ضرورت ازلی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



ضرورت سے مراد موضوع کا محمول سے جدا نہ ہونا ہے۔ اس سے علم منطق و فلسفہ میں بحث کی جاتی ہے۔ حکماء نے ضرورت کی پانچ اقسام ذکر کی ہیں: ضرورت ازلی، ضرورت ذاتی، ضرورت وصفی، ضرورت وقتی اور ضرورت بشرط محمول۔ زیر نظر تحریر میں ضرورت ازلی کے بارے میں مختصر سے گفتگو پیش خدمت ہے۔


ضرورت ازلی کی تعریف

[ترمیم]

ضرورت ازلی اس ضرورت کو کہتے ہیں جس میں محمول کو خود ذاتِ موضوع کے لیے ثابت کرنا بغیر کسی قید یا شرط کے ضروری ہو، حتی وجودِ موضوع کی قید و شرط بھی معتبر نہیں۔

ضرورت ازلی کے احکام

[ترمیم]

ضرورت ازلی میں محمول ہر صورت میں موضوع پر حمل کیا جاتا ہے۔ ضرورت ذاتی میں موضوع کے وجود کی قید مدنظر ہوتی ہے کہ جب تک موضوع موجود ہے محمول کو اس کے لیے ثابت کرنا ضروری ہے۔ لیکن ضرورتِ ازلی میں وجودِ موضوع کی قید بھی معتبر نہیں ہے۔ کیونکہ ضرورت ازلی میں وجود کو موضوع کے لیے قید یا شرط کے عنوان سے اخذ نہیں کر سکتے۔ پس ضرورت ازلی اس موضوع کے ساتھ مختص ہے جس کا وجود اس کی ذات ہے اور اسی ذات سے قائم ہے۔ اس لیے یہ نوبت نہیں آتی کہ وجود بطور قید یا شرط ملاحظہ کیا جائے۔ بالفاظ دیگر ضرورتِ ازلی میں حتمی طور پر موضوع لا محدود وجود ہونا چاہیے اور یہ وجود صِرف وجود ہو جس کی کوئی ماہیت نہ ہو اور وہ کسی علت کا محتاج نہ ہو۔ اس اعتبار سے یہ کہنا چاہیے کہ ضرورتِ ازلی فقط واجب الوجود بالذات کے وجود اور اس کی صفات ذاتی کے ساتھ مختص ہے۔


یعنی اللہ تعالی کا وجود اور اس کی صفات ذاتی اس کی ذات پر ضرورت ازلی کے طور پر حمل ہوتی ہیں۔ کیونکہ واجب الوجود اپنے وجود اور اپنی صفات میں کسی علت یا سبب کا محتاج نہیں ہے اور اس کے ساتھ کسی قید یا شرط کو ضمیمہ نہیں کیا جا سکتا۔ بالفاظ دیگر فلسفی طور پر اللہ تعالی یعنی واجب الوجود بالذات کا وجود اور اس کی صفات ذاتی اس کی ذات کے اعتبار سے ہر قید و شرط اور ہر قسم کی حثیثت تعلیلی و حیثیت تقییدی سے مبرّا ہے۔ حقیقت اور واقعیت کے اعتبار سے وجود اور ہر صفت ذاتی کا واجب تعالی کے لیے ثابت ہونا ضروری ہے اور یہ ضروری ہونا اس کی ذات سے انتزاع ہوتا ہے۔ لہذا یہ ضرورت کسی قید اور شرط کے ساتھ مقید نہیں ہے۔
[۸] طباطبائی، محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ص‌۲۷۴۔
اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ تمام عالم میں افاضہِ وجود اور وجود میں آنے والی ہر شیء کی ایجاد اس اعتبار سے اللہ تعالی کی جانب پلٹتی ہے کہ اس کی ذات اور صفت اس کے لیے ذاتی اور ضرورت ازلی ہے۔ ضرورت ازلی اس کے وجود اور اس کی صفات ذاتی کے ساتھ مختص ہے۔ نیز یہ ضرورت ازلی ذاتِ موضوع کی بساطت اور ذاتِ موضوع کی وحدت کے ساتھ سازگار اور اس کے ہمراہ ہے کیونکہ واجب الوجود بالذات ذاتًا بسیط اور واحد ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ملا صدار، محمد بن ابراہیم، اسفار اربعۃ، ج‌۱، ص‌۱۵۷۔    
۲. طباطبائی، محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ص‌۷۰۔    
۳. طباطبائی، محمد حسین،نہایۃ الحکمۃ، ص‌۷۰۔    
۴. ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، اسفار اربعہ، ج‌۱، ص‌۹۳۔    
۵. الأزلیة ملا صدرا، محمد ابراہیم، اسفار اربعہ، ج‌۱، ص‌۳۹۸۔    
۶. طباطبائی، محمد حسین،نہایۃ الحکمۃ، ص‌۷۰۔    
۷. طباطبائی، محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ص‌۶۸۔    
۸. طباطبائی، محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ص‌۲۷۴۔
۹. ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، اسفار اربعہ، ج‌۳، ص۱۶۔    
۱۰. صدرالمتالهین،الأسفارالأربعة، ج‌۱، ص‌۱۸۶    .
۱۱. صدرالمتالهین،الحاشیةعلی‌الإلهیات، ص‌۳۷.    


مأخذ

[ترمیم]

سایت پژوهه، برگرفته از مقاله «ضرورت ازلی».    






جعبه ابزار