قرآن کریم کی آیات کی ترتیب

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



آیاتِ قرآنی کی ترتیب کو تنسیق، تدوین ترتیبِ آیات، تالیف اور جمع و نظم آیات کے عنوان سے موسوم کیا جاتا ہے۔ علوم قرآنی میں اس موضوع سے تفصیلی بحث کی جاتی ہے۔ قرآن کریم کی سورتوں کی ترتیب اور قرآنی سورتوں میں آیات کی ترتیب اہم مباحثِ قرآنی میں شمار ہوتی ہیں۔ آیات کریمہ کی ترتیب کے بارے میں محققین کے درمیان بنیادی طور پر دو طرزِ تفکر پائے جاتے ہیں:


آیات کی ترتیب کا توقیفی ہونا

[ترمیم]

اکثر و بیشتر شیعہ و اہل سنت محققین قائل ہیں کہ قرآن کریم کی سورتوں میں آیات کی ترتیب رسول اللہ ﷺ کی رہنمائی اور دستور کی بناء پر استوار کی گئی جوکہ جناب جبریلؑ کے توسط سے آنحضرت ﷺ نے تشکیل دی۔ آنحضرت ﷺ معین اصحاب کو دستور فرماتے اور آپ ﷺ کی رہنمائی کی بناء پر سورہ کے اندر آیات کریمہ کو ترتیب دی جاتی۔ پس اس تشریح کے مطابق آیاتِ کریمہ کی ترتیب توقیفی ہے، یعنی آیات کو اپنی جگہ سے تبدیل کرنا جائز نہیں ہے۔ علماء نے تحریر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی آخری عمر تک صحابہ کرام قرآن کریم کو حفظ کرتے رہے اور ان کے بعد انہی حافظانِ قرآن کے توسط سے قرآن کی ترتیب کو محفوظ رکھا گیا۔ اہل سنت روایات کے مطابق زید بن ثابت حافظانِ قرآن میں سے تھے اور قرآن کریم کے راویوں میں شمار ہوتے ہیں۔ خلیفہ اول کے دستور پر زید بن ثابت نے قرآن کی تدوین کی مأموریت قبول کی اور اس طرح قرآن مصحف کی شکل میں ہمارے سامنے آیا۔ زید بن ثابت نے قرآن کریم کو اسی طرح سے مرتب اور مدون کیا جیساکہ وہ رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں موجود تھا اور یہی وجہ بنی کہ مسلمانوں میں ترتیبِ آیات کے اعتبار سے کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا۔ البتہ اس کے برخلاف دلائل کے ساتھ یہ نظریہ موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں ہی قرآن کریم جمع ہو چکا تھا اور اسی کے مطابق آنحضرت ﷺ کی مختلف وصیتیں اور بعض شرعی احکام صادر ہوئے، جیسے حدیث ثقلین اور نماز میں پوری سورہ کا پڑھنا ہے۔ بعض احادیث کے مطابق عثمان‌ بن‌ ابی عاص کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں موجود تھے کہ ہم نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی نگاہیں بلند کی اور ایک جگہ نگاہوں کو متمرکز کر دیا اور فرمایا: ابھی میرے پاس جبریلؑ تشریف لائے تھے، انہوں نے کہا: آیت کریمہ إنّ اللّهَ یأمُرُ بِالعَدلِ وَالإحسان کو سورہ نحل میں اس جگہ رکھیے۔ نیز اگر قرآن کریم کی آیات کی ترتیب کو تبدیل کر دیا جائے تو قرآن کا معجزہ قائم نہیں رہے گا۔ پس ان دلائل سے معلوم ہوا کہ آیات کریمہ کی ترتیب وحی الہٰی کی بنیاد پر اور رسول اللہ ﷺ کے دستور کی اساس پر مرتب کی گئی ہے۔ سیوطی کی نظر میں ترتیبِ آیات کا توقیفی ہونا مسلمانوں میں اجماعی مسئلہ ہے۔ سیوطی نے اس کو زرکشی اور ابو جعفر بن‌ زبیر سے نقل کیا ہے۔

← ترتیبِ آیات کے توقیفی ہونے کے دلائل


قرآن کریم کی آیات کی ترتیب کا توقیفی ہونا جن دلائل سے ثابت ہوتا ہے وہ درج ذیل ہیں:

←← اجماع


شیعہ و سنی علماء اجماعی طور پر قائل ہیں کہ قرآنی آیات کی ترتیب جوکہ ہمارے ہاتھ میں موجود قرآن میں ہمیں دکھائی دیتی ہے توقیفی ہے۔ اس اجماع کا استناد اور اعتماد وارد ہونے والی ان کثیر نصوص پر ہے جو ترتیبِ آیات قرآنی کے توقیفی ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔

←← عقل


قرآن کریم رسول اللہ ﷺ کا تاقیامت رہنے والا معجزہ ہے۔ قرآن کریم کے معجزہ ہونے کے مستمر ہونے سے عقل یہ حکم لگاتی ہے کہ یہ معجزہ جن امور پر مشتمل ہے وہ بھی قائم دائم رہیں ورنہ یہ معجزہ نہیں رہے گا۔ لہٰذا اگر سورتوں میں آیات کی ترتیب بدل دی جائے اور اس میں تصرف کیا جائے اور اپنی رائے اور قیاس پر آیات کو مقدم و مؤخر کر دیا جائے تو قرآن کریم کا اعجاز باقی نہیں رہے گا۔

←← سنت


کتبِ خاصہ اور عامہ میں کثیر احادیث معتبر اور روایات صحیح وارد ہوئی ہیں جو کہ واضح طور پر ان آیات کی ترتیب کے توقیفی ہونے پر دلالت کرتی ہیں جس سے کسی اس کے توقیفی ہونے پر کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔

آیات کی ترتیب کا اپنی صوابدید پر ہونا اور علامہ طباطبائی کی نظر

[ترمیم]

پہلا قول آیات قرآنی کا توقیفی ہونا ہے جس کے مقابلے میں دوسرا طبقہِ علماء قائل ہے کہ ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قرآن کریم کی سورتوں میں آیات کی ترتیب کو مرتب کیا گیا ہو اور آپ ﷺ نے سورتوں میں آیات کو ترتیب دیا ہو۔ لیکن آنحضرت ﷺ کی رحلت کے بعد اصحاب نے اپںے ذوق و سلیقہ اور ذاتی اجتہاد کی بناء پر بعض آیات کی ترتیب اور نظم کو متاثر کیا۔ علامہ طباطبائی کی نگاہ میں اس نظریہ پر بہترین شاہد وہ روایات ہیں جو بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابو بکر کے دور میں قرآن کریم پہلی مرتبہ جمع کیا گیا۔ عثمان بن ابی عاص کی روایت کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ روایت رسول اللہ ﷺ کے توسط سے فقط چند آیات کی ترتیب کے توقیفی ہونے پر دلالت کرتی ہے نہ کہ تمام قرآنی آیات کی ترتیب کے توقیفی ہونے کو بیان کر رہی ہے۔ اگر ہم اس بات کے قائل ہو جائیں کہ سورتوں کی تمام آیات رسول اللہ ﷺ کے دستور سے مرتب کی گئی ہیں تو اس سے ہر گز یہ مطلب نہیں نکلتا ہے کہ حضرت ابو بکر کے دور میں جو قرآن جمع کیا گیا تھا اس میں آیات کی ترتیب وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں موجود تھی۔ صرف حسن ظن کی بناء پر ہم صحابہ کرام کے مرتب کردہ قرآن کو زمانِ رسول ﷺ کی ترتیب کے عین مطابق قرار نہیں دے سکتے۔ بلا شک و شبہ صحابہ کرام نے بعض مواقعوں پر رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی ترتیب کی مخالفت عمدًا و قصدًا نہیں کی بلکہ انہیں تمام آیات کے مواضع اور مقامات کا علم نہیں تھا۔ اس بناء پر جہاں آیات کی جگہ ان کے علم سے باہر تھی وہاں آیات کو اپنے اجتہاد کی بناء پر انہوں نے رکھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صحابہ کرام نے جب قرآن کو جمع کیا تو انہیں جس جگہ کا علم نہیں تھا کہ یہ آیت کہاں پر تھی وہاں وہ آیات کی ترتیب کی حفاظت نہیں کر پائے۔ شیعہ و سنی کتب میں وارد ہونے والی کثیر روایات ہیں جو اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں، جیسااکہ شیعہ و سنی کتب میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور مومنین ایک سورت کا اختتام بسم اللہ کے نزول سے سمجھتے کیونکہ جب بسم اللہ نازل ہوتے تو مسلمین سمجھ جاتے تھے کہ کہ پچھلی سورہ مکمل ہو گئی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم مکی اور مدنی سورتوں میں تقسیم ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ مکی آیات کو مکی سورتوں میں اور مدنی آیات کریمہ کو مدنی سورتوں میں رکھتے تھے لیکن ہم موجودہ مصحف میں دیکھتے ہیں کہ مکی آیات مدنی سورتوں میں اور مدنی آیات مکی سورتوں میں موجود ہیں۔ پس یہ اجماع جو ترتیبِ آیات کے توقیفی ہونے اور صحابہ کرام کے جمع کردہ مصحف میں ترتیبِ آیات کا عین رسول اللہ ﷺ کی ترتیب کے مطابق ہونے پر قائم ہے اجماعِ منقول ہے جس پر ہم اعتماد نہیں کر سکتے۔اسی طرح بعض بزرگ علماء جیسے علامہ مجلسی معتقد ہیں کہ آیات کریمہ کی ترتیب توقیفی نہیں بلکہ صحابہ کرام نے اپنی رائے اور اجتہاد کی بنیاد پر آیات کو ترتیب دیا تھا۔

اہم نکتہ

[ترمیم]

قرآن کریم کی سورتوں میں آیات کریمہ کی جمع آوری اور اس کو ایک نظم دیتے ہوئے مرتب کرنے کا عمل غالباً ترتیبِ نزول کے مطابق انجام دیا گیا تھا۔ البتہ ایسی آیات بھی موجود ہیں رسول اللہ ﷺ نے خود حکم دیا کہ اس کو فلاں سورہ کی آیات کے درمیان میں فلاں جگہ پر رکھا جائے۔ اگرچے وہ سورہ مکمل ہو چکی تھی لیکن اس کے باوجود اس کے درمیان میں بعض آیات کو آپﷺ نے رکھا۔ بالفاظِ دیگر اس مورد کی آیات ترتیبِ نزول کے مطابق مرتب نہیں کی گئیں بلکہ یہ آیات استثنائی آیات کہلائیں گی جنہیں ترتیبِ نزول کے ضابطے سے ہٹ کر آنحضرت ﷺ کے خصوصی فرمان کی بناء پر سورہ کی تکمیل کے باوجود درمیان میں خاص جگہ پر رکھا گیا۔
[۱۰] حجتی، محمد باقر، پژوہشی درتاریخ قرآن کریم، ص۶۶۔
[۱۱] رامیار، محمود، تاریخ قرآن، ص۵۷۴۔
[۱۲] جمعی از محققان، علوم القرآن عند المفسرین، ج۱، ص (۴۳۳-۴۶۰)۔


مربوط عناوین

[ترمیم]

ترتیب سور؛ ترتیب قرآن۔

مصادر کی فہرست

[ترمیم]

(۱) الاتقان فی علوم القرآن.
(۲) اصطلاح‌نامہ علوم قرآنی.
(۳)البرہان فی علوم القرآن.
(۴)تاریخ قرآن، معرفت.
(۵)التحقیق فی کلمات القرآن الکریم.
(۶)تفسیر التحریر و التنویر.
(۷)التفسیرالکبیر.
(۸)تفسیر المنار.
(۹)التمہید فی علوم القرآن.
(۱۰)جمہرة اللغۃ.
(۱۱)الصحاح.
(۱۲)الدرّالمنثور فی التفسیر بالمأثور.
(۱۳)روح‌المعانی فی تفسیر القرآن العظیم.
(۱۴)قرآن در اسلام.
(۱۵)کشف‌ الاسرار و عدة‌الابرار.
(۱۶)مجمع‌ البیان فی تفسیر القرآن.
(۱۷)المعجم الاحصائی.
(۱۸)معجم مقاییس‌ اللغۃ.
(۱۹)مفردات الفاظ القرآن.
(۲۰)المیزان فی تفسیر القرآن.
(۲۱)نکت الانتصار.
(۲۲)نور علم.

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن عاشور، محمد طاہر، التحریر و التنویر، ج‌۱، ص‌۷۹۔    
۲. نحل/سوره۱۶، آیت ۹۰۔    
۳. سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، الاتقان فی علوم القرآن، ج‌۱، ص‌۱۶۸۔    
۴. ابن عاشور، محمد طاہر، التحریر و التنویر، ج‌۱، ص‌۷۹۔    
۵. سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، الاتقان فی علوم القرآن، ج‌۱، ص۱۶۷۔    
۶. طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج‌۱۲، ص‌۱۲۷-۱۲۹۔    
۷. زرکشی، محمد بن بہادر، البرہان فی علوم القرآن، ج۱، ص۲۵۶۔    
۸. معرفت، محمد ہادی، التمہید فی علوم القرآن، ج۱، ص۲۷۵۔    
۹. سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، الاتقان فی علوم القرآن، ج۱، ص۲۱۱۔    
۱۰. حجتی، محمد باقر، پژوہشی درتاریخ قرآن کریم، ص۶۶۔
۱۱. رامیار، محمود، تاریخ قرآن، ص۵۷۴۔
۱۲. جمعی از محققان، علوم القرآن عند المفسرین، ج۱، ص (۴۳۳-۴۶۰)۔
۱۳. عاملی، جعفر مرتضی، حقایق ہامۃ حول القرآن الکریم، ص۱۴۵۔    
۱۴. زرقانی، محمد عبد العظیم، مناہل العرفان فی علوم القرآن، ج۱، ص ۳۴۶-۲۱۳۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی، یہ تحریر مقالہِ ترتیب آیات سے مأخوذ ہے۔    
دائرة‌المعارف قرآن کریم، مقالہ ترتیبِ آیات۔    






جعبه ابزار