جہان کا حادث یا قدیم ہونا

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



حدوث اور قِدَم فلسفہ اور کلامِ اسلامی کی اصطلاح ہے اور اس مسئلہ سے تفصیلی گفتگو ان علوم میں کی گئی ہے۔


حُدُوث اور قِدَم کا معنی

[ترمیم]

حُدُوث عربی زبان کا لفظ ہے جوکہ مصدر ہے۔ اس شیء کو حدوث کہا جاتا ہے جو عدم سے وجود میں آئی ہو۔ یعنی پہلے نہیں تھی پھر وجود میں آئی۔ پس شیء اگر پہلے موجود نہیں تھی پھر وجود میں آئی تو اس کو حدوث سے تعبیر کرتے ہین۔ اس کے مقابلے قِدَم آتا ہے۔ حدوث کے معنی سے قِدَم اور قدیم کا معنی بھی روشن ہو جاتا ہے۔ ابن فارس نے ذکر کیا ہے کہ قِدَم حدوث کے مقابلے میں ہے، شیءِ قدیم یعنی وہ شیء جس کا زمانہ گزر چکا ہے۔ اکثر و بیشتر یہ گزرے ہوئے زمانے کے معنی میں آتا ہے۔ بوسیدہ اور پرانے پن کو بھی قدیم سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس کے مقابلے میں جدید و نو ساختہ کو حدوث کہا جاتا ہے۔

اصطلاح میں ہر وہ موجود جس کا وجود دیگر کی نسبت متاخر ہو یا جو معدوم ہونے کے بعد وجود میں آئے اس کو حادث کہا جاتا ہے؛ اس کے مقابلے میں قدیم آتا ہے جس کا وجود دیگر کی نسبت متأخر نہ ہو اور نہ ہی اس کے وجود سے پہلے عدم ہو۔ پس قدیم وہ کہلائے گا جس کا وجود پہلے عدم کے ساتھ نہ ہو۔ حدوث و قِدَم وجود کے عوارضِ ذاتی ہیں جن سے فلسفہ میں بحث کی جاتی ہے۔

عالم کا حادث یا قدیم و ازلی ہونا

[ترمیم]

قدیم یونانی فلاسفہ عالَم کے حادث یا قدیم ہونے کے موضوع کو تفصیلی طور پر زیر بحث لائے ہیں۔ البتہ ان کی قدیم سے مراد اللہ تعالی کا شریک قرار دینا نہیں ہے بلکہ وہ اس بات کے قائل تھے کہ عالَم اپنے وجود، خلقت میں اور نظم و انصرام میں علت کا محتاج ہے ۔ انہوں عالَم کو قدیمِ ذاتی قرار نہیں دیا بلکہ عالَم کے قدیمِ زمانی ہونے کے قائل ہوئے ہیں جیساکہ ان کے کلام سے آشکار ہوتا ہے۔ زیرِ نظر سطور میں چند اغریقی فلاسفہ کی آراء ملاحظہ کرتے ہیں:

← افلاطون کی نظر میں


افلاطون نے تیمائوس
[۶] افلاطون، دوره آثار افلاطون، ج۱، ص۲۸ـ۲۹، ترجمہ محمد حسن لطفی و رضا کاویانی، تہران ۱۳۸۰ش۔
میں اس سوال کو ابھارا ہے کہ کیا عالَم ہمیشہ سے ہے یا حادث ہے اور ایک ابتداء رکھتا ہے؟ افلاطون اس سوال کا جواب اس طرح سے دیا ہے کہ عالَم حادث ہے اور صانع نے مُثُل یعنی حقیقی سرمدی نمونوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عالَم کو خلق کیا ہے اور اس میں نظم ایجاد کیا ہے۔ اس سے پہلے عالَم صرف ایک مادہ یا ایک بے نظم مجموعہ تھا۔ اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ افلاطون کی نظر میں عالَم حادث ہے۔ البتہ اس کی عالَم سے مراد اس کا وجود نہیں ہے بلکہ اس کے نزدیک عالَم سے مراد جہانِ حسّی ہے جسے حسّ کیا جا سکتا ہے۔ پس عالَم کے وجود اور عالَم کے حسّی ہونے میں فرق ہے کیونکہ جہانِ حسّی میں نظم اور ہمآہنگی برپا کی جاتی ہے۔ عالَم میں نظم، تناسب، وحدت اور اسے ایک خاص شکل و صورت عنایت کرنا حادث کہلاتا ہے۔ جبکہ عالَم کا مادہ اور اسی طرح مُثُل جوکہ اس کو بنانے کا نمونہ قرار پاتا ہے جہانِ حسی سے پہلے موجود تھا۔

← ارسطو کی نظر میں


ارسطو
[۷] ارسطو، ما بعد الطبیعۃ، ۱۰۷۱ ب ۵ـ۱۲؛ ارسطو، ۱۰۷۲ الف ۲۰ـ۲۵ ۔
[۸] ارسطو، فیزیک، ۲۱۸ب ۲۱ـ۲۲۰ الف ۲۶۔
نے بیان کیا ہے کہ حرکت اور زمان کوئی آغاز نہیں رکھتے؛ کیونکہ آغاز کے ہونے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ایک شیء کا اس وقت وجود میں آنا جب زمان بھی نہیں تھا! یعنی زمانے کی پیدائش سے پہلے وجود میں آنا اور یہ بات اس لیے قابل قبول نہیں ہے چونکہ زمان حرکت کی مقدار کا نام ہے، لہذا ضروری ہے کہ اس حرکت سے پہلے ایک حرکت پائی جائے جو حتمًا حرکت کے ساتھ پیوست ہو اور متحرک ہو۔ یہ دائمی حرکت فقط دائرہ کی شکل میں ہو سکتی ہے کیونکہ سیدھی مستقیم حرکت ختم ہو جاتی ہے جبکہ دائرہ میں حرکت ختم نہیں ہوتی۔ اس بناء پر آسمان یعنی فلک اور اس کی حرکتِ دوری اور زمان ازلی و ابدی ہیں اور حادث نہیں ہے۔

← فلوطین کا نظریہ


فلوطین جسے افلوطین بھی کہا جاتا ہے
[۹] فلوطین، دوره آثار فلوطین، ترجمہ محمد حسن لطفی، ج ۲، ص ۶۶۸، تہران ۱۳۶۶ش۔
[۱۰] فلوطین، دوره آثار فلوطین، ترجمہ محمد حسن لطفی، ج ۱، ص ۴۱۹، تہران ۱۳۶۶ش۔
نے اپنا نظریہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ عالَم کے آغاز کا کوئی زمانہ یا وقت تھا جس کی ابتداء احد (اللہ) کے فیض سے ہوئی۔ کیونکہ زمانہِ آغاز میں ایک حالت کے عروض کا سبب جو فعل کے صادر ہونے کا باعث بنے ایک ایسا امر ہے جس کا لازمہ یہ نکلتا ہے کہ ذاتِ واحد میں تغیر و تبدل ایجاد ہو، جبکہ دوسری طرف سے اس کا لازمہ یہ نکلتا ہے کہ علت اور مبداءِ فیض اپنے معلول و فیض سے جدا ہو اور یہ دونوں امر محال اور ناممکن ہیں۔ پس خدائے احد ازلی و ابدی وجود ہے جس کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ خلقت نے کسی زمانے میں صورت اختیار کی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عالَم کے وجود کی کوئی علت نہیں ہے اور وہ ہمیشہ سے ہے !! بلکہ عالَم اگرچے اغازِ زمانی نہیں رکھتا لیکن اس کا وجود ایسی علت کا محتاج ہے جس نے اس کو خلق کیا اور اسی نے اس عالَم کو ازلی وجود کے طور پر بنایا ہے۔

← برقلس كا نظریہ


برقلس یا پروکلس یونان کے ان فلاسفہ میں سے ہے جنہوں نے اس مسئلہ پر مستقل رسالہ تحریر کیا ہے اور عالَم کے حادث ہونے کے نظریہ کو باطل ثابت کیا ہے۔ حنین بن اسحاق نے اس رسالہ کا ترجمہ عربی زبان میں کیا اور اس کا نام حُجَجُ برقلس فِی قِدَمِ الۡعَالَمِ رکھا۔ برقلس نے اپنے اس رسالہ میں عالَم کے قدیم ہونے پر نو (۹) براہین و عقلی دلائل ذکر کیے ہیں۔ اس کے نظریے کے مطابق اس جہان کا حادث ہونا کبھی عدم سے وجود میں نہیں آیا بلکہ جہان اس طرح سے باقی ہے جیساکہ ازل سے موجود تھا اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ اللہ کے ذریعے اس جہان کی خلقت کا آغاز کسی وقت کیا گیا ہو، اس طرح سے ایک طویل مدت اللہ نے خلقت کو معطل رکھا اور کسی قسم کی خلقت نہیں کی اور پھر خلقت کو خلق کیا !! اگر ایسا ہو تو یہ بات دلیل کی محتاج ہے۔ برقلس نے اللہ کے دائمی، ازلی، اور ابدی جود و سخا سے استدلال قائم کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالَم بھی ازلی و قدیم ہے۔ البتہ اللہ کے ابدی و ازلی ہونے اور عالَم کے ازلی و ابدی ہونے میں فرق یہ ہے کہ اللہ ہمیشہ سے موجود ہے جبکہ عالَم کو اللہ نے وجود دیا اور عالَم ہمیشہ محتاجِ علت اور تکوین ہے۔ یعنی اللہ وہ ازلی ابدی ہے جو کسی کا محتاج نہیں اور ہمیشہ سے ہے جبکہ عالَم ایسا ازلی ابدی ہے جو ہمیشہ اللہ کا محتاج ہے اور ہمیشہ خلق ہونے میں محتاج ہے۔
[۱۱] برقلس، حجج برقلس فی قدم‌ العالم، ج۱، ص ۳۴ـ۴۲، ترجمہ اسحاق‌ بن‌ حنین، در الافلاطونیۃ المحدثۃ عند العرب، چاپ عبد الرحمن بدوی، قاہره: مکتبۃ النہضۃ المصریۃ، ۱۹۵۵۔
[۱۲] امیل بریہ، تاریخ فلسفۃ، ج ۲، ص ۲۸۳، ج ۲، ترجمہ علی‌ مراد داودی، تہران ۱۳۷۴ش۔


اسلامی فلاسفہ اور عالَم کا حادث یا قدیم ہونا

[ترمیم]

حدوث کا مطلب وجود کا عدم یا نہ ہونے سے متأخر ہونا ہے جبکہ قِدَم کے معنی میں متأخر ہونا معتبر نہیں ہے۔ حُدُوث یعنی عدم کے بعد وجود میں آنا۔ فلسفہ اسلامی میں تَقَدُّم و تَأَخُّر کی اقسام کے ذیل میں حدوث اور قِدَم کی اقسام سے بحث کی جاتی ہے۔ تَقَدُّم اور تَأَخُّر کی بعض اقسام اعتباری ہیں جس کے نتیجے میں حدوث اور قِدَم کی بعض اقسام بھی اعتباری کہلاتی ہیں۔

← فارابی كا نظریہ


حدوث اور قِدَم کے موضوع پر یونانی فلاسفہ کی آراء جاننے کے بعد ہم فلاسفہِ اسلامی کی طرف منتقل ہوتے ہیں جن میں سرفہرست فارابی
[۱۳] فارابی، محمد بن محمد، کتاب الجمع بین رأیی الحکیمین، ج۱، ص ۱۰۰ـ۱۰۴، چاپ البیرنصری نادر، بیروت ۱۹۸۵۔
ہیں۔ فارابی نے اپنے رسالہ الجمع بین رأیی الحکیمین میں ارسطو اور افلاطون کے نظریات حدوث اور قِدَم کے بارے میں بیان کیے اور ان کا اس مسئلہ میں باہمی ٹکراؤ ذکر کرنے کے بعد اپنی رائے دی ہے۔ فارابی اس پر شدید تنقید کی ہے کہ ارسطو کی بات کو سمجھے بغیر ارسطو کی طرف غلط نظریات کو منسوب کیا جاتا ہے، جیساکہ عالَم کے قدیم ہونے کے مسئلہ میں ارسطو کی طرف غلط اور باطل نظریات منسوب کرتے ہوئے کہا گیا کہ ارسطو قائل ہے کہ عالَم کے لیے کوئی علتِ فاعلی نہیں ہے!! ارسطو کی طرف یہ نسبت نادرست اور غلط ہے۔ کیونکہ زمانہ فلک کی حرکت کی مقدار کا نام ہے اور وہ اسی حرکت سے جنم لیتا ہے۔ یہ واضح ہے جو شیء جس سے وجود میں آئے وہ اس کو شامل نہیں ہوتی۔ پس زمانہ فلک کے بعد ہے اور فلک سے زمانہ وجود میں آیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فلک پہلے اور اس کے بعد زمانے کا وجود ہو گا۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پہلے زمانہ تھا پھر اس میں فلک آیا!! البتہ یہ نظریہ عالَم کے خلق اور ابداع ہونے کے نظریہ سے ٹکراؤ نہیں رکھتا کیونکہ عالَم، فلک و زمانہ وجود اور بقاء ہر دو میں ایک علت کے محتاج ہیں۔ یعنی اس نظریہ میں اور خلقت کے ایک لحظہ میں وجود میں آنے اور زمان و فلک کے بغیر ہونے میں کوئی منافات و ٹکراؤ نہیں ہے۔ عالَم کو قدیمِ زمانی قرار دینے سے نہ اس کے مخلوق ہونے کی نفی ہوتی ہے اور نہ اس کے امکانِ ذاتی کی نفی ہوتی ہے۔ پس یہ گمانِ باطل ہے کہ ایجاد اور خلقت ضرورتِ زمانی ہے۔

← ابن سینا کا نظریہ


ابن‌ سینا نے اس حدوث اور قِدَم زمانی و قِدَم ذاتی کے مسئلہ کو تفصیلی طور پر بیان کیا ہے۔ حدوثِ زمانی کا مطلب زمانہِ عدم کا وجود پر مقدم ہونا ہے۔ یعنی ایک شیء کا وجود زمانے کے اعتبار سے عدم کے بعد ہے۔ چنانچہ شیء حادث کا مطلب یہ بنتا ہے کہ جب عدم کا زمانہ ختم ہو گیا تو اس شیء کے وجود کا زمانہ آن پہنچا اور وہ شیء وجود میں آئی۔ واضح ہے کہ وجود اور عدم دونوں جمع نہیں ہو سکتے اس لیے زمانہِ عدم اور زمانہِ وجود قابلِ جمع نہیں ہیں۔ پس حدوث میں زمانہِ عدم کے ختم ہونے کے بعد زمانہِ وجود شروع ہو گا۔ یہ عدم چونکہ وجود کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا اس لیے اس کو عدمِ مقابل یا غیر مجامع کا نام دیا جاتا ہے۔ ابن‌ سینا کی نظر میں عالَم یعنی اللہ کے سوا تمام کے تمام ممکنات کا حدوثِ زمانی ہونا بغیر دلیل کے اور نادرست ہے۔

←← عالَم کے قدیم زمانی ہونے پر ابن سینا کا استدلال


ابن سینا کا استدلال یہ ہے کہ اگر عالَم کو قدیمِ زمانی تسلیم نہ کریں تو اس سے اللہ تعالی میں تبدیلی اور تغیر کا ہونا لازمی آتا ہے جوکہ محال ہے کیونکہ اللہ تعالی تمام جہات سے واجب ہے اور کسی حالت کا منتظر نہیں ہے۔ ابن سینا کے استدلال کا لبِ لباب یہ ہے کہ اگر ہم عالَم کو حدوثِ زمانی قرار دیں تو ضروری ہے کہ ہر حرکت دوسری حرکت سے متأخر ہو، یعنی اگر حرکت ایک زمانے میں وجود میں آئی ہے تو ضروری ہے کہ علتِ فاعلی یا علتِ قابلی میں تغیر کا اثر ظاہر ہو اور یہ تغییر حرکت کے وجود کا سبب بنے گی۔ چونکہ علتِ فاعلی کا متحقق ہونا علتِ فاعلی (اللہ تعالی) پر موقوف ہے اس لیے ضروری ہے کہ علتِ فاعلی (اللہ سبحانہ) میں تبدیلی اور تغییر لازم آئے گی جبکہ اللہ تعالی تمام جہات سے واجب ہے اور وہ کسی حالت کا منتظر نہیں ہے۔ اس لیے ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالی میں کسی قسم کا تغیر و تبدل واقع ہو۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ حرکت کا حادث ہونے ذاتِ باری تعالی میں تغیر پر منتہی ہو۔ کیونکہ اصلِ توحید کی بناء پر ناممکن ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی اور مبدأ فاعلی ہو۔ اسی طرح حرکت کا حادث ہونا غیر خدا پر بھی منتہی نہیں ہوتا۔ پس ایسا نہیں ہو سکتا کہ تمام کی تمام حرکات حادث ہوں بلکہ حرکت اور متحرک دائمی طور پر موجود ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تمام کے تمام ممکنات یعنی کلی طور پر عالَم کا حادث ہونا ممکن نہیں ہے۔

دوسری جانب سے اگر ہم جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ ہر حادثِ زمانی سے پہلے مادہ اور زمان یعنی مدت کا ہونا ضروری ہے؛ کیونکہ حادثِ زمانی مسبوقٌ بالمادۃ والزمان ہے۔ اس بات کو ہم اس طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ ہر حادث کے وجود سے پہلے اس کے تحقق کا امکان پایا جاتا ہے۔ اگر ہم اس صورت کو قبول نہ کریں تو لازم آئے گا کہ ہر حادث متحقق ہونے سے پہلے ممتنع ہو اور جب وہ ممتنع ہو گا وجود میں نہیں آ سکتا۔ وہ امکان جو حادث کے تحقق سے پہلے پایا جاتا ہے اور جب حدوث ہو جائے تو امکان اس سے چلا جاتا ہے اس امکان کو امکان استعدادی کہتے ہیں۔ امکانِ استعدادی ہے کہ جو اس امرِ خاص کے حدوث کے لیے ایک زمانِ معین اور مدتِ معین میں زمینہ فراہم کرتا ہے اور چونکہ امکان کا متحقق ہونا ایک شیء ہے لہذا اس کو غیر کی جانب نسبت یا اضافہ کرنے کا تصور و تعقل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب ہم امکانِ استعدادی کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے تحقق میں کسی موضوع کا محتاج ہے۔ وہ جوہر کی طرح نہیں ہے کہ خود بخود تعقل ہو جائے اور موضوع کا محتاج نہ ہو، بلکہ اسے اپنے تحقق کے لیے کسی موضوع کی ضرورت ہے جو اس کے وجود اور تحقق کا حامل بنے۔ بس امکانِ استعدادی اور اس کے موضوع یعنی مادہ کو ہر وجودِ حادث سے پہلے موجود ہونا ضروری ہے۔
[۲۱] میر داماد، محمد باقر بن محمد، کتاب القبسات، ج۱، ص۲۳، تہران ۱۳۶۷ش۔


اسی طرح ہر وہ شیء جو حادث ہو اور پہلے عدم سے وابستہ ہو اس کے وجود پر اس کا معدوم ہونا مقدم اور اس کے وجود سے پہلے ہو گا۔ یہ تقدم اور قَبَل (پہلے ہونا) تأخر اور بَعۡدِیَّت (بعد میں ہونا) کے ساتھ کسی صورت قابل جمع نہیں ہے کیونکہ تقدم اور تأخر ایک وقت میں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ لہذا ضروری ہے کہ تقدم پہلے زائل ہو اور تأخر میں تبدیل ہو تو پھر شیء حادث ہو سکتی ہے۔ حادث میں ہم اگر ہم عدم کو متقدم اور قَبَلَیت (پہلے ہونا) تسلیم کر لیں تو ماننا پڑے گا کہ پہلے عدم زائل ہو اور پھر متأخر مرحلہ میں حادث وجود میں آئے۔ یہاں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ تقدّم اور قَبۡلَیَّت (پہلے ہونا) جوکہ تأخر اور بَعۡدِیَّت کے ساتھ تبدیل ہو گا وہ بذاتِ خود عدم نہیں ہو سکتا، کیونکہ تقدم جب تأخر کے ساتھ تبدیل ہو جائے گا تو تقدم زائل ہو جائے گا جبکہ حادث کے وجود میں آنے کے بعد وہ پھر سے معدوم ہو سکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ عدم کاملا زائل نہیں ہوا۔ نیز تقدّم خود ذاتِ فاعل نہیں ہے۔ ذاتِ فاعل وجود میں آنے کے بعد بھی محفوظ اور برقرار رہتی ہے لیکن تقدم اور قَبَلَیَّت اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب تأخر اور بَعۡدِیَّت میں تبدیل ہو جائے۔ پس ضروری ہے کہ ذات اس تقدم اور تأخر اور ان کے تبدیل ہونے ہو کا تقاضا کرے اور وہ امر وہی زمان ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ ہر حادث سے پہلے زمان یعنی مدت پائی جائے۔
[۲۳] ابن‌ سینا، اشارات و تنبیہات، ج۳، ص ۸۲ـ۸۳، مع‌ الشرح لنصیرالدین طوسی و شرح الشرح لقطب‌ الدین رازی، تہران ۱۴۰۳۔
[۲۴] اشارات و تنبیہات، مع‌ الشرح لنصیرالدین طوسی و شرح الشرح لقطب‌ الدین رازی،ج۱، ص۸۳ـ ۸۸، تہران ۱۴۰۳۔


← ابن سینا کے استدلال کا پہلا ردّ


اکثر متکلمین قائل ہیں کہ عالم حدوثِ زمانی ہے۔ وہ ابن سینا کا پیش کردہ استدلال اس طرح سے ردّ کرتے ہیں کہ یہ کہنا کہ ہر حادث اپنے حادث ہونے سے پہلے مادہ اور استعداد کا حامل تھا قابل قبول نہیں ہے۔ کیونکہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ حادث کے وجود میں آنے سے پہلے امکانِ استعدادی موجود ہو۔ ممکن ہے کہ ایک شیء حادث ہو اور وہ حادث ہونے سے پہلے نہ مادہ کی حامل ہو اور نہ استعداد کی حامل۔ پس شیءِ حادث کی علتِ فاعلی قدیم ہے جوکہ اللہ تعالی ہے اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ شیء حادث نہ ہو اور ازلی ہو کیونکہ اللہ تعالی صاحب اختیار و قدرت ہے اور وہ جس طرح کا ارادہ کرے اس کے مطابق شیء کو حادث کر سکتا ہے۔

←← متکلمین کی ردّ کا جواب


متکلمین کے ردّ کے جواب میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ حادث کا حدوثِ زمانی ہونا اللہ تعالی کے ارادہ پر موقوف ہو کیونکہ اللہ تعالی کا ارادہ یا اس کے اوصافِ عالیہ میں سے ہر صفت اگر واجب الوجود ہے تو دائمی ہو گی اور امر دائمی ہے تو معلول بھی دائمی طور پر ہو گا۔ لیکن اگر ارادہِ الہی یا اس کی صفات حادث ہو تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ منشأِ حدوث کیا ہے ؟ یعنی وہ کونسی چیز ہے جو ارادہ کے صدور اور حدوثِ زمانی کا سبب بنی ہے؟ پس اس طرح سے تسلسل لازم آئے جوکہ واضح طور پر باطل ہے۔ اللہ تعالی کی جانب سے خاص وقت اور زمان میں مخصّص حدوث نہیں قرار دیا جا سکتا۔ خصوصا اس طرف توجہ رہنی چاہیے کہ اللہ تعالی تمام جہات سے ضروری و واجب ہے اور کسی بھی پہلو سے اس میں کسی قسم کی تغییر ممکن نہیں ہے۔
[۲۵] یحیی‌ بن حبیش سہروردی، مجموعہ مصنّفات شیخ اشراق، ج۱، ص۴۱۸، چاپ ہانری کوربن، تہران ۱۳۵۵ ش۔


←← ابن سینا کے استدلال کا دوسرا ردّ


یہ کہنا کہ ہر حادث مسبوق بالزمان ہے اور حدوث سے پہلے مدت و زمان کا حامل ہے قابل قبول بات نہیں ہے۔ کیونکہ اس طرح سے تقدم یعنی عدم کا وجود پر مقدم ہونا ایک امرِ اعتباری اور محض تصور و وہم ہے کجا یہ کہ ہم اس کو وجودِ خارجی قرار دیں!! کیونکہ عدم کا تقدم سے متصف ہونا اور پھر عدم کا امرِ وجودی سے متصف حقیقت نہیں ہے۔ پس زمان و مدت جوکہ اس تقدم اور تأخر کا معروض و منشأ ہے خود ایک امرِ اعتباری اور غیر وجودی ہے۔ لہذا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ہر حادث مادہ اور مدت کے ہمراہ مسبوق ہے۔

←← دوسرے ردّ کا جواب


دوسرے ردّ کا جواب اس طرح سے دیا جا سکتا ہے کہ متکلمین کا یہ کہنا کہ تقدم و تأخر اور ان کا معروض یعنی زمان ایک امرِ اعتباری اور غیر حقیقی ہے اگر تسلیم کر لیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عالَم کے حدوثِ زمانی ہونے میں تقدم کا ہونا معتبر اور حقیقی نہیں ہے بلکہ اعتباری ہے۔ درحالانکہ ان کا دعوی ہے کہ عالم حدوثِ حقیقی ہے۔ پس تقدم اور مدت و زمان کو موہوم اور اعتباری قرار دینے سے عالَم کے حدوث کی نفی ہوتی ہے۔

←← ابن سینا کے استدلال کا تیسرا ردّ


متکلمین کی طرف سے ایک اشکال یہ ہے کہ فلاسفہ کے قول کا لازمہ یہ نکلتا ہے کہ عالَم کے بعض اجزاء قدیمِ زمانی ہوں۔ یعنی بعض ممکنات ہیں جن کا صدور اور قدیمِ زمانی کے ایجاد کو فاعلِ مختار (اللہ تعالی) کی طرف اسناد نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالی صاحب اختیار ہے اور با ارادہ ہے اور فاعلِ مختار کا قصد ایک امر کو ایجاد کرنے کے ہمراہ ہے کہ جو پہلے موجود نہ ہو۔ اس کے علاوہ دیگر صورتوں میں تحصیل حاصل لازم آئے گا۔ پس اللہ تعالی کا مختار ہونے کا لازمہ عالَم کا حادث ہونا نکلتا ہے اور ایک فعل کا قِدَم فاعل کے مختار ہونے سے ناساز گار اور غیر مناسب ہے۔

←← تیسرے ردّ کا جواب


تیسرے ردّ کے جواب میں کہا جائے گا کہ فلاسفہ اللہ تعالی کو فاعل بالفصد نہیں سمجھتے کیونکہ قصد فاعل کی نسبت سے کمال و خیر کے تحصیل کی طرف متوجہ ہے۔ اس صورت میں لازم یہ آئے گا کہ اللہ تعالی تکامل کی حالت میں ہے جبکہ اس کے بارے میں نقص کا تصور کرنا محال ہے۔ دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ اللہ سبحانہ کو مختار، ارادہ و اختیار کو اس کی عینِ ذات قرار دیا جائے اور ایسے فاعل کو فاعل بالرضا کہتے ہیں۔ لہذا اللہ سبحانہ کا مختار ہونا فعل کے دائمی کے ہونے سے منافات و ٹکراؤ نہیں رکھتا۔ کیونکہ اس کے ارادہ کے ہمراہ اختیار کے ساتھ اس سے ہمیشہ وجودِ عالم صادر ہوتا ہے۔

←← نتیجہِ بحث


تمام گفتگو سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ زمانہ و مدت اور مادہ حادثِ زمانی نہیں ہیں کیونکہ زمان حرکت کی مقدار ہے اور حرکت دوام و ہمیشگی رکھتی ہے۔ حکماءِ مشاء کے مطابق یہ حرکت فلک کی حرکتِ دائری ہے کیونکہ اگر یہ حرکت سیدھی و مستقیم ہوتی تو ابعاد عالَم کے متناہی ہونے کی وجہ سے یہ حرکت بھی متناہی اور محدود ہوتی۔ فلاسفہ نے حرکت اور متحرک کے ازلی و دائمی ہونے سے حادث کا قدیم سے ارتباط کی وضاحت بیان کی ہے۔ حادث کا قدیم سے ربط و تعلق سے مراد معلولاتِ متجدد کا علتِ ازلی و قدیم سے ربط و تعلق ہونا ہے۔ البتہ اس طرف توجہ رہے کہ زمان اور حرکت جوکہ اس کا منشأ ہے اور اسی طرح اس حرکت کا موضوع (متحرک) حدوثِ زمانی سے متصف نہیں۔ ممکن نہیں ہے کہ قدمِ زمانی کے ساتھ متصف ہو کیونکہ ان کا وجود زمان میں واقع نہیں ہے اور اس ترتیب سے وہ امر جو زمان نہیں رکھتا وہ حدوث یا قِدَم زمانی سے متصف نہیں ہوتا۔
[۳۲] محمد باقر بن محمد میرداماد، کتاب القبسات، ج۱، ص۱۸، چاپ مهدی محقق و دیگران، تهران ۱۳۶۷ش۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مدنی، سید علی بن احمد، الطراز الأول، ج ۳، ص۳۶۳۔    
۲. ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۲، ص ۳۶۔    
۳. راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، ص ۳۹۷۔    
۴. ابن فارس، احمد معجم مقاییس اللغۃ، ج ۵، ص ۳۶۳۔    
۵. طباطبائی، سید محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ج ۱، ص ۲۸۶۔    
۶. افلاطون، دوره آثار افلاطون، ج۱، ص۲۸ـ۲۹، ترجمہ محمد حسن لطفی و رضا کاویانی، تہران ۱۳۸۰ش۔
۷. ارسطو، ما بعد الطبیعۃ، ۱۰۷۱ ب ۵ـ۱۲؛ ارسطو، ۱۰۷۲ الف ۲۰ـ۲۵ ۔
۸. ارسطو، فیزیک، ۲۱۸ب ۲۱ـ۲۲۰ الف ۲۶۔
۹. فلوطین، دوره آثار فلوطین، ترجمہ محمد حسن لطفی، ج ۲، ص ۶۶۸، تہران ۱۳۶۶ش۔
۱۰. فلوطین، دوره آثار فلوطین، ترجمہ محمد حسن لطفی، ج ۱، ص ۴۱۹، تہران ۱۳۶۶ش۔
۱۱. برقلس، حجج برقلس فی قدم‌ العالم، ج۱، ص ۳۴ـ۴۲، ترجمہ اسحاق‌ بن‌ حنین، در الافلاطونیۃ المحدثۃ عند العرب، چاپ عبد الرحمن بدوی، قاہره: مکتبۃ النہضۃ المصریۃ، ۱۹۵۵۔
۱۲. امیل بریہ، تاریخ فلسفۃ، ج ۲، ص ۲۸۳، ج ۲، ترجمہ علی‌ مراد داودی، تہران ۱۳۷۴ش۔
۱۳. فارابی، محمد بن محمد، کتاب الجمع بین رأیی الحکیمین، ج۱، ص ۱۰۰ـ۱۰۴، چاپ البیرنصری نادر، بیروت ۱۹۸۵۔
۱۴. بو محلم، علی، کتاب الجمع بین رأیی الحکیمین لأبی نصر الفارابی، ص ۵۸۔    
۱۵. ابن سینا، حسین بن عبد اللہ، اشارات و تنبیہات، ص ۱۰۵۔    
۱۶. خواجہ نصیر الدین طوسی، محمد بن الحسن، شرح اشارات و تنبیہات، ج۳، ص ۱۰۹۔    
۱۷. ابن سینا، حسین بن عبد اللہ، اشارات و تنبیہات، ص ۱۰۶۔    
۱۸. خواجہ نصیر الدین طوسی، محمد بن حسن، شرح اشارات و تنبیہات، ج۳، ص ۱۰۹۔    
۱۹. ابن‌ سینا، حسین بن عبد اللہ، الشفاء - الالہیات، ج۱، ص۳۷۳-۳۸۱۔    
۲۰. خواجہ نصیر الدین طوسی، محمد بن حسن، شرح اشارات و تنبیہات، ج ۳، ص ۹۷۔    
۲۱. میر داماد، محمد باقر بن محمد، کتاب القبسات، ج۱، ص۲۳، تہران ۱۳۶۷ش۔
۲۲. صدر الدین شیرازی، محمد بن ابراہیم، الحکمۃ المتعالیۃ فی الاسفار العقلیۃ الاربعۃ، ج ۳، ص ۴۹۵۲۔    
۲۳. ابن‌ سینا، اشارات و تنبیہات، ج۳، ص ۸۲ـ۸۳، مع‌ الشرح لنصیرالدین طوسی و شرح الشرح لقطب‌ الدین رازی، تہران ۱۴۰۳۔
۲۴. اشارات و تنبیہات، مع‌ الشرح لنصیرالدین طوسی و شرح الشرح لقطب‌ الدین رازی،ج۱، ص۸۳ـ ۸۸، تہران ۱۴۰۳۔
۲۵. یحیی‌ بن حبیش سہروردی، مجموعہ مصنّفات شیخ اشراق، ج۱، ص۴۱۸، چاپ ہانری کوربن، تہران ۱۳۵۵ ش۔
۲۶. تفتازانی، مسعود بن عمر، شرح‌ المقاصد، ج۱، ص۱۴-۲۲۔    
۲۷. شریف جرجانی، علی‌ بن محمد، شرح‌ المواقف، ج۴، ص۱۴۱۶۔    
۲۸. شریف جرجانی، علی‌ بن محمد، شرح‌ المواقف، ج۴، ص۱۸-۱۹۔    
۲۹. طباطبائی، سید محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ص ۲۰۹۔    
۳۰. تفتازانی، مسعود بن عمر، شرح‌ المقاصد، ج۲، ص۱۰۔    
۳۱. لاہیجی، عبد الرزاق ‌بن علی، شوارق الالہام فی شرح تجرید الکلام، ج۱، ص۵۴۱۔    
۳۲. محمد باقر بن محمد میرداماد، کتاب القبسات، ج۱، ص۱۸، چاپ مهدی محقق و دیگران، تهران ۱۳۶۷ش۔


مأخذ

[ترمیم]

دانشنامہ جہان اسلام، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، یہ مقالہ حدوث و قدم اس سائٹ سے لیا گیا ہے جس کا شماره۵۸۶۷ ہے۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : حدوث و قدم | فلسفہ | فلسفی اصطلاحات




جعبه ابزار