قواعد جمع عرفی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



قواعدِ جمع عرفی سے مراد وہ قواعد ہیں جو دو دلیلوں کے مدلول کے درمیان ظاہری تعارض کو دور کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔


اصطلاح کی وضاحت

[ترمیم]

جمع عرفی کے قواعد وہ قواعد ہیں جو ظاہری تعارض کو رفع کرتے ہیں اور دو دلیلوں کے مدلول کے درمیان بدوی و ظاہری تعارض کے دور کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ان میں سے چند قواعد ذکر کیے جاتے ہیں:

قواعد جمع عرفی

[ترمیم]


← ظاہر کو نص پر حمل کرنا


اگر دو دلیلوں کے درمیان ٹکراؤ اور تعارض پیش آ جائے جن میں سے ایک ظاہر اور دوسری نص ہو تو ظاہر کو نص پر حمل کر کے اس کے مطابق ڈھالیں گے، مثلا ایک روایت میں وارد ہوتا ہے: یجوز للصائم ان یرتمس فی الماء حال صومه؛ روزہ دار کے لیے حالتِ روزہ میں پانی میں سر یا بدن ڈبونا جائز ہے، یہ روایت واضح طور پر روزہ دار کے پانی میں سر یا گردن ڈبونے کو جائز قرار دے رہی ہے۔ پس اس روایت کا مدلول نص اور صریح ہے۔

اب دوسری روایت میں وارد ہوتا ہے: لا ترتمس فی الماء و انت صائم؛ پانی میں سر یا بدن مت ڈبو جب تم حالتِ روزہ سے ہو۔ اس روایت میں لا یرتمس فعل نہی ہے اور صیغہ نہی کا ظہور حرمت پر ہے۔ پس اس روایت کا مدلول ظاہر ہے۔ آئیے اب ان دونوں حدیثوں پر دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ پہلی حدیث حالتِ روزہ میں بدن پانی میں ڈبونے کے اباحہ پر صراحت کے ساتھ دلالت کر رہی ہے، جبکہ دوسری حدیث حالتِ روزہ میں بدن پانی میں ڈبونے کی حرمت پر ظاہر ہے۔ یہاں بر فقیہ مقامِ جمع عرفی میں ہے اور وہ ظاہر کو نص یا صریح پر حمل کرے گا اور اباحہ کا حکم دے گا اور ظاہر کو نص کے مطابق کرتے ہوئے ظاہر کو کراہت پر حمل کرے گا۔

← مطلق کو مقید پر حمل کرنا


اگر ایک دلیل مطلق اور دوسری دلیل جو اس سے ٹکرا رہی ہے مقید ہو تو مطلق کو مقید پر حمل کریں گے، مثلا ایک روایت میں آتا ہے:الربا حرام؛ ربا (سود) حرام ہے۔ دوسری روایت میں وارد ہوتا ہے: لیس بین الرجل وولدہ ربا؛ باپ اور بیٹا کے درمیان ربا نہیں ہے۔ پہلی روایت مطلق ہے جبکہ دوسری روایت مقید ہے جو صرف باپ اور بیٹا کو شامل ہے۔ یہاں مقید کو مقدم کریں گے اور مطلق کو مقید پر حمل کرتے ہوئے معنی لیں گے۔ اس کے نتیجے میں ہم کہیں گے کہ سود باپ اور بیٹا کے علاوہ تمام مورد میں حرام ہے۔

← دلیل حاکم کو دلیل محکوم اور دلیل وارد کو دلیل مورود پر مقدم کرنا


جمعِ عرفی کے قواعد کے ذیل میں حکومت اور ورود سے بحث کی جاتی ہے۔ حکومت سے مراد دلیل حاکم کا دلیل محکوم پر مقدم کرنا اور ورود سے مراد دلیل وارد کو دلیل مورود پر مقدم کرنا ہے، مثلا ایک روایت میں وارد ہوتا ہے: جب بھی آپ کو رکعتوں کی تعداد میں شک ہو تو زیادہ اور اکثر پر بناء رکھیں۔ اس کے مقابلے میں دوسری روایت آتی ہے جس میں بیان کیا جاتا ہے: ماموم کو جب بھی رکعت کی تعداد میں شک ہو اور امام جماعت کو شک نہیں ہوا تو ماموم اپنے شک کی پروا نہ کرے۔ ان دونوں دلیلیوں پر دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ دلیلِ دوم دلیلِ اول کے موضوع کے دائرہ کو محدود کر رہی ہے۔ پس ہم دلیل دوم کو حاکم اور دلیل اول کو محکوم قرار دیتے ہوئے معنی لیں گے۔ اس کو حکومت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
[۱] الرسائل الاصولیۃ، بہبہانی، محمدباقر بن محمد اکمل، ص۴۴۵۔
[۲] کفایۃ الاصول، فاضل لنکرانی، محمد، ج۶، ص۱۵۴۔
[۳] کفایۃ الاصول، فاضل لنکرانی، محمد، ج۶، ص۱۳۵۔
[۴] شرح اصول فقہ، محمدی، علی، ج۳، ص (۴۶-۴۵۹۔
[۷] علم اصول الفقہ فی ثوبہ الجدید، مغنیہ، محمد جواد، ص ۴۴۶-۴۴۵۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. الرسائل الاصولیۃ، بہبہانی، محمدباقر بن محمد اکمل، ص۴۴۵۔
۲. کفایۃ الاصول، فاضل لنکرانی، محمد، ج۶، ص۱۵۴۔
۳. کفایۃ الاصول، فاضل لنکرانی، محمد، ج۶، ص۱۳۵۔
۴. شرح اصول فقہ، محمدی، علی، ج۳، ص (۴۶-۴۵۹۔
۵. المحصول فی علم الاصول، سبحانی تبریزی، جعفر، ج۴، ص۴۴۰۔    
۶. المحصول فی علم الاصول، سبحانی تبریزی، جعفر، ج۴، ص۴۴۳۔    
۷. علم اصول الفقہ فی ثوبہ الجدید، مغنیہ، محمد جواد، ص ۴۴۶-۴۴۵۔
۸. انوار الاصول، مکارم شیرازی، ناصر، ج۳، ص ۵۰۵-۵۰۲۔    
۹. بحوث فی علم الاصول، صدر، محمد باقر، ج۱، ص۲۹۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۶۴۸، مقالہِ قواعد جمع عرفی سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    






جعبه ابزار