ایجاب (فقہ)
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
ایجاب
قبول کے مقابلے میں آتا ہے۔ اس سے علم فقہ میں کتاب المکاسب اور کتاب البیع میں بحث کی جاتی ہے۔
[ترمیم]
ایجاب ایک فقہی اصطلاح ہے جو معاملات میں استعمال کی جاتی ہے۔ معاملات کی دنیا میں ایجاب قبول کے مقابلے میں ہے ۔ بالفاظِ دیگر ایجاب
معاملہ کرتے ہوئے فریقین کے درمیان نسبت کا ایجاد کرنا ہے۔ معاملہ میں قبول سے پہلے جو بولا جاتا ہے وہ ایجاب کہلاتا ہے، مثلا دکاندار کہتا ہے:
بِعۡتُ۔
[ترمیم]
فقہاء کرام نے علم فقہ کی کتب میں فقہی اصطلاحات کی وضاحت کی ہے جس سے معاملات کے ارکان اور شرائط واضح ہو جاتی ہیں۔ فقہاء
اہل سنت کی فقہی کتب میں سے
کتاب المہذب اور
کتاب المغنی میں ایجاب کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ مال کا مالک کہے:
بِعۡتُکَ یا
مَلَّکۡتُکَ یا ان دو الفاظ کی مانند دیگر کسی کلمہ کو ادا کرے اور اس کے بعد مشتری قبول کرے۔
مکتب تشیع کی فقہی کتب میں ایجاب اور قبول اور اس کے ضمنی مسائل سے عمیق بحث کی گئی ہے جس میں حقیقتِ بیع کو واضح کرتے ہوئے مختلف زاویوں سے اس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ خریدو و فروخت کے باب میں ایجاب کا وظیفہ بائع کے کندھوں پر عائد ہوتا ہے اور مشتری کی جانب سے قبول کیا جاتا ہے۔
بس ایجاب خرید و فروخت یا عقد کو ایجاد کرنے کا باعث بنتا ہے، مثلا بیع میں کسی کو ایک
عین کا عوض کے بدلے میں مالک بنانا مقصود ہو تو دکاندار کی طرف سے ایجاب ہو گا اور گاہگ کی طرف سے قبول۔ البتہ ہر معاملہ میں تشخیص دینا ضروری ہے کہ ایجاب کس کی طرف سے ہو گا اور قبول کس کی جانب سے؟ مثلا اجارہ اور نکاح میں ایجاب اور قبول ہوتا ہے جوکہ فریقین کی رضایت کی دلیل بنتا ہے۔
[ترمیم]
فقہی مسائل کے ذیل میں فقہاء نے یہ مسئلہ مطرح کیا ہے کہ آیا عقود اور معاملات ایجاب اور
قبول ہر دو سے متحقق ہوتے ہیں اور تشکیل پاتے ہیں یا ایسا نہیں بلکہ اگر فقط ایجاب ہو تو بھی
عقد متحقق ہو جاتا ہے؟ امام خمینی اس بارے میں بیان کرتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ ایجاب کے ذریعے عقد متحقق ہو جاتا ہے، مثلا خرید و فروخت کے باب میں بائع کہتا ہے:
بِعْتُکَ ھَذَا الثوبَ بِدینارٍ یا
بِعْتُ ھَذَا بِھَذَا تو اس سے
بیع اور خرید و فروخت منعقد ہو جاتی ہے۔ کیونکہ حقیقتِ بیع کسی چیز کو
عوض کے بدلے میں مدمقابل کی ملکیت بنانا اور
مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا ہے اور ایجاب کے ذریعے سے یہ حاصل ہو جاتا ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
جابری عربلو، محسن، فرہنگ اصطلاحات فقہ فارسی، ص۵۹-۶۰۔
بعض مطالب محققینِ ویکی فقہ اردو کی جانب سے اضافہ کیے گئے ہیں۔