آیت اللہ خوئیؒ کی وفات

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



سید ابو القاسم خوئی، شیعہ مرجع تقلید ، مایہ ناز فقیہ ، اصولی اور عصر حاضر کے نمایاں رجالی تھے۔ آپ کی فقہ، اصول، رجال اور قرآنیات کے موضوعات پر متعدد تصانیف ہیں۔ آپ کی فقہ، اصول، رجال اور قرآنیات میں بہت سی تصنیفات ہیں۔ آپ کے بقول نمایاں ترین اساتذہ جنہوں نے ان کی علمی شخصیت سازی میں مؤثر کردار ادا کیا؛ یہ تھے: ملا فتح ‌اللّه شریعت اصفہانی، مہدی مازندرانی، آقاضیاءالدین عراقی، محمدحسین غروی اصفہانی کمپانی اور محمدحسین نائینی ۔ نجف کے بہت سے صف اول کے علما منجملہ مذکورہ علما نے خوئی کے اجتہاد کی تائید کی اور آیت اللہ بروجردی کی رحلت کے بعد آپ کی مرجعیت سنجیدگی سے سامنے آئی اور آیت اللہ حکیم کی رحلت کے بعد آپ کو اعلم مرجع قرار دیا گیا۔


مختصر تعارف

[ترمیم]

آپ کے بقول میری ولادت ۱۵ رجب ۱۳۱۷ھ (۱۲۷۸شمسی) کو خوی کے ایک عالم گھرانے میں ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب امام موسی‌ بن جعفرؑ تک پہنچتا ہے؛ اس لیے معجم رجال‌ الحدیث، میں خود کو موسوی خوئی کے نام سے متعارف کروایا اور دیگر مقامات پر بھی اسی عنوان سے امضا کیا۔ بعض منابع نے نجفی کا بھی اضافہ کیا ہے۔
[۳] امینی، محمدهادی، معجم رجال الفکر و الادب فی‌النجف خلال‌ الف عام، ج۶، ص۵۵، نجف ۱۳۸۴/۱۹۶۴۔
[۴] آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعة: نقباء البشر فی القرن الرابع‌ عشر، قسم ۱، ص۷۱، مشهد، قسم ۱ـ۴، ۱۴۰۴۔
[۵] مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، ج۱، ستون ۲۴۰، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔

آپ کے والد سید علی‌اکبر، بن سید ہاشم (اس خاندان کے پہلے فرد تھے کہ جنہوں نے خوی میں قیام کیا) ۱۲۸۵ھ کو خوی میں پیدا ہوئے اور ۱۳۰۷ھ میں دینی تعلیم کی غرض سے عتبات عالیات عراق تشریف لے گئے۔
آپ نے نجف میں محمد بن فضل‌علی شرابیانی
[۶] «المرجعیة المتمیزة للامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
اور محمدحسن مامقانی جیسے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ ۱۳۱۵ کو خوی واپس آ گئے۔ مشروطہ کے بعد کے واقعات کی وجہ سے ۱۳۲۸ کو نجف ہجرت کر گئے اور سید محمد کاظم طباطبائی یزدی کے ساتھیوں میں شامل ہو گئے۔ سید علی‌اکبر خوئی ۱۳۴۶ھ میں ایران واپس آ گئے اور مسجد جامع گوہر شاد مشہد میں امامت کے فرائض ادا کرنے میں مشغول ہو گئے۔ ۱۳۱۴شمسی میں مشہد کے عوام نے حجاب پر پابندی کے حکومتی فیصلے پر احتجاج شروع کیا تو آپ بھی اس تحریک کے روح رواں تھے، اسی کی پاداش میں انہیں جلا وطن کر دیا گیا۔ رضا شاہ کی برطرفی کے بعد آپ دوبارہ مسجد گوہر شاد کے امام جماعت مقرر ہوئے۔ سید علی ‌اکبر ۱۳۳۱شمسی، میں زیارت کی غرض سے نجف تشریف لے گئے؛ اسی دوران آپ کا انتقال ہو گیا اور آپ کو وہیں پر سپرد خاک کیا گیا۔ استاد شرابیانی کے درسِ اصول کی تقریرات آپ کے آثار میں سے ہے۔
[۷] آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعة: نقباء البشر فی القرن الرابع‌عشر، قسم ۴، ص۱۶۰۹ـ۱۶۱۰، مشهد، قسم ۱ـ۴، ۱۴۰۴۔
[۸] انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، ج۱، ص۵۴ـ۵۵، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔

سید ابو القاسم خوئی کے سب سے مشہور شاگرد جو عالم دین بھی تھے؛ یہ ہیں: سید جمال‌الدین، سید محمدتقی، سید عبدالمجید اور سید علی۔

مصائب و مشکلات

[ترمیم]

آیت اللہ العظمیٰ خوئی کو اپنی زعامت کے دوران متعدد مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ عبد الکریم قاسم کے عراق پر قبضے اور بار بار شب خون کے باعث نجف کے علما اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک طرف سے کمیونسٹ وطن پرستوں اور دوسری طرف سے بے رحم بعثیوں نے علما پر زمین تنگ کر دی؛ بالخصوص سنہ ۱۳۸۹ قمری میں بعثیوں کے برسراقتدار آنے کے بعد شدید مشکلات پیدا ہوئیں اور آیت اللہ حکیم اور ان کے بعد آیت اللہ خوئی کو سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ کی شجاعت و استقامت کیلئے یہی کافی ہے کہ بعثی ہرگز ان سے اپنے مفاد میں ایک کاغذ بھی دریافت نہیں کر سکے یا ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ میں ان سے کوئی دستخط ہی لے پائے ہوں جبکہ آپ نے ہمیشہ مرجعیت اور حوزہ علمیہ نجف کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ذرا سا بھی تاوان نہیں دیا اور اس دوران انتہائی ناگوار مشکلات کو برداشت کیا۔ آپ کے نزدیکی ساتھیوں کو آپ کی خدمت اور دینداری کے جرم میں سالہا سال تک قید رکھا گیا اور ان کے انجام کی کوئی خبر نہیں ہے حتی آپ کے ایک بیٹے آقا سید ابراہیم خوئی کو بھی بعثیوں نے اٹھا لیا اور ان کا کوئی نام و نشان نہیں ملا۔ ان مصائب اور بڑھاپے کے باعث آپ شدید بیمار ہو گئے اور دوست و احباب اور بزرگان نے بہت کوشش کی کہ ان کیلئے باہر سے کوئی ڈاکٹر لے آئیں یا انہیں باہر لے جائیں مگر حزب بعث نے اجازت نہیں دی اور آخرکار بغداد کے ایک ہسپتال میں داخل کر دئیے گئے اور ایک مشکوک علاج معالجے کے بعد انہیں چھٹی دے دی گئی۔
[۱۰] سبحانی، جعفر، «مرجعیت در شیعه»، ج۱، ص۵۰، در یادنامه حضرت آیت‌اللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، مؤسسه خیریه آیت‌اللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کس طرح اور کس وجہ سے ان کا انتقال ہوا اور شیعہ مرجعیت کی تاریخ میں یہ مسئلہ تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ جس مرجع کو بھی بغداد منتقل کیا گیا وہ مشکوک انداز میں وفات پا گیا۔ آپ اس معاملے کو شیخ احمد کاشف الغطاء (متوفی ۱۳۴۴) ،حاج آقا حسین قمی (متوفی ۱۳۶۶) اور آیت‌الله حکیم (متوفی ۱۳۹۰) وغیرہ کے زندگی ناموں میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

وفات

[ترمیم]

آیت اللہ خوئی آخرکار ۱۷ مرداد ۱۳۷۱/ ۸ صفر ۱۴۱۳، کو ۹۶ برس کے سن میں وفات پا گئے۔ عراقی سیکیورٹی فورسز اور چند رشتہ داروں اور عزیزوں کی موجودگی میں آیت اللہ سید علی سیستانی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر آپ کے جسد خاکی کو مسجد خضرا کے پاس واقع آپ کے اپنے تیار کردہ مخصوص مقبرے میں دفن کر دیا گیا۔
[۱۱] صغیر، محمد، اساطین المرجعیّة العُلیا فی النجف الاشرف، ج۱، ص۲۶۵ـ۲۶۶، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
[۱۲] صغیر، محمد، اساطین المرجعیّة العُلیا فی النجف الاشرف، ج۱، ص۳۰۳، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
آپ کی وفات کی خبر کو کئی گھنٹوں تک مخفی رکھا گیا۔ آخرکار ریڈیو بغداد نے مجبورا اسے نشر کیا۔ آیت اللہ خوئی کی وفات کی خبر نشر ہونے کے بعد نجف اور کوفہ میں کرفیو لگا دیا گیا اور بغداد اور دیگر شیعہ نشین علاقوں میں فوج کو ہائی الرٹ کر دیا گیا۔
[۱۳] انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، ج۱، ص۹۶، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
عراقی حکومت نے آیت اللہ خوئیؒ کی مجالس ترحیم پر پابندی عائد کر دی اور حتی مسجد خضرا کی تعمیر کے بہانے بھی ان کے مزار پر جانا ممنوع قرار دیا گیا۔ البتہ ایران اور دیگر اسلامی ممالک میں بہت سی مجالس ترحیم منعقد کی گئیں۔
[۱۴] «الساعات الاخیرة فی حیاة الامام الراحل»، ص۳۰۰ـ۳۰۱، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
[۱۵] شاکری، حسین، «الامام السید الخوئی: سیرة و ذکریات»، ج۱، ص۲۵۴، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
آیت اللہ خوئی کے بعض قریبیوں نے کچھ قرائن کو ذکر کرتے ہوئے ان کی موت کو مشکوک کہا ہے۔
[۱۶] «الساعات الاخیرة فی حیاة الامام الراحل»، ص۳۰۰ـ۳۰۱، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
[۱۷] سبحانی، جعفر، «مرجعیت در شیعه»، ج۱، ص۵۰، در یادنامه حضرت آیت‌اللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، مؤسسه خیریه آیت‌اللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔
[۱۸] شهابی، سعیدمحمد، «رحیل الامام الخوئی: فصل آخر من فصول معاناة العراق»، ج۱، ص۳۳۷ـ۳۳۸، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
اس سے قبل سنہ ۱۴۰۰/۱۹۸۰ میں بھی ایک مشکوک حادثے کے نتیجے میں آیت اللہ خوئی کی گاڑی میں کوفہ سے نجف سفر کے دوران دھماکہ ہوا مگر آپ حیرت انگیز طور پر محفوظ رہے۔
[۱۹] شاکری، حسین، «الامام السید الخوئی: سیرة و ذکریات»، ج۱، ص۲۵۴، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔


فہرست منابع

[ترمیم]

(۱) آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، چاپ علی‌نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔
(۲) آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعة: نقباء البشر فی القرن الرابع‌عشر، مشهد، قسم ۱ـ۴، ۱۴۰۴۔
(۳) مرکز اسناد انقلاب اسلامی، اسناد انقلاب اسلامی، ج۱، تهران: ۱۳۷۴ش۔
(۴) امینی، محمدهادی، معجم رجال الفکر و الادب فی‌النجف خلال‌الف عام، نجف ۱۳۸۴/۱۹۶۴۔
(۵) انصاری، مرتضی، زندگانی ‌و شخصیت شیخ‌انصاری‌قدس‌سره، قم۱۳۷۳ش۔
(۶) انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
(۷) ایازی، محمدعلی، «چه کسانی مروج مکتب تفسیری آیت‌اللّه خوئی شدند؟»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۸) ایروانی، باقر، «مرجعیة الامام الخوئی (قدس‌سره) : السمات و المعالم»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۹) ایروانی، محمدتقی و محمدمهدی موسوی خلخالی، رسالة فی احکام الرضاع فی فقه الشیعة، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۱۰) بحرالعلوم، محمد، «الامام الخوئی: و انجازاته العلمیة و مشاریعه العامة»، در یادنامه حضرت آیت‌اللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، (قم) : مؤسسه خیریه آیت‌اللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔
(۱۱) بروجردی، محمدتقی، نهایة الافکار، تقریرات درس آیت‌اللّه عراقی، قم: مؤسسة النشر الاسلامی، (۱۳۶۴ش)۔
(۱۲) توحیدی، محمدعلی، مصباح‌الفقا هة فی المعاملات، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خوئی ، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲۔
(۱۳) جعفری، محمدتقی، رسالة فی الامر بین الامرین، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۱۴) جعفری همدانی، غلامحسین، «مصاحبه با آیت‌اللّه میرزاغلامحسین جعفری همدانی»، حوزه، سال ۹، ش ۴ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
(۱۵) حسینی میلانی، فاضل، «المرجعیة المتمیزة للامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۱۶) حسینی همدانی، محمد، «مصاحبه با استاد آیت‌اللّه حسینی همدانی (نجفی)»، حوزه، سال ۵، ش ۶ (بهمن و اسفند ۱۳۶۷)۔
(۱۷) حکمی، مرتضی، «الامام الخوئی و انطلاقة‌العلامة الجعفری الفلسفیة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۱۸) حکمی، مرتضی، «حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی : پیشوای حوزه علمیه و مرجع عظیم‌الشأن»، مسجد، سال ۱، ش ۵ (شهریور ـ مهر ۱۳۷۱)۔
(۱۹) حب‌اللّه، حیدر، «تأثیرات مکتب اجتهادی آیت‌اللّه خوئی»، ترجمه عبداللّه امینی، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۲۰) خان‌محمدی، یوسف، اندیشه سیاسی شیخ‌عبدالکریم زنجانی، قم ۱۳۸۸ش۔
(۲۱) خوئی ، سید ابوالقاسم، البیان فی تفسیرالقرآن، قم ۱۳۹۴/۱۹۷۴۔
(۲۲) خوئی ، سید ابوالقاسم، «(پاسخ به استفتائی درباره حزب کمونیست)»، الموسم، ش۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۲۳) خوئی ، سید ابوالقاسم، رسالة فی اللباس المشکوک، موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۲۴) خوئی ، سید ابوالقاسم، رسالة فی نفحات الاعجاز فی رد الکتاب المسمی حُسن الایجاز، موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۲۵) خوئی ، سید ابوالقاسم، کتاب اجود التقریرات، تقریرات درس آیت‌اللّه نائینی، قم: کتابفروشی مصطفوی، (بی‌تا)۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. خوئی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، ج۲۳، ص۲۰۔    
۲. خوئی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، ج۲۳، ص۲۰۔    
۳. امینی، محمدهادی، معجم رجال الفکر و الادب فی‌النجف خلال‌ الف عام، ج۶، ص۵۵، نجف ۱۳۸۴/۱۹۶۴۔
۴. آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعة: نقباء البشر فی القرن الرابع‌ عشر، قسم ۱، ص۷۱، مشهد، قسم ۱ـ۴، ۱۴۰۴۔
۵. مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، ج۱، ستون ۲۴۰، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔
۶. «المرجعیة المتمیزة للامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
۷. آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعة: نقباء البشر فی القرن الرابع‌عشر، قسم ۴، ص۱۶۰۹ـ۱۶۱۰، مشهد، قسم ۱ـ۴، ۱۴۰۴۔
۸. انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، ج۱، ص۵۴ـ۵۵، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
۹. خوئی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، ج۲۳، ص۲۰۔    
۱۰. سبحانی، جعفر، «مرجعیت در شیعه»، ج۱، ص۵۰، در یادنامه حضرت آیت‌اللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، مؤسسه خیریه آیت‌اللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔
۱۱. صغیر، محمد، اساطین المرجعیّة العُلیا فی النجف الاشرف، ج۱، ص۲۶۵ـ۲۶۶، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
۱۲. صغیر، محمد، اساطین المرجعیّة العُلیا فی النجف الاشرف، ج۱، ص۳۰۳، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
۱۳. انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، ج۱، ص۹۶، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
۱۴. «الساعات الاخیرة فی حیاة الامام الراحل»، ص۳۰۰ـ۳۰۱، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
۱۵. شاکری، حسین، «الامام السید الخوئی: سیرة و ذکریات»، ج۱، ص۲۵۴، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
۱۶. «الساعات الاخیرة فی حیاة الامام الراحل»، ص۳۰۰ـ۳۰۱، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
۱۷. سبحانی، جعفر، «مرجعیت در شیعه»، ج۱، ص۵۰، در یادنامه حضرت آیت‌اللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، مؤسسه خیریه آیت‌اللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔
۱۸. شهابی، سعیدمحمد، «رحیل الامام الخوئی: فصل آخر من فصول معاناة العراق»، ج۱، ص۳۳۷ـ۳۳۸، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
۱۹. شاکری، حسین، «الامام السید الخوئی: سیرة و ذکریات»، ج۱، ص۲۵۴، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔


ماخذ

[ترمیم]

دانشنامه جهان اسلام، ماخوذ از مقالہ «خوئی ابوالقاسم »، تاریخ نظر ثانی ۱۴۰۰/۰۱/۶۔    
«سائٹ اندیشه قم، ماخوذ از مقالہ»، تاریخ نظر ثانی ۱۴۰۰/۰۱/۶۔    






جعبه ابزار