عالم الذر اور میثاق
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
بعض آیات و روایات میں کائنات اور عالم کے وجود کی طرف اشارہ ہوا ہے اور انسان اس جہان سے پہلے کسی عالم میں تھا یا نہیں تھا اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ متعدد احادیث میں عالم الذر کی تعبیر استعمال ہوئی ہے جہاں انسان سے
عہد و میثاق لیا گیا اور بنیادی اعتقادات خصوصا اللہ تعالی کی الوہیت و ربوبیت کا اقرار لیا گیا۔
[ترمیم]
عالم الذر اور اس میں بنی آدمؑ سے عہد و میثاق کا بیان آیات و روایات سے ظاہر ہوتا ہے۔ سورہ اعراف آیت ۱۷۲ جسے
آیت میثاق بھی کہا جاتا ہے میں اللہ تعالی نے تمام فرزندانِ آدمؑ سے یہ اعتراف اور میثاق لیا کہ وہی ان کا ربّ ہے تاکہ روزِ قیامت کسی قسم کے بہانے کی گنجائش نہ ہو۔
[ترمیم]
انسان نے
اللہ تعالی کی ربوبیت کا فطری طور پر اقرار کیا ہے جس کا تذکرہ قرآن کریم میں واضح طور پر آیا ہے۔
اس اعتراف سے مراد اللہ تعالی کا فرزندانِ آدمؑ سے میثاق و پیمان لینا ہے جسے اللہ تعالی کی ربوبیت کا اقرار کر کے باندھا گیا۔ اس عہد و میثاق کو متعدد تعبیرات کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے، جیسے عہد اَ لستُ ، پیمانِ فطرت، میثاقِ توحید اور توحیدِ فطری۔
[ترمیم]
بعض مفسرین قائل ہیں کہ مخلوقات و موجودات دو طرح کی ہیں : ایک وہ ہیں جن کا وجود مجموعی طور پر اللہ کے نزدیک موجود ہے اور دوسرے وہ موجودات ہیں جو تدریجا ظاہر ہوتے ہیں۔ اس دنیاوی جہان سے پہلے ایک عالم تھا جس میں کوئی ایک موجود اللہ تعالی سے حجاب میں نہیں تھی اور وہاں ان وجودات نے اپنے باطنی شہود سے اللہ کا مشاہدہ کیا اور اس کی واحدنیت و ربوبیت کا اعتراف کیا۔
بعض محققین قائل ہیں کہ یہ میثاقِ الہی زبانِ حال سے تھا نہ کوئی کلام یا قول کے ذریعے تھا۔ انسان میں فطری طور پر استعداد کا ہونا یا عقلی طور پر یہ صلاحیت رکھنا کہ وہ معرفتِ الہی اپنے توان کے مطابق حاصل کرے کو فطری عہد و پیمان سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ پس میثاقِ الہی سے مقصود انسان میں فطری طور پر اس کی استعداد کا ہونا ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگ شیعہ، مقالہِ میثاق عالم ذر سے یہ تحریر لی گئی ہے، ج۱، ص۴۳۸۔