حضرت فاطمہؑ کے اسماء

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



رسول خداؐ نے آپ کو خدا تعالیٰ کی جانب سے فاطمہ کا نام دیا۔ فاطمہ، ’’فَطَمَ‘‘ سے اسم فاعل مؤنث ہے کہ جس کا معنی جدا کرنا اور دور کرنا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے بہت سے اسماء و القاب ہیں، جن میں سے زیادہ مشہور طاھرہ، بتول اور زھراء ہیں۔ یہ القاب آپؑ کے بے شمار کمالات میں سے بعض کی حکایت کرتے ہیں۔ اگر ہم ان اسماء و القاب کے عالی مفاہیم اور عمیق معارف میں غور و خوض کریں تو ہم حضرت فاطمہ زہراؑ کی زیادہ بہتر انداز میں معرفت حاصل کر سکتے ہیں۔


اسم فاطمہؑ کی وجہ تسمیہ

[ترمیم]

اس باشرف نام کی وجہ تسمیہ متعدد احادیث میں نقل ہوئی ہے کہ منجملہ چند روایات نقل کرتے ہیں:
یونس بن خلبیان، امام صادقؑ سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا:
لِفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ تِسْعَةُ أَسْمَاءَ عِنْدَ اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَاطِمَةُ وَ اَلصِّدِّيقَةُ وَ اَلْمُبَارَكَةُ وَ اَلطَّاهِرَةُ وَ اَلزَّكِيَّةُ وَ اَلرَّاضِيَةُ وَ اَلْمَرْضِيَّةُ وَ اَلْمُحَدَّثَةُ وَ اَلزَّهْرَاءُ. ثُمَّ قَالَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَ تَدْرِي أَيُّ شَيْءٍ تَفْسِيرُ فَاطِمَةَ قُلْتُ أَخْبِرْنِي يَا سَيِّدِي. قَالَ فُطِمَتْ مِنَ اَلشَّرِّ قَالَ ثُمَّ قَالَ لَوْ لاَ أَنَّ أَمِيرَ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ تَزَوَّجَهَا لَمَا كَانَ لَهَا كُفْوٌ إِلَى يَوْمِ اَلْقِيَامَةِ عَلَى وَجْهِ اَلْأَرْضِ آدَمُ فَمَنْ دُونَهُ.
[۱] بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۰، ح۱۔

فاطمہ، صاحب عزت و جلال خدا کی بارگاہ میں نو أسماء کی حامل ہیں: فاطمہ، صدیقہ (انتہائی سچی) مبارکہ، طاھرہ، زکیہ (پاکیزہ)، راضیہ (جو خدا سے راضی ہے)، مرضیہ (جس سے خدا راضی ہے)، محدثہ (جس سے ملائکہ بات کرتے ہوں) اور زھرا۔
پھر فرمایا: کیا جانتے ہو کہ فاطمہ کی تفسیر کیا ہے؟!
یونس نے کہا: نہیں جانتا۔
فرمایا: کیونکہ مفطوم (منقطع) از شر ہے۔
پھر فرمایا: اگر امیر المومنین نہ ہوتے تو روزِ قیامت تک روئے زمین پر آدم یا بعد والوں میں سے کوئی بھی فاطمہؑ کا ہم رتبہ نہ ہوتا۔
دیگر روایات میں حضرت فاطمہؑ کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں آیا ہے کہ:
لِأَنَّهَا فُطِمَتْ هِيَ وَ شِيعَتُهَا مِنَ اَلنَّارِ.
[۲] بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۴، ح۱۰۔

کیونکہ آپؑ اور آپؑ کے شیعوں کو آتش جہنم سے روک لیا گیا ہے۔
لَقَدْ فَطَمَهَا اَللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى بِالْعِلْمِ وَ عَنِ اَلطَّمْثِ بِالْمِيثَاقِ.
[۳] بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۳، ح۹۔

خدا کی قسم، اللہ تبارک تعالیٰ نے آپؑ کی دودھ چھڑائی علم سے کی اور میثاق میں آپؑ سے ظاہری و معنوی پلیدیوں کو منقطع کیا ہے۔
امام رضاؑ اپنے آبا و اجداد سے نقل کرتے ہوئے امیر المومنینؑ سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے انہیں فرمایا:
سُمِّيَتْ فَاطِمَةَ لِأَنَّ اَللَّهَ فَطَمَهَا وَ ذُرِّيَّتَهَا مِنَ اَلنَّارِ مَنْ لَقِيَ اَللَّهَ مِنْهُمْ بِالتَّوْحِيدِ وَ اَلْإِيمَانِ بِمَا جِئْتُ بِهِ.
[۴] بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۸، ح ۱۳۔

فاطمہ کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ خدا انہیں اور ان کی اولاد کو آگ سے نجات دے چکا ہے بشرطیکہ وہ اللہ کی بارگاہ میں توحید اور میری لائی ہوئی چیزوں پر ایمان کے ساتھ حاضر ہوں۔
پیغمبر خداؐ نے فرمایا:
إِنَّمَا سَمَّيْتُ اِبْنَتِي فَاطِمَةَ لِأَنَّ اَللَّهَ فَطَمَهَا وَ فَطَمَ مُحِبِّيهَا عَنِ اَلنَّارِ.
[۵] بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۵، ح ۱۲۔

میری بیٹی کو فاطمہ اس وجہ سے نام دیا گیا ہے کہ خدا نے اس کا اور اس کے محبین کا ناطہ آگ سے منقطع کر دیا ہے۔
شَقَّ اَللَّهُ لَكِ يَا فَاطِمَةُ اِسْماً مِنْ أَسْمَائِهِ فَهُوَ اَلْفَاطِرُ وَ أَنْتِ فَاطِمَةُ.
[۶] بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۵، ح ۱۳ کے ذیل میں۔

اے فاطمہ، خدا نے تیرے ایک نام کو اپنے اسما سے مشتق کیا ہے، وہ فاطر (خالق) ہے اور تو فاطمہ ہے۔

اسم طاھرہ کی وجہ تسمیہ

[ترمیم]

امام باقرؑ اپنے آباء سے نقل فرماتے ہیں:
إِنَّمَا سُمِّيَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ اَلطَّاهِرَةَ لِطَهَارَتِهَا مِنْ كُلِّ دَنَسٍ وَ طَهَارَتِهَا مِنْ كُلِّ رَفَثٍ وَ مَا رَأَتْ قَطُّ يَوْماً حُمْرَةً وَ لاَ نِفَاساً.
[۷] بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۱۹، ح ۲۰۔

یقینا فاطمہ بنت محمد کو ان کی ہر پلیدی سے پاکیزگی اور ہر بد کلامی سے دوری کی وجہ سے طاھرہ کا نام دیا گیا ہے حتی انہوں نے ایک دن بھی سرخی (حیض) اور نفاس نہیں دیکھا۔
یہ وجہ تسمیہ بھی زہرائے مرضیہؑ کے بارے حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ خدا جانتا تھا کہ کچھ لوگ پیغمبرؐ کے بعد الہٰی امامت و خلافت کے مقام میں طمع ورزی کریں گے، اس لیے پیغمبر اکرمؐ کو حکم دیا گیا کہ اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رکھیں اور فرمایا کہ آپؑ سے طیب اولاد پیدا ہو گی کہ جو آنحضرتؐ کے جانشین ہوں گے اور ان سوداگروں کی امید کو منقطع کر دیں گے۔
[۸] علل الشرائع ، ص۷۰، باب ۱۴۲؛ بحار الانوار، ص۴۳، ص۱۳، ح ۷۔


بتول کی وجہ تسمیہ

[ترمیم]

امیر المومنینؑ فرماتے ہیں: رسول خداؐ سے پوچھا گیا کہ بتول کا معنی کیا ہے؟! کیونکہ ہم نے سنا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: مریم و فاطمہ بتول ہیں۔ فرمایا:
بتول وہ ہے: اَلْبَتُولُ اَلَّتِي لَمْ تَرَ حُمْرَةً قَطُّ أَيْ لَمْ تَحِضْ فَإِنَّ اَلْحَيْضَ مَكْرُوهٌ فِي بَنَاتِ اَلْأَنْبِيَاءِ.
[۹] بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۵، ح ۱۳۔

بتول وہ ہے جو کبھی سرخی (خون حیض) نہ دیکھے؛ یعنی حائض نہ ہو؛ کیونکہ حیض انبیاء کی بیٹیوں کیلئے شائستہ نہیں ہے۔
ابن اثیر نہایہ میں کہتے ہیں: بتول وہ خاتون ہے جو مردوں سے منقطع ہو اور شہوت نہ رکھتی ہو۔ یہ لقب مریم مادرِ عیسیٰؑ کا تھا اور فاطمہؑ کو اس وجہ سے بتول کہا گیا کہ اپنے عصر کی خواتین سے فضیلت، تقویٰ اور نسب کے اعتبار سے منقطع اور ممتاز تھیں۔ اسی طرح کہا گیا ہے کہ یہ لقب فاطمہؑ کے دنیا سے انقطاع اور سرمدی مبدأ کے ساتھ اتصال کی وجہ سے ہے۔ اسی سے ملتی جلتی بات فیروز آبادی نے قاموس اللغۃ میں ذکر کی ہے۔
جی ہاں، صدیقہ کبریٰ کی ہر طرح کے رجس و پلیدی سے ظاہری پاکیزگی کا ہدف آپؑ کی باطنی طہارت تھی تاکہ آپ ایسے پاکیزہ و معصوم آئمہ علیھم السلام کی ماں بنیں کہ جن میں سوئی کی نوک کے برابر ناپاکی و آلودگی نہیں ہے۔

زھرا کی وجہ تسمیہ

[ترمیم]

’’زَھَرَ‘‘ کا معنی چمکنا ہے اور صدیقہ کبریٰ
[۱۰] یہ لقب مناقب ابن شہر آشوب، ج۲، ص۱۱۲ کی روایت میں بیان ہوا ہے۔
اس وجہ سے زھرا کے لقب سے معروف ہوئیں کہ آپ کے محجوب چہرے کا نور عالم پر ساطع ہوتا تھا اور عوالمِ وجود کو روشن کرتا تھا؛ چنانچہ حدیث میں اس کی وجہ تسمیہ یہ نقل ہوئی ہے کہ:
إِذَا قَامَتْ فِي مِحْرَابِهَا زَهَرَ نُورُهَا لِأَهْلِ اَلسَّمَاءِ كَمَا يَزْهَرُ نُورُ اَلْكَوَاكِبِ لِأَهْلِ اَلْأَرْضِ
[۱۱] بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۲، ح۶۔

آپ جب محراب عبادت میں قیام فرماتی تھیں تو آپ کا نور اہل آسمان کیلئے اس طرح ضوفشانی کرتا تھا جیسے ستاروں کا نور اہل زمین کیلئے چمکتا ہے۔

← شیخ صدوقؒ کی روایت


شیخ صدوقؒ امام رضاؑ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا:
كَانَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا اَلسَّلاَمُ إِذَا طَلَعَ هِلاَلُ شَهْرِ رَمَضَانَ يَغْلِبُ نُورُهَا اَلْهِلاَلَ وَ يَخْفَى فَإِذَا غَابَتْ عَنْهُ ظَهَرَ.
جب ماہ رمضان کا ہلال نمودار ہوا تو فاطمہؑ ایک مقام پر کھڑی تھیں، آپ کے وجود کا نور ایسے تھا کہ ہلال پر غلبہ کر رہا تھا اور اسے نگاہوں سے مخفی کر رہا تھا (ستاروں کی مانند کہ خورشید طلوع ہونے کے بعد نمایاں نہیں ہوتے) اور جب وہاں سے چلی گئیں تو چاند ظاہر ہوا۔

← ابان بن تغلب کا سوال


ایک اور حدیث میں ابان بن تغلب نے امام صادقؑ سے سوال کیا: اے فرزند رسول! کیوں زہراؑ کو زھرا کا نام دیا گیا؟!
امامؑ فرماتے ہیں:
لِأَنَّهَا تَزْهَرُ لِأَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فِي اَلنَّهَارِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ بِالنُّورِ كَانَ يَزْهَرُ نُورُ وَجْهِهَا صَلاَةَ اَلْغَدَاةِ وَ اَلنَّاسُ فِي فِرَاشِهِمْ فَيَدْخُلُ بَيَاضُ ذَلِكَ اَلنُّورِ إِلَى حُجُرَاتِهِمْ بِالْمَدِينَةِ فَتَبْيَضُّ حِيطَانُهُمْ فَيَعْجَبُونَ مِنْ ذَلِكَ فَيَأْتُونَ اَلنَّبِيَّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ فَيَسْأَلُونَهُ عَمَّا رَأَوْا فَيُرْسِلُهُمْ إِلَى مَنْزِلِ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ فَيَأْتُونَ مَنْزِلَهَا فَيَرَوْنَهَا قَاعِدَةً فِي مِحْرَابِهَا تُصَلِّي وَ اَلنُّورُ يَسْطَعُ مِنْ مِحْرَابِهَا مِنْ وَجْهِهَا فَيَعْلَمُونَ أَنَّ اَلَّذِي رَأَوْهُ كَانَ مِنْ نُورِ فَاطِمَةَ فَإِذَا اِنْتَصَفَ اَلنَّهَارُ وَ تَرَتَّبَتْ لِلصَّلاَةِ زَهَرَ نُورُ وَجْهِهَا عَلَيْهَا السَّلاَمُ بِالصُّفْرَةِ فَتَدْخُلُ اَلصُّفْرَةُ فِي حُجُرَاتِ اَلنَّاسِ فَتُصَفِّرُ ثِيَابَهُمْ وَ أَلْوَانَهُمْ فَيَأْتُونَ اَلنَّبِيَّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ فَيَسْأَلُونَهُ عَمَّا رَأَوْا فَيُرْسِلُهُمْ إِلَى مَنْزِلِ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ فَيَرَوْنَهَا قَائِمَةً فِي مِحْرَابِهَا وَ قَدْ زَهَرَ نُورُ وَجْهِهَا صَلَوَاتُ اَللَّهِ عَلَيْهَا وَ عَلَى أَبِيهَا وَ بَعْلِهَا وَ بَنِيهَا بِالصُّفْرَةِ فَيَعْلَمُونَ أَنَّ اَلَّذِي رَأَوْا كَانَ مِنْ نُورِ وَجْهِهَا فَإِذَا كَانَ آخِرُ اَلنَّهَارِ وَ غَرَبَتِ اَلشَّمْسُ اِحْمَرَّ وَجْهُ فَاطِمَةَ فَأَشْرَقَ وَجْهُهَا بِالْحُمْرَةِ فَرَحاً وَ شُكْراً لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَكَانَ تَدْخُلُ حُمْرَةُ وَجْهِهَا حُجُرَاتِ اَلْقَوْمِ وَ تَحْمَرُّ حِيطَانُهُمْ فَيَعْجَبُونَ مِنْ ذَلِكَ وَ يَأْتُونَ اَلنَّبِيَّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ يَسْأَلُونَهُ عَنْ ذَلِكَ فَيُرْسِلُهُمْ إِلَى مَنْزِلِ فَاطِمَةَ فَيَرَوْنَهَا جَالِسَةً تُسَبِّحُ اَللَّهَ وَ تُمَجِّدُهُ وَ نُورُ وَجْهِهَا يَزْهَرُ بِالْحُمْرَةِ فَيَعْلَمُونَ أَنَّ اَلَّذِي رَأَوْا كَانَ مِنْ نُورِ وَجْهِ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ اَلنُّورُ فِي وَجْهِهَا حَتَّى وُلِدَ اَلْحُسَيْنُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَهُوَ يَتَقَلَّبُ فِي وُجُوهِنَا إِلَى يَوْمِ اَلْقِيَامَةِ فِي اَلْأَئِمَّةِ مِنَّا أَهْلَ اَلْبَيْتَ إِمَامٍ بَعْدَ إِمَامٍ
[۱۲] بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۷، ح ۱۶۔

اس لیے کہ زھراؑ کا جمال مبارک دن میں تین مرتبہ امیر المومنینؑ کیلئے روشن و منور ہوتا تھا۔ نماز صبح کے وقت جب لوگ سو رہے ہوتے تھے، آپؑ کا نور جلوہ گر ہو جاتا تھا۔ اس نور کی سفیدی لوگوں کے کمروں میں داخل ہو جاتی تھی اور ان کے گھروں پر سفید نور چھا جاتا تھا۔ وہ اس امر سے تعجب کرتے تھے اور پیغمبرؐ کی خدمت میں پہنچ کر اس روشنی کی وجہ پوچھتے تھے۔ حضرتؐ انہیں فاطمہؑ کے گھر کی طرف بھیج دیتے۔
آپؑ کے گھر آتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ آپ مصلائے عبادت پر تشریف فرما ہو کر نماز ادا کر رہی ہیں اور محراب میں آپ کے چہرے سے نور ساطع ہو رہا ہے۔ پس سمجھ جاتے جو انہوں نے دیکھا ہے، وہ نور فاطمہؑ ہے۔
جب دن ڈھل جاتا اور آپ نماز کیلئے آمادہ ہوتیں تو آپ کے چہرے کا نور زرد رنگ میں ضو فشاں ہو جاتا اور یہ نور لوگوں کے حجروں میں داخل ہو کر ان کے لباس اور رنگ زردی مائل کر دیتا۔ پیغمبرؐ کی خدمت میں آتے اور اپنے مشاہدے کے بارے میں سوال کرتے۔ پیغمبر انہیں فاطمہ (آپ، آپ کے شوہر، آپ کے بچوں اور والد پر درود و سلام ہو) کے بیت کی طرف بھیج دیتے، آپ کے گھر پہنچتے تو معلوم پڑتا کہ آپ محراب نماز میں کھڑی ہیں اور آپ کے چہرے کا نور زردی مائل ہے۔ پس متوجہ ہو جاتے کہ جو کچھ دیکھا ہے وہ فاطمہ کے چہرے کا نور ہے۔
جب دن ختم ہو جاتا اور سورج غروب ہو جاتا تو فاطمہؑ کا چہرہ سرخی مائل ہو کر دمکنے لگتا اور یہ پھولوں جیسی سرخی صاحب عزت و جلال خدا کے شکر میں مسرت و سرور کی وجہ سے تھی۔ یہ سرخی مائل نور اہل مدینہ کے حجروں میں داخل ہو جاتا اور ان کے صحن اور احاطے اس رنگ میں رنگے جاتے۔ رسول خداؐ کے پاس جاتے اور اس کا سبب پوچھتے۔ حضرت انہیں فاطمہؑ کے گھر بھیج دیتے۔ جب یہاں آتے تو دیکھتے کہ دختر پیغمبر تشریف فرما ہو کر خدا کی تسبیح و تقدیس بجا لا رہی ہیں اور آپ کا چہرہ سرخ رنگ کے نور سے دمک رہا ہے۔ پس جان جاتے کہ جو کچھ دیکھا ہے وہ فاطمہ کے چہرے کا نور تھا۔
پس یہ نور مسلسل آپ کے چہرے میں رہا یہاں تک کہ حسینؑ کی ولادت ہوئی (اور ان میں منتقل ہو گیا) اور وہ نور ہم اہل بیت کے چہروں میں روز قیامت تک (امام بعد از امام) جلوہ گر ہوتا رہے گا۔
خاندان رسالت کی عظیم بانو سے یہ امر تعجب کا باعث نہیں ہے؛ کیونکہ آپ کے وجود کا نور اللہ تعالیٰ کے نور (وجود) سے تشکیل پایا ہے اور آپ کے چہرے میں تھا، وہ چہرہ جو آپ کے پدر گرامی محمد مصطفیؐ سے مشابہت رکھتا تھا۔
[۱۳] کشف الغمہ، ص۱۴۲۔

تکلم فرماتیں تو سامعین کو پیغمبر کا لہجہ اور کلام سنائی دیتا۔
[۱۴] ذخائر العقبیٰ، محب طبری، ص۴۱؛ مستدرک حاکم ، ج ۳، ص۱۵۴۔
چلتے وقت اپنے پدر کی مانند (کچھ دیر دائیں جانب کا رخ کرتے ہوئے اور کچھ دیر بائیں طرف کا) قدم رکھتی تھیں۔
[۱۵] مناقب ابن شھر آشوب، ج ۲، ص۱۱۲۔

صادق آل محمدؑ فرماتے ہیں:
سُمِّيَتْ اَلزَّهْرَاءَ لِأَنَّ نُوْرَهَا اشتُقَّ مِنْ نُورِ عَظَمَةِ اللهِ سبحانہ ولما أشرق نورھا غَشِيَ أَبْصَارَ اَلْمَلاَئِكَةِ فَخَرُّوا الی اللَّهِ سُجَّداً وَ قَالُوا: إِلَهَنَا وَ سَيِّدَنَا مَا هَذَا اَلنُّورُ؟ فَأَوْحَى اَللَّهُ إِلَيْهِمْ: هَذَا نُورٌ مِنْ نُورِي، أَسْكَنْتُهُ فِي سَمَائِي، وَ أَخْرَجتُهُ مِنْ صُلْبِ نَبِيٍّ مِنْ أَنْبِيَائِي، أُفَضِّلُهُ عَلَى جَمِيعِ الأَنْبِیَاء، وَ أُخْرِجُ مِنْ ذَلِكَ اَلنُّورِ أَئِمَّةً يَقُومُونَ بِأَمْرِي وَ يَهْدُونَ إِلَى حَقِّي، أَجْعَلُهُمْ خُلَفَاءَ فِي أَرْضِي بَعْدَ اِنْقِضاءِ اَلْوَحْيِ.
[۱۶] المحتضر، حسن بن سلیمان، ص۱۳۳، طبع نجف۔

زھراؑ کو اس وجہ سے زھرا کا نام دیا گیا کیونکہ آپ کا نور (تخلیق) خدائے سبحان کے نور عظمت سے مشتق ہوا ہے؛ جب آپ (فاطمہؑ در عالم قدس) کا نور روشن ہوا تو ملائکہ کی آنکھیں شدت کے باعث چندھیا گئیں، پس وہ خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو گئے اور کہنے لگے: اے ہمارے معبود و آقا! یہ نور کیا ہے؟!
خدا نے انہیں وحی کی کہ یہ میرے نور (وجود) کا (تخلیق کردہ) نور ہے کہ جسے میں نے اپنے آسمان میں سکونت دی ہے۔ میں اسے اپنے ایک پیغمبر (جو ان میں سے برترین ہیں) کی صلب سے باہر (کی دنیا میں) بھیجوں گا اور اس نور سے ایسے آئمہؑ کو پیدا کروں گا جو میرے امر کو قائم کریں گے اور میری حقانیت کی طرف ہدایت دریں گے اور اپنی وحی منقطع ہونے کے بعد انہیں زمین پر اپنا جانشین قرار دوں گا۔

← عباس بن مطلب کا سوال


سلمان فارسی کہتے ہیں: میں پیغمبرؐ کے پاس مسجد میں بیٹھا تھا کہ عباس بن مطلب (حضرت کے چچا) تشریف لائے اور آپؐ کو سلام کیا۔ رسول خداؐ نے جواب دیا اور انہیں مرحبا کہا۔ عباس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کس وجہ سے خدا نے علی بن ابی طالبؑ کو ہم خاندان والوں پر برتری دی ہے جبکہ سب ایک ہی معدن و سرچشمے سے ہیں؟!
پیغمبرؐ نے جواب میں فرمایا:ٓ
إِذاً أُخْبِرَكَ يَا عَمِّ إِنَّ اَللَّهَ خَلَقَنِي وَ خَلَقَ عَلِيّاً وَ لاَ سَمَاءَ وَ لاَ أَرْضَ وَ لاَ جَنَّةَ وَ لاَ نَارَ وَ لاَ لَوْحَ وَ لاَ قَلَمَ فَلَمَّا أَرَادَ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ بَدْوَ خَلْقِنَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ فَكَانَتْ نُوراً ثُمَّ تَكَلَّمَ كَلِمَةً ثَانِيَةً فَكَانَتْ رُوحاً فَمَزَجَ فِيمَا بَيْنَهُمَا وَ اِعْتَدَلاَ فَخَلَقَنِي وَ عَلِيّاً مِنْهُمَا ثُمَّ فَتَقَ مِنْ نُورِي نُورَ اَلْعَرْشِ فَأَنَا أَجَلُّ مِنَ اَلْعَرْشِ ثُمَّ فَتَقَ مِنْ نُورِ عَلِيٍّ نُورَ اَلسَّمَاوَاتِ فَعَلِيٌّ أَجَلُّ مِنَ اَلسَّمَاوَاتِ ثُمَّ فَتَقَ مِنْ نُورِ اَلْحَسَنِ نُورَ اَلشَّمْسِ وَ مِنْ نُورِ اَلْحُسَيْنِ نُورَ اَلْقَمَرِ فَهُمَا أَجَلُّ مِنَ اَلشَّمْسِ وَ اَلْقَمَرِ وَ كَانَتِ اَلْمَلاَئِكَةُ تُسَبِّحُ اَللَّهَ تَعَالَى وَ تَقُولُ فِي تَسْبِيحِهَا سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ مِنْ أَنْوَارٍ مَا أَكْرَمَهَا عَلَى اَللَّهِ تَعَالَى فَلَمَّا أَرَادَ اَللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَبْلُوَ اَلْمَلاَئِكَةَ أَرْسَلَ عَلَيْهِمْ سَحَاباً مِنْ ظُلْمَةٍ وَ كَانَتِ اَلْمَلاَئِكَةُ لاَ تَنْظُرُ أَوَّلَهَا مِنْ آخِرِهَا وَ لاَ آخِرَهَا مِنْ أَوَّلِهَا فَقَالَتِ اَلْمَلاَئِكَةُ إِلَهَنَا وَ سَيِّدَنَا مُنْذُ خَلَقْتَنَا مَا رَأَيْنَا مِثْلَ مَا نَحْنُ فِيهِ فَنَسْأَلُكَ بِحَقِّ هَذِهِ اَلْأَنْوَارِ إِلاَّ مَا كَشَفْتَ عَنَّا فَقَالَ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ عِزَّتِي وَ جَلاَلِي لَأَفْعَلَنَّ فَخَلَقَ نُورَ فَاطِمَةَ اَلزَّهْرَاءَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ يَوْمَئِذٍ كَالْقِنْدِيلِ وَ عَلَّقَهُ فِي قُرْطِ اَلْعَرْشِ فَزَهَرَتِ اَلسَّمَاوَاتُ اَلسَّبْعُ وَ اَلْأَرَضُونَ اَلسَّبْعُ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ سُمِّيَتْ فَاطِمَةُ اَلزَّهْرَاءَ وَ كَانَتِ اَلْمَلاَئِكَةُ تُسَبِّحُ اَللَّهَ وَ تُقَدِّسُهُ فَقَالَ اَللَّهُ وَ عِزَّتِي وَ جَلاَلِي لَأَجْعَلَنَّ ثَوَابَ تَسْبِيحِكُمْ وَ تَقْدِيسِكُمْ إِلَى يَوْمِ اَلْقِيَامَةِ لِمُحِبِّي هَذِهِ اَلْمَرْأَةِ وَ أَبِيهَا وَ بَعْلِهَا وَ بَنِيهَا.
[۱۷] بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۷، ح ۱۶۔

پھر اس بارے میں آپ کو آگاہ کرتا ہوں، اے عمو جان! خدا نے مجھے اور علی کو خلق کیا جبکہ اس وقت نہ آسمان تھا اور نہ زمین، نہ بہشت و دوزخ کا وجود تھا اور نہ ہی لوح و قلم تھے۔ پھر صاحب عزت و جلال خدا کی مشیت ہماری تخلیق سے متعلق ہوئی، ایک کلمے سے تکلم کیا ، جو نور بن گیا، پھر ایک اور کلمہ کہا جو نسیم ہو گئی۔ پھر ان دونوں کو آپس میں مخلوط کر دیا، یوں کہ برابر ہو گئے، مجھے اور علی کو ان دونوں سے خلق کیا۔ پھر میرے نور کو کھولا اور اس سے عرش کا نور نکالا؛ لہٰذا میں عرش سے بڑا ہوں۔ نور علی کو بھی شق کیا اور اس سے آسمانوں اور زمین کا نور جدا کیا۔ پس علی آسمانوں سے عظیم ہیں، پھر نور حسن میں شگاف کیا اور اس سے خورشید کا نور علیٰحدہ کیا؛ اور نور حسین میں شگاف کیا، اس سے چاند کا نور نکالا۔ پس وہ دونوں سورج اور چاند سے زیادہ عظمت رکھتے ہیں۔
اس دوران ملائکہ خدا کی تسبیح بجا لا رہے تھے اور اپنی ہر تسبیح میں کہہ رہے تھے: خدایا! ان انوار کی تخلیق پر ہم تیری تسبیح و تقدیس کرتے ہیں ؛ یہ انوار اللہ کی بارگاہ میں کتنے زیادہ باکرامت ہیں۔
جب خدائے متعال نے ارادہ فرمایا کہ ملائکہ کا امتحان لے تو ان پر تاریک بادل سایہ فگن کر دیا، یہاں تک کہ ان میں سے آگے والے پچھلوں کو نہیں دیکھ سکتے تھے اور نہ پچھلے اگلوں کو! انہوں نے کہا: اے ہمارے معبود و آقا، جب سے تو نے ہمیں خلق کیا ہے، ہم نے ایسا نور نہیں دیکھا تھا، پس تجھے ان انوار کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتے ہیں کہ ہمیں رہائی عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم، ایسا ہی کروں گا۔ پھر نور فاطمہ زہراؑ کو خلق کیا اور اسے قندیل کی مانند عرش کے ایک گوشے میں آویزاں کر دیا۔ پس ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں منور ہو گئیں۔ اس وجہ سے فاطمہؑ کو زہرا کا نام دیا گیا۔
ملائکہ خدا کی تسبیح و تقدیس میں مشغول ہو گئے۔ خدا نے فرمایا: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم، تمہاری تسبیح و تقدیس کا ثواب قیامت کے دن تک اس بانو، اس کے پدر، شوہر اور بچوں کے محبین کیلئے قرار دوں گا۔
سلمان حدیث میں مزید کہتے ہین: عباس مسجد سے نکل گئے اور علی بن ابی طالبؑ سے ملاقات کی اور انہیں آغوش میں لے کر آپؑ کی دونوں آنکھوں کے مابین بوسہ دیا اور کہا: میرا باپ عترتِ مصطفیٰ پر قربان ہو، آپ کا خاندان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کس قدر منزلت اور کرامت کا حامل ہے!

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۰، ح۱۔
۲. بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۴، ح۱۰۔
۳. بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۳، ح۹۔
۴. بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۸، ح ۱۳۔
۵. بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۵، ح ۱۲۔
۶. بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۵، ح ۱۳ کے ذیل میں۔
۷. بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۱۹، ح ۲۰۔
۸. علل الشرائع ، ص۷۰، باب ۱۴۲؛ بحار الانوار، ص۴۳، ص۱۳، ح ۷۔
۹. بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۵، ح ۱۳۔
۱۰. یہ لقب مناقب ابن شہر آشوب، ج۲، ص۱۱۲ کی روایت میں بیان ہوا ہے۔
۱۱. بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۲، ح۶۔
۱۲. بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۷، ح ۱۶۔
۱۳. کشف الغمہ، ص۱۴۲۔
۱۴. ذخائر العقبیٰ، محب طبری، ص۴۱؛ مستدرک حاکم ، ج ۳، ص۱۵۴۔
۱۵. مناقب ابن شھر آشوب، ج ۲، ص۱۱۲۔
۱۶. المحتضر، حسن بن سلیمان، ص۱۳۳، طبع نجف۔
۱۷. بحار الانوار، ج ۴۳، ص۱۷، ح ۱۶۔


ماخذ

[ترمیم]

ماخوذ از کتاب ’’وفاة الصدیقة الزهراء علیها السلام‘‘، عبد الرزاق المقرم۔    






جعبه ابزار