قواعد جمع عرفیپی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریںقواعدِ جمع عرفی سے مراد وہ قواعد ہیں جو دو دلیلوں کے مدلول کے درمیان ظاہری تعارض کو دور کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اصطلاح کی وضاحت[ترمیم]جمع عرفی کے قواعد وہ قواعد ہیں جو ظاہری تعارض کو رفع کرتے ہیں اور دو دلیلوں کے مدلول کے درمیان بدوی و ظاہری تعارض کے دور کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ان میں سے چند قواعد ذکر کیے جاتے ہیں: قواعد جمع عرفی[ترمیم]← ظاہر کو نص پر حمل کرنااگر دو دلیلوں کے درمیان ٹکراؤ اور تعارض پیش آ جائے جن میں سے ایک ظاہر اور دوسری نص ہو تو ظاہر کو نص پر حمل کر کے اس کے مطابق ڈھالیں گے، مثلا ایک روایت میں وارد ہوتا ہے: اب دوسری روایت میں وارد ہوتا ہے: ← مطلق کو مقید پر حمل کرنااگر ایک دلیل مطلق اور دوسری دلیل جو اس سے ٹکرا رہی ہے مقید ہو تو مطلق کو مقید پر حمل کریں گے، مثلا ایک روایت میں آتا ہے: ← دلیل حاکم کو دلیل محکوم اور دلیل وارد کو دلیل مورود پر مقدم کرناجمعِ عرفی کے قواعد کے ذیل میں حکومت اور ورود سے بحث کی جاتی ہے۔ حکومت سے مراد دلیل حاکم کا دلیل محکوم پر مقدم کرنا اور ورود سے مراد دلیل وارد کو دلیل مورود پر مقدم کرنا ہے، مثلا ایک روایت میں وارد ہوتا ہے: جب بھی آپ کو رکعتوں کی تعداد میں شک ہو تو زیادہ اور اکثر پر بناء رکھیں۔ اس کے مقابلے میں دوسری روایت آتی ہے جس میں بیان کیا جاتا ہے: ماموم کو جب بھی رکعت کی تعداد میں شک ہو اور امام جماعت کو شک نہیں ہوا تو ماموم اپنے شک کی پروا نہ کرے۔ ان دونوں دلیلیوں پر دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ دلیلِ دوم دلیلِ اول کے موضوع کے دائرہ کو محدود کر رہی ہے۔ پس ہم دلیل دوم کو حاکم اور دلیل اول کو محکوم قرار دیتے ہوئے معنی لیں گے۔ اس کو حکومت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ [۱]
الرسائل الاصولیۃ، بہبہانی، محمدباقر بن محمد اکمل، ص۴۴۵۔
[۲]
کفایۃ الاصول، فاضل لنکرانی، محمد، ج۶، ص۱۵۴۔
[۳]
کفایۃ الاصول، فاضل لنکرانی، محمد، ج۶، ص۱۳۵۔
[۴]
شرح اصول فقہ، محمدی، علی، ج۳، ص (۴۶-۴۵۹۔
[۷]
علم اصول الفقہ فی ثوبہ الجدید، مغنیہ، محمد جواد، ص ۴۴۶-۴۴۵۔
حوالہ جات[ترمیم]
مأخذ[ترمیم]فرہنگنامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۶۴۸، مقالہِ قواعد جمع عرفی سے یہ تحریر لی گئی ہے۔ |