اہل سنت کے نزدیک حدیث غدیر

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



اہل سنت کے نزدیک طول تاریخ میں واقعہ غدیر کی بہت اہمیت رہی ہے۔ یہ اہم واقعہ سنہ ۱۰ھ میں پیش آیا۔ اس مقالے میں حدیث غدیر کے حوالے سے اہل سنت علما کا نقطہ نظر بیان کیا جائے گا نیز بعض علما کے اشکالات کا جواب دینے کی بھی سعی کی جائے گی۔ یاد رہے کہ حدیث غدیر متواتر ہے اور اسے لگ بھگ ایک سو دس صحابہ نے نقل کیا ہے۔ جب اصل حدیث کا انکار ممکن نہیں تھا تو کچھ لوگوں نے اس کے معنی و دلالت کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔ علاوہ ازیں کچھ اور اعتراضات بھی کیے گئے ہیں کہ جن کا یہاں علمی جواب پیش کیا جائے گا۔


غدیر کی توصیف میں اشعار

[ترمیم]

و علیٌّ إمامنا و إمامٌ‌ ••• لسوانا أتی به التنزیلُ
علی ہمارے امام و پیشوا اور دوسروں کے بھی امام و پیشوا ہیں اس مطلب کو قرآن نے بیان کیا ہے۔
یومَ قال النبیُّ من کنتُ مولاهُ ••• فهذا مولاهُ خطبٌ جلیلُ
ایک دن نبیۖ نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ (علی ) مولا ہے اور یہ بہت بلند مرتبہ ہے۔
إنَّ ما قاله النبیُّ علی الأمّةِ ••• حتمٌ ما فیه قالٌ و قیلُ
نبی جو ذمہ داری امت کے حوالے کی وہ حتمی و قطعی ہے اس میں قیل و قال کی گنجائش نہیں ہے۔ (شعر از ابوالقاسم قیس بن سعد بن عباد انصاری، منقول از الغدیر، ج صفر، ص۲۴۱)

واقعہ غدیر کی تاریخ اور مقام

[ترمیم]

تاریخ: ظہر جمعرات، اٹھارہ ذی الحج سنہ ۱۰ھ۔
مقام: جحفہ کے نزدیک مکہ و مدینہ کے راستے میں واقع مقام غدیر خم۔

غدیر کا واقعہ

[ترمیم]

حجة الوداع کے بعد ١٨ذ ی الحجہ ١٠ھ کو جب رسول خداؐ غدیر خم پر پہنچے تو جبرئیلؑ نے آکر کہا: اے محمّد! خدا آپ کو سلام کے بعد کہہ رہا ہے: یا أَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ یعنی اے رسول (ولایت علی کے بارے میں ) خدا کی طرف سے جو پیغام آپ کے پاس آچکا ہے اسے پہنچا دیجئے ،اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو گویا آپ نے کوئی کار رسالت انجام نہیں دیا۔
جحفہ سے قریب پہنچ جانے والوں کی تعداد ایک لاکھ یا اس سے زیادہ تھی۔ خدا نے آپ کو حکم دیا جو آگے بڑھ گئے ہیں انہیں واپس بلایا جائے اور جو پیچھے رہ گئے ہیں ان کا انتظار کیا جائے اور علیؑ کے بارے میں جو حکم نازل ہو چکا ہے اسے لوگوں تک پہنچایا جائے ،نیز خدا نے اپنے رسولؐ کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کے شر سے آپ کو بچائے گا۔ نماز باجماعت کی ادائیگی کے بعد آپؐ نے لوگوں کو پالان شتر کا منبر بنانے کا حکم دیا اور جب وہ تیار ہو گیا تو اس پر جا کر فرمایا: کیا میں مومنین پر خود ان سے زیادہ حق تصرف نہیں رکھتا؟! سب نے کہا: کیوں نہیں! آپ ایسا حق رکھتے ہیں، تب آپؐ نے فرمایا: من کنتُ مولاه فعلیٌّ مولاه، اللّهمّ والِ من والاه، و عادِ من عاداه، و انصر من نصره، و اخذل من خذله
پھر علیؑ کا ہاتھ پکڑ کے اتنا بلند کیا کہ دونوں کے بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب نے علیؑ کو پہچان لیا۔ اس کے بعد فرمایا: اے لوگو! مومنین کے نفوس پر خود ان سے زیادہ کسے اختیار ہے؟ سب نے کہا: اللہ اور رسولؐ سب سے بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ مَوْلَايَ وَ أَنَا مَوْلى‌ الْمُؤْمِنِينَ وَ أَنَا أَوْلى‌ بِهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ یعنی اللہ میرا مولا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ اختیار رکھتا ہوں،پس جس کا میں مولا ہوں اس کا علیؑ مولا ہے۔ اس کی تین بار تکرار کی اور احمد بن حنبل کے بقول چار مرتبہ کہا۔ اس کے بعد فرمایا: اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَ أَحبّ مَنْ أَحبَّهُ وَ أَبغض مَنْ أَبْغَضَهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَ اخْذُلْ من خذلَهُ وَ أَدِرِ الْحَقَّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ أَلَا فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِب. یعنی اس کے بعد بارگاہ الہٰی میں عرض کیا: اے معبود! تو اس کو دوست رکھ جو اس (علی) کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو اس (علی) سے دشمنی کرے،تو اس کی مدد کر جو اس (علی) کی مدد کرے اور اس کو چھوڑ دے جو اس (علی) کو چھوڑ دے اور حق کو اس طرف موڑ جدھر وہ (علی) مڑے۔ اس بات سے حاضرین،غائبین کو باخبر کر دیں۔
لوگ ابھی اپنی جگہ سے ہٹے نہیں تھے کہ جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے:
اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي (المائدۃ:۳)، یہ سن کر آنحضرتؐ نے فرمایا: اللَّهُ أَكْبَرُ عَلَى إِكْمَالِ الدِّينِ وَ إِتْمَامِ النِّعْمَةِ وَ رِضَى الرَّبِّ بِرِسَالَتِي وَ الوَلَايَةِ لِعَلِيّؑ من بَعْدِي ''یعنی اکمال دین،اتمام نعمت،اپنی رسالت اور علیؑ کی ولایت سے خدا کے راضی رہنے پر آپؐ نے تکبیر کہی۔ لوگوں نے حضرت علیؑ کو مبارکباد دینا شروع کی۔ سب سے پہلے جس نے اس عمل کو انجام دیا وہ ابوبکر و عمر تھے۔ انہوں نے کہا: بَخْ بَخْ لَكَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ أَصْبَحْتَ وَ أَمسَیت مَوْلَايَ وَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ یعنی اے پسر ابو طالب! میں آپ کو آفرین و تحسین پیش کرتا ہوں کیونکہ آپؑ نے اس حال میں صبح اور شام کی کہ میرے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا ہوگئے۔ ابن عباس نے کہا: خدا کی قسم! اب سب پر ولایت واجب ہو گئی۔

حدیث کا تواتر

[ترمیم]

حدیث غدیر اس حد تک متواتر ہے کہ کوئی بھی اس کے صدور میں تشکیک نہیں کر سکتا۔
[۶] غزالی، ابوحامد، سرالعالمین و کشف ما فی الدارین، ص۲۱۔

اسے اس حد تک نقل کیا گیا ہے کہ جرات سے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی تاریخی حادثہ اسلام میں اس حد تک تواتر کو نہیں پہنچا ہے۔ علامہ امینی نے ایک سو دس صحابہ کے نام ذکر کیے ہیں جنہوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ ان شخصیات میں امیرالمؤمنین علیؑ ، فاطمه زہراؑ ، امام حسنؑ و امام حسینؑ ، سلمان فارسی، مقداد، اسماء بنت عمیس، ‌ام ہانی، جابر بن عبدالله انصاری، ابوبکر بن ابی قحافہ، عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، اسامہ بن زید، ابوہریره، ابی بن کعب، عائشہ اور عمر و بن عاص شامل ہیں۔
اہل سنت میں بھی یہ حدیث متواتر ہے اور اہل سنت کے بزرگان حدیث نے اسے نقل کیا ہے؛ منجملہ ابوعیسی ترمذی، ابو جعفر طحاوی، احمدغزالی،
[۱۰] - غزالی، ابوحامد، سرالعالمین و کشف ما فی الدارین، ص۲۱۔
ابن کثیر شافعی، ابن حجر عسقلانی، محمد آلوسی، ابن ابی الحدید،اور ان کے علاوہ اہل سنت کے آئمہ حدیث کی بڑی تعداد نے اس حدیث کو متعدد طرق سے نقل کیا ہے۔

حدیث کا مقابلہ

[ترمیم]

مقابلے میں، کچھ لوگوں نے تعصب یا جہالت کی بنا پر اس حدیث کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔ انہوں نے ایک طرف سے خلفائے راشدین اور غیر راشدین کی فضیلت میں احادیث کو وضع کرنا شروع کر دیا جیسے وہ حدیث جو احمد بن عبید اللہ ابو العز نے ابوبکر کیلئے جعل کی۔ یا عائشہ جنہوں نے اپنے والد کے حق میں حدیث وضع کی
[۱۶] خطیب بغدادی، ابوبکر احمد بن علی، تاریخ بغداد، ج۱۴، ص۳۶۔
اوردوسری طرف سے کوشش کی کہ حدیث غدیر کی سند یا دلالت کو مخدوش کریں۔

حدیث غدیر پر پہلا اعتراض

[ترمیم]

اہل سنت بزرگوں نے خلفا کی فضیلت میں وارد ہونے والی احادیث کے جعلی ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ یہاں ہم حدیث غدیر پر وارد ہونے والے اہم ترین اعتراضات کا جواب دیں گے:

← پہلا اعتراض


وہ حدیث عقائد کے کسی اصول کو ثابت کر سکتی ہے جو متواتر ہو مگر یہ حدیث خبر واحد ہے اور حد تواتر تک نہیں پہنچی ہے۔
[۱۸] هیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقة، ص۶۴۔
[۱۹] جرجانی، سید اسماعیل، شرح المواقف، مطبعة السعادة، ج۸، ص۳۶۱۔


←← جواب


جیسا کہ قبلا گزر چکا ہے کہ یہ اشکال تعصب یا جہالت کی بنیاد پر ہے ورنہ ہر شخص جو اس حدیث کے طرق و سند پر مشتمل کتب کی طرف مراجعہ کرے تو آسانی سے تواتر کا حکم لگا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ترکمانی ذہبی، سیوطی، جرزی، جلال الدین نیشاپوری اور دسیوں دیگر افراد جنہیں علامہ امینی نے الغدیر میں ذکر کیا ہے؛ نے سند حدیث کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
[۲۱] امینی، عبدالحسین، الغدیر، ج۱، ص۲۹۴۔


← دوسرا اعتراض


علیؑ، واقعہ غدیر میں زکات کی جمع آوری کی غرض سے یمن میں موجود تھے اور غدیر میں تھے ہی نہیں کہ یہ کہا جائے: کسی کو اس واقعہ میں خلافت پر منصوب کیا گیا ہے۔

←← جواب


اہل حدیث اور تاریخ کے بزرگان کے بقول اگرچہ حضرتؑ موسم حج سے پہلے یمن میں تھے مگر حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرمؐ سے ملحق ہو گئے تھے اور غدیر میں موجود تھے۔
[۲۳] هیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقة، ص۶۴۔
[۲۴] ابن کثیر، عماربن ابی الفداء، البدایة و النهایة، ج۲، ص۱۸۴۔
[۲۵] ابن کثیر، عماربن ابی الفداء، البدایة و النهایة، ج۲، ص۱۳۲۔
[۲۶] ابن اثیر، عزالدین علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ (تاریخ ابن اثیر)، تحقیق علی شیری، ج۲، ص۳۰۲۔


← تیسرا اعتراض


کلمہ مولیٰ کے متعدد معانی ہیں، جیسے: اولیٰ، ناصر، دوست، چچازاد، آزاد کرنے والا وغیرہ اور معلوم نہیں کہ مولیٰ کا حدیث میں معنی اولیٰ بالتصرف ہو بلکہ اصلا اس سے مراد ناصر اور دوست ہے اور لغت عرب کے عرف میں مفعل افعل التفضیل کے معنی میں نہیں آیا ہے۔
[۲۸] هیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقة، ص۶۵۔


←← جواب


۱) اگر بالفرض قبول کر لیں کہ مولیٰ، مشترک معنوی ہے اور اولیٰ بالتصرف کے معنی میں حقیقت نہیں ہوا ہے تو پھر بھی اس مقام پر موجود افراد کا فہم ہمارے لیے حجت ہے۔ انہوں نے مولیٰ سے اولیٰ بالتصرف کو سمجھا ہے اور یہی امر لفظ مولیٰ کے اولیٰ بالتصرف کے معنی میں انصراف کا باعث ہے۔ حسان بن ثابت جو بزرگ عرب شاعر تھے اور اس واقعے میں حاضر تھے؛ نے یہ شعر کہا:
قم یاعلی فاننی رضیتک ••• من بعدی اماما و هادیا
شیخین کی مبارکبار جو پہلے بیان کی گئی، اسی مطلب پر دلالت کرتی ہے۔
ب) کیا حضرت امیرؑ کی دوستی کا بیان ایک ایسا امر تھا کہ پیغمبرؐ اس کے اظہار میں خائف تھے۔ پس یقینا ولی سے مراد دوست نہیں ہے۔ (آیت وَ اللَّهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ کی طرف اشارہ)
ج) مولیٰ بمعنی صاحب امر اور اولیٰ بالتصرف کا استعمال لغت کے عرف میں بہت زیادہ ہے اور بڑے بڑے ادیب جیسے فرا، جوہری، قرطبی اور ابن اثیر نے اس مطلب کو درست قرار دیا ہے۔ پس مولیٰ اسم ہے جو افعل تفضیل کے معنی میں ہے نہ یہ کہ خود صفت ہو

← چوتھا اعتراض


اگرچہ مولیٰ بمعنی اولیٰ ہے لیکن اولیٰ بالتصرف کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اطاعت اور تقرب میں اولیٰ کے معنی میں ہے۔
[۳۳] هیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقة، ص۶۹۔


←← جواب


ا) حدیث کے آغاز میں رسول اکرمؐ فرماتے ہیں:الست اولی بکم من انفسکم؟! اس جگہ اولیٰ بمعنی اولیٰ بالتصرف ہے اور حضرتؐ کا سوال بھی مذکورہ معنی کو مشخص کرتا ہے ورنہ اگر مولیٰ کا معنی صدر میں کچھ اور ہو اور ذیل میں کچھ اور تو حضرؐت کے کلام سے مغالطہ لازم آتا ہے کہ آپ نے لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کیا ہے۔
ب) بالفرض مولیٰ کا معنی اولیٰ در اطاعت ہو، پھر بھی حدیث حضرتؑ کی ولایت پر دلالت کرتی ہے۔ چونکہ جب تک ایسا فرد معاشرے کا حاکم نہ ہو، مطاع نہیں ہو گا، بلکہ دوسروں کا مطیع ہو گا۔

← پانچواں اعتراض


اگر مولیٰ سے مقصود امام اور خلیفہ ہے تو کیوں رسول اکرمؐ نے مولیٰ کی جگہ یہ نہیں فرمایا: خلیفہ۔
[۳۴] هیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقة، ص۶۹۔


←← جواب


ا) یہ اعتراض بھی وارد نہیں ہوتا ہے؛ چونکہ اگرچہ اس حدیث میں خلیفہ کا لفظ نہیں آیا ہے لیکن مذکورہ مطالب کے پیش نظر مولیٰ سے مراد واضح ہے۔
ب) بہت سی احادیث میں رسول اکرمؐ نے امیر المومنینؑ کو خلیفہ کے عنوان سے یاد فرمایا۔ پس مذکورہ احادیث، حدیث غدیر میں مولیٰ سے مراد پر قطعی قرینہ ہیں۔
[۳۵] طبری، ابن جریر، تاریخ الامم و الملوک، ج۱، ص، ۵۴۱۔
[۳۶] حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک علی الصیحین، ج۳، ص۱۳۳۔

اس حدیث پر کچھ اور اعتراضات بھی کیے گئے ہیں کہ جن کے بارے میں مزید معلومات کیلئے علامہ امینی کی کتاب الغدیر کی طرف مراجعہ کریں۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. امینی، ابوالحسین، الغدیر، ج ۱، ص۳۴۰۔    
۲. امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، ج ۱، ص۴۲۔    
۳. امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، ج ۱، ص۴۶۔    
۴. مائده/سوره۵، آیه۶۷۔    
۵. امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، ج ۱، ص۳۵۵۔    
۶. غزالی، ابوحامد، سرالعالمین و کشف ما فی الدارین، ص۲۱۔
۷. امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، ج ۱، ص۱۶۱۔    
۸. ترمذی، ابوعیسی محمد بن عیسی، سنن ترمذی، تحقیق احمد محمد شاکر، ج۵، ص۶۳۳، ح۳۷۱۳۔    
۹. طحاوی، احمد بن محمد، مشکل الاثار، ج۵، ص۱۳۔    
۱۰. - غزالی، ابوحامد، سرالعالمین و کشف ما فی الدارین، ص۲۱۔
۱۱. ابن کثیر، عماربن ابی الفداء، البدایة و النهایة، ج۵، ص۲۲۸۔    
۱۲. ابن حجر، احمد بن علی، فتح الباری فی شرح صحیح البخاری، تحقیق محمد فواد عبدالباقی و دیگران، ج۷، ص۷۴۔    
۱۳. آلوسی، شهاب الدین محمد، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی، ج۳، ص۳۶۳۔    
۱۴. ابن ابی الحدید مدائنی، عزالدین ابوحامد، شرح نهج البلاغه، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، ج۱۹، خطبه ۱۵۴، ص۲۱۷۔    
۱۵. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، لسان المیزان، ج۱، ص۲۳۴، رقم ۶۷۸۔    
۱۶. خطیب بغدادی، ابوبکر احمد بن علی، تاریخ بغداد، ج۱۴، ص۳۶۔
۱۷. امینی، عبدالحسین، الغدیر، ج۱۱، ص. ۷۔    
۱۸. هیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقة، ص۶۴۔
۱۹. جرجانی، سید اسماعیل، شرح المواقف، مطبعة السعادة، ج۸، ص۳۶۱۔
۲۰. امینی، عبدالحسین، الغدیر، ج۱، ص۳۲۰۔    
۲۱. امینی، عبدالحسین، الغدیر، ج۱، ص۲۹۴۔
۲۲. ایجی، میر شریف، شرح المواقف، ج۸، ص۳۶۱۔    
۲۳. هیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقة، ص۶۴۔
۲۴. ابن کثیر، عماربن ابی الفداء، البدایة و النهایة، ج۲، ص۱۸۴۔
۲۵. ابن کثیر، عماربن ابی الفداء، البدایة و النهایة، ج۲، ص۱۳۲۔
۲۶. ابن اثیر، عزالدین علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ (تاریخ ابن اثیر)، تحقیق علی شیری، ج۲، ص۳۰۲۔
۲۷. جرجانی، سید اسماعیل، شرح المواقف، ج۸، ص۳۶۱۔    
۲۸. هیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقة، ص۶۵۔
۲۹. امینی، عبدالحسین، الغدیر، ج۱، ص۲۷۲- ۲۸۳۔    
۳۰. مائده/سوره۵، آیه۶۷۔    
۳۱. امینی، عبدالحسین، الغدیر، الغدیر، ج۱، ص۳۶۱۔    
۳۲. جرجانی، سید اسماعیل، شرح المواقف، ج۸، ص۳۶۱۔    
۳۳. هیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقة، ص۶۹۔
۳۴. هیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقة، ص۶۹۔
۳۵. طبری، ابن جریر، تاریخ الامم و الملوک، ج۱، ص، ۵۴۱۔
۳۶. حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک علی الصیحین، ج۳، ص۱۳۳۔
۳۷. علی بن محمد بن محمد، شیبانی، الکامل ابن اثیر، ج۲، ص۶۲۔    
۳۸. امینی، عبدالحسین، الغدیر، ج۲، ص۲۸۷۔    


ماخذ

[ترمیم]

سایت پژوہہ، ماخوذ از مقالہ «حدیث غدیر از نگاه اہل سنت»، تاریخِ لنک ۲۱/۸/۲۰۱۹۔    






جعبه ابزار