خطابات

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



ادواتِ خطاب کے ذریعے مخاطب تک مراد کو پہنچانا خطابات کہلاتا ہے۔


اصطلاح كي وضاحت

[ترمیم]

خطاب کی جمع خطابات آتی ہے۔ لفظِ خِطَاب مصدر ہے جس کے لغوی معنی دو افراد کے درمیان گفتگو کے ہیں۔ بعض نے واضح لکھا ہے کہ خطاب متکلم اور سامع کے درمیان ہونے والے کلام کو کہتے ہیں۔

اسی مناسبت سے الفاظ و ادوات کا سہارا لے کر اس معنی کو آشکار کرنا جو مقصود و مراد ہے خطاب کہلاتا ہے۔ کلام یا ادواتِ خطاب کے ذریعے معنی مقصود کو آشکار کرنے کو خطاب سے تعبیر کیا جاتا ہے، فرق نہیں پڑتا خطاب سے مقصود افہام و تفہیم کا قصد و ارادہ ہو یا کوئی اور انگیزہ ہو، مثلا قانون بنانا۔ بالفاظِ دیگر، خطاب خاص نوعیت کے کلام کو کہتے ہیں جس سے مقصود دوسروں کو اپنی مراد اور گفتگو سمجھانا یا دیگر کوئی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ خطاب ادواتِ خطاب کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

اہم نکات

[ترمیم]

اصولیوں نے خطاب کی تعریف میں مختلف قسم کی عبارتیں تحریر کی ہیں۔
[۶] مغنیۃ، محمد جواد، علم اصول الفقہ فی ثوبہ الجدید، ص۱۱۹۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۲، ص ۱۹۸۔    
۲. فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر، ص ۹۲۔    
۳. سبزواری، سید عبد الاعلی، تہذیب الاصول، ج۱، ص۱۳۸۔    
۴. مجاہد، محمد بن علی، مفاتیح الاصول، ص۱۲۔    
۵. فاضل تونی، عبد الله بن محمد، الوافیۃ فی اصول الفقہ، ص ۱۱۹۔    
۶. مغنیۃ، محمد جواد، علم اصول الفقہ فی ثوبہ الجدید، ص۱۱۹۔
۷. علم الهدی، علی بن حسین، الذریعۃ الی اصول الشریعۃ، ج۱، ص۸۔    
۸. شعرانی، ابو الحسن، المدخل الی عذب المنہل، ص۵۶۔    
۹. سجادی، جعفر، فرہنگ معارف اسلامی، ج۲، ص۸۰۲۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌ نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص ۴۴۸، برگرفتہ از مقالہ خطابات۔    






جعبه ابزار