صلح امام حسن کی شقیں

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



۴۱ ھ میں کوفیوں اور شامیوں کے درمیان ہونے والی جنگ میں امام حسنؑ نے معاویہ کے ساتھ صلح کر لی اور امامؑ نے خاص شرائط کی بناء پر خلافت معاویہ کی طرف منتقل کر دی۔ یہ صلح نامہ جن شقوں اور نکات پر مشتمل تھا اس کو بعض تاریخ اور حدیث کی کتب میں تحریر کیا گیا ہے جس سے بعض کی طرف درج ذیل سطور میں اشارہ کیا جاتا ہے۔


صلح نامہ کی اہم شقیں

[ترمیم]

امام حسن مجتبیؑ نے صلح نامہ میں جو شقیں پیش کیں اور جن نکات کو ذکر کیا ہے اس میں خاص پیغام موجود ہے جو ایک متزلزل جنگ سے انتہائی مدبرانہ طریقے سے نکلنے کو بیان کرتی ہیں۔ ذیل میں صلح نامہ کی شقوں کو ذکر کیا جاتا ہے جس سے اس صلح نامہ میں موجود حکمتوں کے متعدد جوانب روشن ہو جائیں گے:

← پہلی شق


بعض کتب کے مطابق امام حسن مجتبیؑ نے صلح نامہ کی پہلی شق یہ بیان کی کہ معاویہ مسلمانوں میں کتابِ الہی اور سنتِ رسول اللہؑ کے مطابق عمل کرے گا۔ لہذا پہلی شق اس طرح سے تحریر کی گئی: هَذَا مَا صَالَحَ‌ عَلَيْهِ‌ الْحَسَنُ‌ بْنُ‌ عَلِيِ‌ بْنِ أَبِي طَالِبٍ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ صَالَحَهُ عَلَى أَنْ يُسَلِّمَ إِلَيْهِ وَلَايَةَ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ عَلَى أَنْ يَعْمَلَ فِيهِمْ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى وَسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌ الله‌ علیہ و‌آلہ)؛ یہ وہ نوشتہ ہے جس پر حسن بن علی بن ابی طالب (علیہم السلام) نے معاویہ بن ابی سفیان کے ساتھ مصالحت کی ہے، انہوں نے مسلمانوں کے امرِ ولایت و حکومت کو معاویہ کے سپرد اس شرط پر کیا کہ وہ مسلمانوں میں کتابِ الہی اور اس کے رسول کی سنت پر عمل پیرا ہو گا۔

←← معاویہ کا پہلی شق کی برملا مخالفت کرنا


امام حسنؑ جانتے تھے کہ معاویہ قرآن کریم اور سنتِ رسولؐ پر عمل پیرا نہیں ہو سکتا، چنانچہ معاویہ جب کوفہ میں وارد ہوا تو اس نے اپںے پہلے خطاب میں بیان کیا: إنِّي وَاللهِ مَا قَاتَلْتُكُمْ لِتُصَلُّوا، وَلَا لِتَصُومُوا، وَلَا لِتَحُجُّوا، وَلَا لِتُزَكُّوا، وَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّكُمْ تَفْعَلُونَ ذَلِكَ، وَلَكِنْ إِنَّمَا قَاتَلْتُكُمْ لِأَتَأَمَّرَ عَلَيْكُمْ، وَقَدْ أَعْطَانِي اللَّهُ ذَلِكَ وَأَنْتُمْ لَهُ كَارِهُونَ؛ قسم بخدا میں نے تم سے اس لیے جنگ نہیں کی کہ تم نمازیں پڑھو اور روزے رکھو اور حج کرو اور زکات دو، کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ یہ سب کچھ انجام دیتے ہو، میں نے تم لوگوں سے صرف اس لیے جنگ کی تاکہ میں تمہارے اوپر حکومت کر سکوں اور باوجود اس کے کہ تمہیں برا لگتا تھا کہ مجھے حکومت ملے لیکن پھر بھی اللہ نے مجھے حکومت عطا کر دی۔

صلح نامہ کی اہم شق یہ تھی کہ معاویہ اللہ کی کتاب قرآن اور رسول اللہؐ کی سنت پر عمل کرے گا لیکن ابھی صلح نامہ کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ معاویہ نے ڈھٹائی کے ساتھ صلح نامہ کی شقوں پر عمل کرنے سے انکار کر دیا، جیساکہ معروف مؤرخ طاہر مقدسی متوفی ۳۵۵ ھ نے معاویہ کے کلمات اس طرح نقل کیا ہے: وَكُلُّ شَرۡطٍ شَرَطۡتُه فَهُو مَرۡدُوۡد وكُلُّ وعد وعدته فهو تحت قدمي هاتين؛ ہر وہ شرط جو میں قبول کی تھی وہ مردود ہے اور ہر وہ وعدہ جو میں نے کیا تھا وہ میرے ان دو قدموں کے نیچے ہے۔ معاویہ کا یہ اقدام کرنا ہی لوگوں کے لیے کافی تھا کیونکہ لوگوں نے اسے اچھی طرح سے پہچان لیں۔ چنانچہ اس نےرسول اللہؐ کے صحابی کا عنوان اختیار کیا اور کاتبِ وحی کے چرچوں سے اسلام کی نابودی کے لیے سعی و کوشش تیر کی۔

← دوسری شق


معاویہ یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر کرے بلکہ خلافت کا معاملہ اس کے بعد مسلمانوں کے درمیان شوری کے حوالے ہو گا۔ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ معاویہ نے بعض کو حرص و لالچ کے ذریعے اور بعض کو دھمکیوں کے ذریعے اپنے بیٹے یزید کی بیعت کروائی اور اسے لوگوں کی گردن پر زبردستی مسلط کر دیا۔ اس طرح معاویہ نے صلح نامہ کی دوسری شق بھی توڑ ڈالی۔

←← عبد اللہ بن عمر کا معاویہ اور یزید کی بیعت کرنا


تاریخ کے اوراق میں وارد ہونے والے واقعات میں تعجب ترین اور مہم ترین واقعہ عبد اللہ بن عمر کا امام علیؑ اور امام حسنؑ کی بیعت سے انکار و فرار ہے اور اس کا معاویہ و یزید کی بیعت کرنا ہے۔ اہل سنت کے معتبر کتب احادیث و تاریخ میں صحیح السند طرق سے وارد ہوا ہے : أَنَّ مُعَاوِيَةَ بَعثَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ بِمائَةِ أَلْفٍ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُبَايِعَ لِيَزِيْدَ، قَالَ: أُرَى ذَاكَ أَرَادَ، إِنَّ دِيْنِي عِنْدِي إِذاً لَرَخِيصٌ؛ معاویہ نے عبد اللہ بن عمر کی طرف ایک لاکھ دینار بھجوائے، پھر جب معاویہ نے یزید کی بیعت لینے کا ارادہ کیا تو ابن عمر نے کہا: اب مجھے پتہ چلا کہ اس مال کے بھجوانے سے معاویہ کا مقصد کیا تھا، اس نے یہ سمجھا کہ میرا دین میرے نزدیک اس قدر سستا ہے !! (میرا دین اس سے کہیں گنا زیادہ قیمت رکھتا ہے)۔

حقیقت تو یہ ہے کہ معاویہ نے یہ معاملہ کر کے عبد اللہ ابن عمر کے چہرے کو بے نقاب کر دیا۔ عبد اللہ بن عمر کے دین کی ایک لاکھ دینار قیمت لگانا بھی زیادہ ہے کیونکہ اس سے بھی کم رقم میں اس کو خریدا جا سکتا تھا، جیساکہ اہل سنت کی بخاری و مسلم جیسی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ عبد اللہ بن عمر نے کیسے یزید کی بیعت کی!! ۶۲ ھ میں یزید نے جہاں اہل بیت رسالت کو بے دردی سے شہید کیا وہاں مدینہ میں صحابہ کرام اور ان کے گھرانوں کی بھی عصمت دری کی اور انہیں بے دریغ قتل کیا جسے واقعہ حرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یزید لشکر نے صحابہ کرام کی ناموس کی جو عصمت دری کی اس کے نتیجے میں اس سال ہزاروں ولد الزنا بچے پیدا ہوئے۔ اسی یزید کی جب اہل مدینہ نے بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا تو عبد اللہ بن عمر کھڑا ہوا اور برملا بیعتِ یزید کی حمایت کرتے ہوئے کہا: إِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ القِيَامَةِ، وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّي لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُنْصَبُ لَهُ القِتَالُ، وَإِنِّي لاَ أَعْلَمُ أَحَدًا مِنْكُمْ خَلَعَهُ، وَلاَ بَايَعَ فِي هَذَا الأَمْرِ، إِلَّا كَانَتِ الفَيْصَلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ؛ میں نے رسول اللہؐ سے سنا ہے کہ وہ فرماتے ہیں: روزِ قیامت ہر دھوکے باز کے لیے ایک جھنڈا گاڑا جائے گا، ہم نے اس شخص (یزید) کی بیعت اللہ اور اس کے رسول کی بیعت پر کی تھی، میرے علم میں اس بڑھ کر کوئی اور خیانت و فریب کاری نہیں ہے کہ اس شخص کی بیعت کو توڑا جائے جس کی بیعت اللہ اور اس کے رسولؐ کی بیعت پر انجام دی گئی ہو، پھر اس کے لیے جنگ و قتال کو برپا کر دیا جائے !! تم لوگوں میں سے جس کسی نے بھی اس (یزید) کو خلافت سے برطرف کیا ہے اور اس کی گردن میں اس (یزید) کی بیعت کا قلادہ نہیں ہے اس کے اور میرے درمیان دیوار حائل ہے اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ مدینہ میں موجود تمام صحابہ کرام نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا، تنہا عبد اللہ بن عمر تھا جس نے یزید کی بیعت کی اور اس کی حکومت کا دفاع کیا۔

یزید کے بعد جب عبد الملک بن مروان کا دور حکومت آیا تو عبد اللہ بن عمر نے اس کی بیعت کی اور اس کی بیعت کا انداز تاریخ میں تعجب آور ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ عبد الملک کی بیعت کے لیے ابن عمر حجاج بن یوسف ثقفی کے پاس آیا۔ حجاج جیسا سفاک و ظلم جابر مجرم تاریخ بشریت میں شاید ہی کوئی گزرا ہو۔ عمر بن عبد العزیز نے بیان کیا ہے: اگر تمام قبائل اور تمام ملتوں کو جمع کیا جائے اور ان میں سے سے زیادہ بدترین اور جرائم پیش افراد لائے جائیں تو تمام مجرمین اور ظالمین ایک پلڑے میں رکھ دیئے ہیں اور حجاج کو ایک پلڑے میں تو حجاج کے پلڑے کا وزن اور سنگین زیادہ ہو گی۔ عبد اللہ بن عمر ایک رات حجاج کے دروازے پر آیا اور دروازہ کھٹکٹھایا، حجاج نے پوچھا: کس لیے آئے ہو؟ ابن عمر نے کہا: میں نے ایک روایت رسول اللہؐ سے سنی تھی وہ مجھے یاد آ گئی اور اس نے میری آنکھوں سے نیند بھگا دی ہے، میں یاد آ گیا کہ رسول اللہؐ نے فرمایا تھا: وَمَنْ مَاتَ لَيْسَ لَهُ إِمَامٌ مَاتَ مَيْتَةً جَاهِلِيَّةً؛ جو اس حالت میں مر جائے جس کے لیے کوئی امام نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ یا یہ آنحضرتؐ نے یہ فرمایا تھا: من مَاتَ وَلم يكن فِي عُنُقه بيعَة إمامٍ مَاتَ ميتَة جَاهِلِيَّة؛ جو اس حالت میں مر جائے کہ اس کی گردن میں کسی امام کی بیعت کا قلادہ نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ یہ روایات بیان کرنے کے بعد ابن عمر نے کہا: تم عبد الملک بن مروان کے نمائندے ہو، میں اس لیے آیا ہوں تاکہ میں اس کی بیعت کر لوں، اگر خدانخواستہ رات کو مر گیا اور میں نے بیعت نہ کی ہوئی ہو تو کہیں جاہلیت کی موت نہ مر جاؤں۔ حجاج نے انتہائی حقارت کے ساتھ اس کو کہا: میرے ہاتھ کسی کام میں مشغول ہیں، آؤ اور عبد الملک کی بیعت کے عنوان سے میرے پاؤں کو بوسہ دے کر بیعت کرو اور پھر چلے جاؤ۔ عبد اللہ بن عمر کو ذلت و خواری اٹھانا پڑی اور وہ حجاج جیسے خونخوار درندے کے پاؤں کو چومنے پر مجبور ہوا۔ یہ سب واقعات شاہد ہیں کہ عبد اللہ بن عمر کے دین کی جو قیمت معاویہ نے لگائی وہ زیادہ تھی، حقیقت میں ابن عمر کے دین کی قیمت ذرہ برابر بھی نہیں ہے۔

← تیسری شق


معاویہ حق نہیں رکھتا کہ وہ امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی معمولی سی بھی اہانت یا بے احترامی کرے۔ مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ صلح نامہ کی تیسر شق یہ تھی: المادّة الثالثة: ان یترک سبّ امیر المؤمنین والقنوت علیه بالصلاة وان لا یذکر علیّاً الاّ بخیر؛ امیر المؤمنینؑ کو گالی دینا ترک کیا جائے گا، ان پر درود پڑھا جائے گا، اور علیؑ کا تذکرہ سوائے خیر کے نہیں کیا جائے گا۔
[۱۷] ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ص۲۶۔
[۱۸] ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج۴، ص۱۵۔
ابن اثیر سے منسوب ہے کہ معاویہ نے اس شق کی رعایت نہیں کی: وقال آخرون انه اجابه علی انه لا یشتم علیاً وهو یسمع وقال ابن الاثیر: ثم لم یف به ایضا؛ اور دیگر نے بیان کیا ہے کہ امام حسنؑ نے اس شرط پر صلح کی کہ علیؑ پر سب و شتم نہیں کیا جائے گا جبکہ وہ اس کو سن رہا تھا، ابن اثیر نے بیان کیا ہے: اس نے اس شرط کو پورا نہیں کیا.

←← معاویہ کا امام علیؑ کو گالی دینے کا حکم جاری کرنا


صلح نامہ کی اس شرط کی پاسداری بھی معاویہ نے نہیں کی اور اپنے دورِ حکومت میں امام علیؑ پر گالم گلوچ کے سلسلہ کو بند کرنے کی بجائے مزید بڑھا دیا۔ اہل سنت کی کتب حدیث جیسے صحیح مسلم میں وارد ہوا ہے کہ معاویہ نے سعد ابن ابی وقاص کو حکم دیا کہ وہ منبر پر جائے اور امام علیؑ کو گالم گلوچ کرے۔ صحیح مسلم کا شمار اہل سنت میں قرآن کریم کے بعد سب سے معتبر اور صحیح ترین کتاب میں ہوتا ہے، یہاں تک ان میں سے بعض نے کہا ہے: من طعن فی صحیح مسلم فهو زندیق؛ جس نے صحیح مسلم کے بارے میں طعن تشنیع کی وہ زندیق ہے۔

مسلم بن حجاج نے اپنی کتاب الصحیح میں کتاب فضائل میں روایت نقل کی ہے کہ معاویہ نے سعد ابن ابی وقاص کو حکم دیا کہ امام علیؑ کو گالی دو، سعد ابن ابی وقاص کے بیٹے عامر نے اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ؟ فَقَالَ: أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلَاثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَنْ أَسُبَّهُ، لَأَنْ تَكُونَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُ، خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللهِ خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ خَيْبَرَ لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ؛ قَالَ فَتَطَاوَلْنَا لَهَا فَقَالَ: ادْعُوا لِي عَلِيًّا فَأُتِيَ بِهِ أَرْمَدَ، فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ وَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ، فَفَتَحَ اللهُ عَلَيْهِ، وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ، آل عمران: ۶۱، دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: اللهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي؛ معاویہ بن ابی سفیان نے سعد کو حکم دیا اور کہا: آخر ابو تراب (علیہ السلام) کو گالی دینے سے تمہیں کیا چیز منع کرتی ہے؟ سعد نے جواب دیا: میں تین ایسی چیزیں یاد آ جاتیں ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے ان کے حق میں کہیں، اس لیے میں ہر گزر علیؑ کو گالم گلوچ نہیں کروں گا، کیونکہ ان میں سے اگر ایک بھی میرے لیے ہوتی تو میں یہ میرے لیے سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہوتی، میں نے رسول اللہؐ سے سنا کہ انہوں نے ابو ترابؑ سے فرمایا: ۔

زمخشری نے ربیع الابرار میں لکھا ہے: معاویہ کے دور میں ۷۰ ہزار منبر پر امام علیؑ کو سب و شتم کیا جاتا تھا۔ بعض محققین نے تحریر کیا ہے: قال الزمخشری والحافظ السیوطی: "انّه کان فی ایّام بنی امیّة اکثر من سبعین الف منبر یلعن علیها علیّ بن ابی طالب بما سنّه لهم معاویة من ذلک؛ زمخشری اور حافظ سیوطی کہتے ہین: بنو امیہ کے ایامِ حکومت میں ستر (۷۰) ہزار سے زائد منبروں سے علی ابن ابی طالبؑ پر لعنت بھیجی جاتی تھی، یہ وہ سنت ہے جس کا آغاز ان کے لیے معاویہ نے کیا تھا۔
[۲۴] زمخشری، جار الله، ربیع الابرار، ج۲، ص۱۸۶۔


نماز جمعہ کے خطبوں کے واجبات میں سے ایک امام علیؑ کو گالم گلوچ کرنا تھا۔ یہاں تک کہ امت اسلامی میں یہ پست ترین عمل ایک سنت کے طور پر متعارف ہو گیا۔ ابن ابی الحدید نے ذکر کیا ہے: إنّ معاویة امر الناس بالعراق والشام وغیرهما بسب علی (علیه‌السّلام) والبراءة منه. وخطب بذلک علی منابر الاسلام، وصار ذلک سنة فی ایام بنی امیة الی ان قام عمر بن عبد العزیز رضی اللّه تعالی عنه فازاله. وذکر شیخنا ابو عثمان الجاحظ ان معاویة کان یقول فی آخر خطبة الجمعة: اللّهم ان ابا تراب الحد فی دینک، وصد عن سبیلک فالعنه لعناً وبیلا، وعذبه عذاباً الیماً وکتب بذلک الی الافاق، فکانت هذه الکلمات یشار بها علی المنابر، الی خلافة عمر بن عبد العزیز؛ معاویہ نے عراق، شام اور ان کے علاوہ دیگر شہروں میں لوگ کے لیے حکم جاری کیا کہ وہ امام علیؑ کو گالم گلوچ کریں اور ان سے براءت کا اظہار کریں، اس نے اسی کو اسلام کے منبروں پر رواج دیا، یہاں تک کہ بنی امیہ کے دور حکومت میں یہ سنت بن گیا، یہ سلسلہ عمر بن عبد العزیز کے دور تک چلتا رہا، اس کے بعد عمر بن عبد العزیز نے اس کو ختم کر دیا۔ ہمارے شیخ ابو عثمان جاحظ نے بیان کیا ہے کہ معاویہ جمعہ کے خطبہ کے اختتام پر کہا کرتا تھا: بار الہا ابو تراب نے تیرے دین کی حدود بامال کیں، تیرے راستے سے روکا، پس تو اس پر شدید لعنت فرما اور دردناک ترین عذاب اسے دے۔ معاویہ نے اس کا حکم تمام لوگوں کو دیا، یہ وہ کلمات تھے جن کو عمر بن عبد العزیز کی خلافت تک منبروں پر پڑھا جاتا تھا۔

ابن‌ عقیل نے النصائح الکافیۃ و العطف الجمیل نے لکھا ہے: نودی من جوانب المسجد یوم ترکها (ای لعن علی (علیه‌السّلام)) من الخطبة. السنة، السنة، یا امیرالمؤمنین ترکت السنة؛ عمر بن عبد العزیز نے نماز کے خطبے میں جس دن امام علیؑ پر لعن طعن کو ترک کیا تو مسجد کے اطراف و کنار سے صدائیں بلند ہونا شروع ہو گئی: سنت ، سنت، اے امیر المؤمنین آپ نے سنت کو ترک کر دیا۔
[۳۱] القول الفصل، ج۲، ص۳۸۴، ط جاوة۔
پس صلح نامہ کی تیسری شق کو بھی پامال کیا گیا اور امام علیؑ پر نعوذ باللہ لعن طعن کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔

← چوتھی شق


معاویہ نے یہ عہد و پیمان باندھا تھا کہ وہ امیر المؤمنین امام علیؑ کے شیعوں کی رعایت کرے گا، ان کے حقوق پامال نہیں کرے گا اور ان کو ظلم و تشدد اور قتل و غارت کا نشانہ نہیں بنائے گا۔ لیکن محدثین و مؤرخین نے رقم کیا ہے کہ معاویہ نے صلح نامہ کی اس شرط کی دھجیاں بھی بکھیر کر رکھ دیں اور متعدد اصحابِ رسول اللہؐ کو صرف اس لیے بے دردی سے قتل کر دیا کیونکہ انہوں نے امام علیؑ کا ساتھ دیا اور ان کے ساتھ حق کا پرچم بلند کیا۔ معاویہ نے دستور جاری کیا تھا کہ اگر دو افراد گواہی دیں کہ فلاں شخص امام علیؑ سے محبت کرتا ہے تو اس شخص کے تمام حقوق و وظائف بیت المال سے منقطع کر دیئے جائیں گے اور اس کی جان و مال مباح قرار دے دیا جائے گا۔ ابن‌اثیر نے الکامل فی التاریخ میں تحریر کیا ہے: فَلَمَّا اسْتَخْلَفَ زِيَادٌ سَمُرَةَ عَلَى الْبَصْرَةِ أَكْثَرَ الْقَتْلَ فِيهَا، فَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ: قَتَلَ سَمُرَةُ فِي غَيْبَةِ زِيَادٍ هَذِهِ ثَمَانِيَةَ آلَافٍ. فَقَالَ لَهُ زِيَادٌ: أَتَخَافُ أَنْ تَكُونَ قَتَلْتَ بَرِيئًا؟ فَقَالَ: لَوْ قَتَلْتُ مَعَهُمْ مِثْلَهُمْ مَا خَشِيتُ. وَقَالَ أَبُو السَّوَّارِ الْعَدَوِيُّ: قَتَلَ سَمُرَةُ مِنْ قَوْمِي فِي غَدَاةٍ وَاحِدَةٍ سَبْعَةً وَأَرْبَعِينَ كُلُّهُمْ قَدْ جَمَعَ الْقُرْآنَ جب زیاد بن ابیہ نے سَمرۃ کو بصرہ کی حکمرانی دی تو اس نے بصرہ میں بہت زیادہ قتل و غارت مچائی، ابن سیرین کہتے ہیں: زیاد کی غیر موجودگی میں میں سمرہ نے آٹھ ہزار افراد قتل کیے، زیاد نے سمرہ سے کہا: کیا تمہیں اس مخلوق کو قتل کرتے وقت خوف نہیں آیا؟ اس نے کہا: اگر ان کے ساتھ اتنے مزید قتل کرتا تب بھی مجھے خوف کا احساس نہ ہوتا۔ ابو سوار عدوی کہتا ہے: سمرہ نے ایک دن میں میری قوم کے ۴۷ افراد قتل کیے اور وہ تمام کے تمام قرآن کو جمع کرنے والے تھے۔

ابن ابی الحدید معتزلی نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: حتّی انّ الرجل لیقال له زندیق او کافر احبّ الیه من ان یقال شیعة علی.؛ یہاں تک معاویہ اور اصحاب معاویہ کے نزدیک انہیں علیؑ کا شیعہ کہنے سے بہتر زندیق یا کافر کہا جانا لگتا تھا۔ گویا کہ معاویہ اور اس کے حاشیہ نشینوں کو امام علیؑ سے اس قدر شدید نفرت تھی کہ ان کے نزدیک کسی کو زندیق اور کافر کہنا اس سے بہتر معلوم ہوتا تھا کہ کہ اس کو امام علیؑ کا شیعہ کہہ دیا جائے۔ علی بن جہم نے اپنے باپ پر لعن و نفرین کی کہ اس نے اس کا نام علی کیوں رکھا، جیساکہ ابن حجر عسقلانی نے تحریر کیا ہے: کان یلعن اباه، لم سمّاه علیّاً؛ علی بن جہم اپنے باپ کو لعن طعن کیا کرتا تھا کہ آخر اس نے اس کا نام علی کیوں رکھا۔ نیز ابن حجر نے لکھا ہے: معاویہ نے دستور جاری کیا کہ حکومت اسلامی میں اگر کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کا نام علی رکھا جاتا ہے تو اس کو قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ بنو امیہ اس پر عمل پیرا ہوتے ، جیساکہ وارد ہوا ہے: کان بنو امیة اذا سمعوا بمولود اسمه علی قتلوه، فبلغ ذلک رباحاً فقال هو علی، وکان یغضب من علی، ویحرج علی من سماه به؛ بنو امیہ جب کسی بچے کا نام سنتے کہ اس کا نام علی ہے تو وہ اسے قتل کر دیا کرتے، یہ بات رباح کو پہنچی تو چونکہ رباح کا نام علی بن رباح تھا اس لیے وہ اس نام پر خوب غضبناک ہوتا اور جس نے اس کا نام علی رکھا تھا اس کو برا بھلا کہتا۔

شیخ صدوق کی ذکر کردہ شرائطِ صلح

[ترمیم]

شیخ صدوق متوفی ۳۸۱ ھ نے امام حسن مجتبیؑ کی صلح کی بعض شرائط کی طرف اشارہ کیا ہے جسے شیخ صدوق نے یوسف بن مازن راشی سے نقل کیا ہے۔ اس طرف توجہ رہنی چاہیے کہ امام حسنؑ نے معاویہ سے مصالحت کی تھی نہ کہ اس کے ہاتھوں پر بیعت کی۔ اس لیے صلح اور بیعت میں فرق کرنا ضروری ہے۔ معاویہ کے ساتھ ہونے والی مصالحت کے نتیجے میں جو تین اہم ترین شرائط تھیں جن میں کسی ایک شرط کی خلاف ورزی پوری صلح کے توڑنے کے مترادف شمار ہو گی۔ ان شرائط میں اہمیت کی حامل یہ تین شرائط درج ذیل ہیں:
۱۔ معاویہ اپنے آپ کو امیر المؤمنین نہیں کہلائے گا اور نہ اس عنوان اپنے لیے استعمال کرے گا۔
۲۔ معاویہ امام علیؑ کے اصحاب اور ان کے شیعوں کا تعاقب نہیں کرے گا اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچائے گا۔
۳۔ جنگ جمل اور جنگ صفین میں امام علیؑ کی رکاب میں شہید ہونے والے ہر فرد کے گھرانے کو ایک لاکھ درہم دیئے جائیں گے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۴۴، ص۶۵۔    
۲. امینی، عبدالحسین، الغدیر، ج۱۱، ص۶۔    
۳. اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، ج ۱، ص ۵۳۳۔    
۴. ابن ابی شیبہ، عبد اللہ بن محمد، مصنف ابن ابی شیبہ، ج ۶، ص ۱۸۷۔    
۵. ابو الفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ص۴۵۔    
۶. ابن ابی‌ الحدید، شرح ابن ابی‌ الحدید، ج۱۶، ص۴۶۔    
۷. مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء والتاریخ، ج ۵، ص ۲۳۷۔    
۸. اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، ج ۱، ص ۵۳۳۔    
۹. ذہبی، محمد بن احمد، سیر أعلام النبلاء، ج ۳، ص ۲۲۴۔    
۱۰. ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۳، ص ۲۲۵۔    
۱۱. فسوی، یعقوب بن سفیان، المعرفۃ والتاریخ، ص ۴۹۲۔    
۱۲. بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، ج ۹، ص ۵۷۔    
۱۳. نیشاپوری، مسلم بن حجاج، ج ۳، ص ۱۴۷۸۔    
۱۴. حنبل، احمد بن حنبل، مسند احمد، ج ۱۰، ص ۲۳۳۔    
۱۵. ابن شاذان، الفضل، الإیضاح، ص ۷۴۔    
۱۶. طبری شیعی، محمد بن جریر، ص ۱۷۷۔    
۱۷. ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ص۲۶۔
۱۸. ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج۴، ص۱۵۔
۱۹. ابن‌قتیبہ دینوری، عبد ﷲ بن مسلم، الامامۃ والسیاسۃ ج۱، ص۱۸۵۔    
۲۰. نیشاپوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج ۴، ص ۱۸۷۱۔    
۲۱. ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، ج۶، ص۸۳۔    
۲۲. ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری، ج۷ ص۷۴۔    
۲۳. نسائی، احمد بن شعیب، السنن الکبری، ج۷، ص۴۱۰۔    
۲۴. زمخشری، جار الله، ربیع الابرار، ج۲، ص۱۸۶۔
۲۵. سید محمّد بن عقیل، النصائح الکافیة، ج۱، ص۱۰۴۔    
۲۶. امینی، عبد الحسین، الغدیر، ج۲، ص۱۰۲۔    
۲۷. شرف‌ الدین موسوی، عبد الحسین، النص و الاجتہاد، ص ۴۹۶۔    
۲۸. صافی، لطف‌ اللّه، امان الامۃ من الاختلاف، ص۴۶۔    
۲۹. ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج البلاغۃ ابن ابی‌الحدید، ج۴، ص۵۶ - ۵۶۔    
۳۰. علوی، سید محمّد بن عقلی، النصائح الکافیۃ، ص۱۱۶۔    
۳۱. القول الفصل، ج۲، ص۳۸۴، ط جاوة۔
۳۲. ابن‌اثیر، علی بن ابی‌ الکرم، الکامل فی التاریخ، ج۳، ص۶۰۔    
۳۳. ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج البلاغۃ ابن ابی‌ الحدید، ج۱۱، ص۴۴۔    
۳۴. ابن‌ حجر عسقلانی، لسان المیزان، ج۴، ص۲۱۰۔    
۳۵. ابن‌ حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج۷، ص۳۱۹۔    
۳۶. صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، ج ۱، ص ۲۱۵۔    


مأخذ

[ترمیم]

موسسہ ولی‌عصر، مقالہِ مفاد قرارداد صلح نامہ امام حسن (علیہ السّلام) چیست؟ سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    
بعض مطالب اور حوالہ جات ویکی فقہ اردو سے مربوط محققین کی جانب سے اضافہ کیے گئے ہیں۔






جعبه ابزار