حلال
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
لفظِ حلال
حرام کے مقابلے میں استعمال کیا جاتا ہے۔
شرعی اعتبار سے اس کا مطلب ایک شیء کا
جائز ہونا ہے۔
[ترمیم]
ہر وہ عمل جو
شرع اور
عقل کے اعتبار سے جائز ہو اس کو حلال سے تعبیر کیا جاتا ہے؛ اس عمل کا تعلق جسم و بدن سے بھی ہو سکتا ہے اور کلام و زبان سے بھی، اسی طرح عمل قلبی و ذہنی بھی ہو سکتا ہے اور اعتقادی و فکری بھی۔
[ترمیم]
فقہاء نے حلال کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے:
۱۔ وہ فعل اور عمل جس میں کسی قسم کی
مصلحت اور
فساد نہیں پایا جاتا، جیسے بدن کی بعض حرکات و سکنات، یا بعض باتین اور کلام۔
۲۔ وہ فعل و عمل جس میں مصلحتِ ملزمہ مفسدہِ ملزمہ کے ساتھ اور مصلحتِ غیر ملزمہ مفسدہِ غیر ملزمہ کے ساتھ جمع ہو جائے اس طرح سے کہ کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دی جا سکے۔
پہلی قسم کو حلال لا اقتضائی کہتے ہیں جبکہ دوسری قسم کو حلال اقتضائی نام دیا گیا ہے۔
[ترمیم]
شارع کی جانب سے ہر وہ عمل یا قول جس کے
حرام ہونے یا
واجب ہونے پر کسی قسم کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے واقعی طور بر حلال ہے۔ لہذا اگر کسی عمل یا قول کے حلال ہونے میں
شک پیدا ہو جائے تو چونکہ اس کے بارے میں ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل موجود نہیں ہے جو اس عملِ مشکوک کے
حرام ہونے پر دلالت کرے تو وہ عمل یا قول حلال قرار پائے گا۔ اسی طرح اگر دلیل مجمل و مبہم ہو یا دو لیلیں آپس میں ٹکرا جائیں تو اس اصل پر علتِ ظاہری جاری ہو گی۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، ج۳،ص ۳۶۶۔