صحیح اور اعم

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



صحیح اور اعم کا شمار علم اصول فقہ کی ابحاث میں ہوتا ہے جس میں یہ بحث کی جاتی ہے کہ عبادات اور معاملات کے لیے جو الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں تو کیا یہ الفاظ صحیح یعنی تام الشرائط و الاجزاء کے لیے وضع کیے گئے ہیں اور ان میں اس کا استعمال حقیقت رکھتا ہے اور فاسد و ناقص عبادات و معاملات میں ان کا استعمال مجاز ہے؟ یا ایسا نہیں ہے بلکہ یہ الفاظ اعم از صحیح اور فاسد کے لیے وضع کیے گئے ہیں اور اعم کے لیے ان کا استعمال حقیقت رکھتا ہے؟ اس مسئلہ میں اصولیوں میں اختلاف واقع ہوا۔ بعض اصولی الفاظِ عبادت و معاملات کو صحیح کے لیے حقیقت سمجھتے ہیں اور فاسد پر ان کا اطلاق مجاز قرار دیتے ہیں۔ اس گروہِ علماء کو صحیحی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دیگر علماء ان الفاظِ عبادات و معاملات کو اعمّ از عبادات و معاملات قرار دیتے ہیں اور صحیح کے علاوہ فاسد پر بھی ان کلمات کا اطلاق حقیقت قرار دیتے ہیں۔ اس گروہِ علماء کو اعمی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہر دو گروہ کے اپنے موقف پر مختلف دلائل ہیں اور ان دلائل کے ذیل میں تفصیلی بحث مباحثہ کیا گیا ہے جس کا بیان اصول فقہ کی بڑی کتابوں میں موجود ہے۔


تعریف

[ترمیم]

صحیح اور اعم کی بحث کا تعلق عبادات اور معاملات کے الفاظ کے وضع اور ان معانی میں استعمال سے ہے کہ آیا یہ الفاظ معنیِ صحیح کے لیے وضع کیے گئے اور ان کا استعمال فقط عبادات و معاملاتِ صحیحہ کے لیے حقیقت اور بقیہ کے مجاز ہے یا نہیں بلکہ یہ الفاظ اعم از صحیح و فاسد کے لیے وضع کیے گئے ہیں اور ان میں اس کا استعمال حقیقت ہے؟

← موردِ استعمال


صحیح اور اعم کی بحث اصول فقہ میں مباحث الفاظ میں کی جاتی ہے۔ الفاظ کی وضع کے ذیلی مباحث میں جب یہ مسئلہ اٹھایا جاتا ہے کہ عبادات یعنی صلاۃ، صوم، حج وغیرہ یا معاملات جیسے بیع، نکاح، طلاق، رہن، قرض وغیرہ میں جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں وہ کس مورد میں حقیقت اور کس مورد میں مجاز ہوں گے۔ کیونکہ ان الفاظ سے خاص معنی مراد لیا جاتا ہے اور یہ خاص معنی شرائط اور اجزاء رکھتا ہے تو کیا جب تمام شرائط اور اجزاء کے ساتھ عمل یا معاملہ انجام پائے اس وقت ان الفاظ کا ان معانی میں استعمال حقیقت کہلائے گا ؟ یا نہیں بلکہ تمام شرائط و اجزاء ہوں یا ناقص الشرائط و الاجزاء ہوں ہر دو صورتوں میں ان الفاظ کا استعمال ان معانی میں حقیقت رکھتا ہے؟

الفاظِ عبادات سے مراد

[ترمیم]

علماءِ اصول و محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ الفاظِ عبادات و معاملات آیا صحیح کے لیے حقیقت ہیں اور فاسد میں مجاز یا ایسا نہیں ہے بلکہ یہ الفاظ اعم از صحیح و فاسد میں حقیقت رکھتے ہیں؟ اس حوالے سے دو اہم قول موجود ہیں:

← قولِ اوّل


شارع کی نظر میں عبادات کے الفاظ جیسے صلاۃ، زکات، خمس وغیرہ اور معاملات کے الفاظ جیسے بیع، رہن، اجارہ وغیرہ سے مراد معانیِ صحیح ہیں اور اسی معنی کو بیان کرنے کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، ان الفاظ کا استعمال فاسد عبادت یا معاملہ میں مجاز ہے۔ یعنی جس عبادت یا معاملہ میں بعض شرائط یا اجزاء مفقود ہوں اس پر ان الفاظ کا استعمال مجاز کہلائے گا۔

← قولِ دوم


ان الفاظ کا استعمال صحیح اور اعم ہر دو میں حقیقت ہے کیونکہ یہ الفاظ اعم از صحیح و فاسد کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے یہ الفاظ جس طرح سے صحیح یعنی تام الشرائط و الاجزاء عبادات و معاملات میں حقیقت رکھتے ہیں اسی طرح سے ان الفاظ کا استعمال ناقص و فاسد عبادات یا معاملات میں بھی حقیقت شمار ہو گا نہ کہ مجاز۔

بحث کا نتیجہ

[ترمیم]

صحیح اور اعم کی بحث کا ثمرہ اصالتِ اطلاق سے تمسک کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اگر ہمیں شک ہو جائے کہ فلاں عبادت یا معاملہ میں یہ قید جزء یا شرط ہے یا نہیں، مثلا نماز میں سورہ کا پڑھنا جزء یا شرط ہے یا نہیں تو اعمی کے قول کے مطابق ہم اصالتِ اطلاق سے تمسک کرتے ہوئے قیدِ مشکوک کے جزء ہونے یا شرط ہونے کی نفی کریں گے اور کہیں گے کہ نماز میں سورہ جزء نہیں، کیونکہ صلاۃ کا عنوان جس طرح سے کامل اور صحیح نماز پر منطبق ہوتا ہے اسی طرح سے ناقص و فاسد پر صلاۃ کا اطلاق حقیقت رکھتا ہے۔ چنانچہ اصالتِ اطلاق کا تقاضا ہے کہ ہر اس قید کے جزء یا شرط ہونے کی نفی کی جائے جس کے بارے میں شک ہو کہ یہ عبادت یا معاملہ میں معتبر ہے یا نہیں۔

لیکن صحیحی کے قول کے مطابق ہم اطلاق سے تمسک نہیں کر سکتے بلکہ ضروری ہے کہ ہم احتیاط کے مطابق عمل انجام دیں اور احتیاط سے تمسک کرتے ہوئے قیدِ مشکوک یا شرطِ مشکوک کو انجام دیں۔ کیونکہ صلاۃ کا عنوان فاسد اور ناقص نماز پر منطبق نہیں ہوتا اور اگر ایک شرط یا جزء انجام دینے سے رہ گیا تو صلاۃ کا عنوان اس عمل پر منطبق نہیں ہو گا۔ چنانچہ احتیاط کا تقاضا ہے کہ جس قید کے جزء یا شرط ہونے کا شک ہو اس کا اعتبار کیا جائے اور اس کو انجام دیا جائے تاکہ یقین ہو کہ عمل اپنی تمام شرائط و اجزاء کے ساتھ انجام دیا گیا ہے۔ بعض اصولی قائل ہیں کہ ایسے مورد میں اصالتِ براءت سے بھی تمسک کر سکتے ہیں۔ چنانچہ اس مسئلہ میں عمل کے اعتبار سے اختلاف پایا جاتا ہے کہ صحیحی کے قول کے مطابق ہم اصالتِ احتیاط سے تمسک کریں گے یا اصالتِ براءت سے۔اس طرف توجہ رہنی چاہیے کہ صحیح اور اعم کی بحث کا ثمرہ فقط الفاظِ عبادات میں ظاہر ہوتا ہے جبکہ الفاظ معاملات میں اس اختلاف کا کوئی ثمرہ اور تنیجہ برآمد نہیں ہوتا مگر یہ کہ نادر مواقع پر ممکن ہے کوئی ثمرہ سامنے آ جائے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مظفر، محمد رضا، اصول الفقہ، ج۱، ص۳۳۔    
۲. فیاض، محمد اسحاق، محاضرات فی اصول الفقہ، ج۱، ص۱۵۲۔    
۳. خوئی، سید ابو القاسم، اجود التقریرات، ج۱، ص۳۴۔    
۴. مظفر، محمد رضا، اصول الفقہ، ج۱، ص۳۹۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم‌السلام، زیر نظر آیت‌ اللہ محمود ہاشمی‌شاہرودی، ج۵، ص۵۲، یہ تحریر مقالہ صحیح و اعم سے مأخوذ ہے۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : صحیح و اعم | مباحث الفاظ | وضع




جعبه ابزار