حاکم

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



حاکم کا لفظ مادہ ح۔ک۔م سے ماخوذ ہے۔ یہ لفظ قرآن کریم اور نہج البلاغہ میں متعدد مرتبہ وارد ہوا ہے۔ حاکم کا مطلب وہ ہے جو حکم دینے والا ہو۔


حاکم کے لغوی معنی

[ترمیم]

لغت میں حاکم کے معنی حکم کرنے والے کے ہیں۔

حاکم کے اصطلاحی معنی

[ترمیم]

اصطلاح میں حاکم اس شخص کو کہتے ہیں جسے کے پاس قدرت ہو اور وہ حکم کرے۔ یعنی حکم کو عالم اعتبار میں ایجاد کرے اور عالم واقعیت میں انشاء کرواۓ۔
دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق اصالتا اللہ تعالی کی ذات حاکم ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا؛ ان الحکم الا للہ۔ اس امر پر مسلمانوں کے سب فرقوں کا اتفاق ہے۔

اسلام میں حاکم

[ترمیم]

خداوند متعال کے علاوہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ)، آئمہ اطہار (علہیم السلام) اور جامع الشرائط مجتہدین بھی حاکم بن سکتے ہیں۔ لیکن ان سب کی حاکمیت خداوند متعال کی حاکمیت کے طول میں قرار پاۓ گی۔
[۱] وهبه، اصول الفقه الاسلامى، زحيلي، ج۱، ص۱۱۵.
[۲] تقنين اصول الفقه، عبدالبر، محمد زكي، ص۲۸.
[۳] فرهنگ معارف اسلامى، سجادي، جعفر، ج۲، ص۲۲۴.


امام خمینی کے نزدیک عصر غیبت میں حاکم

[ترمیم]

عصر غیبت میں مسلمانوں کی حکومت کے متعلق کون کونسی ذمہ داریاں بنتی ہیں اس متعلق امام خمینی نے کتاب ولایت فقیہ لکھی ہے جس میں فرماتے ہیں: اب جبکہ زمانہ غیبت میں کوئی معین شخص خدا کی جانب سے حاکم کے طور پر تعیین نہیں ہوا تو اب کیا کیا جاۓ؟ کیا اسلام کی تعلیمات کو ترک کر دیا جاۓ؟ زمانہ غیبت میں اسلام پر عمل نا کیا جاۓ اور وہ صرف ظہور کے ۲۰۰ سال کے لیے آیا تھا؟ یا پھر یہ کہا جاۓ کہ اسلام نے ہم پر زمانہ غیبت میں حکومت کے متعلق تکلیف معین نہیں کی۔ کیونکہ اگر یہ مان لیا جاۓ کہ اسلام ہمیں زمانہ غیبت میں حکومت کے متعلق کوئی رہنمائی نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلام کی تمام حدود و مقررات معطل ہو جائیں اور ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور جو ہمارے ساتھ ہوتا ہے ہوتا رہے۔ کیا مسلمان زمانہ غیبت میں یہی کام کریں؟ یا پھر یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں زمانہ غیبت میں بھی حاکم کے متعلق دین کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے۔ درست ہے کہ زمانہ غیبت میں معین شخص تو حاکم کے طور پر موجود نہیں لیکن حاکمیت کے لیے وہ خصوصیات جو صدر اسلام سے زمانہ غیبت میں معین تھیں انہیں خصوصیات کو زمانہ غیبت کے حاکم کے لیے بھی قرار دیا جاۓ اور اسے حاکم تعیین کیا جاۓ۔ ان خصوصیات میں اہم ترین علم اور عدالت ہیں جو بہت سے فقہاء میں پائی جاتی ہیں۔ پس اگر زمانہ غیبت میں بھی متحد ہوا جاۓ تو ایک عمومی عادلانہ حکومت قائم کی جاسکتی ہے۔.
امام خمینی کے نظریہ کے مطابق زمانہ غیبت میں جامع الشرائط فقیہ نا صرف یتیموں، سفہاء، مجانین اور بے سہارا لوگوں پر ولایت رکھتا ہے بلکہ اس کو پورے اسلامی معاشرے پر ولایت حاصل ہے۔ جس طرح سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور بقیہ آئمہ معصومین (علہیم السلام) کو معاشرے کی عمومی ولایت حاصل ہے وہی ولایت جامع الشرائط فقیہ کو بھی حاصل ہے۔
ممکن ہے ان باتوں سے کچھ لوگوں کے ذہن میں شبہات پیدا ہوں کہ امام خمینی نے جامع الشرائط کی ولایت کو بیان کرنے میں غلو سے کام لیا۔ یا بہت زیادہ افراط سے کام لیا ہے تو ان باطل خیالات سے محفوظ رکھنے کے لیے امام خمینی ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں: جب ہم کہتے ہیں کہ جو ولایت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آئمہ معصومین (علیہم السلام) کو حاصل ہے وہی ولایت جامع الشرائط فقیہ کو بھی حاصل ہے تو اس سے کسی کو یہ توہم نا ہو جاۓ کہ جو مقام رسول اکرم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کا ہے وہی مقام فقیہ کو بھی حاصل ہے۔ کیونکہ یہاں بات مقام و منزلت کی نہیں ہو رہی بلکہ وظیفہ کی انجام دہی کے متعلق بات ہو رہی ہے۔ ہماری یہاں پر ولایت سے مراد حکومت، معاشرے کی مدیریت کرنا اور شریعت مقدس کے احکام کا اجراء کرنا ہے۔ یہ بہت سنگین و اہم وظائف ہیں۔ پس ہم یہ نہیں کہتے کہ فقیہ کا بھی وہی غیر عادی مقام و منزلت ہے جو عام انسانوں کو حاصل نہیں اور صرف رسول اکرم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کو حاصل ہے۔ ہمارے مورد بحث ولایت سے مراد حکومت و مدیریت و اجراء ہے۔ جبکہ اس کے برخلاف بہت سے افراد یہ گمان کرتے ہیں کہ شاید فقیہ کی ولایت سے مراد بھی وہی شان و منزلت ہے جبکہ ہماری مراد وظیفہ ہے۔
ولایت فقیہ عقلائی و اعتباری امور میں سے ایک امر ہے اور جس کی واقعیت سواۓ جعل کے کچھ نہیں۔ جیسے قیم کو صغار کے لیے جعل کیا جاتا ہے اسی طرح سے ولی فقیہ بھی ہے۔ فرق نہیں پڑتا کوئی قیم ملت ہو اور کوئی قیم صغار۔ فریضہ اور وظیفہ کی انجام دہی کے اعتبار سے دونوں ایک جیسے ہیں۔ مثال کے طور پر امام (علیہ السلام) کسی کو حضانت یا حکومت کے امر میں منصب عطا فرماۓ۔ اس مورد میں کسی کا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی جانب سے متعین ہونا یا کسی امام کی جانب سے متعین ہونے میں عقلی طور پر کوئی فرق نہیں۔.»
امام خمینی فرماتے ہیں کہ اگرچہ فقیہ کو تمام صورتوں میں اسلامی معاشرے پر ولایت حاصل ہے لیکن امور کی ولایت اور تشکیل حکومت ایک ایسا امر ہے جو مسلمین کی اکثریتی راۓ سے مربوط ہے۔ صدر اسلام میں اسے ولی مسلمین کی بیعت سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ روح اللَّه الموسوی الخمینی‌.»
اس بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ فقیہ کی ولایت فی نفسہ لوگوں کی اکثریتی راۓ پر منوط نہیں ہے۔ یعنی اگر لوگوں کی اکثریت حتی فقیہ کے خلاف ہو تب بھی شرعی طور پر ولایت اسی کے لیے ہی ثابت ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کے امور کی ولایت اور تشکیل حکومت جیسے اوامر مسلمانوں کی اکثریتی راۓ سے مربوط ہیں۔البتہ اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ حتما اعلم فقیہ کی طرف رجوع کیا جاۓ۔. لیکن تقلید کے مورد میں احوط یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو صرف اعلم کی تقلید کی جاۓ۔ اسی طرح قضاوت کے باب میں بھی اعلمیت شرط ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. وهبه، اصول الفقه الاسلامى، زحيلي، ج۱، ص۱۱۵.
۲. تقنين اصول الفقه، عبدالبر، محمد زكي، ص۲۸.
۳. فرهنگ معارف اسلامى، سجادي، جعفر، ج۲، ص۲۲۴.
۴. موسوعة الامام الخمینی، ج۲۱، ولایت فقیه حکومت اسلامی، ص۵۰.    
۵. موسوعة الامام الخمینی، ج۲۱، ولایت فقیه حکومت اسلامی، ص۵۱.    
۶. موسوعة الامام الخمینی، ج۴۱، استفتائات امام خمینی ج۱۰، ص۷۷۱، سؤال ۱۲۸۲۸.    
۷. موسوعة الامام الخمینی، ج۲۴، العروة الوثقی مع تعالیق الامام الخمینی، ج۱، ص۱۶، الاجتهاد و التقلید، مسالة ۶۸.    
۸. موسوعة الامام الخمینی، ج۲۲، تحریرالوسیلة، ج۱، ص۴، المقدمة، مسالة ۵.    
۹. موسوعة الامام الخمینی، ج۲۳، تحریرالوسیلة، ج۲، ص۴۳۵، کتاب القضاء، القول فی صفات القاضی و ما یناسب ذلک، مسالة ۱.    


ماخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۳۸۸، برگرفتہ از مقالہ «حاکم»۔    
• ساعدی، محمد، (مدرس حوزه و پژوہشگر)، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی۔
رده:اصول فقہ رده:اصطلاحات اصولیرده:دیدگاه ہای فقہی امام خمینی



جعبه ابزار