حضرت زہراؑ کے آخری ایام
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
صدیقہ کبریٰؑ میں اپنے پدر کی
رحلت کے ستائیس دن بعد۔
کھڑے ہونے اور گھر سے باہر آنے کی سکت نہ رہی۔ پھر آپؑ کی بیماری جو در و دیوار میں پسنے اور (تازیانے و تلوار) کی ضربوں سے پیدا ہوئی تھی؛ شدت اختیار کر گئی اور آپ بستر پر دراز ہو گئیں۔
[ترمیم]
ام المومنین حضرت
ام سلمہؓ آپؑ کی عیادت کو تشریف لائیں، کہا: اے بنت پیغمبرؐ! آپ کی رات کیسے گزری؟!
فاطمہؑ نے فرمایا: اَصْبَحْتُ بَیْنَ کَمَدٍ وَ کَرَبٍ فُقِدَ اَلنَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ وَ ظُلِمَ اَلْوَصِیُّ. هُتِکَ وَ اَللَّهِ حِجَابُ مَنْ اَصْبَحَتْ اِمَامَتُهُ مُقْتَضِیَة عَلَی غَیْرِ مَا شَرَعَ اَللَّهُ فِی اَلتَّنْزِیلِ وَ سَنَّهَا اَلنَّبِیُّ فِی اَلتَّاْوِیلِ وَ لَکِنَّهَا اَحْقَادٌ بَدْرِیَّةٌ وَ وَتِرَاتٌ اُحُدِیَّةٌ کَانَتْ عَلَیْهَا قُلُوبُ اَلنِّفَاقِ مُکْتَمِنَةً لِاِمْکَانِ اَلْوُشَاةِ فَلَمَّا اُسْتَهْدَفَ اَلْاَمْرُ اَرْسَل اِلَیْنَا شَآبِیبَ اَلْآثَارِ مِنْ مَخِیلَةِ اَلشِّقَاقِ وَقَطَعُ وَتَرَ اَلْاِیمَانِ مِنْ قِسِیِّ صُدُورِهَا وَ یَئِسَ عَلَی مَا وُعِدَ مِنَ حِفْظِ اَلرِّسَالَةِ وَ کَفَالَةِ اَلْمُؤْمِنِینَ، اَحْرَزُوا عَائِدَتَهُمْ غُرُورَ اَلدُّنْیَا بَعْدَ اِنْتِصَارٍ مِمَّنْ فَتَکَ بِآبَائِهِمْ فِی مَوَاطِنِ اَلْکَرْبِ وَ مَنَازِلِ اَلشَّهَادَاتِ.
میں نے اس حال میں
صبح کی کہ اپنے آپ کو دو عظیم صدموں کے درمیان محسوس کرتی ہوں۔ میرا جگر اپنے والد کی وفات سے داغ داغ ہے اور وہ
خون کی مانند ہو چکا ہے، وصی رسول پر لوگوں کے
مظالم کو دیکھ کر میرے
دل سے شعلے اٹھ رہے ہیں۔
خدا کی قسم! ان لوگوں نے امیرالمومنین ؑ کے مقام کی توہین کی اور امیر المومنین نے اس حالت میں صبح کی ہے کہ ان سے مقام
خلافت چھینا جا چکا ہے۔ ان لوگوں نے
کتاب اللہ اور سنت پیغمبر کی مخالفت کی ہے اور اس انحراف کا سبب یہ ہے کہ ان لوگوں کے سینے
جنگ بدر و
احد کے کینوں سے بھرے ہوئے تھے۔
علیؑ نے ان جنگوں میں ان لوگوں کے رشتہ داروں اور بھائیوں کو قتل کیا تھا۔ ان کے دلوں میں وہی انتقام کی
آگ جلتی رہی اور اب انہوں نے علیؑ کو خلافت سے محروم کر کے اپنے تئیں اس کا انتقام لے لیا ہے۔
وفاتِ پیغمبر اکرمؐ کے بعد ان کا تیر صحیح نشانے پر لگا اور ان کے پوشیدہ کینے کھل کر سامنے آ گئے، انہوں نے ہمیں اپنے انتقام کا ہدف قرار دے دیا ہے اور انہوں نے کچھ
مفسدین اور چغل خور قسم کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر ہم سے دشمنی کی ہے۔ ان لوگوں نے ایمان کی رسی کو پارہ پارہ کر دیا اور کمان
ایمان سے ایمان کے چلے کو قطع کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنے
عمل سے سید الرسل کی
رسالت اور امیرالمومنین ؑ کی
کفالت پر ٹھوکر ماری ہے۔ ان لوگوں نے صرف
دنیا کے فوائد کا تحفظ کیا ہے۔ انہوں نے علیؑ کے استغاثہ پر کوئی توجہ نہیں کی کیونکہ علیؑ نے ان کے آباؤ اجداد اور بھائی بندوں کو
جنگوں میں ہلاک کیا تھا۔
[ترمیم]
عائشہ بنت طلحہ نے فاطمہؑ کو روتے دیکھا تو کہا: آپ کیوں رو رہی ہیں؟! فرمایا:کیا میری ناتوانی کے بارے میں پوچھ رہی ہو؛ ایسی ناتوانی و کمزوری جو پرندے کو بے بال و پر کر دیتی ہے اور راہ چلتے کو گرا دیتی ہے؟! ۔۔۔ قطعا قبیلہ
تیم و
عدی کے وہ دو مرد (عمر و ابوبکر)
ابو الحسن کے ساتھ مقابلے پر اتر آئے تھے، (جب عاجز ہوئے) اور ان کی جان حلق میں اٹک گئی تو دل میں ان کا کینہ رکھ لیا اور اپنےاندرونی راز کو آشکار کر دیا، پس جب
دین کا نور خاموش ہوا اور پیغمبر امین کی
روح کے طائر نے اس دنیا سے پرواز کی تو ان دونوں نے اپنا غصہ اور گرمی نمایاں کر دی اور حملے و بغاوت کا آغاز کر دیا۔ ہاں، ان دونوں نے
فدک پر قبضہ کیا، آہ! کس طرح اس کے مالک بن گئے! وہ خدائے عظیم کا اپنے باوفا پیغمبر کو عطیہ تھا، بتحقیق آنحضرت نے فدک اپنی اور میری نسل کے گرسنہ بچوں کو بخشا تھا اور یہ علمِ الہی اور اس کے
امین کی شہادت کی بنیاد پر تھا۔ پس اگر ان دونوں نے میرے اس ذریعہ
معاش کو
غصب کر لیا ہے اور اس لقمے کو مجھ سے چھین لیا ہے تو اس کا حساب روزِ قیامت پر اٹھا رکھتی ہوں اور اسے اپنے پروردگار کے تقرب کا سبب سمجھتی ہوں، یقینا اور بلا شک و تردید اس کو کھانے والے
جہنم کے جلتے شعلوں کا مزہ چکھیں گے۔
[ترمیم]
ابوبکر و
عمر، زہرائے مرضیہؑ کی عیادت کو آئے، مگر آپ نے انہیں گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ ابوبکر نے قسم اٹھائی کہ اس وقت تک میرے اوپر کسی سائبان کا سایہ نہیں ہو گا جب تک بنت پیغمبر کے پاس جا کر ان کی رضامندی حاصل نہ کر لوں۔ لہٰذا
بقیع چلے گئے تاکہ رات
آسمان تلے گزاریں۔ عمر امیر المومنینؑ کے پاس آئے اور کہا: ابوبکر نرم دل مرد ہے اور نماز میں بھی رسول خداؐ کا مصاحب رہا ہے، ہم کئی مرتبہ فاطمہؑ کے پاس آئے ہیں مگر انہوں نے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی؛ اگر آپ بہتر سمجھیں تو ان سے اجازت لیں۔
حضرت امیرؑ نے قبول کر لیا اور اپنی پاکیزہ
زوجہ کے پاس جا کر
شیخین کی خواہش گوش گزار کی۔ مگر حضرتؑ نے منع کر دیا۔ علی مرتضیٰؑ نے فرمایا: میں ان دونوں کو ملاقات کی ضمانت دے چکا ہوں۔ فاطمہؑ نے فرمایا: یہ گھر آپ کا ہے اور خواتین مردوں کے تابع ہیں، میں کسی بات میں آپ کی مخالفت نہیں کروں گی۔
امیرالمومنین ؑ شیخین کو آپؑ کے حضور لے آئے۔ جب انہوں نے حضرتؑ کو دیکھا تو
سلام کیا، مگر کوئی جواب دریافت نہ کیا۔ ابوبکر نے کہا: اے بنت رسول خدا! ہم آپ کی رضامندی حاصل کرنے آئے ہیں کہ ہم پر غضبناک نہ ہوں اور ہمیں
معاف کر دیں اور جو کچھ ہماری وجہ سے آپ پر گزری ہے، اس سے درگزر فرما دیں۔
صدیقہ کبریٰؑ نے جواب دیا: میں تم سے اس وقت تک کوئی بات نہیں کروں گی جب تک اپنے پدر سے ملاقات نہ کر لوں اور تم دونوں کی آپؐ کے حضور شکایت کروں گی اور میری نسبت تم نے جس کردار و رفتار کا ارتکاب کیا؛ اس کی شکایت کروں گی۔
ابوبکر نے کہا: ہم معذرت کرنے اور آپ کی رضامندی حاصل کرنے آئے ہیں، ہمیں معاف کر دیں، ہمیں بخش دیں اور ہمارے
اعمال کی وجہ سے ہمارا مواخذہ نہ کریں۔
فاطمہؑ نے امیرالمومنین ؑ کی طرف دیکھ کر فرمایا: میں ان دونوں سے حتی ایک کلمہ بھی بات نہیں کروں گی یہاں تک کہ یہ رسول خداؐ سے سنی ہوئی ایک حدیث کا نہ پوچھ لوں، اگر انہوں نے میری تصدیق کی تو میری رائے دیکھ لیں گے۔
ان دونوں نے کہا: پوچھیں، ہم حق کے سوا کچھ نہیں کہیں گے۔
فاطمہ اطہرؑ نے شیخین کو مخاطب کر کے کہا: تمہیں خدائے یکتا کی
قسم دیتی ہوں، کیا رسول خدا ؐ کو تم نے یہ فرماتے سنا تھا کہ:
فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّی وَ اَنَا مِنْهَا فَمَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانِی وَ مَنْ آذَانِی فَقَدْ آذَی اَللَّهَ وَ مَنْ آذَاهَا بَعْدَ مَوْتِی کَانَ کَمَنْ آذَاهَا فِی حَیَاتِی وَ مَنْ آذَاهَا فِی حَیَاتِی کَانَ کَمَنْ آذَاهَا بَعْدَ مَوْتِی.
فاطمہ، میری لخت جگر ہے اور میں اس سے ہوں؛ جو اس کو تکلیف دے اس نے مجھے تکلیف دی اور جو مجھے تکلیف دے، اس نے اللہ کو تکلیف دی؛ جس نے اسے میری
موت کے بعد تکلیف دی، وہ اس کی مانند ہے جس نے میری زندگی میں تکلیف دی اور جس نے اسے میری زندگی میں تکلیف دی، وہ اس کی مانند ہے جس نے میری موت کے بعد تکلیف دی۔
شیخین نے کہا: خدا کی قسم! سنا ہے۔
زہراؑ نے فرمایا: خدایا! گواہ رہنا، ان دونوں نے مجھے تکلیف دی، خدا کی قسم! اب تم سے کوئی بات نہیں کروں گی یہاں تک کہ اپنے پروردگار سے ملاقات کروں اور تمہاری اور تمہارے کاموں کی اس کے سامنے شکایت کروں۔
ابوبکر نے فریاد بلند کی اور کہا: کاش میری
ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا۔
عمر نے کہا: بیچاری عوام، جس نے تجھے اپنا حکمران بنا لیا ہے جبکہ تو بوڑھا اور مخبوط الحواس ہو چکا ہے، ایک عورت کی ناراضگی پر روتا ہے اور اس کی رضامندی پر خوش ہوتا ہے!
ابوبکر نے کہا: میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس کے غضب سے اور تیرے غضب سے اے فاطمہ!
بی بی دو عالم نے فرمایا: خدا کی قسم! ہر
نماز کے بعد تمہارے لیے بد دعا کروں گی۔
[ترمیم]
عباس بن عبد المطلب زہراؑ کی عیادت کیلئے تشریف لائے۔ بتایا گیا: وہ بستر پر اس طرح سے دراز ہیں کہ کسی کا ان کے پاس جانا روا نہیں ہے۔ عباس واپس چلے گئے اور امیرالمومنین ؑ کو پیغام بھیجا: حبیبہ رسول خداؐ کا رنج و غم دیکھ کر میں اس قدر غم زدہ ہوا ہوں کہ عاجز و درماندہ ہو گیا ہوں۔ میرا گمان ہے کہ وہ ہم سب سے پہلے اپنے پدرِ امجد سے ملحق ہو جائیں گی۔ اگر یہ اجتناب ناپذیر امر ہونے کو ہے تو میں آپ کے سامنے
مہاجرین و
انصار کو جمع کروں گا تاکہ الہٰی پاداش کے حصول کیلئے جنازے میں شریک ہوں، نماز پڑھیں اور اس کام میں
دین کیلئے بھی نیکی و زیبائی ہے۔
امیرالمومنین ؑ نے جواب بھجوایا کہ: آپ کی ہمدردی اور مشورے کی قدر دانی کرتا ہوں، آپ کی رائے کو بہتر جانتا ہوں مگر فاطمہؑ ابھی تک مظلومہ ہیں، ان کا حق چھینا گیا ہے، ان کے بارے میں رسول اللہؐ کی
وصیت کا خیال نہیں رکھا گیا اور نہ ان کے بارے میں خدا و رسول کے حق کی رعایت کی گئی ہے۔ اللہ کافی ہے کہ وہ اس کا فیصلہ کرے گا اور ظالموں سے انتقام لے گا۔
اے چچا! میں چاہتا ہوں کہ اس بات پر چشم پوشی کریں کہ آپ کے مشورے پر عمل درآمد نہیں کر رہا کیونکہ فاطمہؑ نے مجھے وصیت کی ہے کہ ان کے معاملات کو پوشیدہ رکھوں۔
جب عباس کو یہ خبر ملی تو کہا: میرے بھائی کے بیٹے کی خدا مغفرت کرے اور وہ بخشش کا حامل ہے، میرے بھائی کے بیٹے کی رائے میں اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے؛ کیونکہ عبد المطلب کا نبیؐ کے سوا علیؑ سے زیادہ کوئی بابرکت مولود پیدا نہیں ہوا، علیؑ ہر فضیلت و کرامت میں ان پر سبقت رکھتے ہیں، ہر مسئلے میں سب سے بڑے عالم ہیں، سختیوں میں سب سے بڑے
شجاع ہیں،
توحید کی نصرت کیلئے
دشمنوں کے خلاف
جہاد میں سب سے سخت ہیں اور پہلے فرد ہیں جو خدا و رسول پر ایمان لائے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
از کتاب ’’وفاة الصدیقة الزهراء علیها السلام‘‘، عبد الرزاق المقرم ص ۹۷ تا ۱۰۰۔