علم اجمالی کی منجزیت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



علم اجمالی کی منجزیت کا اطلاق اس تکلیفِ معلوم پر ہوتا ہے جس کے وجوبِ موافقت اور حرمتِ مخالفت کا اجمالی طور پر علم ہو۔


اصطلاح کی وضاحت

[ترمیم]

علم اجمالی کی منجزیت کا معنی مکلف کے حق میں تکلیف کا قطعی طور پر عائد ہونا ہے لیکن دوسری طرف سے اسے اجمال و ابہام ہے جس کی وجہ سے علم اجمالی کے منجز ہونے کی بحث مطرح کی جاتی ہے۔ علم اجمالی کے اطراف میں ایک طرف علم و قطع ہے جبکہ دوسری طرف شک و شبہہ ہے۔ اس وجہ سے علم اجمالی علم تفصیلی کے مقابلے میں آتا ہے۔ علم تفصیلی میں تکلیف کے تمام اطراف تفصیلی طور پر روشن ہوتے ہیں اور کسی قسم کا ابہام نہیں ہوتا۔

علم اجمالی کی منجزیت پر تین مبانی

[ترمیم]

علم اجمالی کی منجزیت کے مورد میں تین مبنی موجود ہیں:
۱. مشہور اصولی قائل ہیں کہ علم اجمالی بالجملہ (تمام موارد میں) مؤثر اور قطع کے تمام آثار کا حامل ہے۔ پس علم اجمالی کی قطعی مخالفت حرام اور قطعی موافقت کا حصول واجب ہے۔
۲. بعض علماء معتقد ہے کہ علم اجمالی بالجملہ (تمام موارد میں) بے اثر ہے اور قطع کے مفصل آثار میں سے کسی اثر کا حامل نہیں ہے۔ بلکہ علم اجمالی کی صورت میں مکلف مثل جہل محض ہے۔ علم اجمالی کی نہ قطعی موافقت واجب ہے اور نہ قطعی مخالفت حرام ہے۔
۳. بعض علماء قائل ہیں کہ علم اجمالی فی الجملہ (بعض موارد میں) مؤثر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ علم اجمالی کی قطعی مخالفت حرام قرار پائے گی جبکہ قطعی موافقت واجب نہیں ہے۔

علم اجمالی کا دورانِ امر ہونا

[ترمیم]

علم اجمالی میں ایک امر کا دو اطراف میں دائر ہونے کی درج ذیل صورتیں بنتی ہیں:
۱۔ ایک امر دو متباین اطراف میں دائر ہو،
۲۔ یا امر اقل اور اکثر میں دائر ہو،
۳۔ یا امر دو محذور میں دائر ہو۔
ان میں سے ہر صورت کا ایک خاص حکم ہے، مثلا اگر دو متباین اطراف میں ایک امر دائر ہو جائے تو یہ شبہہ یا تو شبہہ حکمیہ ہو گا یا شبہہ موضوعیہ۔ اگر شبہہِ حکمیہ ہو تو شبہ وجوبی ہے یا تحریمی، ہر دو حال میں شبہہ کے ایجاد کی وجہ یا تو نص کا مفقود ہونا ہے یا نص کا مجمل ہونا ہے یا نصوص میں تعارض ہونا ہے۔ اس کے مقابلے میں شبہہ موضوعیہ آتا ہے جس میں خارجی امور میں اشتباہ پایا جاتا ہے۔ شبہہِ موضوعی میں یا تو شبہہ محصورہ ہے یا شبہہ غیر محصورۃ ہے۔ ان موارد میں علم اجمالی کے منجز ہونے کی بحث مطرح کی جاتی ہے۔

مواردِ علم اجمالی کے مقام

[ترمیم]

علم اجمالی کے جتنے موارد بیان کیے گئے ہیں یہ سب درج ذیل دو موارد میں سے کسی ایک مورد سے متعلق ہوں گے:
۱. کیا علم اجمالی کی قطعی مخالفت جائز ہے یا حرام؟ بالفاظ دیگر کیا علم اجمالی کو جہل کامل کی مانند فرض کر سکتے ہیں اور اس کو اصلِ تکلیف میں شک قرار دیتے ہوئے اصالتِ براءت جاری کریں گے؟
۲. یا ایسا نہیں ہے بلکہ علم اجمالی کی قطعی مخالفت حرام ہے؟ یا قطعی مخالفت کی حرمت کے ساتھ احتمالی موافقت کافی ہے؟ بالفاظِ دیگر آیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم علم کے اجمالی کے اطراف میں ایک طرف کو انجام دیں اور دوسری طرف کو ترک کر دیں؟ یا ایسا نہیں کر سکتے بلکہ قطعی موافقت لازم ہے اور ضروری ہے کہ تمام اطرافِ شبہہ سے اجتناب کیا جائے؟

قطعی موافقت یا مخالفت اور احتمالی موافقت یا مخالفت کو سمجھنے کے لیے اس مثال پر دقت کیجیے، مثلا روزِ جمعہ یہ معلوم ہے کہ ظہر کے وقت نماز واجب ہے، لیکن یہ نہیں معلوم کہ آیا نماز ظہر واجب ہے یا نماز جمعہ؟ پس ایک طرف سے دیکھیں تو نماز کے واجب ہونے کا علم و قطع ہے لیکن دوسری طرف یہ شک ہے کہ آیا نماز ظہر واجب ہے یا نماز جمعہ؟ ایسے مورد میں اگر دونوں اطراف کو انجام دے دیا جائے تو قطع حاصل ہو جائے گا کہ مولی کے حکم کو بجا لایا گیا ہے اور مخالفت انجام نہیں پائی۔ اس کو موافقتِ قطعی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم دونوں اطراف کو ترک کر دیں تو یقینًا ہم نے واجب کو ترک کر کے حرام عمل انجام دیا ہے، اس کو مخالفتِ قطعی سے تعبیر کرتے ہیں یعنی قطع اور یقین ہے کہ میں نے مولی کی مخالفت انجام دی ہے۔ اگر ہم ایک طرف کو انجام دے ، مثلا نماز جمعہ پڑھ لیں تو دوسری طرف کے بارے میں شک قائم ہو گا کہ ممکن ہے کہ نمازِ ظہر واجب ہو؟ اس صورت میں احتمال ہو گا کہ میں نے واجب کو ادا کر دیا ہے کیونکہ دوسری طرف کے وجوب کا بھی احتمال ہے، اس کو موافقتِ احتمالی کہا جاتا ہے ، یعنی احتمال ہے کہ مولی کے حکم کو بجا لا کر موافقت کی ہے۔

علماء کے مختلف نظریات

[ترمیم]

مشہور علماء اصول قائل ہیں کہ علم اجمالی میں قطعی موافقت واجب اور قطعی مخالفت حرام ہے۔ وہ علماء جنہوں نے مشہور کے نظریے کو اختیار کیا ہے ان کا بعض موارد میں آپس میں اختلاف وارد ہوا ہے۔ شیخ انصاری قائل ہیں کہ علم اجمالی فقط شبہاتِ محصورہ میں منجزیت رکھتا ہے جبکہ شبہاتِ غیر محصورہ میں اس کا منجز ہونا ثابت نہیں ہے۔ ان کے مقابلے میں آخوند خراسانی قائل ہیں کہ علم اجمالی ہر دو مورد میں منجز ہے۔

علم اجمالی کی صورت میں منجزیتِ تکلیف کی کیفیت اور مختلف نظریات

[ترمیم]

علم اجمالی کے توسط سے تکلیف کیسے منجز ہوتی ہے ؟ اس بارے میں مختلف نظریات موجود ہیں:
۱۔ بعض علماء قائل ہیں کہ علم اجمالی موافقتِ قطعی کے وجوب اور مخالفتِ قطعی کی حرمت کا تقاضا کرتا ہے۔ اس صورت میں علم اجمالی مقتضی کہلائے گا جو تقاضا کرتا ہے کہ موافقتِ قطعی کا حصول واجب اور مخالفتِ قطعی کی انجام دہی حرام ہے
۲۔ بعض دیگر علماء ہر دو کی نسبت علم اجمالی کو علتِ تام قرار دیتے ہیں۔
۳۔ بعض دیگر اس مسئلہ میں تفصیل کے قائل ہیں۔
۴۔ بعض علماءِ اصول معتقد ہیں کہ اصولیوں کے درمیان علم اجمالی کا علت تام یا مقتضی ہونے کا اختلاف ان موارد میں پیش آیا ہے جہاں علم اجمالی معتبر بینہ کے اقامہ یا امارہِ معتبر سے حاصل ہوا ہو۔ کیونکہ تمام علماء متفق ہیں کہ جس مورد میں علم اجمالی کا شمار علم واجدنی میں سے ہو وہاں علم اجمالی علتِ تامہ ہے۔
[۶] انصاری، مرتضی بن محمد امین، فرائد الاصول، ج۲، ص۴۰۴۔
[۸] فاضل لنکرانی، محمد، کفایۃ الاصول، ج۵، ص۴۵۔


مربوط عناوین

[ترمیم]

مقام اثبات میں علم اجمالی۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. شہید صدر، سید محمد باقر، دروس فی علم الاصول، ج ۱، ص ۳۶۱۔    
۲. آخوند خراسانی، محمد کاظم بن حسین، کفایة الاصول، ص۳۷۵۔    
۳. نائینی، محمد حسین، فوائد الاصول، ج۴، ص۹۵۔    
۴. مکارم شیرازی، ناصر، انوار الاصول، ج۲، ص۲۸۲۔    
۵. انصاری، مرتضی بن محمد امین، فرائد الاصول، ج۱، ص۷۷۔    
۶. انصاری، مرتضی بن محمد امین، فرائد الاصول، ج۲، ص۴۰۴۔
۷. ایروانی، باقر، الحلقۃ الثالثۃ فی اسلوبہا الثانی، ج۳، ص۱۸۰۔    
۸. فاضل لنکرانی، محمد، کفایۃ الاصول، ج۵، ص۴۵۔


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۳۶۵، مقالہِ تنجیز علم اجمالی سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : اصولی اصطلاحات | علم اجمالی | مباحث حجت




جعبه ابزار