حدوث و قدم ذاتی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



فلاسفہ کی اصطلاح میں حدوث و قدم کی دو تعریفیں کی جا سکتیں ہیں۔ اس وجہ سے حدوث و قدم کی دو تعریفیں کو ہم زیر بحث لائیں گے اور اسی اثناء میں ہم حدوث و قدمِ ذاتی کی بعض دیگر تعریفوں کی طرف اشارہ کریں گے۔ حدوث و قدم کی بحث فلاسفہ اور متکلمین میں معرکۃ الآراء مباحث میں سے ہے۔


حدوث و قدم ذاتی کی مختلف تعریفیں

[ترمیم]

بعض حکماء قائل ہیں کہ حدوث ذاتی سے مراد کسی شیء کا اپنے وجود سے پہلے عدم میں ہونا ہے۔ حدوث ذاتی یعنی مسبوق بالعدم کہ مرتبہِ ذات ایک شیء کا معدوم ہونا اور اس کے بعد وجود میں آنا۔ پس اگر کوئی شیء ذاتی پر معدوم تھی اور پھر عدم سے وجود میں آئی تو اس کو مسبوق بالعدم ہونا کہا جاتا ہے۔
[۱] موسوعہ مصطلحات الفلسفۃ عند العرب، ج۱، ص ۲۴۵، نرم افزار نور الحکمۃ ۳۔
قدیمِ ذاتی سے مراد یہ ہے کہ کسی شیء کا ذاتی وجود مسبوق بالعدم نہ ہو، یعنی ذاتِ شیء کا وجود سابقًا معدوم نہ ہو۔
[۲] ترجمہ و شرح نہایۃ الحکمۃ، شیروانی، علی، ج۲، ص۴۰۷، قم، نشر بوستان کتاب، ۱۳۸۶ ھ ش، چ ہفتم۔

اس کے مقابلے میں بعض نے حدوث ذاتی کی تعریف کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ حدوث ذاتی سے مراد کسی شیء کے وجود کا ذاتی طور پر اپنے غیر کے وجود کے ساتھ مسبوق ہونا اور اپنے وجود میں اپنے غیر کا محتاج ہونا ہے۔
[۳] فرہنگ معارف اسلامی، سجادی، سید جعفر، ج۳، ص۷۰۳، نرم افزار نور الحکمۃ ۳۔
جبکہ قِدم ذاتی سے مراد کسی شیء کے وجود کا اپنے غیر کے وجود کے ساتھ مسبوق نہ ہونا ہے۔
[۴] ترجمہ و شرح نہایۃ الحکمۃ، علی شیروانی، ج۲، ص۴۰۹۔
اس تعبیر کے مطابق حدوث ذاتی ملازم ہے۔ بالفاظ دیگر شیء کا وجود پہلے معدوم تھا جس کی وجہ سے اس کو مسبوق بالعدم کہا جاتا ہے۔ کیونکہ وجودِ شیء اگر ذاتًا اپنے غیر کے ساتھ مسبوق ہو تو اس کا مطلب ہے کہ شیء ذاتًا اس مرتبہ پر عدم کے ساتھ مسبوق تھی، یعنی ذاتی طور پر معدوم تھی لیکن اپنے غیر کے ذریعے سے موجود ہوئی۔
ہر دو تفسیر کے مطابق ماہیتِ شیء اپنی ذات میں عدم کی مستحق ہے اور حدوث ذاتی ہے۔ ماہیتِ شیء اگر وجود میں آئے تو اس نے وجود اپنے غیر سے لیا ہے اور اس کے غیر نے وجود کا ماہیت پر افاضہ کیا ہے؛ کیونکہ پہلی تعریف کے مطابق ہر شیء جو ماہیت ہو وہ ممکن ہے اور ہر ممکن ذاتًا مستحقِ عدم ہے اور اپنے غیر سے وجود کا مستحق ہونے کے لیے محتاجِ افاضہ ہے کہ اس کا غیر اس کو وجود عنایت کرے۔ اس بناء پر ہر ماہیت کے لیے ذاتی طور پر عدم ثابت ہے لیکن اپںے غیر کے توسط سے ماہیت کے لیے وجود ثابت ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف سے ہر شیء کے لیے جو بالذات ثابت ہے وہ اس پر مقدم ہے جو اس شیء کے لیے بالعرض ثابت ہے۔ یعنی کسی بھی شیء کے لیے جو کچھ بالذات اور بالعرض ثابت ہوتا ہے اس میں بالذات مقدم ہے بالعرض پر۔ اس اعتبار سے ہر ممکن کا وجود چونکہ مسبوق بالعدم ہے اس لیے ممکن کے لیے وجود اس کی ذات کی نسبت سے مؤخر اور حادث ہے۔ پس ہر ممکن حادث ہے۔

ممکنات کے ذاتی طور پر مستحقِ عدم ہونے پر اشکال

[ترمیم]

ممکن ہے کہ ممکنات کا ذاتی طور پر مستحقِ عدم ہونے اور مسبوق بالعدم ہونے پر اعتراض کیا جائے کہ ہر ممکن ذاتًا مستحقِ عدم نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں اس کا وجود ممتنع کہلائے گا نہ کہ ممکن۔ کیونکہ ہر چیز جس کی ذات وجود رکھتی ہو اس کے لیے وجود ثابت ہوا ہے تو وہ موجود ہے۔ اس فرض کے مطابق اگر شیء ذاتًا مستحقِ عدم ہے تو وہ معدوم ہو گی نہ کہ موجود۔ چنانچہ اس اشکال سے بچنے کے لیے بعض نے اس طرح توجیہ کی ہے کہ ممکنات میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ممکن چونکہ ممکن ہے اور اس کی نسبت وجود اور عدم کے درمیان برابر ہے اور دونوں میں کسی طرف کو ذاتی طور پر ترجیح حاصل نہیں ہے اس لیے دونوں میں سے کوئی طرف ممکن کے لیے تقاضا نہیں کرتی ہے کہ وہ طرف ممکن سے مربوط ہو۔ لہٰذا ممکن ذاتی طور پر نہ وجود کا مصداق ہے اور نہ عدم کا۔ اس بناء پر ذاتِ ممکن سے خارج ایک علت کا ہے جو ممکن کو وجود اور عدم کے درمیان سے نکالتی ہے اور اس کو وجود کا مستحق قرار دیتی ہے۔ اگر یہ علت نہ ہو تو ممکن اسی طرح حدِ استواء میں رہے گی۔ اسی طرح ممکن کی ذات سے خارج علت کی بناء پر ممکن مستحقِ عدم قرار پاتا ہے۔ پس وجود اور عدم میں سے کوئی بھی ممکن کے لیے تقدم نہیں رکھتا اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ممکن کا وجود غیر کی جانب سے ازلی ہے اور ممکن ذاتی طور پر مسبوق بالعدم ہے۔
[۶] مباحث مشرقیۃ، فخر رازی، محمد بن عمر، ج۱، ص۱۳۴، بیروت، دار الکتب العربی، ۱۴۰۷ ھ. ق۔


← مذکورہ اشکال کا جواب


یہ اشکال وارد نہیں ہوتا کیونکہ ممکن کا ذاتی طور مستحقِ عدم سے مقصود یہ ہے کہ ممکن ذاتی طور پر وجود کا مستحق نہیں ہے۔ یہ قضیہ کہ ’’ ممکن مستحقِ عدم ہے‘‘ قضیہ سالبہ محصلہ ہے نہ کہ قضیہ موجبہ معدولہ۔ بالفاظ دیگر حدوثِ ذاتی اس معنی میں ہے کہ ممکن مرتبہِ ذات میں مسبوق بالعدم ہے اور اپنی ذات کے اعتبار سے وجود نہیں رکھتا تھا۔ اس کی وضاحت اس طرح سے کی جا سکتی ہے کہ اگر عالمِ خارج میں ممکن کے مرحلہِ ذات و ماہیت سے مرحلہِ وجود میں آنے کی تحقیق کی جائے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ عقلی تحلیل کے اعتبار سے شیءِ ممکن متعدد مراتب طے کے دائرہ وجود میں آتی ہے ۔ مرحلہِ آغاز میں ممکن تنہا خالص ماہیت تھی جس میں کسی قسم کے وجود کا اضافہ موجود نہیں تھا۔ اس مرحلہِ اول میں ماہیتِ محض کو اگر درک کیا جائے تو وہ وجود سے وابستہ نہیں ہے جیساکہ عقلی تحلیل سے ہم درک کرتے ہیں۔ [[|فلاسفہ]] کی زبان میں اس پہلے مرحلہ کو اس عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے: الماهیة من حیث هی لیست الا هی۔ پہلے مرحلہ میں ماہیت اور امکان میں فرق کرنا ضروری ہے کیونکہ ماہیت اور امکان ایک چیز نہیں ہے بلکہ امکان لازمہ ہے ماہیت کا۔ پس ذہنی اعتبار سے ماہیت کا وجود آنے کا امکان اس معنی میں ہے کہ عنوانِ امکان اس ماہیت کے لیے ایک لازمہ ہے۔ اس پہلے مرحلے کے بعد ماہیت علت کی محتاج ہے ، اس مرحلہِ احتیاج کے بعد علت ماہیت کو وجوب الغیر کے مرحلہ میں داخل کرتی ہے اور اس کے بعد جب ماہیت واجب بالغیر ہو جائے تو ایجاد ہو جاتی ہے اور پھر وجود پا جاتی ہے۔ لہٰذا ایک ممکن شیء مرحلہِ ماہیت و ذات سے مرحلہ وجودِ خارجی تک متعدد مراحل طے کرتی ہے۔ یہاں سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہر ممکن الوجود اگر وجود میں آتا ہے تو وہ ایجاد کے سات مراحل طے کرنے کے بعد وجود میں آتا ہے ۔ وجود میں آنے سے پہلے والے مراتب میں ایک مرتبہ ممکن کی ماہیت و ذات کا مرتبہ ہے جس میں وہ متحقق نہیں تھی۔ اس پہلے مرتبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ ممکن مسبوق بالعدم ہے اور پہلے مرتبہ میں یعنی مرحلہِ ماہیت و ذات میں مسبوق بالعدم مأخوذ ہے۔
[۷] نہایۃ الحکمۃ، طباطبائی، محمد حسین، ص۲۸۹، قم، نشر اسلامی، ۱۴۲۲ ق، چ شانزدہم۔
دوسری تفسیر کے مطابق ہر ممکن حادث ہے کیونکہ ہر ممکن ’’ماہیت‘‘ رکھتا ہے جوکہ اس کے وجود سے مغایر اور جدا ہے۔ اگر ممکن کی ماہیت ہی اس کا وجود ہو تو یہ ممکن الوجود نہیں بلکہ واجب الوجود کہلائے گا۔ بالفاظ دیگر ماہیت اور اس کا وجود دو جدا چیزیں ہیں ۔ ماہیت کی جانب سے اس کا وجود خود سے ایجاد نہیں ہوا ۔ اس بناء پر یہ دلیل ہمارے سامنے آتی ہے کہ اگر ممکن کا وجود اس کی ماہیت کی جانب سے ہوتا اور ماہیت علت ہوتی تو ممکن کے وجود اپنے معلول پر مقدم ہوتا اور ضروری تھا کہ ماہیت اپنے وجود کے متحقق ہونے سے پہلے موجود ہوتی جوکہ محال ہے۔ کیونکہ اس سے یہ لازم آتا کہ شیء اپنے ہی وجود پر مقدم ہے، یعنی وجودِ ماہیت قبل اس کے کہ متحقق ہو وجود سے متصف تھی اور اس نے اپنے آپ کو خود وجود دیا ہے جوکہ محال ہے۔ پس ممکن نے اپنا وجود اپنے غیر سے کسب کیا ہے ورنہ ممکن کا وجود ذاتًا اپنے غیر کے ذریعے سے مسبوق ہے اور ہر مورد جہاں پر ایک شیء کا وجود اپنے غیر کی بناء پر ہو وہ حادثِ ذاتی کہلاتی ہے۔
[۸] ترجمہ و شرح نہایۃ الحکمۃ، علی شیروانی، ج۲، ص۴۰۹۔


حدوث ذاتی اور واجب الوجود کے فعل میں ربط

[ترمیم]

حدوث ذاتی کا واجب الوجود کے فعل سے ربط و تعلق کی بحث فعلِ واجب الوجود سے مربوط ہے۔ حقیقت میں یہ مفاہیم اور عناوین مثلا حدوثِ ذاتی، ابداع، علت کا مقدم ہونا وغیرہ اور اس سے مربوط متعدد سوال جواب اور مختلف مجادلات و مناقشات جیسے مباحث اس سوال کے نتیجے میں سامنے آتے ہیں کہ حق تعالی کا فعل کیسے انجام پاتا ہے اور دائرہ عمل میں آتا ہے؟ اس مورد میں مختلف سوال ابھرتے ہیں، مثلا آیا حق تعالی کا فعل مسبوق بالعدم ہے؟ کیا یہ سب افعال حق تعالیٰ کے ارادہ سے صادر ہو رہے ہیں؟ کیا حق تعالیٰ کے افعال خاص شرائط کے مہیا ہونے اور خاص زمانے کے ساتھ مقید ہیں؟ کیا حق سبحانہ کے افعال اس کا علم ہیں اور کیا اس کا علم، ارادہ اور اس کی قدرت و حیات اور واجب الوجود کی دیگر خصوصیات و صفات اس کی ذات پر زائد ہیں یا نہیں؟ یا یہ صفات وہی ذاتِ حق تعالی ہے اور اس کی تمام ذات، صفات و افعال قدیم، ازلی اور ابدی ہے؟
متکلمین اور بعض دیگر معتقد ہیں کہ حق تعالیٰ کا فعل اور ذاتِ حق سے ممکنات کا صدور ضروری ہے کہ مسبوق بالعدم و زمان ہو اور ضروری ہے کہ ممکنات اور فعلِ الہٰی ذاتِ حق تعالیٰ کی طرح قدیم نہ ہو، ورنہ اس سے لازم یہ آئے گا کہ جہان میں متعدد قدیم ہیں جو سب کے سب مساوی ہیں اور علت و معلول ایک زمانے میں وجود رکھتے تھے جس سے نتیجہ یہ نکلے گا کہ خالق و مخلوق برابر اور یکساں ہیں۔ لیکن بعض حکماء جن میں سے ایک شیخ اشراق ہیں قائل ہیں کہ جہان کو حتمی طور پر قدیم ہونا چاہیے کیونکہ جہان ممکنات میں سے ہے اور ممکن اپنے وجود میں مرجح کا محتاج ہے اور ذاتِ واجب الوجود جوکہ تمام ممکنات کے لیے علت تام اور مرجحِ کامل ہے ہمیشہ سے یعنی ازلی ہے، پس جہان کو بھی حتمی پر ہمیشہ سے ہونا چاہیے۔
[۹] مجموعہ مصنفات شیخ اشراق، شہاب الدین سہروردی، ج۳، ص۴۲، تہران، موسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، ۱۳۷۵ ھ ش، چاپ دوم۔


اہم نکات

[ترمیم]

۱. مندرجہ بالا مطالب سے معلوم ہوا کہ قدیم ذاتی کی درج ذیل خصوصیات ہیں:
اولا: قدیم ذاتی فقط اللہ تعالی ہے۔ اصطلاحی زبان میں کہا جائے گا کہ قدیمِ ذاتی واجب الوجود بالذات کی ذات میں منحصر ہے۔ کیونکہ ہر ممکن ذاتًا حادث ہے اور جہاں حدوثِ ذاتی نہیں ہے وہاں ممکن نہیں ہے۔
دوم: قدیمِ ذاتی ماہیت نہیں رکھتا کیونکہ ہم ثابت کر آئے ہیں کہ ہر شیء جو ماہیت رکھتی ہے حادثِ ذاتی ہے۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو حادثِ ذاتی نہیں ہے وہ ماہیت نہیں رکھتی۔
[۱۱] نہایۃ الحکمۃ، طباطبائی، محمد حسین، ص۲۸۹۔

سوم: قدیم ذاتی معدوم نہیں ہو سکتا۔
۲. حدوث ذاتی کی دوسری تعریف یعنی شیء کے وجود کا اپنے غیر کے وجود کے ساتھ مسبوق ہونا حدوث ذاتی کہلاتا ہے حقیقت میں پہلی تعریف کے ساتھ ملازمت رکھتی ہے۔ کیونکہ اگر کسی شیء کا وجود اپنے غیر کے ساتھ مسبوق ہو تو وہ شیء اپنے مرتبہِ وجود میں معدوم نہیں ہو گی جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اس مرتبہ میں خود ذاتًا مسبوق بالعدم ہو۔
۳. حدوث ذاتی اور حدوث زمانی ہر دو میں عدم ملحوظ ہے لیکن حدوث ذاتی میں جو عدم مأخوذ ہے وہ اپںے وجود کے ساتھ جمع ہے اور ایک زمانے میں یہی عدمِ مذکور وجود رکھتا ہے اور خود وجود بھی، اس عدم کو عدمِ مجامع کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ عدم ہے کہ جو حدوثِ زمانی میں زیر بحث لایا جاتا ہے، جس میں وجود کے مقابل عدم اپنے وجود کے ساتھ جمع ہونے کی قابلیت نہیں رکھتا۔ جب وہ وجود میں آ جائے تو پھر معدوم نہیں ہے۔
۴. ممکن اپنے ماہیتِ محض کے مرحلے سے وجود میں آنے تک سات مراحل سے گزرتا ہے جسے حکماء کی زبان میں اس طرح بیان کیا جاتا ہے: الماهیۃُ، تَعَرَّفَتۡ، فَاَمۡکَنَتۡ، فَاحۡتَاجَتۡ، فَاَوۡجَبَتۡ، فَوَجَبَتۡ، فَاُوۡجِدَتۡ، فَوَجَدَتۡ. ماہیت آغاز میں عقل کے توسط سے پہچانی جاتی ہے جس کے بعد امکان کو اس میں ملاحظہ کیا جاتا ہے۔ لہٰذا محتاجی و فقر کو اس میں اعتبار کیا جاتا ہے جس کے بعد ایجاب کو اس میں لحاظ کرتے ہیں اور اس مرحلہ کے بعد اس کا وجود واجب العرض قرار پاتا ہے اور اس مرحلہ کے بعد وہ ایجاد ہوتا ہے اور پھر موجود ہوتا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. موسوعہ مصطلحات الفلسفۃ عند العرب، ج۱، ص ۲۴۵، نرم افزار نور الحکمۃ ۳۔
۲. ترجمہ و شرح نہایۃ الحکمۃ، شیروانی، علی، ج۲، ص۴۰۷، قم، نشر بوستان کتاب، ۱۳۸۶ ھ ش، چ ہفتم۔
۳. فرہنگ معارف اسلامی، سجادی، سید جعفر، ج۳، ص۷۰۳، نرم افزار نور الحکمۃ ۳۔
۴. ترجمہ و شرح نہایۃ الحکمۃ، علی شیروانی، ج۲، ص۴۰۹۔
۵. الحکمۃ المتعالیۃ فی الاسفار الاربعۃ العقلیۃ، ملاصدرا شیرازی، ج۳، ص۲۴۷، قم، نشر مصطفوی، ۱۳۷۸ ھ. ش۔    
۶. مباحث مشرقیۃ، فخر رازی، محمد بن عمر، ج۱، ص۱۳۴، بیروت، دار الکتب العربی، ۱۴۰۷ ھ. ق۔
۷. نہایۃ الحکمۃ، طباطبائی، محمد حسین، ص۲۸۹، قم، نشر اسلامی، ۱۴۲۲ ق، چ شانزدہم۔
۸. ترجمہ و شرح نہایۃ الحکمۃ، علی شیروانی، ج۲، ص۴۰۹۔
۹. مجموعہ مصنفات شیخ اشراق، شہاب الدین سہروردی، ج۳، ص۴۲، تہران، موسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، ۱۳۷۵ ھ ش، چاپ دوم۔
۱۰. کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، علامہ حلی، حسن بن یوسف، ص۸۲۔    
۱۱. نہایۃ الحکمۃ، طباطبائی، محمد حسین، ص۲۸۹۔
۱۲. کشف المراد، علامہ حلی، حسن بن یوسف، ص۸۴۔    


مأخذ

[ترمیم]

سایت پژوہہ، یہ تحریر مقالہِ حدوث و قدم ذاتی سے مأخوذ ہے۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : حدوث و قدم | کلام | کلامی اصطلاحات




جعبه ابزار