حکومت انبیاء

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



حکومت، خداوند متعال کا حق ہے جو اس جہان ہستی اور انسان کا خالق، مربی اور مالک ہے۔ انسانوں پر حکومت کرنا اور ان کی مدیریت کرنا مطلقاً خدا کا حق ہے۔ کسی انسان کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انسانوں پر حکمرانی کرے مگر یہ کہ خدا یہ حق اسے عطا کرے جیسا کہ انبیاء الہی و اولیاء الہی(علیہم السلام) کی ہستیاں ہیں۔


حق حکومت اور انبیاء الہی

[ترمیم]

انبیاء الہی(علیہم السلام) کو لوگوں پر حکومت کرنے اور ان کے مابین فیصلہ کرنے کا حق اللہ تعالی کی طرف سے حاصل ہے:
كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ...؛ «لوگ ایک ہی دین (فطرت) پر تھے، (ان میں اختلاف رونما ہوا) تو اللہ نے بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے اور ان میں اختلاف بھی ان لوگوں نے کیا جنہیں کتاب دی گئی تھی حالانکہ ان کے پاس صریح نشانیاں آچکی تھیں، یہ صرف اس لیے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے، پس اللہ نے اپنے اذن سے ایمان لانے والوں کو اس امر حق کا راستہ دکھایا جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔۔
مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُواْ عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللّهِ...؛ «کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ تو اسے کتاب، حکمت اور نبوت عطا فرمائے پھر وہ لوگوں سے کہے: اللہ کی بجائے میرے بندے بن جاؤ بلکہ (وہ تو یہ کہے گا) جو تم (اللہ کی) کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور جو کچھ پڑھتے ہو اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم سچے ربانی بن جاؤ۔»

← آیت کی تفسیر



←← بشر سے مراد


کلمہ بشر مترادف کلمہ انسان ہے۔ اس کا اطلاق مفرد پر بھی ہوتا ہے اور جمع پر بھی اس لیے ایک انسان بھی بشر ہے اور انسانوں کی جماعت کو بھی بشر کہا جا سکتا ہے۔

←← ما کان لبشر سے مراد


اس آیت کے جملہ (ما کان لبشر...) میں حرف لام ملکیت کا معنی میں ہے جس کا ترجمہ یہ ہوگا: کوئی بھی پیغمبر اس طرح سے مالک اور صاحب اختیار نہیں ہو سکتا یعنی اس طرح کا عمل وہ انجام دے ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ باطل عمل ہے۔ آیت (ما یکون لنا ان نتکلم بهذا) میں بھی حرف لام اسی معنی میں وارد ہوئی ہے۔

←← ان یوتیه الله الکتاب سے مراد


(ان یوتیه الله الکتاب و الحکم و النبوة) یہ پورا جملہ کان کا اسم ہے۔ اسم ہونے کے علاوہ یہ کہ اگلے جملے (ثم یقول للناس...) کے لیے مقدمہ و تمہید کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس جملہ کو مقدمہ و تمہید کے طور پر ذکر کیا جانا جبکہ اس کے بغیر بھی آیت کا معنی درست و واضح تھا ظاہرا اس لیے ہے کہ جملہ (ما کان لبشر) کے معنی اور اس کی دوسری جہت معلوم رہے اور وہ یہ کہ اگر یوں کہا جاتا: (ما کان لبشر ان یقول۔۔۔۔) (کسی انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ لوگوں سے کہے۔۔۔) تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ خدا کی طرف سے کسی انسان کو یہ حق نہیں دیا گیا جبکہ ممکن ہے وہ اس طرح کی بات خدا کی نافرمانی اور سرکشی کرتے ہوۓ کہے، لیکن جب یوں کہا جاۓ: (ما کان لبشر ان یوتیه الله الكتب و الحكم و النبوة ثم يقول للناس....) (کسی انسان کو حق حاصل نہیں ہے کہ جسے اللہ کتاب و اقتدار اور نبوت عطا کرے تو وہ لوگوں سے کہے۔۔۔۔) تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جب خداوند عالم کسی کو علم اور فقہ سے نوازے اور اسے حقائق سے آگاہی دلاۓ اور آغوش ربانی میں اس کی تربیت کرے تو اسے بندگی کے طور طریقوں کے دائرہ سے باہر جانے نہیں دیتا اور نا ہی اسے یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ جو چاہے انجام دے خواہ وہ اس کا حق نہ بھی ہو! جیسا کہ خداوند عالم نے حضرت عیسی(علیہ السلام) کے تذکرہ میں ارشاد فرمایا: (وَإِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ مِن دُونِ اللّهِ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ)؛ اور (وہ وقت یاد کرو ) جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری والدہ کو خدا بناؤ؟ عیسیٰ نے عرض کی: تو پاک ہے میں ایسی بات کیسے کہ سکتا ہوں جس کا مجھے کوئی حق ہی نہیں؟

←← ایک نکتہ کا بیان


آیت کے اس جملہ (ان یؤتیه الله....) سے ایک اہم نکتہ معلوم ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ یہاں فعل ماضی کی بجاۓ فعل مضارع کا صیغہ استعمال ہوا ہے یعنی ’’اتاہ الله الكتاب...‘‘ کی بجاۓ ’’یؤتیه الله الكتاب‘‘ کہا گیا اور یہ اس لیے ہوا کہ اگر فعل ماضی استعمال کیا جاتا تو آیت کا معنی یوں ہوتا کہ خدا نے کسی نبی کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ لوگوں سے یہ کہے کہ تم خدا کو چھوڑ کر میری بندگی کرو(جبکہ اس طرح کی اجازت دینا ممکن تھا) لیکن فعل مضارع کا صیغہ استعمال کر کے یہ سمجھانا مقصود تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ لوگوں سے کہے کہ تم خدا کو چھوڑ کر میری عبادت کرو۔ یعنی ربانی تربیت اور خدائی ہدایت اپنے مقصد سے تخلف پذیر نہیں ہو سکتی چنانچہ ایک مقام یوں ارشاد الہی ہے:
أُوْلَئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ فَإِن يَكْفُرْ بِهَا هَؤُلاء فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُواْ بِهَا بِكَافِرِينَ؛ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی، اب اگر یہ لوگ ان کا انکار کریں تو ہم نے ان پر ایسے لوگ مقرر کر رکھے ہیں جو ان کے منکر نہیں ہیں۔

←← آیت کے معنی کا حاصل


اس آیت سے یہ معنی سمجھا جاتا ہے کہ کسی انسان کے بس میں نہیں اور اسے یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ ان خدائی نعمتوں یعنی کتاب و اقتدار و نبوت سے بہرہ ور ہو اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اپنی پرستش کی دعوت دے۔ یہ آیت اپنے سیاق و سباق کے حوالے سے درج ذیل آیت کے مشابہ ہے۔
لَّن يَسْتَنكِفَ الْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًا لِّلّهِ وَلاَ الْمَلآئِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيهِ جَمِيعًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ وَيَزيدُهُم مِّن فَضْلِهِ وَأَمَّا الَّذِينَ اسْتَنكَفُواْ وَاسْتَكْبَرُواْ فَيُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا أَلُيمًا وَلاَ يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللّهِ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًا؛ مسیح نے کبھی بھی اللہ کی بندگی کو عار نہیں سمجھا اور نہ ہی مقرب فرشتے (اسے عار سمجھتے ہیں) اور جو اللہ کی بندگی کو عار سمجھتا ہے اور تکبر کرتا ہے اللہ ان سب کو(ایک دن) اپنے سامنے جمع کرے گا پھر ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں کو اللہ ان کا پورا اجر دے گا اور انہیں اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا اور جن لوگوں نے (عبادت کو) عار سمجھا اور تکبر کیا انہیں اللہ دردناک عذاب دے گا اور وہ اپنے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی سرپرست اور نہ کوئی مددگار پائیں گے۔
معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح(علیہ السلام) اور اسی طرح خدا کے مقرب ملائکہ کی شان و منزلت اس سے کہیں بلند تر ہے کہ وہ خدا کی بندگی کو اپنے لیے عار قرار دیں و در نتیجہ عذاب الہی کے مستحق ہو جائیں۔ چونکہ خداوند عالم کی شان سے کہیں دور ہے کہ وہ اپنے اولوالعزم انبیاء یا مقرب ملائکہ کو عذاب دے۔
«اولـئک الذین ءاتینـهم الکتـب والحکم والنبوة...»؛ « یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی، اب اگر یہ لوگ ان کا انکار کریں تو ہم نے ان پر ایسے لوگ مقرر کر رکھے ہیں جو ان کے منکر نہیں ہیں۔»
اس آیت میں «اولئک» كے ذریعے مذکورہ انبیاء کرام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ترجمہ محسن علی نجفی، بقرہ:۲۱۳۔    
۲. ترجمہ محسن علی نجفی، آل عمران:۷۹۔    
۳. ترجمہ محسن علی نجفی، مائدہ:۱۱۶۔    
۴. طباطبائی، محمدحسین، ترجمہ تفسیر المیزان، ج۳، ص۴۳۳ ۴۳۴۔    
۵. ترجمہ محسن علی نجفی، انعام:۸۹۔    
۶. ترجمہ محسن علی نجفی، مائدہ:۱۷۲ ۱۷۳۔    
۷. طباطبائی، محمدحسین، ترجمہ تفسیر المیزان، ج۳، ص۴۳۴ ۴۳۵۔    
۸. انعام/سوره۶، آیه۸۹۔    


ماخذ

[ترمیم]

فرہنگ قرآن، مرکز فرہنگ و معارف قرآن، ماخوذ از مقالہ «حکومت انبیا»۔    



جعبه ابزار