حضرت محمدؐ اور حضرت خدیجہؑ کا عقد

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



شیعہ سنی روایات کے مطابق حضرت ابوطالبؑ نے جناب خدیجہؑ کے گھر جا کر اپنے بھتیجے محمدؐ کی طرف سے خواستگاری کا پیغام دیا۔ دونوں خاندانوں کی رضامندی کے بعد حضرت ابوطالبؑ نے ہی خطبہ عقد بھی جاری کیا۔


پیغمبرؐ اور حضرت خدیجہؑ کے نکاح خوان

[ترمیم]

شیعہ سنی روایات کے مطابق حضرت ابوطالبؑ خدیجہ کی خواستگاری کیلئے گئے اور آپ نے خود خطبہ عقد جاری کیا۔ ہم یہاں شیعہ سنی مصادر سے چند روایات نقل کریں گے۔

← شیعہ مصادر


مرحوم شیخ صدوقؒ نے کتاب من لا یحضره الفقیه میں تحریر کیا ہے:
وَ خَطَبَ اَبُو طَالِبٍ رَحِمَهُ اللَّهُ لَمَّا تَزَوَّجَ النَّبِیُّ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) خَدِیجَةَ بِنْتَ خُوَیْلِدٍ رَحِمَهَا اللَّهُ بَعْدَ اَنْ خَطَبَهَا اِلَی اَبِیهَا وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَقُولُ اِلَی عَمِّهَا فَاَخَذَ بِعِضَادَتَیِ الْبَابِ وَ مَنْ شَاهَدَهُ مِنْ قُرَیْشٍ حُضُورٌ فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی جَعَلَنَا مِنْ زَرْعِ اِبْرَاهِیمَ وَ ذُرِّیَّةِ اِسْمَاعِیلَ وَ جَعَلَ لَنَا بَیْتاً مَحْجُوجاً وَ حَرَماً آمِناً یُجْبی اِلَیْهِ ثَمَراتُ کُلِّ شَیْ ءٍ وَ جَعَلَنَا الْحُکَّامَ عَلَی النَّاسِ فِی بَلَدِنَا الَّذِی نَحْنُ فِیهِ ثُمَّ اِنَ ابْنَ اَخِی مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا یُوزَنُ بِرَجُلٍ مِنْ قُرَیْشٍ اِلَّا رَجَحَ وَ لَا یُقَاسُ بِاَحَدٍ مِنْهُمْ اِلَّا عَظُمَ عَنْهُ وَ اِنْ کَانَ فِی الْمَالِ قَلَّ فَاِنَّ الْمَالَ رِزْقٌ حَائِلٌ وَ ظِلٌّ زَائِلٌ وَ لَهُ فِی خَدِیجَةَ رَغْبَةٌ وَ لَهَا فِیهِ رَغْبَةٌ وَ الصَّدَاقُ مَا سَاَلْتُمْ عَاجِلُهُ وَ آجِلُهُ مِنْ مَالِی وَ لَهُ خَطَرٌ عَظِیمٌ وَ شَاْنٌ رَفِیعٌ وَ لِسَانٌ شَافِعٌ جَسِیمٌ فَزَوَّجَهُ وَ دَخَلَ بِهَا مِنَ الْغَدِ فَاَوَّلُ مَا حَمَلَتْ وَلَدَتْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَمَّدٍ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم).
حضرت ابوطالبؑ نے نبی کریمؐ کیلئے حضرت خدیجہؑ کے والد اور بعض لوگوں کے مطابق ان کے چچا سے حضرت خدیجہؑ کا رشتہ مانگنے کے بعد درِ کعبہ کے دونوں پٹوں کو تھام کر یہ خطبہ دیا:
اس خدا کی حمد ہے کہ جس نے ہمیں ابراہیم کی نسل اور اسماعیل کی ذریت سے قرار دیا اور ہمارے لیے ایک ایسا گھر قرار دیا کہ جس کے گرد لوگ طواف کریں نیز اسے ایسا امن والا حرم قرار دیا کہ دنیا بھر سے نعمتیں اس کی طرف لائی جاتی ہیں اور ہمیں اپنے شہر میں لوگوں کا فرمانروا قرار دیا ہے، پھر فرمایا: یہ میرا بھتیجا محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہے، اس کا موازنہ قریش کے کسی مرد سے نہیں کیا جائے گا مگر یہ کہ اس سے برتری پائے گا اور اس کا کسی سے قیاس نہیں ہو گا مگر یہ کہ اس سے عظیم ہو گا۔ اگرچہ تھوڑا مال رکھتا ہے (تو یہ نقص نہیں ہے) کیونکہ مال کا حصہ پائیدار نہیں رہتا اور یہ ایسا سایہ ہے جو زود گزر ہے، اب یہ خدیجہ کے ساتھ تزویج میں راغب ہے اور خدیجہ بھی اس میں رغبت رکھتی ہے، جو کچھ حق مہر ہے وہ میرے ذمہ ہو گا خواہ معجل یا فوری؛ اس کا مرتبہ عظیم ہے، شان بلند ہے ۔۔۔ پھر انہوں نے آپؐ کا عقد کر دیا۔ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد پیغمبرؐ کے ہاں سب سے پہلے عبداللَّه بن محمّد کی ولادت ہوئی۔
یہ روایت بہت سی دیگر شیعہ کتب منجملہ:
الکافی، و رسالة فی المهر،
[۳] مفید، محمد بن محمد، رسالة فی المهر، ص۲۹۔
و عوالی اللئالی، میں منقول ہے۔

← اہل سنت مصادر


بہت سے اہل سنت علما نے بھی ابوطالبؑ کے خطبہ عقد کی روایت کو نقل کیا ہے؛ منجملہ آلوسی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وقد صح ان ابا طالب یوم نکاح النبی صلی الله علیه وسلم خطب بمحضر رؤساء مضر. وقریش فقال: الحمد لله الذی جعلنا من ذریة ابراهیم وزرع اسماعیل وضئضیء معد وعنصر مضر وجعلنا حضننة بیته وسواس حرمه وجعل لنا بیتا محجوجا وحرما آمنا وجعلنا الحکام علی الناس ثم ان ابن اخی هذا محمد بن عبدالله لا یوزن برجل الا رجح به فان کان فی المال قل فان المال ظل زائل وامر حائل ومحمد من قد عرفتم قرابته وقد خطب خدیجة بنت خویلد وبدل لها من الصداق ما آجله وعاجله من مالی کذا وهو والله بعد هذا له نبا عظیم وخطر جلیل.
یہ مطلب درست ہے کہ ابوطالبؑ نے پیغمبرؐ کے نکاح کے وقت قبیلہ مضر اور قریش کے سردارون کی موجودگی میں یہ خطبہ دیا ۔۔۔۔ :
مشہور اہل سنت مفسر اور ادیب زمخشری لکھتے ہیں:
حضر ابو طالب نکاح رسول الله صلی الله علیه وسلم خدیجة رضی الله عنها، ومعه بنو‌هاشم ورؤساء مضر، فقال الحمد لله الذی جعلنا من ذریة ابراهیم وزرع اسماعیل، وضئضئی معد وعنصر مضر، ...
ابوطالب رسول خدا اور حضرت خدیجہ کے عقد کے وقت موجود تھے۔ اس وقت بنی ہاشم اور مکہ کے سردار بھی ان کے ہمراہ تھے، ابوطالب نے کہا: اس خدا کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں ابراہیم کی اولاد میں سے قرار دیا ۔۔۔ ۔
اسی طرح مبرد نے الکامل میں لکھا ہے:
خطبة لابی طالب:
وخطب ابو طالب بن عبد المطلب لرسول الله صلی الله علیه وسلم فی تزوجه خدیجة بنت خویلد (رحمة‌الله‌علیه) ا، فقال؛ الحمد لله الذی جعلنا من ذریة ابراهیم وزرع اسماعیل، ...
اور آخر میں کہتے ہیں:
وهذه الخطبة من اقصد خطب الجاهلیة. یعنی یہ خطبہ جاہلیت کے خطبوں میں سے بہترین معانی کا حامل ہے۔
اسی طرح بہت سے اہل سنت علما نے یہی خطبہ نقل کیا ہے۔ ہم اختصار کے پیش نظر صرف ان کے حوالوں پر اکتفا کریں گے: تاریخ ابن خلدون، باب المولد الکریم وبدء الوحی و اعجاز القرآن،
[۱۰] باقلانی، باب المولد الکریم وبدء الوحی و اعجاز القرآن، ص۱۵۳۔
تفسیر البحر المحیط، تاریخ الیعقوبی، امتاع الاسماع، سبل الهدی والرشاد، السیرة الحلبیه، تاج العروس، جمهرة خطب العرب فی عصور العربیة الزاهره، المستطرف فی کل فن مستظرف، نثر الدر، وغیرہ۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. صدوق، محمّد بن علی، من لا یحضره الفقیه، ج۳، ص۳۹۷۔    
۲. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۵، ص۳۷۴ - ۳۷۵۔    
۳. مفید، محمد بن محمد، رسالة فی المهر، ص۲۹۔
۴. ابن ابی‌جمهور، عوالی اللئالی، ج۳، ص۲۹۸۔    
۵. آلوسی، شهاب‌الدین، تفسیر الآلوسی، ج۱۸، ص۵۱۔    
۶. زمخشری، جارالله، ربیع الابرار، ج۵، ص۲۵۶۔    
۷. زمخشری، جارالله، الکشاف عن حقائق التنزیل وعیون الاقاویل، ج۱، ص۴۳۵۔    
۸. مبرد، محمد بن یزید، الکامل فی اللغة والادب، ج۴، ص۴۔    
۹. ابن‌خلدون، عبدالرحمن بن محمد، تاریخ ابن خلدون، ج۳، ص۵۔    
۱۰. باقلانی، باب المولد الکریم وبدء الوحی و اعجاز القرآن، ص۱۵۳۔
۱۱. ابی‌حیان الاندلسی، محمد بن یوسف، تفسیر البحر المحیط، ج۳، ص۱۱۰۔    
۱۲. یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۲۰۔    
۱۳. مقریزی، تقی‌الدین، امتاع الاسماع، ج۶، ص۲۹۔    
۱۴. صالحی شامی، محمد بن یوسف، سبل الهدی والرشاد، ج۲، ص۱۶۵۔    
۱۵. حلبی، ابوالفرج، السیرة الحلبیه، ج۱، ص۲۰۱۔    
۱۶. زبیدی، مرتضی، تاج العروس، ج۱، ص۳۱۴۔    
۱۷. احمد زکی صفوت، جمهرة خطب العرب فی عصور العربیة الزاهرة، ج۱، ص۷۷۔    
۱۸. ابشیهی، شهاب‌الدین محمد بن احمد ابی الفتح، المستطرف فی کل فن مستظرف، ج۱، ص۴۵۸۔    
۱۹. الآبی، ابوسعد، نثر الدر، ج۱، ص۲۷۴۔    


ماخذ

[ترمیم]
موسسه ولی‌عصر، ماخوذ از مقالہ «چه کسی خطبه عقد حضرت خدیجه و رسول خدا (علیهما السلام) را خواند؟»۔    






جعبه ابزار