ایران کا اسلامی انقلاب

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



اسلامی انقلاب، معاشرے کی ایسی تحریک اور سیاسی تبدیلی کا نام ہے جس کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر ہو اور اس کا ہدف اسلامی قوانین کو رائج نظام حکومت کی جگہ پر نافذ کرنا ہو۔
دنیا بھر کے انقلابات کی نسبت اسلامی انقلاب کی شناخت اس کی ’’اسلامیت‘‘ ہے۔ لہٰذا اس انقلاب میں تربیتی و علمی عنصر خصوصی اہمیت کا حامل ہے اور اس انقلاب میں انحراف کا امکان بھی اسی راستے سے ممکن ہو گا۔
ایران کا اسلامی انقلاب اپنی نوعیت کے اعتبار سے منحصر بالفرد ہے؛ کیونکہ اس میں اللہ کے پیغمبروں کی جدوجہد سے الہام لیتے ہوئے انسانی زندگی کے روحانی پہلوؤں پر توجہ دی گئی ہے۔ اس بنیاد پر تعلیمی و تربیتی پہلوؤں کی طرف توجہ، آگانہ انتخاب کی اہمیت، عقائد حقہ کے استحکام کی جدوجہد، اہداف کی دقیق وضاحت پر زور، انقلاب کی جامعیت، غیر ملکیوں پر عدم بھروسہ، قوانین و ضوابط میں ثبات، متغیر مصلحتوں کی رعایت، حاکمیت کی دائمی حمایت، غیبی امداد سے بہرہ مندی اور اس قبیل کے امور اسلامی انقلاب کے اٹوٹ اور لاینفک عناصر ہیں۔


مقدمہ

[ترمیم]

معاشرے میں اعتدال اس وقت قائم ہو گا جب معاشرے کے افراد یہ سمجھتے ہوں کہ اگر ہم معاشرے کا ایک رکن بننے کی حیثیت سے کام کریں گے تو اس کے فوائد زیادہ ہیں اور نقصان کم ہیں۔ بصورت دیگر ایسے عوامل فراہم ہوں گے کہ اعتدال کی جگہ معاشرتی بحران جنم لے گا اور معاشرے کا استحکام درہم برہم ہو جائے۔
اسلام کی رو سے مستقبل میں بین الاقوامی برادری ایسا ارتقائی سفر کرے گی جس میں حقیقی مومنین زمین کے حاکم ہوں گے۔ بدیہی ہے کہ اس امنگ کے تحقق کا ایک ذریعہ ایسا انقلاب ہے جو اسلامی امنگوں کی بنیاد پر تشکیل پائے۔ اسی بنا پر شہید مطہریؒ اسلامی انقلاب کے بارے میں یہ تحریر فرماتے ہیں: ایران میں ایک ایسا انقلاب کامیاب ہوا ہے کہ جس نے ہر طرح کے اندازوں کو باطل ثابت کر دیا ہے، علمی اصطلاح میں سوشیالوجی کے حساب کتاب کو نقش بر آب کر دیا۔ کسی کو یقین نہیں تھا کہ ایسا انقلاب وقوع پذیر ہو گا جس کا منشا مساجد ہوں، جبکہ لوگوں میں کوئی تنظیمیں بھی موجود نہ ہوں اور لوگ کس قسم کی انقلابی اور حزبی مشق کے حامل بھی نہ ہوں۔ بہرحال ہم دیکھ رہے ہیں کہ یورپی بھی اس انقلاب کو ایک عجوبہ قرار دیتے ہیں۔

اسلامی انقلاب کی تعریف

[ترمیم]

انقلاب اس تیز، شدید اور بنیادی تبدیلی کو کہتے ہیں جس کا منشا معاشرے کی سیاست میں عوامی جدوجہد اور قیام ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک سیاسی، قانونی اور معاشی نظام کی جگہ دوسرا نظام قائم ہوتا ہے۔ انقلاب کی اس تعریف کے پیش نظر اور اس مطلب کہ اسلام بعنوان دین سے مراد معارف کا ایسا مجموعہ ہے جو خدا کی طرف سے انسانوں کی ہدایت اور کمال کیلئے نازل ہوا ہے اور رسول خداؐ کے وسیلے سے نوع بشر کو ابلاغ کیا گیا ہے۔ یہی اسلامی انقلاب کی تعریف ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے پیش کردہ تعریفیں الفاظ اور عبارات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن اکثر تعریفوں کی بنیاد دو کلموں ’’انقلاب‘‘ اور ’’اسلام‘‘ پر استوار ہے جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔
کلیم صدیقی اسلامی انقلاب کی تعریف میں لکھتے ہیں: اسلامی انقلاب، مسلمان امت کی موجودہ غیر اسلامی نظام کو تبدیل کر کے اس کی جگہ ایک جامع اور کامل اسلامی نظام نافذ کرنے کی جدوجہد نیز زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی آئیڈیالوجی اور قوانین کے اجرا کی سعی کا نام ہے۔
[۲] کلیم صدیقی، نهضت‌های اسلامی و انقلاب اسلامی ایران، ص۴۹.

شہید مطہری کا بھی خیال ہے کہ: اسلامی انقلاب وہ راستہ ہے جس کا ہدف، اسلام اور اسلامی اقدار ہیں اور انقلابی جدوجہد صرف اسلامی اقدار کے نفاذ کیلئے انجام دی جاتی ہیں۔ اس صورت میں اسلامی انقلاب کا اسلامِ انقلابی سے تفاوت ہو گا، کیونکہ دوسری صورت میں انقلاب اور جدوجہد ہدف ہوں گے نہ وسیلہ؛ پہلی صورت کے برخلاف کہ جس میں جدوجہد اور انقلاب وسیلہ ہیں نہ کہ ہدف۔

اسلامی انقلاب کی ماہیت

[ترمیم]

اسلامی انقلاب کی ماہیت سے آشنائی اور اس کا دیگر انقلابوں سے امتیاز مشکل نہیں ہے۔ اس انقلاب کا دنیا کے دیگر انقلابات سے تفاوت اس کے اسلامی ہونے میں ہے۔ لہٰذا اگر کوئی نظام اپنے حقیقی امتیاز کو اسی طرح محفوظ رکھے تو یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ابھی اس کی ماہیت ضائع نہیں ہوئی ہے لیکن اگر اس امتیاز کی حفاظت نہ کر سکے تو یہ اعتراف ضروری ہے کہ یہ انقلاب اپنے اصل راستے سے خارج اور آفات کا شکار ہو چکا ہے۔
وہ تنہا دین جو انسانوں کے تمام شعبہ ہائے زندگی بشمول انفرادی، اجتماعی، دنیوی اور اخروی امور کے قوانین کا حامل ہے؛ اسلام ہے، تنہا انقلاب جو لوگوں کی تمام مصلحتوں کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے اور خود، جدید مسائل و مشکلات کو ایجاد نہ کرے، وہ اسلامی انقلاب ہے؛ یعنی وہ انقلاب جو اپنے تمام ابعاد اور پہلوؤں میں بلا استثنا اسلام کی آئیڈیالوجی اور اقدار سے مالا مال ہو۔ اس لیے اس انقلاب کے رہبر، دیگر انقلابات کے رہبروں کے برخلاف انقلاب کے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے نہ ہر عقیدے خواہ باطل ہو؛ سے استفادہ کرتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کے احساسات و جذبات کو مشتعل کر کے ان کے امور پر غیر عقلی عوامل کو حکمفرما کرتے ہیں؛ بلکہ لوگوں کے جذبات و احساسات کو اعلی اور صحیح افکار کے تابع اور محکوم کرتے ہیں۔ پھر انقلاب کو کامیاب کرنے کیلئے اور اس کے اہداف کو عملی کرنے کیلئے ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ایسے اسلامی اقدار و افکار کی ترویج و اشاعت جو صحیح اور واقع کے مطابق بھی ہیں اور لوگوں میں ایثار، فداکاری اور جانفشانی کی حیرت انگیز آمادگی پیدا کریں؛ انقلابی رہنماؤں کے منجملہ اہداف میں سے ہے۔
اس بنا پر اگر تعلیم و تربیت کے عنصر کو اسلام کا اساسی ترین عنصر سمجھ لیا جائے، تو اسلامی انقلاب کی کامیابی کا عظیم ترین پہلو یہی تعلیم و تربیت کا پہلو ہو گا۔ لہٰذا اس نعمت سے اصل فائدہ اٹھانے والوں میں سرفہرست تعلیم و تربیت سے منسلک طبقات ہوں گے کہ جن میں سے نمایاں ترین حوزات علمیہ اور جامعات ہیں۔ اس لیے ان طبقات کی ذمہ داری معاشرے کے دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی نسبت بہت سنگین ہے۔ اس لیے اس امر میں کوئی تردید نہیں ہے کہ اسلامی انقلاب کی ماہیت یعنی اس کی اسلامیت کا عنصر جو ایک فکری و تربیتی عنصر ہے، مسئولین کے بدلنے سے نہیں بدلتا۔ اس انقلاب کی بقا کا معیار، فکر و تفکر کی بقا ہے، نہ ان اشخاص کے افکار کی بقا جو زمانہ انقلاب میں انقلابی شمار ہوتے تھے؛ کیونکہ ہو سکتا ہے اگلی نسل آنے کے بعد نئے افراد ذمہ داری سنبھال لیں لیکن انقلابی فکر اور اس کی ماہیت قائم و دائم رہے۔ اس لیے ایسے انقلاب کا جائزہ لینے کا اصل ملاک تعلیمی و تربیتی عنصر کی فکری بنیادوں کی صحت یا سقم ہے۔
ایران کے انقلاب کی بقا کہ جس کا لاحقہ اسلامی ہے؛ اسلامی اقدار و افکار کو قائم کرنے میں ہے۔ لہٰذا اگر ہم انقلاب کے تمام پہلوؤں میں کامیاب ہو جائیں مگر اس پہلو میں شکست سے دوچار ہوں تو درحقیقت ہم نے انقلاب کی ماہیت کو بدل ڈالا ہے۔ اگر ہمارا ہدف صرف کامیابی ہو، خواہ اسلامی امنگوں سے دستبردار ہونے کے ساتھ ہو پھر یہ انقلاب، اسلامی نہیں ہو گا۔ اس انقلاب کا اسلامی ہونا اس کے ساتھ ہے کہ ہر چیز مکتب پر قربان ہو جائے۔ صرف اس صورت میں اس انقلاب کو اسلامی انقلاب کا نام دیا جا سکتا ہے۔

خصوصیات

[ترمیم]

انقلاب کو اس وقت اسلامی کا نام دیا جا سکتا ہے کہ جب اس میں درج ذیل عناصر موجود ہوں، ان موارد میں سے حتی کسی ایک کا فقدان اس امر پر دلیل ہو سکتا ہے کہ ایسے انقلاب نے یونہی ’’اسلامی‘‘ کا عنوان اخذ کر لیا ہے۔

← تعلیمی و تربیتی پہلوؤں پر خصوصی توجہ


اسلامی انقلاب ہر چیز سے زیادہ ایک تعلیمی و تربیتی انقلاب ہے؛ نہ ایک سیاسی، قانونی اور معاشی انقلاب۔ البتہ اس کا مطلب اس انقلاب کی سیاسی، قانونی اور معاشی خصوصیات کی نفی نہیں ہے؛ بالفاظ دیگر اسلامی انقلاب ایک طرف سے غربت، معاشرتی و قانونی ظلم و ستم اور انسانوں کی زندگی کو خراب اور تباہ کرنے کیلئے بین الاقوامی آلہ کار بننے سے دستبرداری جیسے امور سے غافل نہیں ہوتا جبکہ دوسری طرف سے اس کی زیادہ تشویش عوام کے معنوی اور اخلاقی کمال سے محرومی کی نسبت ہوتی ہے اور اگر فقر و تنگدستی اور ظلم جیسی معاشرتی آفات کے خلاف بھی جدوجہد کرتا ہے تو ان منفی اثرات کی وجہ سے ہے جو ان میں سے ہر ایک بشر کے اخلاقی و معنوی کمال کی راہ میں مترتّب کر سکتا ہے۔

← آگاہانہ انتخاب کی اہمیت


اس انقلاب کا بنیادی اور حتمی ہدف انسانوں کو معنوی و روحانی کمال تک پہنچانا ہے۔ یہ ہدف ان کے اختیاری افعال کے سوا حاصل نہیں ہوتا، انقلابی رہنما لوگوں کی بڑی تعداد کو انقلابیوں سے ملحق کرنے کیلئے ہرگز زور و زبردستی کا سہارا نہیں لیتے؛ بلکہ یہ سعی کرتے ہیں کہ لوگ خود انقلاب کے اہداف پر یقین رکھیں اور آگاہانہ و آزادنہ طریقے سے انقلابیوں کے ساتھ ملحق ہوں اور دل و جان سے فاسد نظام کے سقوط و انہدام اور انقلابی نظام کے قیام کی تمنا کریں۔
لہٰذا اس انقلاب کے رہنما نہ حقائق چھپاتے ہیں اور نہ جھوٹ کو نشر کرتے ہیں بلکہ بنیادی طور پر ہر قسم کے مکر و فریب اور حیلوں سے دوری اختیار کرتے ہیں۔ درحقیقت وہ اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ لوگوں کے شعور اور ان کی فکری، عقلی اور ثقافتی آگاہی میں اضافہ کریں۔

← عقائد حقہ کو مستحکم کرنے کی سعی


انسانوں کے روحانی کمال کو ترقی دینے کی غرض سے انقلابی پہلے انسانوں میں عقائدِ حقہ کو مستحکم و قوی کرنے کی سعی کرتے ہیں اور پھر ان عقائد حقہ سے انقلاب کے اہداف کی راہ میں استفادہ کرتے ہیں۔ اس انقلاب کے رہنما، دیگر انقلابات کے رہنماؤں کے برخلاف انقلاب کی خدمت کیلئے ہر نادرست اور خلاف حقیقت عقیدے سے استفادہ نہیں کرتے۔ وہ لوگوں کے غیر عقلی احساسات و جذبات ابھار کر انہیں اپنی سرگرمیوں پر حکمفرما نہیں کرتے بلکہ غیر عقلی احساسات و جذبات کو عقل کے ادراکات اور صحیح عقائد کا تابع بناتے ہیں پھر انقلاب کی کامیابی اور اس کے اہداف کو عملی کرنے کی غرض سے انہیں بروئے کار لاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان اسلامی اقدار و افکار کی ترویج و اشاعت جو درست ہیں اور لوگوں کو ایثار، فداکاری اور جانفشانی کیلئے حیرت انگیز طور پر آمادہ کرتے ہیں؛ اس انقلاب کے رہنماؤں کی ترجیحات میں شامل ہے۔

← اہداف کی دقیق وضاحت


اسلامی انقلاب کے رہنما انقلاب کے اہداف و مقاصد کو صراحت و دقت کے ساتھ متعین کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اس لیے ہمیشہ اعلان کرتے ہیں کہ قوم پرستی، وطن پرستی، نسل پرستی اور اس قبیل کی اغراض کے پیچھے نہیں ہیں اور فقط حق و عدالت کے خواہاں ہیں؛ جبکہ دوسرے انقلابات کے رہنما اپنے اہداف و مقاصد کو مبہم و مخفی رکھتے ہیں تاکہ لوگوں کا کوئی گروہ ان سے دور نہ ہو اور سب ان کے ساتھ وابستہ رہیں اور حکومت کو جلد از جلد ساقط کر کے انقلاب کو کامیاب کریں۔ اسلامی انقلاب کے رہنما اپنے لوگوں کے بھی خیر خواہ ہوتے ہیں اور معاشرے کے تمام افراد کی مصلحتوں اور مفادات کو مکمل طور پر عملی کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں؛ مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنے اہداف کا بھی واضح طور پر اظہار کرتے ہیں تاکہ حق کی اقدار اور باطل کی ترجیحات ایک دوسرے سے مخلوط نہ ہوں اور لوگ گمراہی و بے راہ روی میں نہ پڑیں۔

← انقلاب کی جامعیت


انقلابی تمام کار آمد اور مفید عناصر کی شناخت اور انہیں اپنے ساتھ شامل کرنے میں بہت سنجیدہ ہوتے ہیں کیونکہ انقلاب ایک فرد یا گروہ یا طبقے کو اقتدار تک پہنچانے کیلئے برپا نہیں کرنا چاہتے بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ تمام افراد، گروہ اور طبقات ترقی کریں اور اپنی حقیقی مصلحت تک پہنچیں۔ البتہ مؤثر و مفید عناصر، انقلاب کے کسی اصول سے عدول نہیں کرتے ہیں۔

← اجنبیوں پر عدم اعتماد


انقلابی افراد ہرگز اجنبیوں پر بھروسہ نہیں کرتے (اجنبی سے یہاں مقصود فقط وہ معاشرے، ممالک، اقوام اور ملتیں ہیں جو دین اسلام اور اسلامی انقلاب کے بلند اہداف کے خلاف ہیں) کیونکہ اسلام دشمنوں پر تبرا اس مقدس دین کے دوستوں کے ساتھ تولا کی مانند اس مکتب کا آئیڈیولوجیکل اصول ہے۔ لہٰذا یہ انقلاب فقط اپنے عناصر، فورسز اور چاہنے والوں پر اعتماد کرتا ہے اور مستقل ہوتا ہے۔

← قوانین و ضوابط میں ثبات


اسلام کے اندر کچھ قوانین و احکام ثابت اور غیر متغیر ہیں۔ یہ انقلاب اسلامی ہے اس لیے یہ ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ ہر مسئلے میں عوام یا اہل نظر اور ماہرین سے رائے یا تجاویز طلب کرے۔ اس لیے کوئی فرد یا گروہ یا طبقہ اس انقلاب میں یہ طمع نہیں رکھتا کہ بعض قوانین و ضوابط میں ترمیم کر کے اپنے ذاتی مفادات کو حاصل کر سکتا ہے۔ یہ دو عامل کامیابی کے بعد انقلاب کی بقا اور دوام کے عمل میں بہت زیادہ مؤثر ہیں۔

← متغیّر مصلحتوں کی رعایت


بنیادی اقدار و قوانین میں ثبات کسی طور متغیر اور وقتی مصلحتوں کی تکمیل سے نہیں روکتا بلکہ انہی ثابت اقدار کی بنیاد پر خاص اور جزئی ضوابط وضع کیے جاتےہیں اور ان کے ذریعے متغیر ضروریات اور مصلحتوں کو پورا کیا جاتا ہے۔

← حاکمیت کی لازوال حمایت


اس انقلاب کے زمامدار اور رہبر کی حاکمیت بالخصوص شیعہ نقطہ نظر سے اللہ تعالیٰ کے ولی اعظم کی حاکمیت کی شعاع ہے بلکہ اگلے درجے پر یہ خدائے متعال کی حاکمیت کی شعاع ہے اور یہ امر نظامِ حکومت کی بقا اور ثبات کی ضمانت ہے۔

← غیبی امداد سے بہرہ مندی


یہ عنوان مذکورہ بالا سب خصوصیات سے زیادہ اہم ہے اور علمی و تجربی حساب کتاب سے اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ لہٰذا خدائے متعال اپنی غیبی امداد ان پر اتارتا ہے جو صدق دل اور خلوص نیت سے اس انقلاب کی مدد کریں اور انہیں شکست ناپذیر قرار دیتا ہے۔

بشریت کی تاریخ میں اسلامی انقلاب کا مقام

[ترمیم]

اسلامی انقلاب کی منحصر بالفرد خصوصیت جو اسے دیگر انقلابوں سے ممتاز کرتی ہے، وہی انبیائے الہٰی کی تحریک کی پیروی ہے۔ انبیاء کی تحریک بھی کئی نمایاں خصوصیات کی حامل تھی جن میں سے عقائد حقہ کو باطل عقائد پر ترجیح دینے کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس نقطہ نظر کی بنیاد پر ضروری ہے کہ حق کی شناخت کیلئے کوشش کی جائے، اس کے اثبات اور ترویج کیلئے ضروری اقدامات انجام دئیے جائیں اور باطل عقائد کے حوالے سے ذرہ بھر رضامندی کا اظہار نہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کی تحریک خصوصیات، منشور نیز طریقہ کار میں دوسرے معاشرتی انقلابوں سے متفاوت ہے۔
انبیاء کی تحریک اور اس کی پیروی میں اسلامی انقلاب کی سب سے اہم خصوصیت انسان کے روحانی ابعاد پر توجہ ہے۔ یہی خصوصیت اس تحریک کو دیگر تحریکوں سے یکسر ممتاز کر دیتی ہے اور انسان کی انسانیت کو موردِ توجہ قرار دیتی ہے۔ انبیاء کی تحریک کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ہرگز شخصیت پرستی ، خود خواہی اور شخصی انتخاب کو اہمیت نہیں دیتے؛ کیونکہ اس قبیل کے امور مادہ پرستی اور نفس پرستی کا لازمہ ہیں جبکہ انبیاء ہمیشہ اس راہ کے برخلاف اقدام کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ یہ کوشش کرتے تھے کہ تمام انسان خداوند متعال کی برکتوں سے بہرہ مند ہوں اور سیر الی اللہ اور قرب الی اللہ کی جانب گامزن ہوں۔ معاشرے کے مختلف طبقات میں وحدت کا فروغ انبیاء کی تحریک کی ایک خصوصیت ہے کہ جس کا مقصد انسانوں کو حقیقی سعادت پر فائز کرنا ہے۔
اس مطلب کی طرف توجہ بھی ضروری ہے کہ حتمی کامیابی انبیاء کے ساتھ ہے: «وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ• اِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنصُورُونَ• وَاِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُون؛ و
اور اپنے پیغام پہنچانے والے بندوں سے ہمارا وعدہ ہوچکا ہے کہ ان کی مدد بہرحال کی جائے گی
اور ہمارا لشکر بہرحال غالب آنے والا ہے۔
ماضی کی تاریخ کے حوالے سے ہم تک پہنچنے والی معلومات کے مطابق بہت کم موارد میں بشر انبیا کی اطاعت کے نتیجے میں اس دنیا کے اندر مکمل سعادت کو پہنچا ہے، مخالفت، عصیان اور عذاب کے مقامات سعادت کے مقامات سے زیادہ تھے۔ مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ میں ایسی تحریک رسول اللہ کے زمانے میں اٹھی اور چند ہزار سالہ پرانی حکومتیں ختم ہو گئیں۔ اس اعتبار سے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں اٹھنے والی تحریک کے بعد ایک اور تحریک جو رسول اللہ کے ایک فرزند کی رہبری اور خدا پرست و عاشقان حق عوام کی ہمت سے اسلامی انقلاب کی ایران میں کامیابی کے ساتھ ظاہر ہوئی؛ الہٰی تحریکوں کا دوسرا عظیم نمونہ ہے کہ جنہیں اسلام اور الہٰی ادیان کی تاریخ میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔
اس انقلاب کی کامیابی کا منشا یہ نہیں ہے کہ ایک حکومت کی بساط لپیٹ کر اس کی جگہ ایک دوسری حکومت کو قائم کیا گیا؛ کیونکہ یہ کام طول تاریخ میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ لہٰذا اس اسلامی انقلاب کی عظمت کا راز صرف ایک حکومت کو بدل کر دوسری حکومت کو لانے میں نہیں ہے۔ اسی طرح اس انقلاب کی عظمت کا سرچشمہ فقط ملک پر حکمفرما ۲۵۰۰ سالہ سلطنت کا خاتمہ نہیں ہے کیونکہ درحقیقت انقلاب کی کامیابی کے بعد سلطنتی حکومت کی جگہ ایک جمہوری حکومت قائم ہو گئی ہے اور اس طرح کی تبدیلیاں دوسرے ممالک میں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ ان انقلابات میں سے کوئی ایک بھی شکوہ و عظمت میں اسلامی انقلاب کے ساتھ رقابت نہیں کر سکتا۔ اس بنا پر اس انقلاب کی عظمت کا منشا عدالت کے اصولوں پر کاربند ہونا اور ظلم، انانیت اور اقتدار کی ہوس کی بنیاد پر قائم حکومتوں کا خاتمہ ہے۔ یاد رہے کہ زمین پر الہٰی حکومت کا قیام اور عدلِ الہٰی کے قانون کی حاکمیت تمام انبیاء، اوصیا اور مجاہدین کا ہدف تھا جو اسلامی انقلاب کی ایران میں کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچا ہے۔

ارکان

[ترمیم]

انقلاب کے میدان میں تین عوامل؛ رہبری، عوام اور مکتب مؤثر تھے۔ ہر تحریک میں رہبر کیلئے خصوصی اوصاف کا حامل ہونا ضروری ہے کہ جن کے نہ ہونے کی صورت میں تحریک اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچے گی۔ یہ اوصاف و خصوصیات بطور کامل اسلامی انقلاب کے بانی کے مورد میں صادق تھیں اور آپ مختلف شعبوں کے علمی فضائل کے حامل ہونے کیساتھ ساتھ زندگی کے تمام پہلوؤں میں روحانی فضائل سے بھی برخوردار تھے، آپ گرد و پیش کے حالات اور مسائل سے بھی بخوبی آگاہ تھے اور اپنی کم نظیر شجاعت اور ہمیشگی تدبیر کے ساتھ اس انقلاب کو ثمر آور کرنے میں کامیاب ہوئے۔ رہبری کا عامل اسلام کے اعلیٰ مکتب اور عوام کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر انقلاب کو منزل دینے سے قاصر تھا۔
پہلوی حکومت کے زمانے میں اس حکومت کے دیندار اور مذہبی لوگوں سے خوف کی وجہ سے صرف مغرب زدہ افراد ہی ملک چلانے میں کردار ادا کر رہے تھے اور یہ حکومت عوامی قوت پر اعتماد نہیں کرتی تھی۔ اس تصور کے برخلاف، امام خمینیؒ کا یقین تھا کہ اپنی معاشرتی تحریک میں عوام سے استفادہ کریں اور سیاسی گروہوں اور مخالف پارٹیوں پر تبدیلی کے حوالے سے امیدیں نہیں باندھی جا سکتیں۔ مومنین کے مابین الفت اور شریعت کی پابندی ان کے غیبی امداد سے بہرہ مند ہونے کی موجب ہوئی اور خدائے متعال نے اس وحدت کی برکت سے پہلوی حکومت کو سرنگوں کر دیا۔ صرف توحید اور خدا پرستی کی روح ہے جو معاشرے میں ٹھوس وحدت کی عامل ہے اور اس اصل پر اعتماد کیے بغیر کسی قسم کی وحدت دائمی نہیں رہ سکتی۔
تشیع کا اعلیٰ مکتب بھی اسلامی انقلاب کی کامیابی میں بنیادی کردار کا حامل ہے اور یہ امام خمینیؒ اور عوام کے تمام انقلابی جنبوں میں مشہود ہے۔

ثمرات

[ترمیم]

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے داخلی، علاقائی اور بین الاقوامی حالات پر گہرے اثرات مترتب ہوئے۔ اسلامی انقلاب کے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر وسیع ثمرات تھے کہ جن کی شناخت سے انقلاب سے پہلے اور بعد کے حقائق بہترین انداز میں نمایاں ہو جاتے ہیں۔ ملکی سطح پر اسلامی انقلاب، اسلامی امنگوں کو عملی کرنے کا موجب بنا اور ملکی عوام کی اکثریت کو گھٹن کے ماحول سے باہر نکالا۔ بین الاقوامی سطح پر اسلامی انقلاب کے ساتھ شیعوں کی وابستگی اس امر کی موجب ہوئی کہ شیعہ انقلاب سے قبل اپنی طرف منسوب تہمتوں سے چھٹکارا حاصل کریں اور عزت کا احساس کریں۔ اسی طرح اسلامی انقلاب کے وقوع پذیر ہونے سے شیعوں کی حضرت حجتؑ کے ظہور کی نسبت امیدیں زیادہ ہو گئیں۔ اسلامی انقلاب کا سب سے اہم نتیجہ تعلیمی و تربیتی ثمرات ہیں، اس اعتبار سے انقلاب کی ترقی کا جائزہ لیتے وقت صرف علمی، فکری، تربیتی اور ثقافتی عوامل کی طرف توجہ ضروری ہے اور انسانوں اور مختلف حوزات کی ترقی کو بھی تعلیمی و تربیتی رشد اور اسلام کے اصول و عقائد کی پابندی کے سائے میں دیکھا جائے۔

خطرات کی شناخت

[ترمیم]

عظیم ثمرات کے حامل ہر انقلاب کو سنجیدہ آفتوں کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔ اس بنا پر اسلامی انقلاب کو درپیش خطرات کا جائزہ عظیم اسلامی انقلاب کے ثمرات کی حفاظت کا موجب ہو گا۔ درپیش خطرات کے حوالے سے ہر قسم کی بات سے پہلے اس کے مفروضوں پر بھی توجہ ضروری ہے؛ پہلا مفروضہ یہ ہے کہ انقلاب ایک مترقی اور نشوونما پانے والے موجود کی مانند ہے اور اس کا موانع کو برطرف کر کے مطلوبہ ہدف کی طرف حرکت کرنا اور آگے بڑھنا ضروری ہے۔ دوم یہ کہ انقلاب، مطلوبہ ہدف تک رسائی کیلئے ضروری ہے کہ خاص اصول و ضوابط کی پیروی کرے جو ہدف سے مناسبت رکھتے ہوں اور درست راہ سے ہر قسم کا انحراف انقلاب کو بیمار اور آفت زدہ کرتا ہے۔ فوجی، معاشی، اخلاقی اور عقائدی خطرات وہ ہیں جو باہر سے اسلامی نظام کی سرحدوں کو لاحق ہیں۔
اہم ترین خطرات جو اندر سے اسلامی نظام کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں، یہ ہیں: اسلام کے حقائق کی نسبت جہالت اور انقلابیوں کے ایمان کی کمزوری، ثقافتی انحراف، انقلابیوں کے عزم و ارادے میں ضعف، داخلی اختلافات، مسئولین کے اندر دولت اور عہدوں کی ہوس اور دہشت گردی اور تشدد۔
نظام کے اداروں کا ضعف اسلامی نظام کو درپیش منجملہ داخلی خطرات میں سے ہے کہ جس کا سرچشمہ؛ تعلیم و تربیت اور امن و امان کے شعبوں کا ضعف اور خاندانی مسائل ہو سکتا ہے۔

انقلاب کی حفاظت اور بقا کا طریقہ کار

[ترمیم]

اسلامی انقلاب کی حفاظت اور تسلسل کیلئے ضروری ہے کہ کچھ تدابیر اختیار کی جائیں۔ ایران کی انقلابی ملت اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت سے برخوردار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دوش پر تاریخ کی عظیم ذمہ داری کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر قوم سے زیادہ اس کی حفاظت کے طریقہ کار پر غور کرے۔ انقلاب کی بقا کے مفہوم کی مختلف تشریحات ہیں لیکن صحیح تشریح یہ ہے کہ انقلابی افراد نظام کو درپیش چالوں اور سازشوں سے غافل نہ ہوں اور یہ اجازت نہ دیں کہ تباہ کن سرگرمیوں کے نقصان دہ نتائج اور آثار معاشرے اور انقلاب کے دامن گیر ہو جائیں۔ اسلامی عقائد اور اقدار کی مضبوطی، ثقافتی مسائل کی اہمیت، فوجی برتری اور تقویت، وحدت کی حفاظت اور انقلابی جوش و جذبے کی مداومت منجملہ ایسے بنیادی کام ہیں جو انقلاب کی حفاظت و بقا کیلئے ضروری ہیں۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، پیرامون انقلاب اسلامی، ج۲۴، ص۳۶۳.    
۲. کلیم صدیقی، نهضت‌های اسلامی و انقلاب اسلامی ایران، ص۴۹.
۳. مرتضی مطهری، مجموعه آثار، پیرامون انقلاب اسلامی، ج۲۴، ص۱۷۲.    
۴. صافات/سوره۳۷، آیه۱۷۱-۱۷۳.    


ماخذ

[ترمیم]
مصباح یزدی، محمد تقی، انقلاب اسلامی و ریشه های آن، ص۸۳-۹۹۔    






جعبه ابزار