سنجیدگی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



جدّیت اور سنجیدگی مذاق یا مزاح کے مقابلے میں ہے۔ علم فقہ میں یہ موضوع باب تجارت میں زیر بحث لایا جاتا ہے۔


نجیدگی عقد اور ایقاعات کی شرائط میں سے

[ترمیم]

انسان اپنے زندگی میں جو معاملات انجام دیتا ہے وہ فقہی طور پر عقد اور ایقاعات میں تقسیم ہوتے ہیں۔ شرعی طور پر یہ معاملہ اس وقت انجام پاتا ہے جب اس عقد یا ایقاع کی تمام شرائط مہیا ہوں۔ ان شرائط میں سے ایک اہم شرط فریق کا سنجیدہ و جدی ہونا اور معاملہ یا فیصلہ ارادہ اور اختیار سے کرنا ہے۔ یہ شرط فقط معاملات کے ساتھ خاص نہیں بلکہ شرعی احکام چاہے وہ احکام تکلیفی ہوں یا احکام وضعی میں جب کلام کی بات آتی ہے تو سنجیدگی اور جدیت کی قید کو ذکر کیا جاتا ہے۔ ورنہ اس کلام اور بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ لہٰذا اگر عقد اور ایقاع میں کوئی انسان مذاق کرتا ہے یعنی سنجیدہ نہیں ہے تو بولنے والے کی بات چیت یا دعوی یا کلام کا اثر شرعی مترتب نہیں ہو گا۔

استثنائی موارد

[ترمیم]

بعض موارد اس قاعدے سے مستثنی ہیں۔ کیونکہ بعض موارد میں اگر مذاق میں بھی کوئی بات کہہ دی جائے تو اس کا اثر مترتب ہوتا ہے، جیسے نعوذ باللہ اگر کوئی اللہ کو گالی دیتا ہے یا اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتا ہے، یا اللہ کی حجج جیسے انبیاءؑ یا آئمہ معصومینؑ کا مذاق اڑاتا ہے، یا آسمانی کتابوں میں سے کسی کتاب کا مذاق اڑاتا ہے تو یہ عمل انسان کے کفر کا سبب بنتا ہے۔ اگرچہ اس شخص نے یہ کلمات سنجیدگی اور جدیت کے ساتھ ادا نہ کیے ہوں بلکہ مذاق اور شوخی میں اس کو ذکر کیا ہو۔

جھوٹا مذاق

[ترمیم]

جھوٹ بولنا چاہے مذاق میں ہی کیوں نہ ہو حرام ہے۔ جھوٹے مذاق کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان حقیقت اور واقعیت کے برخلاف بات کرتا ہے لیکن یہ بات مذاق میں کرتاہے ۔پس اگر ایک انسان ایک خبر دیتا ہے لیکن اس سے اس کا یہ ارادہ اور مقصد نہیں ہے کہ وہ ایک واقعے کی حکایت کرے تو اس صورت میں یہ مذاق حرام نہیں ہے۔
[۴] حکیم، محسن، منہاج الصالحین، ج۲، ص۱۵۔


مذاق اور سنجیدگی میں شک

[ترمیم]

وہ انسان جوکہ عاقل اور حالت ہوش میں ہے اگر اس کی بات میں شک ہو جائے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ بات کر رہا ہے یا مذاق میں تو عقلاء کے نزدیک اصل انسان کا سنجیدہ ہونا ہے۔ پس بولنے والا اپنی بات کا پایند رہے گا۔ البتہ اگر کوئی اور اصل یا قانون اس ضابطہ پر حاکم ہو تو اس کے مطابق نتیجہ لیں گے، جیسے ایک انسان دوسرے کو گالی دیتا ہے، یہاں ہم شک کرتے ہیں کہ اس نے مذاق میں گالی دی ہے یا سنجیدہ پن کے ساتھ؟ شک ہو تو مسلمانوں کی گفتار و سیرت کو حاکم قرار دیتے ہوئے یہ اصل جاری کریں گے کہ یہ بات مذاق میں یا شوخی میں کی گئی ہے۔
[۵] تحریر المجلّۃ، ج۱، قسم۱، ص۴۲۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. حلی، حسن بن یوسف، تحریر الاحکام، ج۵، ص۳۹۶۔    
۲. بجنوردی، حسن، القواعد الفقہیۃ، ج۶، ص۱۵۱۔    
۳. سبزواری، عبد الاعلی، مہذّب الاحکام، ج۱۶، ص۹۸۔    
۴. حکیم، محسن، منہاج الصالحین، ج۲، ص۱۵۔
۵. تحریر المجلّۃ، ج۱، قسم۱، ص۴۲۔
۶. سبزواری، عبد الاعلی، مہذّب الاحکام، ج۱۶، ص۹۸۔    


مآخذ

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، ج۳، ص۶۱۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : ایقاعات | عقود | فقہ | معاملات




جعبه ابزار