خبث اور حدث
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
شرعِ مقدس
اسلام میں انسان یہ استطاعت اور توان رکھتا ہے کہ وہ
طہارت کی حالت سے نکل آئے اور دوبارہ طہارت حاصل کرنے کا محتاج ہو۔ جب انسان طہارت کی حالت سے باہر آ جاتا ہے تو اس کی دو قسمیں ہمارے سامنے آتی ہیں: ۱۔ نجاستِ ظاہری جسے خبث کہا جاتا ہے، ۲۔ نجاست باطنی جسے حدث کہا جاتا ہے۔ ہر دو سے انسان کو طہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔
[ترمیم]
فقہی اصطلاح کے مطابق ظاہری
نجاست کو خبث کہا جاتا ہے۔ اس نوعِ نجاست سے پاک اور طاہر ہونے کے لیے علم فقہ میں
مطہرات سے بحث کی جاتی ہے جس کے متعلق تفصیلی فقہی مسائل آپ کو رسالہِ عملیہ میں مل جائیں گے۔ بعض نے اس طرح سے ذکر کیا ہے کہ خبث اس نجاست کو کہتے ہیں جو نیت کے بغیر بھی زائل ہو جاتی ہے۔
[ترمیم]
فقہی اصطلاح کے مطابق جب انسان پر باطنی
نجاست طاری ہو تو اس کو حدث کہا جاتا ہے۔ حدث ایسی نجاست ہے جو نیت کے بغیر زائل نہیں ہوتی بلکہ نیت کے ساتھ زائل ہو گی۔ البتہ دقیق نگاہ کے مطابق حدث کو نجاست نہیں کہا جا سکتا بلکہ حدث ایک حالتِ نفسانی ہے جو انسان سے عبادت اور مناجات کی آمادگی اور انجام دہی کو سلب کر لیتی ہے۔ انسان اس وقت دوبارہ سے عبادات کی انجام دہی کا مستحق ہوتا ہے جب وہ باطنی نجاست سے چھٹکارا حاصل کر لے۔
[ترمیم]
نجاست کو پاک کرنے کے اعتبار سے ہمارے پاس دو چیزیں آ جاتی ہیں:
۱. خبث سے پاک ہونا، جیسے غسل کر لینا وغیرہ۔
۲. حدث سے پاک ہونا، وہ چیزیں جو حدث سے انسان کو پاک کرتی ہیں اور عبادات کی انجام دہی کے قابل کر دیتی ہیں تین چیزیں ہیں:
-
وضو،
-
غسل-
تیمّم۔
[ترمیم]
[ترمیم]
كتاب اخلاق، آيت اللہ عبد الله شبر، صفحہ ۵۶۔