آیت اللہ سید خوئیؒ کا تدریسی مقام

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



آیت اللہ العظمیٰ سید ابو القاسم الخوئی تحصیل کے ابتدائی سالوں سے ہی تدریس کو بہت اہمیت دیتے تھے اور حوزہ علمیہ نجف کے عالی مرتبہ مدرس تھے۔ تقریبا ساٹھ برس تک آپ اس منصب پر فائز رہے اور اس دوران اصول فقہ کے کئی دورے اور فقہی ابواب کا ایک مکمل دورہ تدریس کیا جو ایک نادر امر ہے۔ آپ نے امامیہ کے اصول فقہ کے مبانی میں انقلاب برپا کیا اور اس میدان میں اپنے اساتذہ یا گزشتہ اصولیوں کے نظریات کی وضاحت، تقویت اور توسیع کے علاوہ اپنے ابتکار کے ساتھ جدید نظریات پیش کیے۔ آیت اللہ خوئی کی متعدد تصانیف مختلف موضوعات بالخصوص فقہ، اصول، رجال، تفسیر اور قرآنیات میں یادگار ہیں۔ معجم رجال‌ الحدیث، البیان فی تفسیر القرآن، منهاج‌ الصالحین، نفحات الاعجاز، مستند العروة الوثقی انہی آثار میں سے ہیں۔


تدریس اور شاگرد

[ترمیم]

خوئی اپنی تعلیم کی ابتدا سے ہی تدریس کو بہت اہمیت دیتے تھے۔
[۱] انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، ج۱، ص۵۹ـ۶۰، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
[۲] حسینی همدانی، محمد، «مصاحبه با استاد آیت‌اللّه حسینی همدانی (نجفی)»، ج۱، ص۵۴، حوزه، سال ۵، ش ۶ (بهمن و اسفند ۱۳۶۷)۔
اور قطعا اپنی زندگی کی چوتھی دہائی میں حوزہ علمیہ نجف کے عالی مرتبہ مدرس بن چکے تھے اور آپ ساٹھ برس تک اس مسند پر فائز رہے۔ آپ نے اس دوران اصول فقہ کے چند دورے اور فقہی ابواب کے ایک کامل دورے کی تدریس کی جو ایک نادر امر ہے۔
[۳] شریف، سعید، «قبس من نور: تلامذة السید الخوئی دام‌ظله»، ج۱، ص۱۰۰۳، الموسم، ش ۷ (۱۹۹۰)۔
[۴] مددی، احمد، «گفت‌وگو با آیت‌اللّه سیداحمد مددی»، ج۱، ص۲۲۷، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
[۵] ایروانی، باقر، «مرجعیة الامام الخوئی (قدس‌سره) : السمات و المعالم»، ج۱، ص۲۲۸، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔

خوئی کے شاگردوں کا تعلق کئی نسلوں سے ہے۔
[۶] حسینی میلانی، فاضل، «المرجعیة المتمیزة للامام الخوئی»، ج۱، ص۱۰۷ـ۱۰۸، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
[۷] قائینی، محمد، «گفت‌وگو با حجت‌الاسلام و المسلمین محمد قائینی»، ج۱، ص۲۲۲، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
منابع کے مطابق، خوئی کے خارجِ اصول کے پہلے دورے میں محمدتقی ایروانی، سلمان خاقانی، سیدمحمد روحانی، علی خاقانی (المعروف صغیر) اور سید محمد کلانتر شریک تھے۔ اس دورے میں شریک ہونے والے شاگردوں کی تعداد میں اختلاف رائے ہے۔
[۸] صغیر، محمد، اساطین المرجعیّة العُلیا فی النجف الاشرف، ج۱، ص۲۹۹ـ۳۰۲، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
[۹] مددی، احمد، «گفت‌وگو با آیت‌اللّه سیداحمد مددی»، ج۱، ص۲۲۷، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
محمد تقی بہجت بھی خوئی کے قدیم شاگردوں میں سے تھے۔
[۱۰] سبحانی، جعفر، «مرجعیت در شیعه»، ج۱، ص۳۵، در یادنامه حضرت آیت‌اللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، مؤسسه خیریه آیت‌اللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔
[۱۱] قائینی، محمد، «گفت‌وگو با حجت‌الاسلام و المسلمین محمد قائینی»، ج۱، ص۲۲۲، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔


محمد صغیر کے مطابق
[۱۲] صغیر، محمد، اساطین المرجعیّة العُلیا فی النجف الاشرف، ج۱، ص۲۶۵، پانویس ۲، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
خوئی ۱۳۲۳شمسی، میں کربلا کے عظیم مرجع حاج ‌آقا حسین قمی، کی دعوت پر تدریس کیلئے کربلا تشریف لے گئے اور تین سال تک وہاں رہے اور قمی کی (۱۳۲۵شمسی) میں وفات کے بعد نجف واپس آ گئے۔جعفری ہمدانی
[۱۳] جعفری همدانی، غلامحسین، «مصاحبه با آیت‌اللّه میرزاغلامحسین جعفری همدانی»، ج۱، ص۳۳ـ۳۴، حوزه، سال ۹، ش ۴ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
نے بھی یہ واقعہ کچھ اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔
اسی طرح خوئی سنہ ۱۳۱۰شمسی اور ۱۳۲۸شمسی، میں امام رضاؑ کے مزار کی زیارت کیلئے ایران گئے اور قم و تہران میں بھی قیام کیا۔ قم میں پہلے سفر کے دوران امام خمینیؒ جو اس زمانے میں قم کے جدید حوزے کے مدرس اور فاضل استاد تھے؛ سے بھی ملاقات کی اور نائینی کے ایک ممتاز شاگرد کے عنوان سے علما نے ان کا خاص اکرام کیا۔
[۱۴] شبیری زنجانی، سید موسی، جرعه‌ای از دریا، قم ۱۳۸۹ش۔
دوسرے سفر کے موقع پر آیت اللہ بروجردی کی زعامت تھی اور اس بار بھی حوزہ کے علما و فضلا نے آپ کا استقبال کیا اور حوزے کے بزرگان منجملہ آیت اللہ بروجردی اور محقق داماد سے آپ کی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔
[۱۵] شبیری زنجانی، سید موسی، جرعه‌ای از دریا، ج۲، ص۳۲۳، قم ۱۳۸۹ش۔
[۱۶] شریف رازی، محمد، آثار الحجة، ج۲، ص۲۵ـ۲۶، یا، تاریخ و دائرة‌المعارف حوزه علمیه قم، قم ۱۳۳۲ـ (۱۳۳۳ش)۔
بعض اقوال کے مطابق، خوئی نے آیت اللہ بروجردی کے علمی مقام کی تحسین کی ہے۔ خوئی نے بذات خود ان دو سفروں اور سنہ ۱۳۱۳شمسی میں حج سے مشرف ہونے کا ذکر کیا ہے۔

۱۳۱۵شمسی میں آقائے نائینی اور محقق اصفہانی کی وفات اور ۱۳۲۱شمسی میں آقا ضیا عراقی کی وفات کے بعد آیت اللہ خوئی کا درس حوزہ نجف کے ایک اہم اور بتدریج پر رونق ترین علمی اور درسی حلقے کی شکل اختیار کر گیا۔ یہاں تک کہ سید عبد الهادی شیرازی، سید محمود شاهرودی اور سید محسن حکیم جیسے مراجع کی موجودگی کے باوجود خوئی کے درس کو حوزہ نجف میں محوریت حاصل تھی اور آپ کے درس کی تعطیل یا انعقاد کا حوزہ کے درسی نظام پر اثر ہوتا تھا ۔
[۱۸] شریف رازی، محمد، آثار الحجة، ج۲، ص۲۸، یا، تاریخ و دائرة‌المعارف حوزه علمیه قم، قم ۱۳۳۲ـ (۱۳۳۳ش)۔
[۱۹] شریف رازی، محمد، آثار الحجة، ج۲، ص۲۹۴ـ۲۹۵، یا، تاریخ و دائرة‌المعارف حوزه علمیه قم، قم ۱۳۳۲ـ (۱۳۳۳ش)۔
[۲۰] یثربی، میرمحمد، «سرانجام مکتب دوگانه علامه ‌وحید بهبهانی و شیخ‌ مرتضی انصاری چه شد؟»، ص۲۲۶، (مصاحبه)، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
[۲۱] انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، ج۱، ص۶۱، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
[۲۲] انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، ج۱، ص۷۵، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
پھر خوئی کو «زعیم حوزہ علمیہ» کا لقب ملا اور کہا جاتا ہے کہ آیت اللہ حکیم نے بھی اس کی تائید کی ۔
[۲۳] موسوی خلخالی، محمدمهدی، «السید ابوالقاسم الخوئی: الفقیه و الاصولی»، ص۲۲۱، در الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
[۲۴] داوری، مسلم، «الامام الخوئی زعیم الحوزة العلمیة»، ج۱، ص۲۲۳، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
[۲۵] ایروانی، محمدتقی و محمدمهدی موسوی خلخالی، رسالة فی احکام الرضاع فی فقه الشیعة، ج۱، ص۲۲۸-۲۲۹، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔


← اسلوبِ تدریس


آیت اللہ خوئی سے منقول ہے کہ انہوں نے تدریس کے وقت پہلے اپنی پوری توجہ اصول فقہ پر مرکوز کیے رکھی تاکہ ایک اصول کا دورہ کامل و جامع طور پر اپنے درس کے شرکا تک منتقل کر دیں اور پھر فقہ کو شروع کریں۔
[۲۶] مددی، احمد، «گفت‌وگو با آیت‌اللّه سیداحمد مددی»، ج۱، ص۲۲۷، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
اگر دروس کی مختلف تقریرات کو تحریر اور شائع کرنے کی تاریخ پر غور کیا جائے تو اسی مطلب کی تائید ہوتی ہے۔خوئی نے اصول کے خارج کے چھ مکمل دوروں کی تدریس کی اور ساتواں دورہ ان کی مرجعیت کے حوالے سے مصروفیات کے باعث صرف ضد کی بحث تک جاری رہا مگر ان کا فقہی درس خارج ساٹھ سال تک مسلسل جاری رہا۔
[۲۸] صغیر، محمد، اساطین المرجعیّة العُلیا فی النجف الاشرف، ج۱، ص۲۶۶، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
اصول کے درس خارج کے چھٹے دورے کی مباحث اور آپ کی بہت سی فقہی مباحث کو ریکارڈ بھی کیا گیا ہے۔ آپ کے اصول کا درس خارج آخوند خراسانی کی کتاب کفایۃ الاصول کی شرح و تنقید کی منزلت پر تھا۔ آپ پہلے مؤلف کی آرا کا جائزہ لیتے پھر ان علما کی آرا کو دیکھتے کہ جنہیں اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے، منجملہ محمد حسین اصفہانی صاحب فصول، محمدتقی اصفهانی صاحب هدایة‌ المسترشدین، میرزای قمی صاحب قوانین الاصول اور شیخ‌ انصاری؛ پھر آخوند کے نمایاں معاصر شاگردوں اور اپنے اساتذہ منجملہ نائینی، محقق اصفهانی اور آقا ضیاء عراقی کے نظریات کو نقل کرتے اور آخر میں اپنا نظریہ بیان کرتے تھے۔
[۲۹] گرجی، ابوالقاسم، «نگاه کوتاهی به احوال و آثار آیت‌اللّه العظمی خوئی »، ج۱، ص۲۰۵، تحقیقات اسلامی، سال ۵، ش ۱ و ۲ (۱۳۶۹ش)۔
[۳۰] موسوی اصفهانی، حسن، «دروس من اجلال الامام الخوئی (قدس‌سره) لاساتذته»، ج۱، ص۴۵، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔

فقہ کے درس خارج میں آپ نے آغاز میں شیخ انصاری کی مکاسب اور حاج ‌آقارضا ہمدانی کی مصباح‌ الفقیہ اور اس کے بعد سنہ ۱۳۳۶شمسی سے سید محمد کاظم طباطبائی یزدی، کی مشہور کتاب عروة‌ الوثقی پر تدریس کی۔
[۳۲] گرجی، ابوالقاسم، «نگاه کوتاهی به احوال و آثار آیت‌اللّه العظمی خوئی »، ج۱، ص۲۰۵، تحقیقات اسلامی، سال ۵، ش ۱ و ۲ (۱۳۶۹ش)۔
غروی تبریزی، کے نزدیک
[۳۳] غروی تبریزی، علی، الطهارة، ج۲، ص۱، مقدمه، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۲، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰ب۔
کتاب عروة‌ الوثقیٰ آقائے خوئی کے درس کا محور اس وجہ سے قرار پائی؛ کیونکہ اہم فروعات اور بہت سے پیش آنے والے مسائل پر مشتمل تھی۔ خوئی فقہ کے درس میں بھی صاحب عروۃ الوثقیٰ سمیت چند قدیم و متاخر فقہا کے نظریات کی تشریح، تنقیح اور وضاحت کے بعد اپنے نظریے پر دلیل قائم کر کے اسے بیان کرتے تھے۔
[۳۴] گرجی، ابوالقاسم، «نگاه کوتاهی به احوال و آثار آیت‌اللّه العظمی خوئی »، ج۱، ص۲۰۵، تحقیقات اسلامی، سال ۵، ش ۱ و ۲ (۱۳۶۹ش)۔


← تدریس کا مقام


آیت اللہ خوئی کے درس کا پہلا دورہ حرم امام علیؑ میں واقع ایک مقبرہ میں منعقد ہوتا تھا؛ مگر کچھ عرصے کے بعد شاگردوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کے بعد حرم کے ساتھ مسجد خضرا ان کی تدریس اور دیگر علمی و سماجی سرگرمیوں کا مرکز قرار پائی۔ آخری سالوں میں ان کے درسِ فقہ کی مجلس مدرسہ دار العلم میں منعقد ہوتی تھی کہ جنہیں آپ نے خود تعمیر کروایا تھا۔
[۳۵] صغیر، محمد، اساطین المرجعیّة العُلیا فی النجف الاشرف، ج۱، ص۳۰۰ـ۳۰۴، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔


← اسلوب اور خصوصیات


آپ کی روش یہ تھی مکمل درس کہنے کے بعد ایک گھنٹے تک اپنے شاگردوں کے سوالات کا جواب دیتے تھے۔
[۳۶] انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، ج۱، ص۶۴، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
آیت اللہ خوئیؒ کے شاگردوں نے آپ کی قدرت بیان اور لغوی و ادبی معلومات کی تعریف کی ہے۔ آپ اپنے دروس کی فصیح اور سلیس عربی زبان میں تدریس کرتے تھے۔
[۳۷] حسینی همدانی، محمد، «مصاحبه با استاد آیت‌اللّه حسینی همدانی (نجفی)»، ج۱، ص۵۴ـ ۵۵، حوزه، سال ۵، ش ۶ (بهمن و اسفند ۱۳۶۷)۔
[۳۸] گرجی، ابوالقاسم، «نگاه کوتاهی به احوال و آثار آیت‌اللّه العظمی خوئی »، ج۱، ص۲۰۵، تحقیقات اسلامی، سال ۵، ش ۱ و ۲ (۱۳۶۹ش)۔
[۳۹] حب‌اللّه، حیدر، «تأثیرات مکتب اجتهادی آیت‌اللّه خوئی»، ج۱، ص۲۲۹، ترجمه عبداللّه امینی، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
آیت اللہ خوئی کے درس کے مطالب منطقی طور پر منظم اور ہم آہنگ ہوتے تھے۔
[۴۰] گرجی، ابوالقاسم، «نگاه کوتاهی به احوال و آثار آیت‌اللّه العظمی خوئی »، ج۱، ص۲۰۵، تحقیقات اسلامی، سال ۵، ش ۱ و ۲ (۱۳۶۹ش)۔
[۴۱] مددی، احمد، «گفت‌وگو با آیت‌اللّه سیداحمد مددی»، ج۱، ص۲۲۷، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
[۴۲] قائینی، محمد، «گفت‌وگو با حجت‌الاسلام و المسلمین محمد قائینی»، ج۱، ص۲۲۲، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
آپ کو بخوبی معلوم تھا کہ دشوار مسائل اور پیچیدہ قواعد کو کس طرح مختلف زاویوں سے حل کیا جائے اور ان کا جائزہ لیا جائے اور یہ امر خوئی کے فکری نبوغ کے مظاہر میں سے تھا۔
[۴۳] فیّاض، محمداسحاق، «ابداعات الامام الخوئی فی الابحاث الاصولیة و الفقهیة»، ج۱، ص۴۷، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
خوئی شاگردوں کو تعلیم دینے کے حوالے سے بہت ماہر اور مسلط تھے۔ تدریس میں اس طرح منظم انداز سے چلتے تھے کہ شاگرد مطالب کو سمجھنے کے علاوہ استنباط کی روش کو بھی سیکھتے تھے اور اس روش کو اپنی تحلیل میں بروئے کار لا سکتے تھے۔ اس کے علاوہ آپ کی روشِ تدریس سہل الوصول اور پیچیدگی و ملالت سے دور تھی۔
[۴۴] قائینی، محمد، «گفت‌وگو با حجت‌الاسلام و المسلمین محمد قائینی»، ج۱، ص۲۲۲ـ۲۲۳، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
در واقع، خوئی اپنے علمی مباحثات میں مشخص روشِ تحقیق اور مبانی رکھتے تھے؛ چنانچہ آپ کے شاگرد علمی مطالب کو بخوبی سمجھ لیتے تھے اور اسی وجہ سے آیت اللہ خوئی کو باصطلاح ’’صاحب مدرسہ‘‘ شمار کیا جاتا ہے۔
[۴۵] مددی، احمد، «گفت‌وگو با آیت‌اللّه سیداحمد مددی»، ج۱، ص۲۲۷ـ۲۲۸، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔

آپ اپنے شاگردوں کو ان کی قابلیت و استعداد کے پیش نظر مختلف دینی علوم میں کام کرنے کی رہنمائی کرتے تھے۔
[۴۶] حماده، طراد، «فکر الامام الخوئی (قدس‌سره) فی‌التراث الاسلامی الشیعی المعاصر»، ج۱، ص۱۲۶، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
آیت اللہ خوئی کے مبانی، درس کا شیوہ اور کیفیت کچھ اس طرح سے تھے کہ آپ کے بہت سے شاگرد بھی ان کی روش کے مطابق تدریس اور تحقیق کے پابند تھے۔
[۴۷] قائینی، محمد، «گفت‌وگو با حجت‌الاسلام و المسلمین محمد قائینی»، ج۱، ص۲۲۲، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
بہت سے ممتاز معاصر فقہا آپ کے حلقہ درس میں پروان چڑھے ہیں اور حوزات نجف و قم میں تدریس کی مسند پر فائز ہو کر آپ کی اجتہادی روش کو گزشتہ چند عشروں سے شیعہ حوزات علمیہ کی ایک مقبول اور مروجہ روش میں تبدیل کرنے کے باعث بنے ہیں۔
[۴۸] حب‌اللّه، حیدر، «تأثیرات مکتب اجتهادی آیت‌اللّه خوئی»، ج۱، ص۲۲۹، ترجمه عبداللّه امینی، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔

آیت اللہ خوئی کے مختلف فقہی و اصولی مشارب اور اسالیب رکھنے والے ممتاز اور متعدد اساتذہ سے استفادے کے باعث آپ کو جہاں ان مشارب و مبانی اور ان کے قواعد و ضوابط سے آشنائی حاصل ہوئی، وہیں پر اصول فقہ میں آپ کی وسعت نظر اور گہرائی و گیرائی میں نمایاں اضافہ ہوا۔
[۴۹] فضلی، عبدالهادی، «معالم الشخصیة العلمیة عند الامام الخوئی»، ج۱، ص۱۴۰ـ۱۴۱، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔

فقہی فروعات میں ان اصولی مبانی کو بروئے کار لانے اور احادیث کی سند و دلالت پر علم رجال و درایہ کے اور متعلقہ علوم کے توسط سے خصوصی توجہ کی بدولت آیت اللہ خوئی کی فقہ کا ایک نمایاں مقام بن گیا اور آپ کے نظریات دقت اور پختگی کے حامل بن گئے۔
[۵۰] موسوی خلخالی، محمدمهدی، «السید ابوالقاسم الخوئی: الفقیه و الاصولی»، ص۲۲۱، در الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
[۵۱] ایروانی، باقر، «مرجعیة الامام الخوئی (قدس‌سره) : السمات و المعالم»، ص۲۲۹، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
[۵۲] انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔

آقائے خوئیؒ ممکنہ حد تک اصولی و فقہی مباحث کے ساتھ عقلی و فلسفی مطالب کی آمیزش سے پرہیز کرتے تھے۔
[۵۳] حب‌اللّه، حیدر، «تأثیرات مکتب اجتهادی آیت‌اللّه خوئی»، ج۱، ص۲۲۹، ترجمه عبداللّه امینی، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
اس بنا پر ان کی فقہ صرف قرآن و احادیث جیسی فقہی ادلہ پر معتمد تھی۔ آپ احادیث کی سند اور راویوں کی وثاقت و ضعف پر بہت زیادہ تامل کرتے تھے۔
[۵۴] موسوی اصفهانی، حسن، «دروس من اجلال الامام الخوئی (قدس‌سره) لاساتذته»، ج۱، ص۴۶، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
[۵۵] علیدوست، ابوالقاسم، «گفت‌وگو با حجت‌الاسلام و المسلمین ابوالقاسم علیدوست»، ج۱، ص۲۱۹، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
اسی طرح مطالب کی وضاحت میں اعتدال کا خیال رکھنے تھے اور خلل آور ایجاز (اختصار و تلخیص) اور خستہ کنندہ اطناب (تفصیل) سے پرہیز کرتے تھے، آپ کے اصول کا ایک دورہ چھ سے سات سال میں مکمل ہوتا تھا۔
[۵۶] مددی، احمد، «گفت‌وگو با آیت‌اللّه سیداحمد مددی»، ج۱، ص۲۲۷، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔



فہرست منابع

[ترمیم]

(۱) آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، چاپ علی‌نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔
(۲) آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعة: نقباء البشر فی القرن الرابع‌عشر، مشهد، قسم ۱ـ۴، ۱۴۰۴۔
(۳) مرکز اسناد انقلاب اسلامی، اسناد انقلاب اسلامی، ج۱، تهران: ۱۳۷۴ش۔
(۴) امینی، محمدهادی، معجم رجال الفکر و الادب فی‌النجف خلال‌الف عام، نجف ۱۳۸۴/۱۹۶۴۔
(۵) انصاری، مرتضی، زندگانی ‌و شخصیت شیخ‌انصاری‌قدس‌سره، قم۱۳۷۳ش۔
(۶) انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
(۷) ایازی، محمدعلی، «چه کسانی مروج مکتب تفسیری آیت‌اللّه خوئی شدند؟»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۸) ایروانی، باقر، «مرجعیة الامام الخوئی (قدس‌سره) : السمات و المعالم»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۹) ایروانی، محمدتقی و محمدمهدی موسوی خلخالی، رسالة فی احکام الرضاع فی فقه الشیعة، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۱۰) بحرالعلوم، محمد، «الامام الخوئی: و انجازاته العلمیة و مشاریعه العامة»، در یادنامه حضرت آیت‌اللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، (قم) : مؤسسه خیریه آیت‌اللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔
(۱۱) بروجردی، محمدتقی، نهایة الافکار، تقریرات درس آیت‌اللّه عراقی، قم: مؤسسة النشر الاسلامی، (۱۳۶۴ش)۔
(۱۲) توحیدی، محمدعلی، مصباح‌الفقا هة فی المعاملات، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خوئی ، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲۔
(۱۳) جعفری، محمدتقی، رسالة فی الامر بین الامرین، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۱۴) جعفری همدانی، غلامحسین، «مصاحبه با آیت‌اللّه میرزاغلامحسین جعفری همدانی»، حوزه، سال ۹، ش ۴ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
(۱۵) حسینی میلانی، فاضل، «المرجعیة المتمیزة للامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۱۶) حسینی همدانی، محمد، «مصاحبه با استاد آیت‌اللّه حسینی همدانی (نجفی)»، حوزه، سال ۵، ش ۶ (بهمن و اسفند ۱۳۶۷)۔
(۱۷) حکمی، مرتضی، «الامام الخوئی و انطلاقة‌العلامة الجعفری الفلسفیة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۱۸) حکمی، مرتضی، «حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی : پیشوای حوزه علمیه و مرجع عظیم‌الشأن»، مسجد، سال ۱، ش ۵ (شهریور ـ مهر ۱۳۷۱)۔
(۱۹) حب‌اللّه، حیدر، «تأثیرات مکتب اجتهادی آیت‌اللّه خوئی»، ترجمه عبداللّه امینی، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۲۰) خان‌محمدی، یوسف، اندیشه سیاسی شیخ‌عبدالکریم زنجانی، قم ۱۳۸۸ش۔
(۲۱) خوئی ، سید ابوالقاسم، البیان فی تفسیرالقرآن، قم ۱۳۹۴/۱۹۷۴۔
(۲۲) خوئی ، سید ابوالقاسم، «(پاسخ به استفتائی درباره حزب کمونیست)»، الموسم، ش۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۲۳) خوئی ، سید ابوالقاسم، رسالة فی اللباس المشکوک، موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۲۴) خوئی ، سید ابوالقاسم، رسالة فی نفحات الاعجاز فی رد الکتاب المسمی حُسن الایجاز، موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۲۵) خوئی ، سید ابوالقاسم، کتاب اجود التقریرات، تقریرات درس آیت‌اللّه نائینی، قم: کتابفروشی مصطفوی، (بی‌تا)۔
(۲۶) خوئی ، سید ابوالقاسم، مبانی تکملة المنهاج، نجف (۱۹۷۵ـ ۱۹۷۶)۔
(۲۷) خوئی ، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، بیروت ۱۴۰۳/ ۱۹۸۳، چاپ افست قم (بی‌تا)۔
(۲۸) خوئی ، سید ابوالقاسم، منهاج ‌الصالحین، نجف ۱۳۹۷۔
(۲۹) خوئی ، سید ابوالقاسم و جواد تبریزی، صراة‌النجاة: استفتاءات لآیت‌اللّه العظمی الخوئی مع تعلیقة و ملحق لآیت‌اللّه العظمی التبریزی، قم ۱۴۱۶ـ۱۴۱۸۔
(۳۰) داوری، مسلم، «الامام الخوئی زعیم الحوزة العلمیة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۱) روحانی، حمید، نهضت امام خمینی، ج۲، تهران ۱۳۷۶ش۔
(۳۲) «الساعات الاخیرة فی حیاة الامام الراحل»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۳) ساعدی، محمدرضا، «خاطراتی از شیخ محمدرضا ساعدی از اعضای هیأت آیت‌اللّه خوئی در ماجرای انتفاضه ۱۹۹۱ عراق»، شهروند امروز، سال ۴، ش۳ (۲۵ تیر ۱۳۹۰)۔
(۳۴) سبحانی، جعفر، «مرجعیت در شیعه»، در یادنامه حضرت آیت‌اللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، مؤسسه خیریه آیت‌اللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔
(۳۵) شریف، سعید، «تلامذة الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۶) شریف، سعید، «قبس من نور: تلامذة السید الخوئی دام‌ظله»، الموسم، ش ۷ (۱۹۹۰)۔
(۳۷) سودانی، عبدالفلاح، «الامام الخوئی مدرسة فی التفسیر و الحدیث»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۸) شاکری، حسین، «الامام السید الخوئی: سیرة و ذکریات»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۹) شاکری، حسین، ذکریاتی، قم ۱۴۱۸ـ۱۴۲۴۔
(۴۰) شبیری زنجانی، سید موسی، جرعه‌ای از دریا، قم ۱۳۸۹ش۔
(۴۱) شریف رازی، محمد، آثار الحجة، یا، تاریخ و دائرة‌المعارف حوزه علمیه قم، قم ۱۳۳۲ـ (۱۳۳۳ش)۔
(۴۲) شریف رازی، محمد، گنجینه دانشمندان، تهران ۱۳۵۲ـ۱۳۵۴ش۔
(۴۳) شهابی، سعیدمحمد، «رحیل الامام الخوئی: فصل آخر من فصول معاناة العراق»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۴۴) شیرازی، رضی، «مصاحبه با آیت‌اللّه سیدرضی شیرازی»، حوزه، سال ۹، ش ۲ و ۳ (خرداد ـ شهریور ۱۳۷۱)۔
(۴۵) صدرایی ‌خویی، علی، سیمای خوی، تهران ۱۳۷۳ش۔
(۴۶) صغیر، محمد، اساطین المرجعیّة العُلیا فی النجف الاشرف، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
(۴۷) حماده، طراد، «فکر الامام الخوئی (قدس‌سره) فی‌التراث الاسلامی الشیعی المعاصر»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۴۸) طریحی، محمد سعید، «الامام الخوئی: سیرة مشرقیة و آثار خالدة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴الف)۔
(۴۹) طریحی، محمد سعید، «السید جمال‌الدین الخوئی: ۱۳۳۷ـ۱۴۰۴ه»، الموسم (۱۴۱۴ب)۔
(۵۰) عارفی، محمداکرم، اندیشه سیاسی آیت‌اللّه خوئی، قم ۱۳۸۶ش۔
(۵۱) جاویدان، شذی، العراق بین الماضی و الحاضر و المستقبل، بیروت: مؤسسة الفکر الاسلامی، (بی‌تا)۔
(۵۲) علیدوست، ابوالقاسم، «گفت‌وگو با حجت‌الاسلام و المسلمین ابوالقاسم علیدوست»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۵۳) غروی، محمد، الحوزة العلمیة فی النجف الاشرف، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۴۔
(۵۴) غروی تبریزی، علی، التنقیح فی شرح العروة الوثقی: التقلید، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۱، قم: مؤسسة احیاء الآثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰الف۔
(۵۵) غروی تبریزی، علی، الطهارة، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۲، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰ب۔
(۵۶) غروی تبریزی، علی، التنقیح فی شرح المکاسب: البیع، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خوئی ، (ج ۲)، در موسوعة الامام الخوئی، ج۳۷، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰ج۔
(۵۷) فضلی، عبدالهادی، «معالم الشخصیة العلمیة عند الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۵۸) قائینی، محمد، «گفت‌وگو با حجت‌الاسلام و المسلمین محمد قائینی»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۵۹) قطری، منصور عبدالجلیل، «ادب الاختلاف فی حیاة الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۶۰) کاظمی خراسانی، محمدعلی، فوائدالاصول، تقریرات درس آیت‌اللّه نائینی، قم ۱۴۰۴ـ۱۴۰۹۔
(۶۱) گرجی، ابوالقاسم، «نگاه کوتاهی به احوال و آثار آیت‌اللّه العظمی خوئی »، تحقیقات اسلامی، سال ۵، ش ۱ و ۲ (۱۳۶۹ش)۔
(۶۲) فیّاض، محمداسحاق، «ابداعات الامام الخوئی فی الابحاث الاصولیة و الفقهیة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۶۳) فیّاض، محمداسحاق، «نوآوریهای اصولی و فقهی آیت‌اللّه خوئی »، فقه، ش ۱۷ و ۱۸ (پاییز ـ زمستان ۱۳۷۷)۔
(۶۴) مغنیه، محمدجواد، «زعیم الحوزة العلمیة»، الموسم، ش ۶ (۱۴۱۰)۔
(۶۵) مددی، احمد، «گفت‌وگو با آیت‌اللّه سیداحمد مددی»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۶۶) مدرسی طباطبائی، حسین، مقدمه‌ای بر فقه شیعه: کلیات و کتابشناسی، ترجمه محمد آصف فکرت، مشهد ۱۳۶۸ش۔
(۶۷) مرقاتی، جعفر، «الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۶۸) مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔
(۶۹) خباز، منیر، «ملمح فی شخصیة الامام الخوئی (قدس‌سره) : ملکات فکریة لاتتوفر الا للعباقرة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۰) «مؤسسة الامام الخوئی الخیریة: فکرتها و مشاریعها»، الموسم، ش ۶ (۱۴۱۰)۔
(۷۱) موسوی اصفهانی، حسن، «دروس من اجلال الامام الخوئی (قدس‌سره) لاساتذته»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۲) موسوی خلخالی، محمدمهدی، «السید ابوالقاسم الخوئی: الفقیه و الاصولی»، در الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۳) نصیراوی، ابراهیم، «الامام الراحل: مشاهدات و ذکریات»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۴) واعظ حسینی، محمدسرور، مصباح الاصول، تقریرات درس آیت‌اللّه خوئی، (قم) ۱۳۸۰ش۔
(۷۵) یثربی، میرمحمد، «سرانجام مکتب دوگانه علامه ‌وحید بهبهانی و شیخ‌ مرتضی انصاری چه شد؟» (مصاحبه)، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، ج۱، ص۵۹ـ۶۰، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
۲. حسینی همدانی، محمد، «مصاحبه با استاد آیت‌اللّه حسینی همدانی (نجفی)»، ج۱، ص۵۴، حوزه، سال ۵، ش ۶ (بهمن و اسفند ۱۳۶۷)۔
۳. شریف، سعید، «قبس من نور: تلامذة السید الخوئی دام‌ظله»، ج۱، ص۱۰۰۳، الموسم، ش ۷ (۱۹۹۰)۔
۴. مددی، احمد، «گفت‌وگو با آیت‌اللّه سیداحمد مددی»، ج۱، ص۲۲۷، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
۵. ایروانی، باقر، «مرجعیة الامام الخوئی (قدس‌سره) : السمات و المعالم»، ج۱، ص۲۲۸، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
۶. حسینی میلانی، فاضل، «المرجعیة المتمیزة للامام الخوئی»، ج۱، ص۱۰۷ـ۱۰۸، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
۷. قائینی، محمد، «گفت‌وگو با حجت‌الاسلام و المسلمین محمد قائینی»، ج۱، ص۲۲۲، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
۸. صغیر، محمد، اساطین المرجعیّة العُلیا فی النجف الاشرف، ج۱، ص۲۹۹ـ۳۰۲، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
۹. مددی، احمد، «گفت‌وگو با آیت‌اللّه سیداحمد مددی»، ج۱، ص۲۲۷، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
۱۰. سبحانی، جعفر، «مرجعیت در شیعه»، ج۱، ص۳۵، در یادنامه حضرت آیت‌اللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، مؤسسه خیریه آیت‌اللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔
۱۱. قائینی، محمد، «گفت‌وگو با حجت‌الاسلام و المسلمین محمد قائینی»، ج۱، ص۲۲۲، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
۱۲. صغیر، محمد، اساطین المرجعیّة العُلیا فی النجف الاشرف، ج۱، ص۲۶۵، پانویس ۲، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
۱۳. جعفری همدانی، غلامحسین، «مصاحبه با آیت‌اللّه میرزاغلامحسین جعفری همدانی»، ج۱، ص۳۳ـ۳۴، حوزه، سال ۹، ش ۴ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
۱۴. شبیری زنجانی، سید موسی، جرعه‌ای از دریا، قم ۱۳۸۹ش۔
۱۵. شبیری زنجانی، سید موسی، جرعه‌ای از دریا، ج۲، ص۳۲۳، قم ۱۳۸۹ش۔
۱۶. شریف رازی، محمد، آثار الحجة، ج۲، ص۲۵ـ۲۶، یا، تاریخ و دائرة‌المعارف حوزه علمیه قم، قم ۱۳۳۲ـ (۱۳۳۳ش)۔
۱۷. خوئی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، ج۲۳، ص۲۰-۲۵۔    
۱۸. شریف رازی، محمد، آثار الحجة، ج۲، ص۲۸، یا، تاریخ و دائرة‌المعارف حوزه علمیه قم، قم ۱۳۳۲ـ (۱۳۳۳ش)۔
۱۹. شریف رازی، محمد، آثار الحجة، ج۲، ص۲۹۴ـ۲۹۵، یا، تاریخ و دائرة‌المعارف حوزه علمیه قم، قم ۱۳۳۲ـ (۱۳۳۳ش)۔
۲۰. یثربی، میرمحمد، «سرانجام مکتب دوگانه علامه ‌وحید بهبهانی و شیخ‌ مرتضی انصاری چه شد؟»، ص۲۲۶، (مصاحبه)، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
۲۱. انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، ج۱، ص۶۱، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
۲۲. انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، ج۱، ص۷۵، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
۲۳. موسوی خلخالی، محمدمهدی، «السید ابوالقاسم الخوئی: الفقیه و الاصولی»، ص۲۲۱، در الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
۲۴. داوری، مسلم، «الامام الخوئی زعیم الحوزة العلمیة»، ج۱، ص۲۲۳، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
۲۵. ایروانی، محمدتقی و محمدمهدی موسوی خلخالی، رسالة فی احکام الرضاع فی فقه الشیعة، ج۱، ص۲۲۸-۲۲۹، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
۲۶. مددی، احمد، «گفت‌وگو با آیت‌اللّه سیداحمد مددی»، ج۱، ص۲۲۷، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
۲۷. خوئی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، ج۲۳، ص۲۰-۲۵۔    
۲۸. صغیر، محمد، اساطین المرجعیّة العُلیا فی النجف الاشرف، ج۱، ص۲۶۶، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
۲۹. گرجی، ابوالقاسم، «نگاه کوتاهی به احوال و آثار آیت‌اللّه العظمی خوئی »، ج۱، ص۲۰۵، تحقیقات اسلامی، سال ۵، ش ۱ و ۲ (۱۳۶۹ش)۔
۳۰. موسوی اصفهانی، حسن، «دروس من اجلال الامام الخوئی (قدس‌سره) لاساتذته»، ج۱، ص۴۵، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
۳۱. خوئی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، ج۲۳، ص۲۲۔    
۳۲. گرجی، ابوالقاسم، «نگاه کوتاهی به احوال و آثار آیت‌اللّه العظمی خوئی »، ج۱، ص۲۰۵، تحقیقات اسلامی، سال ۵، ش ۱ و ۲ (۱۳۶۹ش)۔
۳۳. غروی تبریزی، علی، الطهارة، ج۲، ص۱، مقدمه، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۲، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰ب۔
۳۴. گرجی، ابوالقاسم، «نگاه کوتاهی به احوال و آثار آیت‌اللّه العظمی خوئی »، ج۱، ص۲۰۵، تحقیقات اسلامی، سال ۵، ش ۱ و ۲ (۱۳۶۹ش)۔
۳۵. صغیر، محمد، اساطین المرجعیّة العُلیا فی النجف الاشرف، ج۱، ص۳۰۰ـ۳۰۴، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
۳۶. انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، ج۱، ص۶۴، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
۳۷. حسینی همدانی، محمد، «مصاحبه با استاد آیت‌اللّه حسینی همدانی (نجفی)»، ج۱، ص۵۴ـ ۵۵، حوزه، سال ۵، ش ۶ (بهمن و اسفند ۱۳۶۷)۔
۳۸. گرجی، ابوالقاسم، «نگاه کوتاهی به احوال و آثار آیت‌اللّه العظمی خوئی »، ج۱، ص۲۰۵، تحقیقات اسلامی، سال ۵، ش ۱ و ۲ (۱۳۶۹ش)۔
۳۹. حب‌اللّه، حیدر، «تأثیرات مکتب اجتهادی آیت‌اللّه خوئی»، ج۱، ص۲۲۹، ترجمه عبداللّه امینی، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
۴۰. گرجی، ابوالقاسم، «نگاه کوتاهی به احوال و آثار آیت‌اللّه العظمی خوئی »، ج۱، ص۲۰۵، تحقیقات اسلامی، سال ۵، ش ۱ و ۲ (۱۳۶۹ش)۔
۴۱. مددی، احمد، «گفت‌وگو با آیت‌اللّه سیداحمد مددی»، ج۱، ص۲۲۷، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
۴۲. قائینی، محمد، «گفت‌وگو با حجت‌الاسلام و المسلمین محمد قائینی»، ج۱، ص۲۲۲، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
۴۳. فیّاض، محمداسحاق، «ابداعات الامام الخوئی فی الابحاث الاصولیة و الفقهیة»، ج۱، ص۴۷، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
۴۴. قائینی، محمد، «گفت‌وگو با حجت‌الاسلام و المسلمین محمد قائینی»، ج۱، ص۲۲۲ـ۲۲۳، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
۴۵. مددی، احمد، «گفت‌وگو با آیت‌اللّه سیداحمد مددی»، ج۱، ص۲۲۷ـ۲۲۸، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
۴۶. حماده، طراد، «فکر الامام الخوئی (قدس‌سره) فی‌التراث الاسلامی الشیعی المعاصر»، ج۱، ص۱۲۶، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
۴۷. قائینی، محمد، «گفت‌وگو با حجت‌الاسلام و المسلمین محمد قائینی»، ج۱، ص۲۲۲، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
۴۸. حب‌اللّه، حیدر، «تأثیرات مکتب اجتهادی آیت‌اللّه خوئی»، ج۱، ص۲۲۹، ترجمه عبداللّه امینی، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
۴۹. فضلی، عبدالهادی، «معالم الشخصیة العلمیة عند الامام الخوئی»، ج۱، ص۱۴۰ـ۱۴۱، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
۵۰. موسوی خلخالی، محمدمهدی، «السید ابوالقاسم الخوئی: الفقیه و الاصولی»، ص۲۲۱، در الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
۵۱. ایروانی، باقر، «مرجعیة الامام الخوئی (قدس‌سره) : السمات و المعالم»، ص۲۲۹، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
۵۲. انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
۵۳. حب‌اللّه، حیدر، «تأثیرات مکتب اجتهادی آیت‌اللّه خوئی»، ج۱، ص۲۲۹، ترجمه عبداللّه امینی، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
۵۴. موسوی اصفهانی، حسن، «دروس من اجلال الامام الخوئی (قدس‌سره) لاساتذته»، ج۱، ص۴۶، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
۵۵. علیدوست، ابوالقاسم، «گفت‌وگو با حجت‌الاسلام و المسلمین ابوالقاسم علیدوست»، ج۱، ص۲۱۹، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
۵۶. مددی، احمد، «گفت‌وگو با آیت‌اللّه سیداحمد مددی»، ج۱، ص۲۲۷، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔


ماخذ

[ترمیم]
دانشنامه جهان اسلام، ماخوذ از مقالہ «خوئی ابوالقاسم »، تاریخ نظر ثانی ۱۴۰۰/۰۱/۶۔    
«سائٹ اندیشه قم، ماخوذ از مقالہ»، تاریخ نظر ثانی ۱۴۰۰/۰۱/۶۔    






جعبه ابزار