علم حدیث کی اصطلاحات

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



علم حدیث کی اصطلاحات سے آگاہی کسی بھی سند کی تحقیق میں بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔ لہذا علمِ حدیث کے طالب علم کیلئے ان اصطلاحات کاجاننا نہایت ضروری ہے۔


صحابہ

[ترمیم]

لغت کے لحاظ سے صحابہ (صاد کے کسرہ یا فتح کے ساتھ)صاحب کی جمع ہے،جس کے معنی ساتھی اور ہم نشین کے ہیں۔

← صحابہ کے اصطلاحی معنی


محدّثین نے صحابی کی تعریف یوں بیان کی ہے: الصحابی من لقی النبی مؤمنا به و مات علی الایمان؛ صحابی وہ شخص ہے جو رسولِ خداؐ سے بحالت ایمان ملاقات کرے اور ایمان کی حالت میں ہی دنیا سے رحلت کر جائے۔

← صحابی کے عرفی معنی


ابن جزری کہتے ہیں کہ:لکن العرف یخصص هذا الاسم بمن کثرت صحبته؛ عرف میں صحابی کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے، جس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ زیادہ عرصہ گزارا ہو۔
[۲] جزری، جامع الاصول، ج۱، ص۷۴۔


← صحابہ کی تعداد


رسول خداؐکی رحلت کے وقت، صحابہ کی تعداد ایک لاکھ چودہ ہزار تھی جن میں سے تقریباً ایک لاکھ افراد کو حدیث سننے کا شرف حاصل ہوا۔ ابو طفیل عامر بن واثلہ وہ صحابی رسول ؐہیں جو سب سے آخر (۱۱۰ہجری) میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
[۳] عسقلانی، ابن حجر، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ص۴۔
رسول اللہؐ کے بعض صحابہ آپؐ کی رحلت تک اتنے کم سن تھے کہ آپؐ سے تحملِ حدیث کے سلسلے میں زیادہ فیض یاب نہیں ہوسکے،اس لئے ان کی اکثر روایات دیگر صحابہ کے ذریعے رسول اللہؐ سے منقول ہیں۔ اہلِ سنت کے اکثر علماء،تمام صحابہ کو عادل جانتے ہیں،اس ضمن میں ابن حجراپنی کتاب الإصابة فی تمییز الصحابة میں لکھتے ہیں: اتفق اهل السنه علی ان الجمیع عدول یعنی اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام صحابہ بلا استثنا عادل ہیں۔

← أحوالِ صحابہ کے بارے میں کتابیں


صحابہ کے حالاتِ زندگی کو بیان کرنے والی کتابیں دو طرح کی ہیں،بعض کتابیں بطور مستقل اسی موضوع پر لکھی گئی ہیں اور کچھ کتابوں میں ضمنا صحابہ کے أحوال کا تذکرہ موجود ہے۔ پہلی قسم کی کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:
۱: الاستیعاب فی اسماء الاصحاب یہ صحابہ کے بارے میں اہم ترین کتابوںمیں سے ایک ہے اس کے مؤلف حافظ أبو عمرو،یوسف بن عبد اللہ،ابن عبد البر قرطبی (متوفی۴۶۳ھ) ہیں،مصنف نے اس کتاب میں ۳۵۰۰صحابہ کے حالات زندگی کا تذکرہ کیا ہے۔
۲: اسد الغابہ فی معرفة الصحابة اس کتاب کے مؤلف ابن اثیر علی بن أبی الکرم (متوفی۶۳۰ھ)ہیں اور یہ ۷۵۵۴صحابہ کے تراجم پر مشتمل ہے، یہ کتاب مصر اور ایران سے پانچ جلدوں میں چھپی ہے اور علامہ شمس الدین ذہبی نے اس کتاب کی تلخیص بنامِ تجرید اسماء الصحابہ تحریر کی ہے جس میں ۸۸۶۶صحابہ کا ذکر کیا ہے،ذہبی نے اس کتاب میں ان اسماء کا اضافہ کیا ہے جن کو ابن اثیر نے اسد الغابہ میں شامل نہیں کیا تھا اور ذہبی کا یہ نوشتہ آخری دفعہ بمبئی سے دو جلدوں میں شائع کیا گیا ہے۔
۳: الاصابة فی تمییز الصحابة یہ کتاب، نویں صدی کے معروف محدّث شہاب الدین احمد بن علی بن محمد،ابن حجر عسقلانی کی تالیف کردہ ہے۔
یہ کتاب مصر سے مستقل طور پر بھی شائع ہوئی ہے اور الاستیعاب کے ہمراہ بھی چھپی ہے۔
۴: (طبقات الکبری) جوکہ طبقات ابن سعد کے نام سے معروف ہے،اس کے مصنّف واقدی کے کاتب،أبو عبد اللہ محمد بن سعد زہری ہیں جو ابن سعد کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ابن سعد کی مذکورہ کتاب صحابہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس میں تابعین کا تذکرہ بھی موجود ہے۔
واضح رہے کہ پہلی تین کتابوں ( الاستیعاب،اسد الغابہ اور الإصابہ) میں اسماء صحابہ کو حروفِ تہجی کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے اور ان کتب کے آخر میں ان صحابہ کا ذکر کیا گیا ہے جو کنیت یا لقب کے لحاظ سے مشہور ہیں لیکن ابن سعد نے اپنی کتاب صحابہ اور تابعین کے طبقات اور مراتب کے اعتبار سے تحریر کی ہے اور یہ کتاب،بیروت سے شائع کردہ ایڈیشن کے مطابق آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے جن کی تفصیل یوں ہے:
جلد اول: سیرتِ نبیؐ پر مشتمل ہے۔
جلد دوم: غزوات اور رسول اللہ ﷺکے زمانےمیں رونما ہونے والے واقعات و سانحات اور ان صحابہ کا تذکرہ جو مدینہ میں فتوی دیتے تھے نیز اس میں ان صحابہ کا ذکر بھی موجود ہے جو قرآن کی جمع آوری میں مشغول تھے۔
جلد سوم: بدری صحابہ کے حالات زندگی۔
جلد چہارم: وہ مہاجرین اور انصار جو فتح مکہ سے قبل مسلمان ہوئے تھے لیکن غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوئے۔
جلد پنجم: اہل مدینہ کے صحابہ وتابعین، نیز مکہ، طائف، یمن،یمامہ اور بحرین کے رہنے والے۔
جلد ششم: کوفہ میں رہنے والے صحابہ وتابعین۔
جلد ہفتم: بصرہ،، مدائن، خراسان، رے، ہمدان، قم، انبار، شام، جزیرہ، افریقہ اور اندلس وغیرہ میں رہنے والے صحابہ وتابعین۔
جلد ہشتم: صرف صحابیات کے لیے مخصوص ہے۔

تابعین

[ترمیم]

تابعین،تابعی کی جمع ہے جوکہ تابع کی طرف منسوب ہے جس کے معنی پیرو کے ہیں۔ محدّثین کی اصطلاح میں،تابعی اس مسلمان کو کہا جاتا ہے،جس نے خود رسول اللہ ؐکو تو نہ دیکھا ہو لیکن آپؐ کے کسی صحابی سے ملاقات ہوئی ہو اور اگرکسی نے ایمان کی حالت میں صحابہ کو درک نہ کیا ہوبلکہ فقط تابعین کی مصاحبت نصیب ہوئی ہو توایسا شخص تبع تابعین کہلائے گا۔

← تابعین اور تبع تابعین کی طبقہ بندی


تابعین اور ان کے اتباع(تبع تابعین) کو مندرجہ ۹مراتب میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
[۴] عسقلانی، ابن حجر، تقریب التهذیب، ص۶۔

۱: بڑے تابعین جیسے سعید بن مسیب۔
۲: متوسط طبقہ جیسے حسن بصری اور ابن سیرین وغیرہ۔
۳:تیسرے طبقہ میں وہ افراد شامل ہیں جن کی اکثر روایات پہلے طبقہ سے منقول ہیں مثلا زہری اور قتادہ وغیرہ۔
۴:وہ اشخاص جنہوں نے فقط ایک یا دو صحابہ سے زیادہ کو نہ دیکھا ہو،جیسے أعمش۔
۵:وہ افراد جو چوتھے طبقے کے ہم عصر ہوں لیکن کسی صحابی سے ملاقات نہ ہوئی ہو،جیسے ابن جریج۔
۶:کبارِ اتباع تابعین جیسے مالک بن انس اور سفیان ثوری وغیرہ۔
۷:تبع تابعین کا متوسط طبقہ جیسےا ابن عیینہ اور ابن علیہ۔
۸:صغارِتبع تابعین جیسے شافعی اور ابو داؤدطیالسی۔
۹:وہ افراد جنہوں نے تابعین کو نہ دیکھا ہوں اور تبع تابعین سے احادیث نقل کی ہوں جیسے أحمد بن حنبل۔
ان طبقات میں سے فقط طبقہ اول کے تابعین نے،پہلی صدی ہجری میں زندگی بسر کی ہے۔

مخضرم

[ترمیم]

مخضرمین ان تابعین کو کہا جاتا ہے جنہوں نے جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں کا مشاہدہ کیا ہو لیکن ان کو رسولِ خداؐکی ملاقات کا شرف نصیب نہ ہوا ہو۔ اشتقاق کے لحاظ سے مخضرم (خَضرَم َ)سے مأخوذ ہے جس کے معنی کاٹ دینے کے ہیں اورچونکہ اہل ِجاہلیت اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے اونٹوں کے کان کاٹ دیتے تھے (تاکہ کفار کے ساتھ جہاد میں ان کے اونٹ جنگی غنائم کے ساتھ مخلوط نہ ہوں )اس لئے وہ مخضرمین کے نام سے معروف ہوئے۔ حاکم نیشاپوری نے مسلم بن حجاج (صاحبِ صحیح) سے ایسے متعدد تابعین کے نام ذکر کیے ہیں جنہوں نے دورِ جاہلیت کا مشاہدہ کیا تھا لیکن رسول اللہ ﷺکی مصاحبت سے شرف یاب نہیں ہوسکے تھے۔

نوابِ اربعہ

[ترمیم]

نواب نائب کی جمع ہے جس کے معنی جانشین کے ہیں۔ آئمہ معصومینؑ،مختلف علاقوں میں بسنے والے شیعوں اور پیروکاروں کے ساتھ رابطے کا کام،اپنے خاص وکیلوں اور نمائندوں کے ذریعے انجام دیتے تھے اور چونکہ ان نمائندوں کا تعین اور انکوتفویضِ اختیارات کا عمل براہِ راست ائمہ ؑکے ذریعے انجام پاتا تھا اس لئے ایسے نمائندے،نائبین خاص کے نام سے مشہور ہیں۔ نیابتِ خاص کے مقابلے میں نیابتِ عام ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ غیبتِ امامؑ میں فقہاء ومجتہدین آپ ؑ کی نیابت میں،لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

غیبت ِ صغری میں امام ؑکے چار خاص نائبین جو آپؑ کے اور شیعوں کے درمیان رابطہ برقرار رکھے ہوئے تھے،نوابِ اربعہ کے نام سے معروف ہوئے۔ نوابِ اربعہ کی نیابت کا دورانیہ ۶۹سالوں(امام حسن عسکریؑ کی شہادت ۲۶۰ھ سے لیکر غیبت کبری۳۲۹ھ کے آغاز تک)پر محیط تھا۔ غیبت صغری کے دوران امام زمانہ ؑکے نائبین خاص یہ تھے:

← ابوعمر، عثمان بن سعید عمروی


امام ؑکے سب سے پہلے نائب خاص،ابو عمر،عثمان بن سعید عمری تھے جوکہ امام علی نقی ؑ اور امام حسن عسکری ؑ کے بھی نائب رہ چکے تھے۔ امام ہادی ؑ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ: هذا ابو عمر و الثقه الامین، ما قاله لکم فعنی یقوله و ما اداه الیکم فعنی یؤدیه یعنی ابو عمر،معتمد اور امین ہیں جو کچھ وہ تمہیں کہے گا وہ میری جانب سے ہوگا اور جو کچھ وہ تمہارے حوالے کرے گا وہ بھی میری طرف سے ہوگا۔
نیز امام حسن ؑ سے بھی آپ کے بارے میں منقول ہے: هذا ابو عمر و الثقه الامین، ثقه الماضی و ثقتی فی المحیا و فی الممات. فما قاله لکم، فعنی یقوله و ما ادی الیکم، فعنی یؤدیه؛ ابو عمرو ثقہ اور امین ہیں، ماضی میں بھی میرے معتمد تھے، میری زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی وہ میرے بااعتماد اور معتمد رہیں گے لہذا جو وہ تمہیں کہے گا وہ میری جانب سے ہوگا۔ آپ ؑ نے عثمان بن سعید کے بارے میں مزید یہ بھی فرمایا تھا: اشهدوا علی ان عثمان بن سعید العمروی وکیلی وان ابنه محمد وکیل ابنی مهدیکم؛ یعنی اس بات پر گواہ رہنا کہ عثمان بن سعید میرے وکیل ہیں اور ان کے بیٹے محمد بن عثمان،میرے بیٹے (امام مہدی ؑ ) کے وکیل ہوں گے۔
ایک اور روایت میں،امام حسن عسکریؑ، أحمد بن اسحاق قمی سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: العمروی و ابنه ثقتان فما ادیا الیک فعنی یؤدیان و ما قالاه لک، فعنی یقولان فاسمع لهما و اطعهما فانهما الثقتان المامونان؛ عثمان بن سعید اور ان کے بیٹے محمد بن عثمان دونوں ثقہ اور معتمد افراد ہیں وہ جو کچھ تم تک پہنچاتے ہیں وہ میری جانب سے ہے اور جو کہتے ہیں وہ میرا فرمان ہے پس تم ان کی بات سنا کرو اور ان کی اطاعت کرو کیونکہ وہ دونوں بااعتماد اور امانتدار ہیں۔

← محمد بن عثمان عمروی


آپ ؑ کے دوسرے نائب،ابو جعفر محمد بن عثمان عمروی تھے جو آپ ؑکے پہلے نائب کے فرزند تھے۔ محمد بن عثمان کو کم وبیش ۵۰ سال آپ ؑکی نیابت اور وکالت کا شرف حاصل ہوا ہے اور ۳۰۴یا ۳۰۵ ہجری میں آپ اس دارِفانی سے رحلت فرما گئے۔

← حسین بن روح نوبختی


زمانہ غیبت صغری کے تیسرے نائب ابو القاسم،حسین بن روح نوبختی تھے جن کو نائبِ دوم محمد بن عثمان نے،امام زمانہ ؑ کے حکم سے تیسرے نائب کے طور پر متعارف کروایا اور آپ ۳۲۹ہجری میں انتقال فرما گئے۔

← علی بن محمد سمری


امام ؑ کے چوتھے نائبِ خاص علی بن محمد سمری تھے جو ۳۲۹ ہجری کو وفات پاگئے اور آپ نے اپنی رحلت سے قبل،امام کی جانب سے یہ توقیع مبارک صادر کی، جس میں امام آپ سے خطاب فرماتے ہیں کہ: بسم الله الرحمان الرحیم، یا علی بن محمد السمری! عظم الله اجر اخوانک فیک، فانک میت ما بینک و بین ستة ایام، فاجمع امرک و لا توص الی احد؛ بسم اللہ الرحمن الرحیم،اے علی بن محمد سمری خدا تیرے مؤمن بھائیوں کو تیری مصیبت پر صبر عطا فرمائے تم آئندہ چھ دنوں میں دنیا سے رخصت ہو جاؤ گے لہذا اپنے (باقی ماندہ) امور کو انجام دو اور کسی کو اپنا نائب اور وصی مقرر نہیں کرنا۔ اس طرح ان چار شخصیات کی نیابت،۶۹سالوں کے ایک لمبے عرصے پر محیط تھی لیکن علامہ طبرسی اپنی کتاب اعلام الوری میں لکھتے ہیں کہ: وکانت مدة هذه الغیبة اربعا و سبعین سنة یعنی غیبت صغری کا دورانیہ ۷۴ سال پر مشتمل تھا۔
[۵] طبرسی، اعلام الوری، ص۲۵۴، چاپ سنگی۔
حقیقت یہ ہے کہ علامہ طبرسیؒ نے یہ بات، امام ؑ کی تاریخِ ولادت (۲۵۰ھ) کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہی ہے اور اس اعتبار سے ان کی بات درست ہے کہ آپ ؑکی مدتِّ غیبت کا آپؑ کی پیدائش سے حساب کیا جائے لیکن اکثر علماء نے،غیبت صغری کی مدت کو ۶۹سال ہی قرار دیا ہے۔

سند

[ترمیم]

سند کے لغوی معنی اعتماد اور سہارے کے ہیں۔ علمِ حدیث کی اصطلاح میں سند، راویوں کے اس سلسلے کوکہتے ہیں جو معصوم کی بات (حدیث)ہم تک منتقل کرے۔ ابن جماعہ کہتے ہیں: و اخذه اما من السند و هو ما ارتفع و علا من سفح الجبل لان المسند یرفعه الی قائله، او من قولهم فلان سند‌ای معتمد، فسمی الاخبار عن طریق المتن سندا لاعتماد الحفاظ فی صحه الحدیث و ضعفه الیه ؛ یعنی یا تو (السند) سے مأخوذ ہے جس کے معنی زمین کی اونچی جگہ کے ہیں کیونکہ مُسنِداس کو قائل کی طرف نسبت دیتا ہے یا( فلان سنَد )سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنی با اعتماد ہونے کے ہیں اور متن کو منتقل کرنے والے طریق کو سند اس وجہ سے کہا گیا ہے کیونکہ محدّثین کسی حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے میں اس پر اعتماد کرتے ہیں۔

اسناد

[ترمیم]

محدّثین نے اسناد کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے: رفع الحدیث الی قائله یعنی حدیث کی نسبت اس کے قائل کی طرف دینا۔ طیبی سند اور اسناد کے بارے میں کہتے ہیں: و هما (السند و الاسناد) متقاربان فی معنی اعتماد الحفاظ فی صحة الحدیث و ضعفه علیهما و قال ابن جماعه: المحدثون یستعملون السند و الاسناد لشیء واحد؛ سند اور اسناد، دونوں معنی (اعتماد) کے لحاظ سے ایک دوسرے کے قریب ہیں کیونکہ محدّثین،صحت اور ضعف حدیث میں ان پر اعتماد کرتے ہیں اور ابن جماعہ نے کہا ہے کہ:محدثین سند اور اسناد کو ایک معنی میں استعمال کرتےہیں۔
اسناد مصدر ہونے کی وجہ سے فقط مفرد استعمال ہوتا ہے لیکن اگر بمعنی سند مستعمل ہوتو اس صورت میں اس کی جمع ممکن ہے مثلا کہا جائے کہ روی الشیخ هذا الحدیث باسانید مختلفة یعنی فلاں شیخ نے اس حدیث کو متعدد اسناد کے ساتھ نقل کی ہے۔ احادیث کو سند کے ساتھ نقل کرنا، امتِ مسلمہ کی اہم خصوصیات میں سےہے اور سابقوں امتوں جیسے یہود و نصاری کو یہ امتیاز حاصل نہیں ہے، اس خصوصیت کو ابن حزم یوں بیان کرتے ہیں: نقل الثقة عن الثقة یبلغ به النبی صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم مع الاتصال، خص الله به المسلمین دون سائر الملل و اما مع الارسال والاعضال فیوجد فی کثیر من الیهود ولکن لا یقربون فیه من الموسی قربنا من محمد بل یقفون بحیث یکون بینهم و بین موسی اکثر من ثلاثین عصرا وانما یبلغون الی شمعون و نحوه... قال: واما اقوال الصحابة و التابعین فلا یمکن الیهود ان یبلغوا الی صاحب نبی اصلا و لا الی تابع له و لا یمکن النصاری ان یصلوا الی اعلی من شمعون و بولسابو علی جیانی کہتے ہیں: اللہ تعالی نے امتِ مسلمہ کو تین ایسی خصوصیات سے نوازا ہے جو سابقہ امتوں کو نصیب نہیں ہوئی: اسناد،انساب اور إعراب۔

متن

[ترمیم]

لغت کے لحاظ سے متن کے معنی،زمین کا سخت حصہ جو سطح زمین سے کچھ بلند ہو؛ کے ہیں۔ علم حدیث کی اصطلاح میں متن کی وضاحت یوں کی گئی ہے: متن فهو الفاظ الحدیث التی تتقوم بها المعانی. و قال بعض: هو ما ینتهی الیه غایة السند من الکلام یعنی متن حدیث کے ان الفاظ کو کہتے ہیں جن سے معانی وجود میں آتے ہیں یا کلام کے اس حصے کو کہتے ہیں جس پر سند کا سلسلہ ختم ہوجائے۔

وجہ اور طریق کے معنی

[ترمیم]

وجہ اور طریق دونوں سند کے مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ مثلا کہا جاتا ہے کہ: نقل الشیخ هذا الحدیث بهذه الطریق، او هذا حدیث لایعرف الا من هذا الوجه؛ شیخ نے اس حدیث کو اس سند کے ساتھ نقل کیا ہے یا یہ حدیث فقط اسی سند کے ساتھ مشہور ہے۔

مُسنِد کے معنی

[ترمیم]

اصطلاحِ حدیث میں مسند اس شخص کو کہا جاتا ہےجو حدیث کو سند کے ساتھ روایت کرے،خواہ اس حدیث کے بارے میں جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔

مُحدّث

[ترمیم]

محدِّث سے مراد وہ شخص ہے جوروایات کے علل ونقائص،صحت وضعف اور راویوں کے احوال کا علم رکھنے کے ساتھ ساتھ،کافی مقدار میں متونِ حدیث کا حافظ ہو۔

حافظ کے معنی

[ترمیم]

حافظ کا درجہ محدّث سے قدرے بلند ہے کیونکہ اسے احادیثِ رسولِ اکرمؐ،ان میں اختلاف واتفاق کے موارد اور محدّثین اور راویوں کے طبقات کا پورا علم ہوتا ہے۔ فتح الدین بن سد الناس محدّث اور حافظ میں فرق بیان کرتے ہوئے کہتےہیں کہ: جو شخص علمِ حدیث میں روایت اور درایت کے لحاظ سے مشغول ہو اور اکثر روایات کے بارے میں علم رکھتا ہو،وہ محدّث کہلاتا ہے اور اگر حدیث کے حوالے سے اس کی معلومات کا دائرہ وسیع تر ہو اس طرح کہ راویوں اور محدّثین کے طبقات کو بھی جانتا ہو تو ایسا شخص حافظ کہلاتا ہے۔
ابو شامہ کہتے ہیں کہ علومِ حدیث کی تین اقسام ہیں:
۱ـ متون حدیث کو حفظ کرنا،غریب الحدیث کی معرفت اور اس کا فہم۔
۲ـ راویوں کی شناخت اور اسناد کو حفظ کرنا۔
۳ـ احادیث کو جمع کرنا،سماعِ حدیث اور اس کو تحریر کرنا۔
حافظ بن حجر، ابو شامہ کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:جو شخص مذکورہ تین فنون میں مہارت حاصل کرے گا وہی محدّث کہلائے گا ورنہ محدّث کا مقام حاصل نہیں کرسکے گا۔ ڈاکٹر صبحی صالح کہتے ہیں کہ: اہم ترین چیز،جس کا جاننا حافظ کیلئے لازمی ہے وہ محدّثین اور راویوں کے ہر طبقہ کے بارے میں علم حاصل کرنا ہے۔
[۱۲] صبحی، صالح، علوم الحدیث و مصطلحه ص۷۲۔
اس کے بعد وہ کہتے ہیں: لیکن ایسے افراد طولِ تاریخ میں بہت کم پائے جاتے ہیں جن میں حافظ کی صفت(راویوں کے طبقات اور احوال کے بارے میں وسعتِ معلومات)موجود ہو۔ صبحی صالح نے یہ کہنے کے بعد کچھ ایسے محدّثین کے نام ذکر کیے ہیں جن کے حفظِ حدیث کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے جیسے احمد بن حنبل اور ابن عقدہ وغیرہ۔ بعض نے کہا ہے کہ حافظ وہ ہے جس کو ایک لاکھ احادیث ان کی اسناد کے ساتھ حفظ ہوں۔

مُخرِج اور مَخرَج

[ترمیم]

علامہ قاسمی کہتے ہیں کہ: کثیرا، یقولون بعد سوق الحدیث: خرجه فلان، او اخرجه، بمعنی ذکره. فالمخرج بالتشدید او التخفیف، اسم فاعل، هو ذاکر الروایه کالبخاری و اما قولهم فی بعض الاحادیث (عرف مخرجه او لم یعرف مخرجه) فهو (بفتح المیم و الراء) بمعنی محل خروجه و هو رجاله الراوون له لانه خرج منهم؛ اکثر اوقات محدّثین کسی حدیث کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ:اس حدیث کو فلاں نے خارج کردیا،جس کے معنی ذکر کرنے کے ہیں یعنی فلاں نے مذکورہ حدیث کو(فلاں جگہ) ذکر کردیا ہے۔ مُخرِّج یا مُخرِج اسم فاعل ہے یعنی روایت ذکر کرنے والاجیسے بخاری۔ بعض اوقات کہتے ہیں: (عرف مَخرَجه) جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ فلاں حدیث کا مخرج (مصدر) معلوم ہے،یا کہتے ہیں: (لم یعرف مخرجه)یعنی فلاں حدیث کا محلِ صدور معلوم نہیں)
مُخرج یا مُخرّج کا اطلاق عام طور پر،مشہور اور بنیادی کتبِ حدیث جیسے صحاح وغیرہ کے مؤلفین پر کیا جاتا ہےمثال کے طور یہ کہا جاتا ہے: أخرجه الکلینی فی الکافی یا أخرجه الشیخ فی التهذیب یا اخرجه الصدوق فی الفقیه یا أخرجه البخاری فی صحیحه یا أخرجه مسلم فی صحیحه وغیرہ؛ میرداماد تخریج اور اخراج میں فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:تخریج وہاں بولاجاتا ہے جہاں حدیث کا کچھ حصہ نقل کرنا ہو اور جہاں پوری حدیث ذکر کرنا ہو وہاں اخراج کا لفظ استعمال کیا جاتاہے۔
اس کے علاوہ کچھ دیگر معنی بھی ذکر ہوئے ہیں مثلاًجب حدیث صحیح سند اور محکم متن کے ساتھ مروی ہو تو اس کیلئےتخریج (خرّجه) استعمال کرتے ہیں لیکن بطورِمطلق کسی حدیث کو نقل کرنا ہو تو اخراج (أخرجه) کہتے ہیں۔

طبقہ

[ترمیم]

طبقہ کے لغوی معنی جماعت کے ہیں اورمحدّثین کی اصطلاح میں طبقہ کا اطلاق ان لوگوں پر کیا جاتا ہے جو ہم عصر ہوں اور اپنے اساتذہ سے حصول علم اور حدیث سننے میں بھی یکساں ہوں۔

شیخ

[ترمیم]

استادِحدیث اور وہ شخص جس سے روای، احادیث اخذ کرتے ہیں؛ شیخ کہلاتا ہے لیکن شیعہ کتبِ حدیث میں شیخ کا اطلاق، عام طور پر شیخ طوسیؒ پر کیا جاتا ہے۔

مشیخہ

[ترمیم]

لفظ مشیخہ شیخ کی جمع ہے ان سے مراد وہ اکابرین اور اساتید ہیں،جن سے روای احادیث نقل کرتے ہیں۔

اعتبار

[ترمیم]

محدّثین کی اصطلاح میں کسی حدیث کی، کتبِ حدیث (صحاح ومسانید وغیرہ )میں دیگر اسناد تلاش کرنا اعتبار کہلاتا ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ معلوم ہوجائے کہ مذکورہ حدیث کو روایت کرنے میں فلاں راوی کے ساتھ کوئی شریک ہے یا فقط اسی راوی نے نقل کی ہے۔
[۱۴] عسقلانی، احمد بن علی، شرح نخبه الفکر، ص۱۵۔


مولی

[ترمیم]

بعض احادیث کی اسناد میں لفظِ مولی استعمال کیا جاتاہے،جس کا اطلاق مندرجہ ذیل تین معنوں میں سے کسی ایک پر ہوتا ہے:
۱ـ آقا اور مالک
۲ـ عبد اور غلام
۳ـ ہم پیمان اور حلیف

مُملی

[ترمیم]

مملی وہ شخص ہے جو حدیث،دوسروں کو املاء کرائے۔ املا اور املال دونوں کلمات اسی معنی میں استعمال ہوئے، جیساکہ ارشادخداوندی ہے:فَهِيَ تُمْلى‌ عَلَيْهِ بُكْرَةً وَ أَصِيلًا وَلْیُمْلِلِ الَّذِی عَلَیْهِ الْحَقُّ)

مستملی

[ترمیم]

مستملی اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے شیخ سے املاءِ حدیث کا تقاضا کرتا ہے۔

معید

[ترمیم]

وہ شخص جو شیخ سے حدیث سن کر دوسرں کے سامنے دہرائے یا انہیں لکھوائے معید کہلاتا ہے۔
یہ عمل عام طور پر،درسِ حدیث کے ان بڑے اجتماعات میں انجام پاتا ہے جہاں شیخ کی آواز،حاضرین ِدرس صحیح طور پر نہ سن سکتے ہوں،ایسی صورت میں ایک یا متعدد افراد،شیخ کی بات کو بلند آواز کے ساتھ تکرار کرکے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔

عدۃ من اصحابنا

[ترمیم]

عدہ کے لغوی معنی جماعت کے ہیں۔ محدّثین کی اصطلاح میں عده شیوخِ حدیث کی اس جماعت کو کہتے ہیں جن کے ذریعے راوی نقل ِحدیث کرتا ہے۔ شیخ کلینی عام طور پر الکافی کی اسناد میں یہ تعبیر استعمال کرتے ہیں: عدة من اصحابنا عن...۔ عدۃ میں جو افراد شامل ہیں ان کو علامہ کی خلاصہ الاقوال، سید محمد باقر شفتی اصفہانی کے رسالہ (یہ رسالہ مجلس شوری کی لائبریری شمارہ ۱۶۰۸ میں موجود ہے) میں اور فاضل کنی کی توضیح المقال
[۱۷] فاضل کنی، توضیح المقال، ص ۲۱، ضمیمہ رجال بوعلی۔
میں متعارف کرایا گیا ہے۔ شیخ کلینیؒ عدة من اصحابنا کے ذریعے مندرجہ تین اشخاص سے روایت نقل کرتے ہیں: احمد بن محمد عیسی، احمد بن محمد بن خالد برقی اور سہل بن زیاد۔
علامہ حلیؒ نے خلاصہ الاقوال میں عدۃ کی تفصیل یوں بیان کی ہے: وہ افراد جو احمد بن محمد بن عیسی سے روایت کرتے ہیں؛ مندرجہ ذیل ہیں: محمد بن یحیی،علی بن موسی الکمذانی،داوود بن کوره، احمد بن ادریس اور علی بن ابراهیم بن هاشم۔ عدۃ کے وہ افراد جو احمد بن محمد بن خالد برقی سے نقل کرتے ہیں یہ ہیں: علی بن ابراهیم، علی بن محمد بن عبدالله بن اذینہ، احمد بن عبدالله بن امیہ و علی بن حسن‌۔
وہ جماعت جو سہل بن زیاد سے روایات نقل کرتی ہے ان کے نام یہ ہیں:علی بن محمد بن علان، محمد بن ابی عبدالله، محمد بن حسن اور محمد بن عقیل کلینی۔ توضیح المقال کے بیانات سے معلوم ہوتاہے کہ شیخ کلینیؒ نے عدہ کے ذریعے مذکورہ تین افراد (احمد بن محمد عیسی،احمد بن محمد بن خالد برقی،سهل بن زیاد)کے علاوہ دیگر افراد سے بھی روایات نقل کی ہیں جن کی تفصیل کتبِ حدیث میں موجود نہیں اور مجہول الحال ہیں۔
واضح رہے کہ کتب رجال میں فقط مذکورہ تین عدوں کے بعض افراد کی توثیق وارد ہوئی ہے اس لئے ان کے ذریعے منقول احادیث صحیح شمار ہوگی۔

مسانید

[ترمیم]

مسانیدمُسْنَد کی جمع ہے،مسند اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں صحابہ کی مرویات کو(حروف تہجی یا سبقت در اسلام کی ترتیب پر )الگ الگ جمع کیا گیا ہے اور یہ عمل سب سے پہلے ابو داوود طیالسی (متوفی۲۰۴)انجام دیا تھا جس کی کتاب مسند طیالسی کے نام سے معروف ہوئی۔ لیکن حجم کے اعتبار سے سب سے بڑی مسند،امام احمد بن حنبل (متوفی۲۴۱ھ) نے تحریر کی جس میں ۳۰ ہزار سے زیادہ أحادیث کو جمع کیا گیا ہے۔

معاجم

[ترمیم]

معاجم مُعْجَم کی جمع ہے،محدّثین کی اصطلاح میں معجم اس کتاب کو کہتےہیں جس میں اسمائے شیوخ کی ترتیب پر احادیث کو جمع کیا گیا ہواور عام طور پر معاجم میں حروف تہجی کی ترتیب سے احادیث جمع آوری ہوئی ہے۔ کتبِ معاجم میں مشہور ترین تین کتابیں ہیں: معجم صغیر،معجم اوسط اور معجم طبرانی۔

مستدرک

[ترمیم]

مستدرک، وہ کتاب جس میں کسی حدیث کی کتاب پر ایسی حدیثوں کو اضافہ کیاجائے جو اسی کتاب میں مذکورأحادیث کی شرائط کے مطابق ہوں اور اس کتاب میں قابل ذکر ہونے کے باوجود مذکور نہ ہوں جیسے حاکم نیشاپوری کی مستدرک صحیحین اور محدث نوری کی مستدرک وسائل الشیعہ۔

مستخرجات

[ترمیم]

مستخرجات مستخرج کی جمع ہے،حدیث کی اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں مصنف کسی دوسری کتاب کی احادیث کو ( اثبات کرنے کیلئے ) اپنی اسناد سے جمع آوری کرے؛ اس کے متعدد فوائد ہیں۔ جیسے مستخرج ابی بکر اسماعیلی،مستخرج برقانی، مستخرج ابی احمد الغطریفی، مستخرج ابی عبدالله بن ابی ذهل اور مستخرج ابی بکر بن مردویہ کہ جو صحیح بخاری پر لکھی گئی ہیں۔ اسی طرح مستخرج ابی عوانہ اسفرائنی، مستخرج ابی جعفر بن حمدان، مستخرج محمد بن رجاء نیشابوری، مستخرج جوزقی، مستخرج ابی احمد شارکی، مستخرج ابی الولید قرشی، مستخرج ابی عمران جوینی، مستخرج ابی نصر طوسی اور مستخرج ابی سعید خیری کہ جن میں صحیح مسلم کی احادیث کو تخریج کیا گیا ہے۔

اجزاء

[ترمیم]

یہ جزء کی جمع ہے یعنی احادیث کا وہ مجموعہ جو ایک شیخ سے منقول ہو یا ایک موضوع کے بارے میں ہو،جیسے جزء سیوطی جو صلوة ضحی کے موضوع پر ترتیب دیا گیا ہے اس کے علاوہ شیخ صدوقؒ کی کتاب الخصال اور محمد بن قاسم عاملی کی کتاب الإثنا عشریة فی المواعظ العددیة کی مثال بھی دی جاسکتی ہے۔

نوادر

[ترمیم]

وحید بہبہانی نوادر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بظاہر اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں ایسی متفرق احادیث کو جمع کیا گیا ہو جن کو تعداد میں کمی کے باعث مستقل باب کے تحت مندرج کرنا ممکن نہ ہو۔ کتب حدیث کی مشہور کتابوں (اصول کافی وغیرہ)میں اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بعض علماء نے نوادر کی وضاحت یوں کی ہے کہ کوئی راوی جب اپنے مخصوص طریق (سند) کے علاوہ کسی اور واسطے سے نقلِ حدیث کرے تو اس کی روایت نادر شمار ہوگی۔ لیکن حدیث کی کتابوں میں مذکور نوادر کے اعتبار سے پہلا معنی درست ہے۔

متعلقہ عنوانات

[ترمیم]

حدیثی اصطلاحات۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. عسقلانی، ابن حجر، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ص۱۰۔    
۲. جزری، جامع الاصول، ج۱، ص۷۴۔
۳. عسقلانی، ابن حجر، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ص۴۔
۴. عسقلانی، ابن حجر، تقریب التهذیب، ص۶۔
۵. طبرسی، اعلام الوری، ص۲۵۴، چاپ سنگی۔
۶. علامہ قاسمی، قواعد التحدیث من فنون مصطلح الحدیث، ص۲۰۱۔    
۷. الرواشح السماویه، میر داماد، ج ۱ ص، ۴۰۔    
۸. علامہ قاسمی، قواعد التحدیث من فنون مصطلح الحدیث، ص۲۰۱۔    
۹. علامہ قاسمی، قواعد التحدیث من فنون مصطلح الحدیث، ص۲۰۱۔    
۱۰. علامہ قاسمی، قواعد التحدیث من فنون مصطلح الحدیث، ص۷۷۔    
۱۱. سیوطی، جلال الدین، تدریب الراوی، ص۳۱۔    
۱۲. صبحی، صالح، علوم الحدیث و مصطلحه ص۷۲۔
۱۳. علامہ قاسمی، قواعد التحدیث من فنون مصطلح الحدیث، ص۲۱۹۔    
۱۴. عسقلانی، احمد بن علی، شرح نخبه الفکر، ص۱۵۔
۱۵. فرقان/سوره۲۵، آیت:۶۔    
۱۶. بقره/سوره۲، آیت:۲۸۲۔    
۱۷. فاضل کنی، توضیح المقال، ص ۲۱، ضمیمہ رجال بوعلی۔
۱۸. علامہ حلی، خلاصہ الاقوال، ص ۴۳۰۔    
۱۹. سیوطی، جلال الدین، تدریب الراوی، ص ۱۱۷۔    
۲۰. سیوطی، جلال الدین، تدریب الراوی، ص۱۱۷۔    


مأخذ

[ترمیم]

ویب سایٹ اندیشہ قم، مأخوذ از مقالہ اصطلاحات محدثان، راویان، لنک پر نظر ثانی:۱۳۹۹/۰۴/۱۲۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : علم درایت | علوم حدیث | مصطلحات حدیث




جعبه ابزار