بنت لبون

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



بنت لبون عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب وہ مادہ اونٹ ہے جو اپنی زندگی کے دو سال مکمل کر چکی ہو اور تیسرے سال میں داخل ہو۔ اس کے مقابلے میں اس کا مذکر ابن لبون آتا ہے۔ بعض فقہی ابواب میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔


لفظ کا فقہی استعمال

[ترمیم]

علم فقہ میں کتاب زکات اور کتاب دیات میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔

بنت لبون کے احکام

[ترمیم]

۱) زکات جن چیزوں پر واجب ہے ان میں سے ایک اونٹ ہے۔ اونٹ کے مختلف نصاب ذکر کیے گئے ہیں جن میں اگر کسی نصاب کی مقدار تک اونٹوں کی تعداد پہنچ جائے تو زکات نکالی جائے گی۔ چنانچہ بیان کیا جاتا ہے کہ اگر کسی کے پاس ۳۶ اونٹ ہو جائیں تو اس کے لیے ایک بنتِ لبون دینا ضروری ہے۔ مشہور علماء کے نزدیک ۷۶ اونٹ پر دو بنت لبون اور ۱۲۱ کے بعد ہر ۴۰ اونٹوں کے بدلے میں ایک بنت لبون زکات کے عنوان سے دیا جائے گا۔

۲) وہ قتل جو خطاء اور غلطی کی وجہ سے انجام پایا اس کی دیت میں ایک سو اونٹ ہیں جن میں سے مشہور علماء کے مطابق ۳۰ بنت لبون ہوں۔ البتہ اگر عمدًا اور جان بوجھ کر قتل کیا ہے تو اس کی دیت میں اختلاف ہے۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. جواہری نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام،ج ۱۵، ص ۱۱۱۔    
۲. حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقی،ج ۹، ص ۶۱ تا ۶۵۔    
۳. جواہری نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام،ج ۴۳، ص ۲۳۔    
۴. شہید ثانی، زین الدین، الروضۃ البہیۃ،ج ۱۰، ص ۱۸۰۔    
۵. جواہری نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام،ج ۴۳، ص ۲۰۔    
۶. روحانی، سید محمد صادق، فقہ الصادق،ج ۲۶، ص ۱۸۴۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، ج‌۲، ص ۱۴۱‌۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : الفاظ شناسی | زکات | علم فقہ




جعبه ابزار