اولاد کی تربیت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
عصرِ حاضر کی نوجوان نسل مغربی ثقافت کی تباہیوں کی زد میں ہے، ایسے میں دیندار گھرانے اپنے بچوں اور بالخصوص نوجوان نسل کی تربیت کو لے کر شدید پریشانی کا شکار نظر آتے ہیں، بچوں کو
نماز کی ترغیب دلاتے ہیں اور دینی مسائل سے آگاہ کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں لیکن
جوان نسل کی راہیں ہی جدا ہیں، یہ مسئلہ واقعی میں سادہ نہیں اس بات کو درک کرنا ضروری ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو صحیح دینی تربیت اس وقت کر سکتے ہیں جب ہماری
دعوت کی روش درست ہو، اگر دین کی طرف رغبت دلانے کی درست و منطقی روش اختیار نہ کی گئی تو الٹا نوجوان نسل دین سے دور ہوگی۔
[ترمیم]
انسان کی نوجوانی کا دور عمر کا حساس ترین دورانیہ شمار ہوتا ہے، نوجوان احساسات کا مجموعہ و جذبات سے پُر ہوتا ہے اس لیے کبھی بھی اس کو سمجھانے کی غرض سے اس کا کسی دوسرے نوجوان سے مقائسہ مت کریں، کسی اچھے با
اخلاق نوجوان کی مثال دے کر اسے سرزنش مت کریں، کبھی بھی دینی امور کی طرف رغبت بڑھانے کے لیے زبردستی سے کام مت لیں کیونکہ اس سے نوجوان آپ کی بات اور راہ ہر دو سے بیزار ہونے لگے گا، ذیل میں چند نکات کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے اور مخاطب سے تقاضا ہے کہ زمان و مکان کی مناسبت سے ان نکات کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔
[ترمیم]
نوجوان کی
تربیت اخلاقی کے لیے ضروری ہے کہ تکراری وعظ و نصیحت کی بجائے
زبانِ دل سے نوجوان کو سمجھایا جائے، دل کی زبان پیار اور
محبت ہے اگر اس روش کو اختیار کر کے نوجوان کو کسی امر کی ترغیب دی جائے تو یہ زیادہ کارآمد ہے، نوجوان کو سمجھائیے کہ آپ ان کا کسی قسم کا دینی یا دنیوی نقصان کا تصور بھی نہیں کر سکتے بلکہ اس کی بھلائی چاہتے ہیں.
[ترمیم]
اگر آپ اپنے بچوں کی دینی تربیت کے خواہاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اپنے اختیار سے دیندار بنیں تو آپ کو چاہیے کہ ان کے
عواطف کو
تحریک کریں،
تلقین کریں اور ان کے سامنے نمونہ پیش کریں لیکن کیسے؟ یہ سب غیر مستقیم طور پر انجام دیں نا کہ مستقیم طور پر!
کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ جب جی چاہا نصیحت کر دی، یہ روش درست نہیں بالخصوص جب آپ کی جانب سے ہر روز ایک ہی نصیحت نوجوان کو سننے کو ملے، وہ بیزار ہو جاتا ہے ضروری ہے کہ ایک اچھے و مناسب وقت میں نوجوان کو نیک امر کی تشویق کی جائے، مثلا اس وقت جب آپ
احساس کریں کہ آپ کا اپنے بچے سے بہت اچھا وقت چل رہا ہے، اور آپ جانتے ہیں کہ بطور ماں یا باپ ایسے دورانیے میں آپ کی بات نہیں ٹالے گا تو ایسے مواقع سے اپنے حق کو جتلاتے ہوئے مثلا یہ کہیں کہ اے میرے بیٹے! اگر آپ نے یہ بری عادت ترک کہ نہ کی تو میں آپ سے ناراض ہونگا. یا اگر آپ جانتے ہیں کہ آپ کا بیٹا کسی اور چیز کو بے شک اہمیت نہ دیتا ہو لیکن ذاتِ
امام حسین (علیهالسّلام) کے لیے بہت جذباتی ہے تو آپ
نماز ظهر عاشورای کا حوالہ دے کر اسے نماز کی طرف راغب کرسکتے ہیں...
ماں باپ بچپن سے ہی اپنی اولاد کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں خصوصاً ماں جس نے رات دن ایک کر کے اپنے بچے کو بڑا کیا اور باپ کہ جس نے اس کی کفالت کی، اگر بچے نیک ہوں تو ماں باپ کے لیے نا فقط اس دنیا میں فخر کا باعث بنتے ہیں بلکہ ماں باپ کی موت کے بعد بھی ان کے لیے صدقہ جاریہ قرار پاتے ہیں اس لیے ہر ماں باپ کو کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی اولاد کی دینی بنیادوں پر تربیت کر کے جائیں، اس کے لیے اگر انہیں اپنے بچوں کی مالی طور پر بھی حوصلہ افزائی کرنی پڑ جائے گھاٹے کا سودا نہیں، ماں باپ کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو دینی امور میں دلچسپی بڑھانے پر انہیں خراج تحسین پیش کریں، ان سے کہیں کہ اگر انہوں نے آئندہ نماز میں سستی نہ کی تو انہیں سفرِ
زیارات پر لے جایا جائے گا، اور اگر مالی طور پر اتنی وسعت نہ تو انہیں کسی تفریحات
سفر پر لے جانے کی پیشکش کریں.
نوجوان کا دل دھونس و دھمکی آمیز نصیحت کو قبول نہیں کرتا لیکن بعض اوقات آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے بچے کو اس وقت ہلکی پھلکی سرزنش یا دھمکی کی ضرورت ہے، اگرچہ یہ ہتھیار اکثر اوقات کارگر نہیں لیکن بعض مواقع پر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں خصوصاً جب آپ محسوس کریں کہ ابھی دھمکی کا وقت ہے، مثلا اسے کہیں کہ اگر تم نے
نماز کو اہمیت نہ دی تو تمہارا جیب خرچ کم کر دیا جائے گا وغیرہ۔
نوجوان کو اس کی کسی برائی کی وجہ سے بار بار نفرت کا نشانہ بنانا کبھی بھی آپ کے بچے کو اس برائی سے نکال نہیں سکتا، اس کی بجائے نوجوان کی اچھی صفات کے بارے میں اس کے ساتھ بات کریں اور اسے یقین دلائیں کہ اس کے اندر موجود یہ صفت اعلی ترین صفات میں سے ہے جو فقط اس میں پائی جاتی اور بہت کم نوجوانوں میں پائی جاتی ہے اس طرح سے آپ اس کا اعتماد حاصل کرسکتے ہیں، جب نوجوان نے یہ بات درک کر لی کہ آپ واقعی اس کے خیرخواہ ہیں خواہ مخواہ میں اس کو بے عزت کرنے پہ نہیں تلے ہوتے تو وہ بھی آپ کے ساتھ صمیمانہ رابطہ استوار کر لے گا اور اس کے بعد آپ کی تنقید کو بھی منطقی طور پر لے گا اور اپنی عادات و اطوار پر نظر ثانی کرے گا۔
ہمارے ماں باپ کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ آج کی نسل اسووں (Role Model) کو اہمیت دیتی ہے، نوجوان کا رول ماڈل وہ بنتا ہے جسے وہ زیادہ دیکھتا ہے یا سنتا ہے. اس رول ماڈل کو دیکھ کر اس کی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور خود اس جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے، نوجوان کے اندر موجود اس خوبی کا آپ بھی بخوبی فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اسے اپنے ساتھ ایسی محافل میں لے جاسکتے ہیں جہاں پر بانشاط، جذاب اور
اهل نماز نوجوان موجود ہوں، تاکہ آپ کا بچہ اس نوجوان سے بطور ناخودآگاہ
اخلاق سیکھے اور اس کی سوچ متدین افراد کے بارے میں بدلے، کیونکہ آج کی نسل کا نوجوان یہ سمجھتا ہے کہ
دینداری یعنی بی نشاطی، غمگین رہنا، عقب افتادہ ہونا یا پرانے طور طریقوں پر عمل کرنا....
نوجوان کو اگر آپ بلاواسطہ طور پر تکراری نصیحت کریں یا کسی نامناسب فعل کی انجام دہی پر سرزنش کریں تو وہ اپنا
غرور ٹوٹتا ہوا محسوس کرتا ہے، وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کی کسی قسم کی قدر و عزت نہیں اپنی
عمر کو بے معنی سمجھنے لگتا ہے جس سے اس کے اندر اضطراب پیدا ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ نوجوان کے اندر موجود احساسات و جذبات کا خیال رکھتے ہوئے بطور غیر مستقیم نصیحت کریں، مثلا اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں کہ دوسروں کے سامنے کبھی بھی اسے سرزنش نا کریں، نوجوان کی اپنی عزت نفس ہے اور اسی عزت نفس کی وجہ سے وہ اپنی محافل میں شریک ہوتا ہے اگر آپ نے ہی اس کا احترام نہ کیا تو معاشرے میں کوئی بھی اسے عزت نہیں دے گا بلکہ خود نوجوان بھی احساس کمتری کا شکار ہوسکتا ہے۔
[ترمیم]
نوجوان بغیر کسی وجہ کے خود بخود نہیں بگڑ جاتے بلکہ بہت سے عوامل مل کر نوجوان کی زندگی کو خراب کرتے ہیں، اس میں ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم نے نوجوان کو وہ وقت، پیار اور محبت ہی نہیں دی جو اس کا حق بنتا تھا، غلطی ہر نوجوان کرتا ہے لیکن ایسی موقع پر بہت کم ماں باپ نوجوان کا ہاتھ تھام لیتے ہیں اور اسے بچا لیتے ہیں لیکن اکثر ماں باپ اس حساس وقت میں بچوں کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیتے ہیں مثلا ان کی سخت تنبیہ کر کے بعض اوقات ہمیشہ کے لیے ان کو خود سے دور کر دیتے ہیں، کیا آپ نے کبھی اپنا بیٹھ کر جائزہ لیا ہے کہ آپ کتنے سخت باپ ہیں؟ کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ جب آپ گھر میں داخل ہوتے ہیں تو سب کے ہنستے ہوئے چہرے مرجھا جاتے ہیں، آپ کے ساتھ بیٹھنے کی بجائے سب اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں اور جب آپ گھر سے باہر نکل جاتے ہیں تو سب سکھ کا سانس لیتے ہیں؟ کیا آپ نے اپنے رویوں پر نظر ثانی کی؟ کیا آپ کا بے جا سرزنش و مار پیٹ کرنا ہی کہیں اولاد کے انحراف کا سبب تو نہیں؟ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم خود غلط ہوتے ہیں لیکن اپنی اولاد کو غلط سمجھ رہے ہوتے ہیں، مثلا اگر آپ کا بچہ ایک صحیح و شرعی مطالبہ کرے پھر بھی آپ اپنی انا یا غیر منطقی خاندانی تقاضوں و غلط رسم و رواج کی وجہ سے اس کی بات ٹال دیں، ایسے میں ہرگز توقع مت رکھیں کہ آپ کے اس غیر منطقی کام سے اولاد عقلی فیصلے کرے گی وہ بھی بالآخر آپ کی ہی اولاد ہے.
بہت سے گھرانوں میں یہی مسئلہ ہے اور اکثر اوقات علماء کے پاس ایسے افراد آ کر اقرار بھی کرتے ہیں کہ مثلا ہم نے اپنی اولاد کے ساتھ اچھا نہیں کیا خود ان کی زندگی کو برباد کیا ایسے میں کیا کریں؟ یہ احساس ہو جانا بھی بہت بڑی بات ہے بہتر یہ ہے کہ علناً اپنی اولاد سے عذر خواہی کریں اور آئندہ کے لیے بھی ہمیشہ ہر امر میں ان کے ساتھ مشاورت لیں اور ڈکٹیٹر مت بنیں.
بعض اوقات والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں بھی ویسے ہی تربیت کریں جیسے گزشتہ خود ان کے ماں باپ نے انہیں تربیت کیا، اگر آپ کے ماں باپ نے کوئی غلطی کی تو واجب نہیں کہ اس غلطی کو دہرایا جاۓ، تربیت کے پرانے طریقہ کاروں کو اپنی اولاد پر آزمانا لازم نہیں بلکہ جو شرعی طور پر درست اور عقلی طور پر صحیح ہے اسے مدنظر رکھیں۔
[ترمیم]
انسان خواہ وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہو اسے پیار اور محبت چاہیے، جب انسان کسی سے پیار اور محبت سے پیش آتا ہے تو فطرتاً مقابل بھی آپ کی طرف جذب ہوتا ہے. لیکن اگر ہم نے اپنے پیاروں کو پیار نہ دیا اور دیر ہو گئی تو ایسے افراد انہیں پیار دینا شروع کر دیں گے جن کے بارے میں آپ چاہیں گے کہ وہ آپ کے بچوں کے قریب بھی نہ بھٹکیں.
ایک
روایت میں وارد ہوا ہے کہ اپنے پیار کو ظاہر کرو چھپاۓ نہ رکھو، ہر ماں باپ اپنی اولاد سے پیار کرتا ہے لیکن بعض ماں باپ اس کا اظہار نہیں کرتے، یا بعض اوقات سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ اب بڑا ہوگیا ہے بچہ پیار کی کیا ضرورت؟ جی نہیں! بڑا ہو جائے تو اسے محبت کی زیادہ ضرورت ہے. اگر آپ اپنی اولاد سے اپنے عشق کا اظہار کریں گے تو یہ امر باعث بنے گا کہ آپ کی اپنی اولاد سے
دوستی و محبت زیادہ اور پائیدار ہو۔
[ترمیم]
نوجوان کے انحراف میں ایک بہت بڑا ہاتھ اس کے دوستوں کے ماحول کا ہو سکتا ہے، جس نوجوان کا اٹھنا بیٹھنا درست نہ ہو اس کے انحراف کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اس لیے اگر ممکن ہو تو کوشش کریں خیال رکھیں بری صحبت سے اسے بچائیں۔
[ترمیم]
اگر آپ خود کسی وجہ سے اپنی اولاد کے ساتھ برخورد نہیں کرنا چاہتے تو ایسا بھی کیا جا سکتا ہے کہ انہیں کسی فردِ آگاہ یا عالم دین سے ملوائیں البتہ کوشش کریں کسی ایسے شخص سے ملوائیں جسے خود آپ کا برخوردار بھی قبول کرتا ہو، یا کم از کم اس کا احترام کرتا ہو کسی ایسے شخص سے غلطی سے بھی نا ملوائیں جس کا خود کا کردار نوجوانوں میں اسوہ نہ ہو یا الٹا اسے بد دین کر دے۔
[ترمیم]
تربیت کے اصول و ضوابط میں سے ایک اہم ترین اصل یہ ہے کہ جب آپ نوجوان کو کسی چیز سے منع کریں تو اس کا متبادل پیش کریں، اس چیز کا متبادل بہتر اور دلچسپ ہونا ضروری ہے یا کم از کم ایسا ہو کہ جس سے نوجوان کا دل لگ جائے، مثلا اگر آپ نے اسے منع کیا ہے کہ برے دوستوں کی صحبت اختیار کرنے سے گریز کرے تو پھر اسے اچھے دوست ڈھونڈنے میں مدد کریں متقی پرہیزگار افراد سے آشنا کروائیں، یا اگر چاہتے ہیں کہ فلاں بیٹھک پر جا کر اپنا وقت ضائع نہ کرے تو اس کی جگہ متبادل مثبت سرگرمیوں میں وقت گزارنے کا سامان مہیا کریں۔
[ترمیم]
اکثر ماں باپ بچوں کو ہر قسم کی دنیوی سہولیات فراہم کردیتے ہیں لیکن ان کی معنوی رشد و نمو کے لیے اہتمام نہیں کرتے، جب بچہ بگڑ جائے تو مولانا کے پاس شکایت لے کر آ جاتے ہیں کہ ہم نے تو اس کے لیے کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی، اگر آپ نے ان کے لیے دینی کتب نہیں خریدیں، ان کو دینی مجالس و محافل میں نہیں لے کے گئے یا کسی عالم کا ہمنشین نہیں بنایا یا کوئی مذہبی محفل کا گھر میں اہتمام نہیں کیا، جس سے وہ
دین سیکھتے یا اس میں
تفکر کرتے تو آپ نے ہی کوتاہی کی ہے اس لیے ضروری ہے جہاں پر نوجوان کی دنیوی ضروریات کا خیال رکھیں وہاں پر اس کے معنوی ارتقاء کے لیے بھی اہتمام کریں.
[ترمیم]
[ترمیم]
سایت اندیشہ قم، یہ تحریر مقالہ تربیت دینی نوجوان و جوان سے مأخوذ ہے، مشاہدہِ لنک کی تاریخ:۹۵/۸/۱۴۔