سلسلۃ الذھب کی اصطلاح(شیعہ وسنی)

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



اس تحریر میں شیعہ اور اہل سنت کےمابین، اصطلاحِ حدیث سلسلۃ‌ الذهب کے بارے میں موجود اختلاف کو بیان کیا گیا ہے نیز اس حدیث کی شرائط اور وجہ تسمیہ کو بھی ذکر کیا گیا ہے۔


اہل تشیّع اور اہل تسنن کا اصطلاحِ سلسلۃ الذھب میں اختلاف

[ترمیم]

شیعہ امامیہ کے ہاں جو حدیث ،سلسلۃ‌ الذهب کے نام سے معروف ہے وہ اس حدیث سے مختلف ہے جسکو اہل سنت محدّثین سلسلۃ الذھب کےنام سےموسوم کرتے ہیں۔

← اہل سنت کا نظریہ


اہل سنت محدّثین اس حدیث کو سلسلۃ الذھب کہتے ہیں جس کو مالک ،نافع سے اور وہ ابن‌عمر سے،اور ابن عمر رسول اللہؐ سے نقل کرے۔ ابن حجر نے مذکورہ سند سے روایت شدہ تمام روایت کو جمع کرکے ایک رسالہ مرتّب کیا ہے،اسی رسالہ کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: رسالة فیها سبعة واربعون حدیثا رواها الامام الشافعی، عن الامام مالک، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبی صلی الله علیه وسلم، وتسمی: " سلسلة الذهب " نفعنا الله تعالی ببرکتهم.
[۱] ابن‌حجر، احمد بن علی، سلسلة الذهب، ص۷۔

اس رسالے میں ۴۷ روایات ہیں جن کو امام شافعی نے، امام مالک سے ،اس نے نافع سے ،نافع نے ابن عمر سے، اور ابن عمر نے رسول اللہؐ سے نقل کی ہیں اور روایات کے اس مجموعے کو سلسلۃ الذھب کہا جاتا ہے، خدا ہمیں ان راویوں کی برکت سے نفع عطا فرمائے۔
اسی مفہوم کو موطا امام مالک کے مقدمہ میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔
[۲] مالک بن انس، الموطا، ص۲۱۔


← شیعہ محدّثین کا نظریہ


شیعہ علماء کے نزدیک حدیث سلسلۃ الذھب اس حدیث قدسی کو کہا جاتا ہے جسکو بیس ہزار سے زیادہ افراد نے امام رضاؑ سے نقل کی ہے ۔یہ حدیث سند کی عظمت اور شان وشوکت کی وجہ سے سلسلۃ الذھب کے نام سے مشہور ہوئی۔
احمد بن حنبل نے مذکورہ حدیث کی عظمت اور قدر ومنزلت کو یوں بیان کیا ہے کہ یہ حدیث اگر کسی مجنون پر پڑھی جائے تو اسے جنون سے افاقہ مل جائےگا:
حدثنا ابو اسحاق ابراهیم بن عبدالله بن اسحاق المعدل ثنا ابو علی احمد بن علی الانصاری بنیسابور ثنا ابو الصلت عبدالسلام بن صالح الهروی ثنا علی بن موسی الرضا حدثنی ابی موسی بن جعفر حدثنی ابی جعفر بن محمد حدثنی ابی محمد بن علی حدثنی ابی علی بن الحسین بن علی حدثنی ابی علی ابن ابی طالب رضی الله تعالی عنهم حدثنا رسول الله صلی الله علیه وسلم عن جبریل (علیه‌السّلام) قال قال الله (عزّوجلّ) انی انا الله لا اله الا انا فاعبدونی من جاءنی منکم بشهادة ان لا اله الا الله بالاخلاص دخل فی حصنی ومن دخل فی حصنی امن من عذابی هذا حدیث ثابت مشهور بهذاالاسناد من روایة الطاهرین عن آبائهم الطیبین وکان بعض سلفنا من المحدثین اذا روی هذا الاسناد قال لو قریء هذا الاسناد علی مجنون لافاق.
یعنی خداوند متعال نے ارشاد فرمایاکہ:میں ہی اللہ ہوں اور میرے سوا کوئی معبود نہیں،پس میری عبادت اور بندگی کرو،تم میں سے جو بھی میرے پاس آئےاور خلوص کے ساتھ یہ گواہی دے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں،تو وہ میرے قلعے میں داخل ہوجاتا ہے اور جو بھی میرے قلعے میں داخل ہوجاتا ہے وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا۔یہ حدیث اسی سند کے ساتھ مشہور اور ثابت ہےاور ہمارے بعض بزرگ محدّثین کہتے تھے کہ اس حدیث کی سند اگر کسی مجنون پرپڑھی جائے تو وہ ٹھیک ہوجائےگا۔
بعض علماء نے کہا ہے کہ اس حدیث کی اسناد کو سلسلۃ الذھب اس وجہ سے کہا جاتا ہے کیونکہ اسے ایک ساسانی بادشاہ نے سونے سے لکھوائی تھی اور اپنے ساتھ قبر میں دفنانے کی وصیت کی تھی، لہذا مرنے کے بعد حدیث کو اسکے ساتھ دفنا دی گئی۔اسکے بعد ایک شخص نے اس بادشاہ کو خواب میں دیکھا اور ان سے پوچھا کہ خدا نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟اس نے جواب دیا:کہ خداوند متعال نے مجھے ،کلمہ توحید کا اقرار کرنے، اسکے رسولؐ کی تصدیق کرنے اور اس حدیث(سلسلۃ الذھب)کو احترام کے ساتھ ،سونے سے لکھوانے پر،بخش دیا۔

←← سلسلۃ الذھب شیعہ کتب میں


شیخ صدوق نے اس حدیث کواپنی مختلف کتب میں، متعدد اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے،کتاب التوحید میں اس کو تین اسناد کے ساتھ ذکر کیا ہے جن میں سے فقط ایک کو یہا ں بیان کیا جاتا ہے:
حدثنا محمد بن موسی بن المتوکل رضی الله عنه، قال: حدثنا ابو الحسین محمد بن جعفر الاسدی، قال: حدثنا محمد بن الحسین الصوفی، قال: حدثنا یوسف ابن عقیل، عن اسحاق بن راهویه، قال: لما وافی ابو الحسن الرضا (علیه‌السّلام) بنیسابور واراد ان یخرج منها الی المامون اجتمع الیه اصحاب الحدیث فقالوا له: یا ابن رسول الله ترحل عنا ولا تحدثنا بحدیث فنستفیده منک؟ وکان قد قعد فی العماریة، فاطلع راسه وقال: سمعت ابی موسی بن جعفر یقول: سمعت ابی جعفر بن محمد یقول: سمعت ابی محمد بن علی یقول: سمعت ابی علی بن الحسین یقول: سمعت ابی الحسین ابن علی بن ابی طالب یقول: سمعت ابی امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب یقول: سمعت رسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وسلم یقول: سمعت جبرئیل یقول: سمعت الله جل جلاله یقول: لا اله الا الله حصنی فمن دخل امن من عذابی. قال: فلما مرت الراحلة نادانا. بشروطها وانا من شروطها. قال مصنف هذا الکتاب: من شروطها الاقرار للرضا (علیه‌السّلام) بانه امام من قبل الله (عزّوجلّ) علی العباد، مفترض الطاعة علیهم.
امام رضاؑنے جب نیشاپور سے مأمون کی طرف کوچ کرنے کا ارادہ کیا تو وہاں کے محدّثین آپ کے گرد جمع ہوگئے اور عرض کی:اے فرزند رسولؐ؛ اب جبکہ آپؑ تشریف لے جارے ہیں تو ہمارے لئے کو ئی حدیث بیان کرکے ہمیں استفادہ کرنے کا موقع فراہم کیجئیے ، اس وقت آپؑ عماری میں تشریف فرما تھے۔آپؑ نے عماری سے چہرہ مبارک باہر نکالا اور ارشاد فرمایا:
میں نے اپنے والد گرامی،موسی بن جعفرؑ سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد ،جعفر بن محمّدؑ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ،محمّد بن علیؑ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ،علی بن الحسین ؑ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ،حسین بن علیؑ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی، امیرالمؤمنین علی بن أبی طالبؑ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول خداؐسے سنا آپؐ فرماتے ہیں کہ میں نےجبرائیل سے سنا اور جبرئیل نے فرمایا کہ میں نے پروردگار عزّ و جلّ سے سنا کہ وہ ارشاد فرماتا ہے:
کلمہ لا الہ الا اللہ میرا قلعہ ہے پس جو بھی میرے قلعے میں داخل ہوگا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا۔جب آپؑ کی سواری چلنے لگی تو فرمایا کہ البتہ کچھ شرائط کے ساتھ اور میں ان شرائط میں سے ہوں۔حدیث کے آخری جملے کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ صدوق لکھتے ہیں :امام رضاؑ کی امامت کا اقرار کرنا توحید کی شرائط میں سے ہے اور یہ اعتقاد رکھناکہ آپؑ اللہ کی جانب سے لوگوں کے امام ہیں اور آپؑ کی اطاعت واجب ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن‌حجر، احمد بن علی، سلسلة الذهب، ص۷۔
۲. مالک بن انس، الموطا، ص۲۱۔
۳. ابونعیم اصفهانی، احمد بن عبدالله، حلیة الاولیاء، ج۳، ص۱۹۱۔    
۴. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۹، ص۱۲۷۔    
۵. صدوق، محمد بن علی، التوحید، ص۲۵۔    


مأخذ

[ترمیم]
موسسہ ولی‌عصر، مأخوذ از مقالہ حدیث سلسلۃ الذھب کی شرائط اور اسکی وجہ تسمیہ؟!    






جعبه ابزار