دلالت تصوری
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
دلالتِ تصوری سے مراد مخاطب کے ذہن میں
لفظ سنتے ساتھ معنی کا ابھر آنا ہے۔ اس کو دلالتِ شانی بھی کہا جاتا ہے۔
[ترمیم]
دلالت تصوری کے مقابلے میں
دلالتِ تصدیقی آتی ہے۔ دلالتِ تصوری سے مراد لفظ کا اپنے وضعی و لغوی معنی پر
دلالت کرنا ہے۔ لفظ کا وضعی معنی وہ ہوتا ہے جس میں لفظ سنتے ساتھ ذہنِ مخاطب میں اس لفظ کا معنی ابھر آئے۔ دلالتِ تصوری کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں لفظ کی معنی پر دلالت اس صورت میں بھی ہو جاتی ہے جب متکلم نے لفظ سے کوئی خاص معنی مراد نہ لیا ہو، بلکہ اگر لفظ انسان سے نہیں بلکہ بادلوں کی کڑک یا پتھروں کی رگڑ سے بھی ایجاد ہو تو اس لفظ کو سنتے ساتھ ذہن میں معنی ابھر آئے گا۔ پس دلالتِ تصوری میں لفظ کی معنی پر دلالت متکلم کے
ارادہ یا اس کی جدّیت کی محتاج نہیں ہے۔ چنانچہ متکلم اگر سو رہا ہے یا بیہوش ہے یا شوخی و مزاح کے موڈ میں ہے یا متکلم نہیں بلکہ کسی اور شیء سے آواز ابھرے تو بھی لفظ سنتے ساتھ اس کا لغوی معنی ذہن میں آ جائے گا۔
[ترمیم]
دلالتِ تصوری کی شرائط
علماء اصول نے بیان کی ہیں جوکہ درج ذیل ہیں:
۱ - لفظ
وضع کیا جانا اور اس کے وجود کا ہونا۔
۲ - معنی کا ہونا جس پر لفظ دلالت کرے، یعنی وہ معنی جس کے لیے لفظ وضع کیا گیا ہے۔ پس لفظ کو
مہمل نہیں ہونا چاہیے۔
۳ - لفظ
استعمال کیا جائے۔
۴ - لفظ سننے سے پہلے اس کے معنی سے آگاہی ہو۔ بالفاظِ دیگر مخاطب کو لفظ کا اس معنی کے لیے وضع ہونے کا علم ہو، کیونکہ اگر سامع لفظ کے وضع ہونے سے جاہل ہے تو لفظ کے سننے سے اس کے ذہن میں کسی قسم کا معنی نہیں ابھرے گا۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگ نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۴۵۷، مقالہِ دلالتِ تصوری سے یہ تحریر لی گئی ہے۔