انما

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



لفظِ اِنَّمَا حصر اور استنثاء پر دلالت کرتا ہے۔


انما کا استعمال

[ترمیم]

إِنَّمَا ادواتِ حصر و استثناء ہے۔ علماءِ اصول میں مشہور قائل ہیں کہ إِنّما حصر پر دلالت کرتا ہے جس پر دلیل تبادر ہے۔ فرق نہیں پڑتا انما کے ذریعے موصوف کو صفت میں حصر کریں، جیسے وَما مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ ؛ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ) فقط رسول ہیں۔ ، إِنَّما أَنْتَ مُنْذِرٌ؛ آپ فقط انذار کرنے والے ہیں۔ ، یا صفت کو ذاتِ موصوف میں حصر کیا جائے، جیسے إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَ الْمَساكين‌؛ صدقات فقط فقراء و مساکین ۔۔۔۔ کے لیے ہیں۔ اس آیتِ کریمہ میں زکات کے مصارف کو بیان کیا گیا ہے کہ زکات کن کن افراد کو دی جا سکتی ہے، یہاں صفت کو موصوف میں حصر کیا رہا ہے اور بتایا گیا ہے کہ زکات فقط ان افراد کو دی جا سکتی ہے جن کا تذکرہ اس آیت کریمہ میں کیا گیا ہے۔

علماء کی آراء

[ترمیم]

علماء نحو اور علماء بلاغت کا اتفاق ہے کہ انما حصر اور قصر کے لیے آتا ہے۔ اگر چے اس مسئلہ میں اصولیوں میں اختلاف پیدا ہوا ہے اور بعض اصولیوں نے انما کے اس استعمال کی نفی کی ہے۔

جہاں تک علماءِ اصول کا تعلق ہے تو مشہور کا نظریہ ہے کہ انما ہمیشہ حصر کا فائدہ دیتا ہے اور حصر کے معنی میں آتا ہے۔ مشہور کے مقابلے میں بعض کا نظریہ ہے کہ انما حصر پر دلالت نہیں کرتا، جیساکہ فخر الدین رازی معتقد ہیں کہ انما کی دلالت حصر پر نہیں ہے۔ اسی طرح شیخ مرتضی انصاری معتقد ہیں کہ انما کی حصر پر دلالت موارد کے مختلف ہونے سے مختلف ہو جاتی ہے اور ہمارے پاس کوئی کلی ضابطہ موجود نہیں ہے کہ ہم اس ضابطے کو اختیار کریں۔ یعنی بعض موارد میں انما حصر کا فائدہ دیتا ہے اور بعض موارد میں حصر کا فائدہ نہیں دیتا۔

اہم نکتہ

[ترمیم]

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انما کی حصر پر دلالت مفہوم کے اعتبار سے ہے یا منطوق کے اعتبار سے؟ اس بارے میں اختلاف وارد ہوا ہے۔ اکثر اصولی قائل ہیں کہ انما کی حصر پر دلالت مفہوم کے اعتبار سے ہے۔ لیکن میرزا نائینی کی مانند بعض علماء قائل ہیں کہ انما کی حصر پر دلالت منطوق کے اعتبار سے ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. عمران/سوره۳، آیت ۱۴۴۔    
۲. رعد/سوره۱۳، آیت ۷ ۔    
۳. توبة/سوره۹، آیت ۶۰۔    
۴. مظفر، محمد رضا، اصول الفقہ، ج۱، ص ۱۲۷- ۱۲۸۔    
۵. مدرس افعانی، محمد علی، المدرس الافضل فیما یرمز ویشار الیہ و المطول، ج ۴، ص ۳۶۲۔    
۶. ابن مالک، محمد بن عبد اللہ، شرح الشافیۃ الکافیۃ، ج ۱، ص ۱۵۸۔    
۷. سیالکوٹی، عبد الحکیم بن شمس الدین، حاشیۃ السیالکوٹی علی کتاب المطول، ص ۹۱۔    
۸. خوئی، ابو القاسم، محاضرات فی اصول الفقہ، ج۵، ص ۱۴۰- ۱۴۱۔    
۹. آخوند خراسانی، محمد کاظم بن حسین، کفایۃ الاصول، ص۲۱۱۔    
۱۰. إفادة نائینی، محمد حسین، فوائد الاصول، ج۱، ۲، ص۵۱۰۔    
۱۱. مکارم شیرازی، ناصر، انوار الاصول، ج۲، ص ۷۵- ۷۶۔    
۱۲. حائری، عبدالکریم، درر الفوائد، ص۱۷۷۔    


مأخذ

[ترمیم]
فرہنگ‌ نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۲۶۹، برگرفتہ از مقالہ انما۔    
بعض حوالہ جات ویکی فقہ اردو کی طرف سے اضافہ کیے گئے ہیں۔






جعبه ابزار