امکان استعدادی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



کلمہِ امکان جب بغیر کسی قید و شرط کے استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب ماہیت سے وجود اور عدم ہر دو ضرورت کو سلب کرنا ہے جس کو امکانِ ماہوی کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح امکان کا ایک معنی کسی شیء میں جدید اور نئی حالت کو قبول کرنے کی استعداد اور صلاحیت کا ہونا ہے۔ استعداد اور صلاحیت ہونے کے اعتبار سے اس کو امکانِ استعدادی سے تعبیر کیا گیا ہے۔


امکان استعدادی کی تعریف

[ترمیم]
مادہ کا مختلف صورتوں اور اعراض کو اختیار کرنے کی قابلیت، استعداد اور صلاحیت کو امکانِ استعدادی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ امکان استعدادی مادہ پر قائم ہونے والی کیفیات کی ایک وجودی صفت ہے جس کے ذریعے مادہ مختلف فعلی حالتوں کو اختیار کرتا ہے۔ وہ شیء جو جدید حالت کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہ کسی نہ کسی جدید صورت یا عرض کو اختیار کر سکتی ہے، مثلا ایک لکڑی ہے جس کو جلا کر راکھ بنا دیا جاتا ہے۔ اس مورد میں لکڑی کا مادہ جدید حالت میں ڈھل گیا جس کو راکھ کہا گیا۔ اس قسم کی تبدیلی و تغییر کو فلسفہ کی اصطلاح میں شیء کی صورت میں تبدیلی کا ہونا کہتے ہیں۔ اس مثال میں لکڑی کی صورت تبدیل ہو کر راکھ کی صورت میں ڈھل گئی ہے۔ لکڑی میں اس تبدیل کا ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ لکڑی میں خاص حالت موجود ہے جس کی وجہ سے لکڑی کو جلایا گیا تو وہ راکھ بن گئی؛ کیونکہ لکڑی کے علاوہ دیگر چیزیں مثلا تیل، پانی وغیرہ کو جلایا جائے تو وہ راکھ نہیں بنتے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ لکڑی کا خاکستر ہونے اور راکھ بننے کی حالت خود لکڑی سے حاصل ہوئی ہے نہ کہ لکڑی سے باہر کہیں سے۔ فلسفی اصطلاح میں لکڑی میں اس استعداد اور صلاحیت کا ہونا کہ وہ جلانے سے راکھ بن جائے امکانِ استعدادی کہلاتا ہے۔

← امکان استعدادی اور خود استعداد میں فرق


استعداد اور امکانِ استعدادی میں فرق کرنا ضروری ہے کیونکہ بعض اوقات اہل علم ان دونوں میں خلط ملط کرنے کی وجہ سے اشتباہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان دونوں میں فرق جاننے سے پہلے چند نکات کو جاننا ضروری ہے:
۱) کائنات اور عالم مادہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شیء ہمیشہ ایک حالت میں باقی نہیں رہتی بلکہ اس میں تغیر و تبدّل آتا رہتا ہے، مثلا ایک گندم کا بیچ تبدیل ہو کر خوشہ گندم بن جاتا ہے، کھجور کی گھٹلی تبدیل ہو کر کھجور کار ایک تنا ور درخت بن جاتی ہے، نطفہِ انسان تبدیل ہو کر عقلہ اور بھر مضغہ بن جاتا ہے وغیرہ۔
۲) اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات میں ایک شیء تبدیل ہو کر اپنی مرضی سے دوسری شیء نہیں بنتی، مثلا گندم کا دانہ سونا یا چاندی نہیں بنتا بلکہ خوشہ گندم ہی بنے گا، کھجور کی گھٹلی سے کھجور کا درخت برآمد ہو گا نہ کہ دیگر اناج اس سے پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے۔ پس عالم مادہ میں ایک شیء ایک معین شیء میں تبدیل ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ اشیاء خود سے جو بھی حالت اختیار کرنا چاہیے وہ اختیار کر لیں۔ پس یہاں سے معلوم ہوا کہ عالم مادہ میں ایک وجود دوسری شیء بننے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن ہر شیء بننے کی صلاحیت نہیں۔
۳) ہر گندم کا دانہ مستقبل اور آئندہ زمانے کا خوشہ گندم ہے، ہر کھجور کی گٹھلی مسقبل و آئندہ کھجور کا تن آور درخت ہے، ہر نظفہ انسان مستقبل میں علقہ و مضغہ و جسمِ کامل ہے وغیرہ۔ یہ مثالیں بیان کرتی ہیں کہ یہ وجودات مستقبل اور آئندہ زمانے کے اعتبار سے ایک استعداد و صلاحیت کی مالک ہیں۔ اس جگہ ہم کہیں گے کہ دانہِ گندم خوشہِ گندم کی استعداد و قابلیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد اس کو ہم ایک اور اسلوب میں کہتے ہیں: ہر دانہِ گندم میں خوشہِ گندم کے وجود کا امکان موجود ہے۔ ان دونوں جملوں میں فرق کرنا ضروری ہے۔ ہم ایک اور مثال لے لیتے ہیں: ہر انسانی نطفہ علقہ بننے کی صلاحیت و استعداد رکھتا ہے، یا یہ کہیں: ہر نطفہِ انسان میں علقہ کے وجود کا امکان موجود ہے۔

ان نکات کو سمجھنے کے بعد بآسانی ہمارے پاس فرق آ جاتا ہے۔ اگر ہم استعداد اور قابلیت کی نسبت مُسۡتَعِدّ کی طرف دیں تو یہ استعداد کہلاتا ہے۔ لیکن اگر ہم استعداد کی نسبت مُسۡتَعِدّ لَهُ کی طرف دیں تو یہ امکانِ استعدادی کہلاتا ہے۔ پس فرق مستعد اور مستعد لہ کے اعتبار سے ہے، مثلا گندم کا دانہ مُسۡتَعِد ہے جو صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ خوشہِ گندم مُسۡتَعِدّ لَهُ ہے۔ اگر ہم گندم کے دانے کی طرف سے آئیں اور کہیں کہ یہ خوشہ گندم بن سکتا ہے تو یہ استعداد کہلائی گی نہ امکانِ استعدادی، لیکن اگر ہم خوشہِ گندم یعنی مُسۡتَعد لَه کی طرف سے آئیں اور کہیں کہ خوشہِ گندم کا امکان اس دانہِ گندم میں موجود ہے تو اس کو ہم امکانِ استعدادی کہیں گے، اس طرح نطفہ کی مثال لے لیں کہ اگر ہم کہیں کہ نطفہ انسان بن سکتا ہے تو یہ استعداد ہے لیکن اگر ہم انسان کی طرف سے آئیں اور کہیں کہ انسان اس نطفہ میں پایا جاتا ہے تو یہ امکانِ استعدادی کہلائے گا۔

← امکان استعدادی کا تعلق مادہ سے ہے


ایک شیء میں جدید حالت کو قبول کرنے کی صلاحیت کا ہونا مادہ اور مادی اجسام سے تعلق رکھتا ہے۔ کیونکہ اگر ہم امکانِ استعدادی تمام موجودات سے وابستہ قرار دیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غیر مادی وجودات اور مجردات بھی امکانِ استعدادی کے دائرہ میں آ جائیں گے اور مجردات میں اس طرح کا تغیر اور تبدّل ممکن نہیں ہے۔ مجردات اور غیر مادی وجودات بالفعل ہر اس کمال سے آراستہ ہوتے ہیں جو انہیں مطلوب ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ان میں کسی قسم کی حالت انتظار نہیں ہوتی کہ وہ کسی جدید حالت کو اختیار کریں۔ اس بناء پر امکانِ استعدادی ایک ایسا وجودی وصف کہلائے گا جس کا تعلق خارج میں اجسام اور مادیات سے ہے جبکہ مجردات میں امکان استعدادی یا جدید حالت کی تبدیلی محال ہے۔

← امکان استعدادی عرض ہے نہ کہ جوہر


فلاسفہِ قدماء کے کلام میں ہمیں اگرچے یہ اصطلاح نظر نہیں آتی لیکن انہوں نے معنی کے اعتبار سے اس سے بحث کی ہے۔ پہلی شخصیت جس نے واضح طور پر امکانِ استعدادی کی اصطلاح استعمال کی وہ شیخ اشراق ہیں۔ مشہور فلاسفہ کی نظر میں امکانِ استعدادی کا شمار مفاہیم ماہوی میں ہوتا ہے۔ فلاسفہ نے اصل ماہیات کو مقولات میں قرار دیا ہے جن کی تعداد دس (۱۰) ہے۔ یہ تمام مقولات جوہر اور نو اعراض (کم، کیف، این، متی، وضع، جدہ، اضافہ، ان یفعل، ان ینفعل) میں تقسیم کیے گئے ہیں۔ اکثر فلاسفہِ اسلامی کے نزدیک امکانِ استعدادی کا شمار اعراض میں ہوتا ہے اور انہوں نے اس کا شمار مقولہ کیف میں کیا ہے۔ پس امکانِ استعدادی ایک کیفیت ہے جو مادہ پر طاری ہوتی ہے جس کی وجہ مادہ میں اس کیفیت کو قبول کرنے کی صلاحیت و استعداد کا ہونا ہے۔ اس کیفیت کو قبول کیے بغیر مادیات میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ نام پس معلوم ہوا ہے کہ امکانِ استعدادی خود ماہیتِ کیف ہے جو مادہ پر عارض ہوتی ہے اور اس میں تغیر و تبدل کا باعث بنتی ہے۔ امکانِ استعدادی کو کیفِ استعدادی بھی کہتے ہیں۔

امکان استعدادی اور امکان خاص میں فرق

[ترمیم]

حکماءِ اسلامی نے امکانِ استعدادی اور امکان خاص جسے امکانِ ماہوی کہا جاتا ہے میں متعدد فرق بیان کیے ہیں۔ امکانِ استعدادی ایک ایسا وجودی وصف ہے جو عملی طور پر قریب و بعید، شدید و ضعیف کو قبول کرتا ہے اور اس کا موضوع مادہ ہے۔ برخلاف امکانِ خاص کے کہ امکانِ خاص ایک معنیِ عقلی ہے جس کو قریب و بعید یا شدت و ضعف سے متصف نہیں کر سکت، نیز اس کا موضوع ماہیت من حیث ھی ہے جوکہ ماہیت سے کبھی جدا نہیں ہوتا۔ پس کہا جا سکتا ہے کہ وہ مادہ جو خارج میں موجود ہے اس میں استعداد شدید ہے یا استعداد ضعیف۔ جبکہ امکانِ خاص یعنی امکانِ ماہوی فقط ایک ماہیتِ انتزاعی ہے جوکہ ایک مفہوم اعتباری اور معقولات ثانیہ فلسفی میں شمار کیا جاتا ہے۔ امکانِ خاص شدید و ضعیف نہیں ہوتا کیونکہ اس کا معنی ضرورت کا سلب کرنا ہے جبکہ شدت و ضعف سلب کرنا نہیں ہے۔ امکانِ ماہوی ہمیشہ ماہیت کے ہمراہ قرار پاتی ہے چاہے وہ ماہیت خارج میں موجود ہو یا معدوم، جبکہ امکانِ استعدادی فقط ان ماہیات کے لیے وصف قرار پاتا ہے جو خارج اور عالم واقع میں موجود ہیں۔ امکانِ استعدادی ماہیاتِ معدومہ سے وابستہ و متعلق نہیں ہوتیں۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، الاسفار الاربعۃ، ج۱، ص۱۵۴۔    
۲. طباطبائی، سید محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ص۶۲۔    
۳. شہید مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، ج ۱۰، ص ۲۱۸۔    
۴. مومن، محمد مہدی، شرح بدایۃ الحکمۃ، ج ۱، ص ۱۷۷۔    
۵. شہید مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، ج ۱۰، ص ۲۰۳۔    
۶. سبزواری، ملا ہادی، شرح المنظومۃ، ج۲، ص۲۸۰۔    
۷. طباطبائی، سید محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ص۶۲۔    
۸. علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص ۵۶۔    
۹. ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، الاسفار الاربعۃ، ج۱، ص۱۵۴۔    


مأخذ

[ترمیم]

سایٹ پژوہہ، برگرفتہ از مقالہ امکان استعدادی۔    
بعض مطالب اور عناوین ویکی فقہ اردو کی طرف سے اضافہ کیے گئے ہیں۔


اس صفحے کے زمرہ جات : امکان کی اقسام | فلسفی اصطلاحات




جعبه ابزار