دلیل عقلی و نقلی میں تعارض

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



دلیلِ عقلی و نقلی میں تعارض سے مراد دلیلِ عقلی اور دلیلِ نقلی کے مدلول کے درمیان تنافی و ٹکراؤ کا ہونا ہے۔


تعریف

[ترمیم]

دلیلِ عقلی و نقلی میں تعارض کا شمار تعارضِ ادلہ کی اقسام میں ہوتا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ دلیلِ عقلی اور دلیلِ نقلی کے مدلول کے درمیان ٹکراؤ و تنافی پایا جائے، مثلا قرآنی آیت میں وارد ہوا ہے: یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیهِمْ، اس آیت کریمہ کا مدلول عقل کے اس حکمِ قطعی سے تنافی و تعارض رکھتا ہے: اللہ تعالی ہاتھ نہیں رکھتا۔ یہاں ضروری ہے کہ ہم دلیلِ نقلی کے ظاہر میں تصرف کریں اور کہیں کہ دستِ الہی سے مراد اس کی قدرت ہے کیونکہ اللہ تعالی جسم نہیں رکھتا، پھلا کیسے اس کے لیے ہاتھ ثابت کیا جا سکتا ہے۔

اسی کی مانند اہل سنت میں قیاس کا خبر واحد سے تعارض ہے۔

حکم

[ترمیم]

اگر دلیلِ عقلی و نقلی میں تعارض ہو اور دونوں میں سے ایک دلیل قطعی ہو تو جو قطعی ہو گی اس کو مقدم کیا جائے گا۔ نیز اگر دونوں دلیلیں ظنی ہوں تو ان میں باب تعارض کے قواعد جاری ہوں گے۔

پہلا نکتہ

[ترمیم]

دلیلِ لفظی قطعی اور دلیلِ عقلی قعطی کے مابین تعارض نہیں ہو سکتا کیونکہ قول معصومؑ کسی صورت میں عقل کے حکمِ قطعی کے مخالف نہیں ہو سکتا۔

دوسرا نکتہ

[ترمیم]

دلیل غیر صریح اور دلیلِ عقلی قطعی کے درمیان تعارض ہو تو دلیلِ عقلی قطعی کو مقدم کیا جائے گا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. فتح/سوره۴۸، آیت ۱۰۔    
۲. فرائد الاصول، انصاری، مرتضی بن محمد امین، ج۱، ص۵۵۔    
۳. دروس فی علم الاصول، صدر، محمد باقر، ج۱، ص۱۴۸۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۳۲۷، مقالہِ تعارض دلیل عقلی و نقلی سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : اصولی اصطلاحات | تعارض ادلہ




جعبه ابزار