حضرت فاطمہؑ کی فریاد

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



ابو جعفر محمد بن جریر بن رستم طبری متوفی سنہ ۳۱۰ہجری چوتھی صدی کے بزرگ شیعہ عالم ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب دلائل الامامۃ میں متعدد اسانید کے ساتھ روایت کیا ہے کہ: جب ابوبکر نے فاطمہؑ کو فدک سے بے دخل کر دیا اور آپ کے عامل کو وہاں سے نکال دیا تو صدیقہ اطہر نے سر پر مقنعہ ڈالا اور اپنی کچھ خادماؤں اور بنی ہاشم کی خواتین کے جھرمٹ میں مسجد نبوی کی طرف تشریف لے گئیں۔ قدم اس طرح رکھ رہی تھیں گویا رسول اللہ قدم رکھ رہے ہوں، مسجد تک پہنچیں۔ ابوبکر منبر رسول پر بیٹھے تھے اور مہاجرین و انصار ان کے گرد جمع تھے۔
صدیقہ کبریٰ نے فرمایا کہ آپ کے سامنے ایک پردہ لگا دیا جائے۔ اس کے بعد ایسی گریہ و زاری کی کہ سب رونے لگے۔ پھر کچھ دیر کیلئے ساکت ہو گئیں تاکہ لوگ بھی خاموش ہو جائیں۔ جب مسجد پرسکون ہو گئی تو ان الفاظ میں اپنے خطبے کا آغاز کیا:۔۔۔


ابوبکر کا طعنہ

[ترمیم]

صدیقہ اطہرؑ کے ارشادات کے بعد ابوبکر نے ندا دی کہ لوگ نماز جماعت کیلئے جمع ہوں۔ پھر منبر پر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے بعد کہا:
اے لوگو! یہ کیا ہے کہ ہر بات پر جلدی سے کان دھر لیتے ہو، اگر یہ آرزوئیں رسول اللہ کے زمانے میں تھیں تو جس نے سنا ہو، وہ کہے اور جس نے دیکھا ہو تو بات کرے، (پھر عربی زبان کا ایک گھٹیا محاورہ استعمال کرتے ہوئے یہ تشبیہ دی کہ) ’’لومڑ کا گواہ اس کی دم ہے‘‘، یہ ہر فتنے کی جڑ ہے، یہ کہتا ہے کہ لوگ حق وحقیقت کو پانے کے بعد زمانہ جاہلیت کی طرف پلٹ گئے ہیں، یہ بچوں (حسن وحسینؑ) سے مدد لے رہے ہیں اور عورتوں سے نصرت مانگ رہے ہیں، جس طرح امّ طحال (زمانہ جاہلیت کی فاحشہ عورت) کے گھر والوں کو اس کی بدچلنی سب سے زیادہ پسند تھی!
آگاہ ہو جاؤ کہ اگر میں چاہتا تو کہتا اور اگر کہتا تو تم مبہوت ہو کر رہ جاتے، لیکن میں اس وقت خاموشی اختیار کر رہا ہوں۔
پھر انصار کی طرف متوجہ ہو کر کہا:
” اے گروہ انصار! تم لوگوں میں سے بعض احمقوں کی گفتگومجھ تک پہنچی ہے حالانکہ رسول اللہ کے عہد پر کاربند رہنے کے تم سب سے زیادہ سزاوار ہو، کیونکہ وہ تمہارے پاس آئے اور تم نے انہیں پناہ دی اور آپؐ کا ساتھ دیا۔
آگاہ ہو جاؤ، میں ہاتھ اور زبان سے کسی ایسے شخص کی حمایت نہیں کروں گا جو اس مقام خلافت کو ہمارا استحقاق نہیں سمجھے گا،
[۲] شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۴، ص۸۰۔
اس کے باوجود کل جا کر بیت المال سے اپنا حصہ وصول کر لو۔
[۳] دلائل الامامۃ، ان جریر ص۳۹۔


ام سلمہ کا جواب

[ترمیم]

ان ’’اشباہ الرجال‘‘ نامردوں میں صرف ایک شیر دل خاتون کھڑی ہوئیں کہ جنہیں‌ام سلمہ کہتے تھے۔ آپ رسول خداؐ کی زوجہ تھیں اور آپؐ کے خاندان سے وافر محبت رکھتی تھیں۔ آپ نے فرمایا:
کیا فاطمہؑ جیسی شخصیت کے بارے میں ایسی باتیں کی جا سکتی ہیں، وہ جو انسانی شکل میں حور ہیں، جن کی پرورش انبیاء کی امہات کے دامن میں ہوئی ہے، آپؑ کو ملائکہ کی تائید حاصل ہے اور پاکیزہ خاندان میں پروان چڑھی ہیں۔
کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ رسول اللہ نے آپؑ کو میراث سے محروم کر دیا جبکہ انہیں یہ بات نہیں بتائی حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاَنذِرۡ عَشِیرَتَکَ ٱلۡاَقۡرَبِینَ اور پیغمبر آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے۔
کیا آپؐ نے انہیں انذار کر دیا تھا کہ وہ اب آ کر مطالبہ کر رہی ہیں (یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ) وہ تمام خواتین سے بہتر ہیں، بہشت کے جوانوں کے سردار کی ماں ہیں، مریم بنت عمران کے پائے کی ہیں، سینکڑوں برس کے بے مثل شجاع کی زوجہ ہیں، نبوت آپؑ کے پدر پر ختم ہوئی، آپؑ ہرگز ایسا نہیں کر سکتیں۔ خدا کی قسم، ان کے پدر ان سے ایسی محبت کرتے تھے کہ انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچنے دیتے تھے، اپنے دائیں ہاتھ کو ان کا تکیہ قرار دیتے تھے اور بائیں ہاتھ کو ان پر سائبان بنا دیتے تھے، ابھی تک رسول خدا تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں، تو تم ان کی دختر کے ساتھ ایسا سلوک کر رہے ہو، تم خدا کی طرف پلٹائے جاؤ گے اور اپنے کرتوتوں کا مزہ چکھو گے، کیا تم رسول اللہ کا یہ فرمان بھول چکے ہو کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کی موسیٰ سے تھی؟! اور یہ فرمان کہ میں تمہارے میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں؟! کتنی تیزی سے تم نے بدعتیں اختیار کر لیں اور کتنی جلدی اپنے پیمان کو توڑ دیا۔
زہرائے اطہرؑ کا دفاع کرنے کے سبب‌ام سلمہ کو ایک سال تک بیت المال کے وظیفے سے محروم رکھا گیا۔
[۴] دلائل الامامۃ، ان جریر ص۳۹۔


فاطمہؑ کا امیرالمومنین ؑ سے کلام

[ترمیم]

یَا اِبْنَ اَبِی طَالِبٍ، اِشْتَمَلْتَ مَشِیمَةَ اَلْجَنِینِ، وَ قَعَدْتَ حُجْرَةَ اَلظَّنِینِ؟! نَقَضْتَ قَادِمَةَ اَلْاَجْدَلِ، فَخَانَکَ رِیشُ اَلْاَعْزَلِ، هَذَا اِبْنُ اَبِی قُحَافَةَ قَدِ اِبْتَزَّنِی نَحِیلَةَ اَبِی وَ بَلِیغَةَ اِبْنَیَّ، وَ اَللَّهِ لَقَدْ جَدَّ فِی ظُلاَمَتِیَ، وَ اَلَدَّ فِی خِصَامِی، حَتَّی مَنَعَتْنِی قَیْلَةُ نَصْرَهَا، وَ اَلْمُهَاجِرَةُ وَصْلَهَا، وَ غَضَّتِ اَلْجَمَاعَةُ دُونِی طَرْفَهَا، فَلاَ مَانِعَ وَ لاَ دَافِعَ، خَرَجْتُ وَ اَللَّهِ کَاظِمَةً، وَ عُدْتُ رَاغِمَةً، اَضْرَعْتَ خَدَّکَ یَوْمَ اَضَعْتَ جِدَّکَ اِفْتَرَشْتَ اَلتُّرَابَ وَ اِفْتَرَسْتَ اَلذِّئَابَ مَا کَفَفْتَ قَائِلاً وَ لاَ اَغْنَیْتَ بَاطِلاً، لَیْتَنِی مِتُّ قَبْلَ هِینَتِی وَ دُونَ ذِلَّتِی، عَذِیرِیَ اَللَّهُ مِنْکَ عَادِیاً وَ لِی حَامِیاً. وَیْلاَیَ فِی کُلِّ شَارِقٍ، مَاتَ اَلْعَمَدُ وَ وَهَنَتِ اَلْعَضُدُ وَ شَکْوَایَ اِلَی رَبِّی وَ عُدْوَایَ اِلَی اَبِی. اَللَّهُمَّ اَنْتَ اَشَدُّ قُوَّةً وَ حَوْلاً، وَ اَحَدُّ بَاْساً وَ تَنْکِیلاً.
[۵] مناقب ابن شھر آشوب، ج۱، ص۳۸۲۔

اے فرزند ابو طالب! آپ ایک جنین کی طرح پردہ نشین ہو گئے اور ایک متہم کی طرح سے گھر میں بیٹھ رہے۔ آپ نے شاہبازوں کے پر توڑے ہیں اور اب کمزور پرندوں کے پر آپ سے خیانت کرنے لگے ہیں۔
یہ ابو قحافہ کا بیٹا میرے والد کے ہبہ اور میرے بچوں کا رزق مجھ سے چھین رہا ہے اور اس نے کھل کر مجھ سے دشمنی کی ہے اور میں نے اسے اپنا بدترین دشمن پایا ہے۔ اب ہماری مظلومیت کی یہ حالت ہے کہ انصار نے اپنی مدد ہم سے روک لی ہے، مہاجرین نے ہم سے تعلقات منقطع کر لیے ہیں اور لوگوں نے ہماری مدد سے چشم پوشی اختیار کر لی ہے۔ اب نہ تو کوئی دفاع کرنے والا ہے اور نہ ہی کوئی روکنے والا ہے۔ میں اپنے غصے کو ضبط کر کے گھر سے گئی تھی اور ستم رسیدہ بن کر واپس آئی ہوں۔
آپ نے اسلام کی مصلحت کی خاطر جس دن سے تلوار نیام میں کر لی، اس دن سے اپنے آپ کو خانہ نشین بنا لیا، اس سے قبل آپ بھیڑیوں کو پھاڑا کرتے تھے اور اب کیوں خاک نشین بن گئے۔ آپ نے کسی بداندیش گفتگو کرنے والے کو نہ روکا اور کسی باطل کو دور نہ کیا جبکہ میرے تو اختیار میں کچھ نہیں ہے۔
ہائے یہ کتنا سخت دن ہے، کاش! اس توہین و تذلیل سے قبل مجھے موت آ جاتی، میرا پشت پناہ اللہ ہے جو اس سے غضبناک ہو اور آپؑ کی حمایت کرے، ہر صبح میرے اوپر آفتیں نازل ہو رہی ہے، ہر شام مجھ پر آفتیں پڑ رہی ہیں، ہمارا سہارا اس دنیا سے چلا گیا اور بازو کمزور ہو گیا۔ میں والد کی خدمت میں اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی شکایت کروں گی اور اپنے اوپر ہونے والے ستم کی فریاد رب کے حضور کروں گی۔
اے پروردگار! تو ہی سب سے زیادہ قوت و طاقت رکھنے والا ہے اور تیرا عذاب اور تیری سزا سب سے زیادہ سخت ہے۔

امیرالمومنین ؑ کا جواب

[ترمیم]

امیرالمومنین ؑ نے اپنی مظلومہ زوجہ کے جواب میں فرمایا:
لاَ وَیْلَ لَکِ بَلِ اَلْوَیْلُ لِشَانِئِکِ نَهْنِهِی عَنْ وَجْدِکِ یَا بُنَیَّةَ اَلصَّفْوَةِ وَ بَقِیَّةَ اَلنُّبُوَّةِ فَوَ اللہِ مَا وَنَیْتُ عَنْ دِینِی وَ لاَ اَخْطَاْتُ مَقْدُورِی فَاِنْ کُنْتِ تُرِیدِینَ اَلْبُلْغَةَ فَرِزْقُکِ مَضْمُونٌ وَ کَفِیلُکِ مَاْمُونٌ وَ مَا اُعِدَّ لَکِ خَیْرٌ مِمَّا قُطِعَ عَنْکِ فَاحْتَسِبِی اَللَّهَ.
فَقَالَتْ حَسْبِیَ اَللَّهُ وَ نِعْمَ اَلْوَکِیلُ.
[۶] مناقب ابن شھر آشوب، ج۱، ص۳۸۲۔

آفتیں نازل ہوں آپ کے دشمن اور بدخواہ پر، نہ آپ پر اے خدا کے مصطفیٰ و خاتم الانبیاء کی دختر! غم نہ کیجئے اور رنج و افسردگی کو خود سے دور کیجئے۔ میں نے اپنی شرعی ذمہ داریاں انجام دینے میں کوتاہی نہیں کی ہے اور جو کچھ میرے بس میں تھا؛ میں نے اس میں کوئی سستی نہیں کی ہے، اگر آپ آئندہ کی روزی کا سوچ رہی ہیں تو یقین رکھیں کہ یہ روزی آپ تک پہنچے گی اور جو کچھ فدک کے بدلے خدائے عظیم نے آپ کو عطا فرمایا ہے، اس سے کہیں زیادہ ہے جو آپ سے چھین لیا گیا ہے۔ اس لیے خدائے مہربان پر امید رکھیں اور وہی کافی ہے۔
زہراؑ نے جواب دیا: خدا میرے لیے کافی ہے اور وہ بہترین وکیل ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. حضرت زہراؑ کا خطبہ فدک۔    
۲. شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۴، ص۸۰۔
۳. دلائل الامامۃ، ان جریر ص۳۹۔
۴. دلائل الامامۃ، ان جریر ص۳۹۔
۵. مناقب ابن شھر آشوب، ج۱، ص۳۸۲۔
۶. مناقب ابن شھر آشوب، ج۱، ص۳۸۲۔


ماخذ

[ترمیم]

از کتاب ’’وفاة الصدیقة الزهراء علیها السلام‘‘، عبد الرزاق المقرم ص ۸۲ تا ۹۲۔    






جعبه ابزار