توافق

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



توافق کا کلمہ علم فقہ میں استعمال ہوتا ہے جس کا معنی باہمی طور پر موافقت اور راضی ہونا ہے۔ علم فقہ میں یہ کلمہ بالخصوص دو ابواب عقود اور باب ارث میں استعمال ہوتا ہے۔


توافق سے مراد

[ترمیم]

معاملات اور عقود میں توافق سے مراد کسی چیز کے بارے میں دو یا دو سے زائد افراد کا ایک رأی رکھنا ہے۔ جبکہ باب ارث میں توافق سے مراد علم ریاضی کی اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح ہے جس کا معنی دو یا دو سے زیادہ اعداد کا یکساں اور ایک جیسا ہونا ہے۔

توافق کی انواع

[ترمیم]

معاملات کی دنیا میں فریقین کے درمیان کسی امر پر توافق کی تین صورتیں بنتی ہیں:
۱. کسی امر پر کبھی توافق ابتدائی ہوتا ہے۔
۲. کبھی عقد کی شکل میں انشاء کیا جاتا ہے۔ انشاء یعنی دو افراد میں عقد ایجاد کرنا۔
۳. کبھی کسی عقد کے ضمن میں شرط کی صورت میں ہوتا ہے۔

← توافق ابتدائی


توافق ابتدائی کے عنوان سے دو معنی بیان کیے جاتے ہیں:
۱. توافق ابتدائی سے مراد کسی کام پر اپنی رضا مندی کا اظہار کرنا یا کسی کام کے کرنے کا وعدہ کرنا ہے؛ بغیر اس کے کہ اس نے کسی قسم کا تعہد کیا ہو جس کا اسے پابند ہونا لازم ہو یا اس کام کی مسئولیت اپنے کندھے پر لی ہو۔
۲. توافقِ ابتدائی سے مراد فریقین کا کسی کام کے کرنے پر تعہد کرنا اور اس کی پابندی کا وعدہ کرنا ہے۔
توافق ابتدائی پہلے معنی میں انسان کو کسی چیز کا پابند نہیں بناتا۔ لیکن توافق ابتدائی کے دوسرے معنی کے مطابق انسان پابند ہو جاتا ہے کہ اس نے جو تعہد اور وعدہ کیا ہے اس کو وفا کرے اور اس کا پورا کرنا اس پر لازم ہے۔ نیز اس دوسرے معنی کے مطابق اگر تعہد کی رعایت نہ کی اور تعہد کو توڑ دیا تو اس صورت میں اختلاف ہے کہ آیا واجب ہے کہ حاکم اس کو مجبور کرے کہ وہ ایفاءِ عہد کرے یا ایسا کرنا ضروری نہیں ہے؟

← توافق جو لازم الوفاء ہے


ایسا توافق کہ جو عقد کی صورت میں انشاء کیا گیا ہو اس کا وفا کرنا لازمی ہے۔ لیکن اگر عقد، عقود جائزہ میں سے ہو تو اس کا فسخ کرنا جائز ہے۔ فسخ کرنے کی صورت میں عقد لازم الوفاء نہیں رہے گا ۔ یہی حکم ان شرائط کا بھی ہے جو کسی بھی عقد کے ضمن میں رکھی جاتی ہیں۔

← اعداد میں توافق سے مراد


اعداد کے توافق سے مراد یہ ہے کہ دو اعداد ایک دوسرے پر قابل تقسیم نہ ہو لیکن کسی تیسرے عدد پر دونوں تقسیم ہو جائیں، جیسے آٹھ اور بیس۔ آٹھ اور بیس ایک دوسرے پر قابل تقسیم نہیں لیکن دو پر دونوں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ پس دو کا عدد، آٹھ اور بیس کے درمیان عدد توافقی ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج ۲۳، ص ۲۵۰۔    


مآخذ

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، ج۲، ص۶۵۱۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : عقود | فقہ | معاملات




جعبه ابزار