اہل تبریز کا قیام

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



آذر بائیجان کی معاصر تاریخ نے ایک صدی سے کم عرصے میں ایران کے حالات میں دو فیصلہ کن کردار ادا کیے ہیں؛ ان میں سے ایک اہل تبریز کا ’’استبدادِ صغیر‘‘ کے دور حکومت میں قیام ہے جو محمد علی شاہ کی شکست پر منتہی ہوا اور دوسرا ۲۹ بھمن ۵۶شمسی کو محمد رضا شاہ کے خلاف قیام ہے کہ جو پورے ملک میں اسلامی انقلاب کی چنگاری کے شعلہ ور ہونے کا باعث بنا۔


سلسلہ وار واقعات کا جائزہ

[ترمیم]

اسلامی انقلاب کی کامیابی پر منتہی ہونے والے واقعات میں سے اہل تبریز کا ۲۹ بہمن کو قیام پہلا واقعہ تھا کہ جس نے قم کے ۱۹ دی کے قیام کی کڑیوں کو پورے ایران میں ہونے والے مظاہروں کے ساتھ متصل کر دیا۔ آیت اللہ قاضی طباطبائی کی رائے پر
[۱] جمعی از مؤلفین انقلاب اسلامی و چرایی و چگونگی رخداد آن، ص۹۰۔
یہ فیصلہ کیا گیا کہ قم میں ۱۹ دی کو شہید ہونے والے افراد کے چہلم کی مجلس تبریز میں منعقد کی جائے۔ (قم کا ۱۹ دی کا قیام درحقیقت اسلامی انقلاب کو ملک بھر میں عام کرنے کا باعث بنا۔ یہ قیام قم کی انقلابی عوام کی جانب سے ’’ایران اور سرخ و سیاہ استعمار‘‘ کے عنوان سے روزنامہ اطلاعات میں ۱۷ دی سنہ ۵۶شمسی کو شائع ہونے والے مقالے کے ردعمل میں تھا۔ یہ مقالہ امد رشیدی مطلق کے مستعار نام سے ۱۷ دی سنہ ۵۶شمسی کو شائع کیا گیا تھا۔ اس مقالے میں شاہ کے سفید انقلاب اور زرعی اصلاحات کی حمایت اور حزب تودہ کی مخالفت کی گئی تھی اور آخر میں خائنین کا ساتھی قرار دیتے ہوئے امام خمینیؒ کی توہین کی گئی۔ شہدائے قم کے چہلم کی مجالس کو آیت اللہ قاضی کے علاوہ دیگر علما نے بھی پورے ملک میں منعقد کرنے کی درخواست کی تھی)۔ لہٰذا اسی مناسبت سے بروز جمعہ ۲۸ بھمن ۱۳۵۶ء کو شہدائے قم کی مجلس میں شرکت کی دعوت دینے کے عنوان سے ایک اعلامیہ مسجد قزل لی اور شہر کی سطح پر تقسیم کیا گیا، اس اعلامیے پر گیارہ علما منجملہ آیت ‌الله قاضی طباطبائی، آیت‌الله غروی، آیت‌الله قزلجہ ‌ای، آیت‌الله انگجی کے دستخط تھے۔
[۲] شیرخانی، علی، حماسه ۲۹ بهمن تبریز، ص۱۹۔
اس قیام کی آمادگی تبریز کی مسجد شعبان میں کی گئی جو اس زمانے میں انقلابیوں کے ایک مرکز میں تبدیل ہو چکی تھی۔ (لوگ ہر رات اس مسجد میں اجتماع کرتے تھے اور مجاہد علما میں سے کوئی ایک منبر پر جا کر آیت اللہ قاضی کی موجودگی میں منحوس پہلوی حکومت کے جرائم کو برملا کرتا تھا۔ اسی طرح عوام کے سامنے امامؒ کے پیغامات کو پڑھ کر سنایا جاتا تھا)

لڑائی کا آغاز

[ترمیم]

۲۹ بھمن سنہ ۵۶شمسی کو لوگ چہلم میں شرکت کیلئے مسجد قزل لی کے سامنے جمع ہو گئے اور مجلس شروع ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ اسی دوران تبریز کے مقامی تھانے کے چیف میجر حق شناس نے مسجد کو بند کرنے کے آڈر جاری کر دئیے، جب وہ دوبارہ گشت پر آیا تو دیکھا کہ ابھی تک لوگوں کی آمد و رفت جاری ہے۔ اس مرتبہ اس نے توہین آمیز لہجے میں کہا: کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ اس باڑے کا دروازہ بند کر دو! لوگ مسجد کی توہین کو برداشت نہیں کر سکتے تھے، انہوں نے اس کے اقدام پر خاموشی کو گوارا نہیں کیا۔ لوگوں میں سے ایک جوان سامنے آیا اور اس نے پولیس چیف کی گستاخی کا جواب دیا۔ اتنے میں لوگوں کی سرگوشیاں اور آوازیں بلند ہونے لگیں اور عوام نے آگے بڑھنا شروع کر دیا۔ دوسری طرف سے سیکیورٹی فورسز نے فائرنگ شروع کر دی۔ محمد تجلائی پہلا شہید ہے جو اس دن میجر حق شناس کے ہاتھوں شہید ہوا۔ ان واقعات کے بعد لوگوں کا جوش و خروش بڑھ گیا اور انہوں نے شہید تجلائی کا جنازہ اٹھا کر شہر بھر میں احتجاج اور وسیع پیمانے پر مظاہروں کا آغاز کر دیا۔ پھر عوام نے شہر کے مرکز کی جانب مارچ شروع کر دیا اور انقلابی جوانوں نے سینماؤں، شراب فروشی کے اڈوں، حزب رستاخیز کے دفتر اور بینک صادرات (جو بہائیوں کے ہاتھ میں تھا) کو نذر آتش کر کے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا اور ’’مرگ بر شاہ‘‘ اور ’’درود بر خمینیؒ‘‘ کے فلک شگاف نعرے بلند کر کے تمام ریڈ لائنز کراس کر گئے۔ (۲۹ بھمن کے واقعے سے قبل اعلانیہ صورت میں یہ نعرے نہیں لگائے جاتے تھے) پورے شہر میں زبردست مظاہرے شروع ہو گئے اور صورتحال سیکیورٹی فورسز کے کنٹرول سے نکل گئی۔ عوام نے کچھ وقت تک شہر کا کنٹرول حکومتی اہلکاروں سے چھین لیا۔ ظہر کے قریب صوبہ آذر بائیجان کے مئیر ’’آزمودہ‘‘ کے حکم پر فوج سپاہیوں سے بھرے ہوئے ٹرکوں اور ٹینکوں کے ساتھ میدان میں کود پڑی اور انہوں نے خون کی ہولی کھیلنا شروع کر دی جس سے دسیوں لوگ شہید اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔

شہدا اور زخمیوں کی تعداد

[ترمیم]

حکومت کے سرکاری ذرائع ابلاغ منجملہ روزنامہ کیھان اور روزنامہ رستاخیز نے شہدا کی تعداد چھ سے نو افراد لکھی۔
[۳] کیهان، ۲/۱۲/۱۳۵۶، ص۲۔
بعض ذرائع کے مطابق سیکیورٹی فورسز اور ساواک کے گماشتوں کے ہاتھوں ہونے والی شہادتوں کی تعداد ۵۶۰ افراد پر مشتمل تھی۔ اسی طرح ’’اتحادیہ انجمن اسلامی دانشجویان اروپا‘‘ کی جانب سے ۹ اسفند ۱۳۵۷شمسی کو ایک اعلامیہ جاری کیا گیا کہ جس میں شہدا کی تعداد ۴۰۰ ذکر کی گئی تھی۔
[۴] موحد، ه، دو سال آخر، رفرم تا... انقلاب، ص۱۰۶۔

اکثر ذرائع نے حادثے کے مجروحین کی تعداد ۱۲۵ بیان کی اور کہا کہ پہلوی ہسپتال میں ۸۷ زخمیوں کو داخل کیا گیا ہے۔
[۵] درباره قیام حماسه آفرینان قم و تبریز، بی جا، بی تا، ۱۳۵۶، ج۱، ص۷۷۔
البتہ بہت سے لوگ اس خوف سے کہ زخمی ساواک کے ہتھے نہ چڑھ جائیں، انہیں ہسپتال میں منتقل کرنے سے اجتناب کر رہے تھے۔ گرفتار ہونے والے افراد کی تعداد ۵۰۴ سے ۶۰۸ تک ذکر کی گئی ہے۔
[۶] موحد، ه، دو سال آخر، رفرم تا... انقلاب، ص۱۰۴۔


شاہ کا اس قیام پر رد عمل

[ترمیم]

تبریز جغرافیائی اعتبار سے سابقہ سوویت یونین کے نزدیک ہے، شاہ کی حکومت نے اس چیز کا غلط فائدہ اٹھایا اور تبریز کے قیام کو بیرونی عوامل منجملہ کمیونزم سے منسوب کر دیا۔
[۷] شیرخانی، علی، حماسه ۲۹ بهمن تبریز، ص۴۵۔
البتہ حکومت کے پاس اس دعوے کو ثابت کرنے کی کوئی دلیل نہیں تھی اور صرف یہ چاہتی تھی کہ سید جعفر پیشہ وری اور منحرف جماعتوں کی حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے اہل تبریز کے قیام کو ان سے مشابہہ قرار دے۔

امام خمینیؒ کا رد عمل

[ترمیم]

شاید امامؒ کا ملت کے نام ایک خوبصورت ترین پیغام ۲۹ بھمن سنہ ۵۶شمسی کی مناسبت سے صادر کیا گیا۔ یہ پیغام تبریز کے غیور عوام کیساتھ مہر و محبت سے لبریز تھا؛ اس کا متن یہ تھا:
’’سلام ہو عزیز آذربائیجان کے شجاع اور متدین عوام پر، تبریز کے غیرت مند جوانوں اور آبرو مند مردوں پر اللہ کی رحمت ہو! ان مردوں پر درود ہو جنہوں نے انتہائی خطرناک پہلوی حکومت کے خلاف قیام کیا اور ’’مرگ بر شاہ‘‘ کا نعرہ بلند کر کے اس کی خرافات کو باطل ثابت کر دکھایا! تبریز کے عزیز مجاہد عوام سلامت رہیں جنہوں نے اپنی عظیم تحریک کے ذریعے فضول گوئی کرنے والوں کے منہ پر سخت مکا رسید کیا ہے جو اپنی پراپیگنڈہ مشینری کے ساتھ ’’استعمار کے خونی انقلاب‘‘ کہ عظیم ایرانی قوم جس کی سو فیصد مخالف ہے؛ کو ’’شاہ اور ملت کا سفید انقلاب‘‘ کہہ رہی ہے اور اغیار کے اس نوکر اور نو آبادیاتیوں کے سامنے خود کو ہار جانے والے شخص کو ملک کا نجات دہندہ شمار کر رہے ہیں۔ .. میں نہیں جانتا کہ کس زبان کے ساتھ تبریز کے محترم باسیوں اور مصیبت زدہ ماں باپ کی خدمت میں تعزیت پیش کروں۔ کس بیان کے ساتھ یکے بعد دیگرے ہونے والے قتل عام کی مذمت کروں۔۔۔۔ ۔

انقلاب کا اہم موڑ

[ترمیم]

۲۹ بھمن سنہ ۱۳۵۶شمسی کا قیام انقلاب کا ایک اہم موڑ شمار ہوتا ہے۔ اسلامی انقلاب کی بنیادوں کے بارے میں لکھی گئی مختلف کتابوں میں
[۱۰] عمید زنجانی، عباسعلی، انقلاب اسلامی و ریشه‌های آن، ص۵۰۷۔
اہل تبریز کے قیام کو ایران کے اسلامی انقلاب کی ایک بنیادی جڑ قرار دیا گیا ہے؛ کیونکہ یہ ملک میں چہلم کی سنت کی ترویج کا باعث بنا اور عوامی قیام ایک شہر سے دوسرے شہر تک سرایت کرتے رہے اور بالترتیب یزدیوں، شیرازیوں، جہرمیوں، کازونیوں کے بعد آخرکار پورا ایران کھڑا ہو گیا۔
یہ قیام ایک اسلامی اور مذہبی ماہیت کا حامل تھا؛ کیونکہ اس کا سرچشمہ مسجد تھی اور اس نے اپنا نقطہ نظر مراجع کرام اور علما سے مستعار لیا تھا۔ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای نے تبریز میں اپنے دورے کے موقع پر تبریز کے بازار میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
یہ تبریز، وہی تبریز ہے جس نے قم کے لوگوں کے بعد شاہ کے پیکر پر پہلی ضرب لگائی اور ابھی تک مجاہدین اور مزاحمتی فورسز کا سرچشمہ ہے۔
[۱۲] شیرخانی، علی، حماسه ۲۹ بهمن تبریز، ص۱۴۰۔


تجزیہ کاروں کی رائے

[ترمیم]

انقلاب کی لہر کا جائزہ لینے والے تجزیہ کاروں کا خیال یہ ہے کہ ۲۹ بھمن سنہ ۵۶ شمسی حوزہ علمیہ قم سے باہر اسلامی انقلاب کیلئے عوامی تحریک کا نقطہ آغاز تھا۔ اہل تبریز کے قیام کے بعد خطبا اور مقررین نے اپنی شعلہ بیانی کے ساتھ تبریز کے دردناک سانحے کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے تمام شہروں میں اس کی مکمل تفصیلات سے لوگوں کو باخبر کیا اور لوگوں کے سامنے یہ قیام گویا مزاحمت کا پہلا عملی نمونہ قرار پایا؛ چنانچہ ایثار و فداکاری پر مبنی اس یادگار جدوجہد کی بدولت آخر کار ۲۲ بھمن سنہ ۵۷ شمسی کو اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہو گیا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. جمعی از مؤلفین انقلاب اسلامی و چرایی و چگونگی رخداد آن، ص۹۰۔
۲. شیرخانی، علی، حماسه ۲۹ بهمن تبریز، ص۱۹۔
۳. کیهان، ۲/۱۲/۱۳۵۶، ص۲۔
۴. موحد، ه، دو سال آخر، رفرم تا... انقلاب، ص۱۰۶۔
۵. درباره قیام حماسه آفرینان قم و تبریز، بی جا، بی تا، ۱۳۵۶، ج۱، ص۷۷۔
۶. موحد، ه، دو سال آخر، رفرم تا... انقلاب، ص۱۰۴۔
۷. شیرخانی، علی، حماسه ۲۹ بهمن تبریز، ص۴۵۔
۸. خمینی، روح الله، صحیفه امام، پیام به اهالی آذربایجان، ج۲، ص۳۶۔    
۹. خمینی، روح الله، صحیفه امام، پیام به اهالی آذربایجان، ج۲، ص۳۶۔    
۱۰. عمید زنجانی، عباسعلی، انقلاب اسلامی و ریشه‌های آن، ص۵۰۷۔
۱۱. مصباح یزدی، محمدتقی، انقلاب اسلامی و ریشه‌های آن، ص۲۵۹۔    
۱۲. شیرخانی، علی، حماسه ۲۹ بهمن تبریز، ص۱۴۰۔


ماخذ

[ترمیم]

سائٹ پژوه، ماخوذ از مقالہ قیام مردم تبریز۔    






جعبه ابزار