہوں نے تیس ہزار دینار کی ایک زمین خرید کی ہے۔
ہارون اس سال
حج پر گیا اور امامؑ سمیت مدینہ کی کچھ بڑی شخصیات نے اس سے ملاقات کی۔ ہارون نے رسول خداؐ کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ! آپؐ سے معافی چاہتا ہوں کہ موسیٰ بن جعفر کو قید کر رہا ہوں کیونکہ وہ آپؐ کی امت کو توڑنا چاہتا ہے اور ان کا خون بہانا چاہتا ہے۔
پھر اس کے حکم پر امام کو
مسجد سے باہر لے جایا گیا اور مخفیانہ
بصرہ کے والی
عیسی بن جعفر بن منصور کے پاس بھجوا دیا۔ عیسیٰ نے کچھ مدت کے بعد ہارون کو ایک خط لکھا اور کہا کہ موسیٰ بن جعفر زندان میں
عبادت اور
نماز کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ یا کسی کو بھیج کر انہیں اپنی تحویل میں لو یا میں انہیں آزاد کر دوں گا۔
ہارون نے امامؑ کو
بغداد بلوا لیا اور
فضل بن ربیع کے حوالے کر دیا۔ اس نے کچھ مدت کے بعد امامؑ کو نقصان پہنچانا چاہا مگر فضل نے قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد ہارون نے امامؑ کو
فضل بن یحییٰ بن خالد برمکی کے حوالے کر دیا۔
امامؑ فضل کے گھر میں بھی نماز،
روزے اور
تلاوتِ قرآن میں مشغول رہتے تھے؛ اس لیے فضل نے بھی آپؑ پر سختی نہیں کی اور ہارون یہ خبر سن کر غضبناک ہو گیا۔
[ترمیم]
ہارون عباسی نے زندان میں بھی امام کاظمؑ کے وجود کو برداشت نہیں کیا اور حکم دیا کہ آپؑ کو زہر دے دیا جائے۔
آخرکار یحییٰ نے امام کو
سندی بن شاہک کے سپرد کر دیا اور سندی نے حضرتؑ کو زندان میں زہر دیا۔ اس طرح امامؑ سنہ ۱۸۳ہجری میں پچپن برس کے سن میں بغداد کے قید خانے میں
شہید ہوئے۔
جب حضرتؑ کا وصال ہوا تو سندی نے حضرتؑ کا پاکیزہ
جسد بغداد کے
فقہا اور بڑی شخصیات کے سامنے رکھ دیا کہ دیکھیں، ان کے
بدن پر
زخم یا گلا گھوٹنے کے نشانات نہیں ہیں۔ پھر آپؑ کو
باب التبن کے اندر مقابر قریش موجودہ
کاظمین نامی مقام پر دفن کر دیا۔
[ترمیم]
حضرتؑ کی شہادت سات
صفر بروز جمعہ یا پانچ یا پچیس
رجب سنہ ۱۸۳ہجری کو پچپن برس کے سن میں بیان کی گئی ہے۔
[ترمیم]
بحار الانوار،
مجلسی، ج۴۸۔
اعیان الشیعة، ج۲۔
الارشاد الی حجج الله علی العباد۔
الکامل فی التاریخ(سنہ ۱۸۳ کے واقعات)۔
تاریخ بغداد، ج۱۳۔
سیر اعلام النبلاء،
ذهبی، ج۶۔
[ترمیم]
•
امام علی علیہ السلام•
امام حسن علیہ السلام•
امام حسین علیہ السلام•
امام سجاد علیہ السلام•
امام محمد باقر علیہ السلام•
امام صادق علیہ السلام•
امام رضا علیہ السلام•
امام علی النقی علیہ السلام•
امام حسن عسکری علیہ السلام•
امام مہدی علیہ السلام•
[ترمیم]
[ترمیم]
فرهنگ شیعه، جمعی از نویسندگان، ج۱، ص۱۱۲۔ نرمافزار جامعالاحادیث، قسمت اهلبیت، امام کاظم۔