نبی کریمؐ کا حضرت خدیجہؑ سے ازدواج
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
خدیجہ بنت
خویلد بن اسد بن
عبد العزّی بن
قصی بن
کلاب بن مرّۃ بن
کعب بن لوی بن غالب ہیں۔آپ عظمت و شان اور شرافت کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دولت مند خاتون تھیں۔ آپ
قریش کے بہترین
نسب سے بہرہ مند تھیں۔ اپنی بے پناہ دولت کے ذریعے قریش کے افراد کو اجیر کر کے منافع بخش تجارت کرتی تھیں۔ محمد امینؐ کی امانت و دیانت سے متاثر ہو کر حضرت خدیجہؑ نے آپؐ کو اپنے تجارتی کاروان کا سربراہ مقرر کر کے یمن اور پھر شام روانہ کیا۔ اس دوران آپ کے اخلاق کریمہ اور کرامات و برکات سے متاثر ہو کر حضرت خدیجہؑ نے خواستگاری کا پیغام بھیجا۔ آنحضورؐ کی جانب سے قبول کیے جانے کے بعد آپ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے اور حضرت خدیجہؑ کو تا قیامت جدۃ الآئمہؑ ہونے کا افتخار نصیب ہوا۔
[ترمیم]
جب
محمد امینؐ کی خبر ان تک پہنچی اور آپؐ کے کریمانہ
اخلاق اور
امانتداری سے مطلع ہوئیں تو آپ صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو
شام کے تجارتی
سفر کی پیشکش کی تاکہ
آنحضرت کو بھی نفع ہو بلکہ دوسروں سے زیادہ منافع آپ کیلئے مقرر کر دیا۔
عبد المطلب کے پوتے خدیجہ کے
میسرہ نامی غلام کے ساتھ یمن (یمن کا
مکہ سے فاصلہ چھ روز کی مسافت پر تھا) کی سرزمین پر واقع ’’
حباشہ ‘‘ کے بازار میں پہنچ گئے۔ وہاں
رجب کے پہلے تین دن سامان کی فروخت سے مختص کیے۔ کاروباری لین دین کے اختتام پر کچھ کپڑا خریدا اور بہت زیادہ منافع کے ساتھ مکہ واپس آئے۔
دوسرے سفر پر خدیجہ نے حضرت محمدؐ کو اسی غلام کے ساتھ شام بھیجا اور اس مرتبہ بھی کاروان کو بہت منافع حاصل ہوا۔
غلام نے حضرت سے کچھ
معجزات کا بھی مشاہدہ کیا تھا نیز
راہبوں کی جانب سے آپؐ کی
رسالت کی گواہی اور اظہار کے بارے میں بھی خدیجہ کو خبر دی۔
[ترمیم]
خدیجہ نے اپنے چچا زاد
ورقۃ بن نوفل کو اس موضوع سے آگاہ کیا چونکہ اس نے سابقہ
مقدس کتب پڑھ رکھی تھیں، اس لیے اس نے بھی تائید و تصدیق کی۔ لہٰذا خدیجہ کا دل پیغمبر موعود کی طرف مائل ہو گیا اور قریش کے بہت سے سرداروں کی جانب سے خواستگاری کا پیغام ملنے کے باوجود حضرت کے ساتھ
ازدواج کی مشتاق ہو گئیں۔
[ترمیم]
از قضا جب اس قلبی رجحان کی خبر کسی طرح رسول خداؐ تک پہنچی تو آپ کے قلب نازنین پر بھی گراں ثابت نہ ہوئی۔
ابوطالب نے خدیجہ کی خواہش کے بارے میں اپنے
بھتیجے کو خبر دی اور حضرت رسالت پناہ کی جانب سے قبول کیے جانے کے بعد
بنی ہاشم کی بڑی شخصیات کے ہمراہ خدیجہ سے خواستگاری کیلئے ان کے چچا عمرو بن
اسد بن عبد العزّیٰ کے پاس چلے گئے؛ اس کی وجہ یہ تھی کہ خدیجہؑ کے والد
حرب فجار سے پہلے انتقال کر چکے تھے۔
[ترمیم]
حضرت ابوطالبؑ نے خطبہ نکاح میں کہا:
اس
خدا کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں
ابراہیمؑ کی ذریت،
اسماعیل کے ثمر،
مُعَدّ کی نسل مبارک اور
مضر (رسول خدا کے جد) کی یادگار قرار دیا، ہمیں اپنے
بیت کا پاسدار اور اپنے
حرم کا نگہبان مقرر فرمایا، ہمیں بلند مرتبہ گھر اور پر امن حرم (کعبہ) عطا فرمایا اور ہمیں لوگوں کا
حکمران بنایا۔
اب اپنے بھتیجے محمد بن عبد اللہ جو آپ کے سامنے ہیں کہ جن کا ہم پلہ کوئی نہیں ہے، شرف و نجابت میں سب پر سبقت رکھتے ہیں اور فضیلت و
عقل مندی میں
عرب اقوام ان کے سامنے خاضع ہیں۔ تاہم اس قدر زیادہ ذہانت و درایت رکھنے کے باوجود مالِ دنیا سے کچھ زیادہ بہرہ مند نہیں ہیں۔ آپ خود جانتے ہیں کہ اس
دنیا کے زر و زیور ہمیشگی نہیں ہیں اور ایک عارضی چیز ہے جو چند دنوں سے زیادہ
انسان کے پاس نہیں رہتی۔
خدا کی قسم! وہ مستقبل میں عظیم خیر و شان کا حامل ہو گا۔ بہرحال وہ آپ کی صاحبزادی خدیجہ خاتون کے ساتھ نکاح کا خواہاں ہے اور
حق مہر پانچ سو
سونے کے
درہم قرار دیتا ہے۔
ورقۃ بن نوفل نے جواب میں کہا:
اس خدا کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں اسی طرح قرار دیا ہے کہ جیسے آپ نے بیان کیا اور ہمیں ان پر برتری دی کہ جنہیں آپ نے شمار کیا۔ پس ہم عرب کے سردار اور پیشوا ہیں اور آپ بھی ایسے ہی ہیں۔ عرب آپ کی عظمتِ شان کی قدردانی کرتے ہیں اور کوئی بھی شخص آپ کے افتخارات کا انکار نہیں کرتا ہے۔ ہم آپ کے شریف
خاندان کے ساتھ وصلت کے خواہاں ہیں۔ پس اے
قبائل قریش! گواہ رہو کہ میں خدیجہ بنت خویلد کا محمد بن عبد اللہ کے ساتھ ازدواج کرتا ہوں (پھر حق مہر کا ذکر کیا)
خدیجہ کے چچا، عمرو بن اسد نے بھی کہا:
اے قریش! گواہ رہو کہ میں نے خدیجہ بنت خویلد کا محمد بن عبد اللہ کے ساتھ ازدواج کر دیا ہے۔
[ترمیم]
ابوطالب کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا اور کہا: اس خدا کا شکر ہے کہ جس نے ہم سے پریشانی و غم کو دور کیا۔
سید الشہداء
حمزہ نے اہل مجلس پر درہم نثار کیے۔ اسی طرح لوگوں میں
عطر کی خوشبو پھیل گئی مگر معلوم نہ ہو سکا کہ کس نے انہیں معطر کیا ہے۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے اپنے ساتھی سے کہا: یہ کس نے تمہیں لگایا ہے؟! اس کے پاس یہی جواب تھا: یہ عطر، محمدؐ ہیں۔ بعد میں حدیث سے معلوم ہوا کہ جبرئیل نے فضا کو معطر کیا تھا۔
[ترمیم]
پھر خدیجہ نے اپنے چچا زاد ورقہ بن نوفل سے کہا: اعلان کریں کہ جو کچھ خدیجہ کی ملکیت میں ہے، بشمول مال، سامان
تجارت ،
غلام اور
کنیز سب کچھ محمدؐ کو پیش کر رہی ہوں کہ جس طرح چاہیں انہیں استعمال کریں۔
اس کے بعد خدیجہ نے بہت سی
بھیڑیں اور مال ابوطالب کے پاس بھیجا تاکہ
ولیمے کا بندوبست کیا جائے۔ ابوطالب نے بھی اہل مکہ کیلئے ایک بڑے ولیمے کا اہتمام کیا جو تین دن تک جاری رہا اور شہری و صحرائی عرب اس سے بہرہ مند ہوئے۔
[ترمیم]
جب خدیجہؑ کے ازدواج کی تیاری ہو گئی تو ابوطالب کیلئے پیغام بھیجا گیا کہ رخصتی کی رسم کا بندوبست کریں۔ پس رسول خداؐ اپنے چچاؤں کے مابین
مصری کتان کے لباس میں ملبوس ہو کر روانہ ہوئے۔
بنو ہاشم کے بچے
چراغ اور
شمعیں ہاتھوں میں لیے ہوئے (آگے آگے چل رہے تھے) اور لوگ محمد امین کے رخ انور سے چمکنے والے نورِ الہٰی کی
زیارت میں محو تھے۔ اس دوران رسول خداؐ کے چچا
عباس بن مطلب خوشی اور
عشق سے یہ اشعار پڑھ رہے تھے:
یا آل فهر وغالب أبشروا بالمواهب
وافخروا يا قومنا بالثنآء والرغائب
شاع في الناس فضلكم وعلا في المراتب
قد فخرتم بأحمد زين كل الاطايب
فهو كالبدر نوره مشرق غير غائب
قد ظفرت خديجة بجليل المواهب
بفتى هاشم الذي ماله من مناسب
جمع الله شملكم فهو رب المطالب
أحمد سيد الورىٰ خير ماش وراكب
فعليه الصلاة ما سار عيس براكب
یعنی:
اے
فھر و
غالب (رسول اکرم کے اجداد) کی اولادو! تمہیں اپنے
کمالات مبارک ہوں؛
اے ہماری
قوم ! تم ناز کرو ثنا خوانی کر کے اور قیمتی وپسندیدہ چیزوں کے ساتھ لوگوں کو نفع پہنچا کر؛
لوگوں میں تمہارا
فضل زبان زد عام ہو چکا ہے اور شہرہ آفاق ہو چکا ہے؛
تم احمد پر فخر و مباہات کرو جو سب پاکیزہ لوگوں کی زینت ہیں؛
ان کا نور چودہویں کے
چاند کی مانند ہے کہ ہمیشہ نور افشانی کرتا ہے اور پنہان نہیں ہوتا؛
خدیجہ کو عظیم سعادت حاصل ہوئی ہے کہ بنی ہاشم کے ایسے جوان سے ازدواج کر رہی ہیں کہ جس کا مثل و نظیر کوئی نہیں ہے؛
خدا تمہارے میں اتفاق کو برقرار رکھے کہ وہ خواہشوں اور تمناؤں کو پورا کرنے والا ہے؛
احمد کائنات کے سرور ہیں اور اس جہان میں زندہ یا یہاں سے سفر کر جانے والے تمام افراد میں سے افضل ہیں؛
پس ان پر
درود و سلام ہو، جب تک سفید و بھورے اونٹ سواروں کو لے کر چلتے رہیں (یعنی تا قیامت)؛
[ترمیم]
حضرت خدیجہؑ کو حضرت محمدؐ کے پاس لایا گیا۔ آپ بلند قامت، تنومند اور سفید رو تھیں اور مہربانی و نیکی میں اپنے زمانے کی خواتین میں سے نمایاں تھیں۔ اس وقت آپ کے سر پر
موتیوں اور جواہرات سے مرصع
تاج تھا اور پاؤں میں
سونے کے پازیب تھے جن میں
فیروزے کے
نگینے جڑے ہوئے تھے۔ گردن میں
زبرجد و
یاقوت کے گردن بند تھے۔
ازدواج کی تاریخ دس
ربیع الاول ہے اور اس وقت پیغمبرؐ کا سن مبارک پچیس برس جبکہ خدیجہ کا سن (ایک قولِ ضعیف کے مطابق) چالیس برس تھا۔
[ترمیم]
رسول خداؐ نے اس خاتون کی زندگی میں کسی دوسری
زوجہ کو اختیار نہیں کیا اور آپ کے بطن سے اللہ نے حضرت محمدؐ کو
اولاد عطا فرمائی۔ پہلے فرزند
قاسم تھے اور اسی نسبت سے پیغمبر اکرمؐ کی کنیت
ابو القاسم ہوئی۔ وہ سات دن کے بعد
انتقال کر گئے۔ دوسرے بیٹے کا نام
عبد اللہ تھا کہ جن کی بعثت کے بعد ولادت ہوئی اور ان کا لقب
طیب و
طاھر تھا۔
بیٹوں کیلئے دو
بھیڑیں اور بیٹی کیلئے ایک بھیڑ کا
عقیقہ اور قربانی انجام دیتے تھے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
ماخوذ از کتاب ’’وفاة الصدیقة الزهراء علیها السلام‘‘، عبد الرزاق المقرم، صفحہ ۱۰ تا ۱۴۔