فدک اہل لغت کی نظر میں

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



فدک عربی زبان کا لفظ ہے جوکہ خیبر کے قریب ایک بستی کا نام ہے جسے سات ہجری کو رسول اللہؑ نے مسلمانوں کے گھوڑے دوڑائے بغیر قبضہ میں لیا۔ آپؐ نے اللہ کے حکم سے فدک کا علاقہ جناب فاطمہؑ کے سپرد کر دیا۔ اہل لغت نے فدک کا معنی بیان کرتے ہوئے فدک کا تعارف کروایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عرب میں فدک کا کیا تعارف پایا جاتا تھا۔


کتاب العین میں فدک کا تذکرہ

[ترمیم]

عربی لغت کا سب سے قدیمی مأخذ کتاب العین ہے جسے خلیل بن احمد فراہیدی نے مرتب کیا۔ کتاب العین میں فدک كے درج ذيل معنی وارد ہوئے ہىں: حجاز كے مقام پر ايك جگہ كا نام ہے، اللہ تعالى نے اپنے رسول محمد كو يہ مالِ الفَیْء مىں دیا تھا۔

تہذیب اللغۃ میں فدک کا تعارف

[ترمیم]

چوتھی صدی ہجری کے معروف ماہرِ لغت محمد بن احمد ازہری متوفى ۳۷۰ ھ اپنى كتاب فدک کے بارے میں لکھتے ہیں: فَدَكُ: قريةٌ بناحية الحجاز ذات عينٍ فوَّارةٍ ونخيلٍ كثيرةٍ، أفاءَها اللَّه جل وعز على رسوله صلّى اللَّه عليه وسلم، وكان عليٌّ والعباس رضي اللَّه عنهما بعد وفاتِه يتنازعانها، وسلَّمها عمر إليهما فذكر عليٌّ أن النبي صلّى اللَّه عليه و سلم كان جعَلها في حياتِه لفاطمة رضي اللَّه عنها، وكان العباسُ يأبى ذلك‌؛ فدک حجاز کی جانب ایک بستی ہے جو قدرتی بہتے چشموں اور کھجور کے کثیر درختوں سے مالا مال ہے، اللہ جل و عز نے اپنے رسول ﷺ کو یہ عنایت کیا تھا۔ رحلتِ رسول اللہ ﷺ کے بعد امام علیؑ اور جناب عباس بن عبد المطلب کے درمیان فدک کے مسئلہ میں اختلاف برپا ہو گیا، عمر نے ان دونوں کے درمیان اس کو قرار دیا، امام علیؑ نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے اپنی زندگی میں اس کو فاطمہؑ کے سپرد کر دیا تھا جبکہ عباس اس کے منکر تھے۔

مجمع البحرین میں فدک کا تعارف

[ترمیم]

معروف شیعہ ماہرِ لغت فخر الدین طریحی متوفی ۱۰۸۵ ھ اپنی کتاب مجمع البحرین میں فدک کا معنی ان الفاظ میں لکھتے ہیں: فَدَک دو زبروں كے ساتھ، یہوديوں کی بستیوں ميں سے ایک بستی ہے۔ فدک کی بستی اور مدينہِ نبى ﷺ كے درمیان دو دن كا فاصلہ ہے، اس گاؤں اور خیبر كے درمیان ایک مرحلہ سے كم كا فاصلہ ہے۔ اس کا شمار اس مال میں ہوتا ہے جو اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو عنایت کیا تھا۔ یہ رسول اللہ ﷺ كے ساتھ مختص تھا كيونكہ آپ ﷺ اور امیر المؤمنینؑ نے اس كو فتح كیا تھا۔ ان دونوں كے ہمراہ کوئی اور موجود نہیں تھا۔ پھر اس سے الفَيْء كا حكم زائل ہو گیا اور انفال كا عنوان اس پر لاگو ہو گیا۔ جب قرآن کریم سورہ روم آیت ۳۸ نازل ہوئى: فَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ‌؛ پس آپ ذی القربی کو ان کا حق دے دیں۔ یعنى آپؐ فدک فاطمہؑ کو عطا کر دیں تو رسول اللہ ﷺ نے اس كو فاطمہؑ كے سپرد كر دىا۔ فدک وفاتِ رسول اللہ ﷺ تک جناب فاطمہؑ کے ہاتھوں میں رہا۔ اس کے بعد جناب فاطمہؑ سے زبردستی لے لیا گیا۔ امام علیؑ نے اس کی حدود بیان کیں ہیں: اس کی حدود میں اُحد کا پہاڑ ہے، اس کی حدود میں سے عریشِ مصر ہے، اس کی حدود میں سے سیف البحر ہے، اس کی حدود میں سے دومۃ الجندل یعنی جَوف ہے (جوکہ تبوک کے قریب مدینہ اور شام کے درمیان کا علاقہ ہے)۔

اہم نتائج

[ترمیم]

اہل لغت کے بیانات سے درج ذیل نکات ہمارے سامنے بطور نتیجہ آتے ہیں:
۱۔ فدک ایک علاقہ اور بستی کا نام ہے کوئی باغ یا نخلستان نہیں ہے۔ بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ فقط ایک باغ کا مسئلہ تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فدک ایک بستی تھی جس میں مختلف بہتے چشمے اور کثیر کھجور کے درخت تھے۔ بالفاظ دیگر فدک ایک سرسبز زرخیر بستی تھی۔
۲۔ فدک یہودیوں کی بستی تھی جس میں یہودی آباد تھے۔ یہ خیبر سے باہر ایک بستی تھی۔ بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ فدک کا شمار خیبر کے مختلف قلعوں اور علاقوں میں ہوتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فدک خیبر سے باہر کچھ فاصلے پر ایک بستی تھی جیساکہ اہل لغت نے تصریح کی ہے۔
۳۔ تمام اہل لغت متفق ہیں کہ فدک اللہ تعالی نے مالِ فیء میں سے رسول اللہ ﷺ کو عنایت فرمایا تھا جو آپﷺ کے ساتھ مختص تھا۔
۴۔ تمام اہل لغت اس بات پر متفق ہیں کہ امام علیؑ کی نظر میں رسول اللہؐ نے فدک جناب فاطمہؑ کے سپرد کر دیا تھا اور ان کی ملکیت میں دے دیا تھا۔ البتہ جناب عباس اس بات سے منکر تھے اور ابنا حصہ میں مانگتے تھے۔
۵۔ فخر الدین طریحی کے مطابق فدک رسول اللہؐ اور امام علیؑ نے فتح کیا اور اس پر حکمِ فیء ہٹ گیا اور مالِ انفال کا عنوان لاگو ہوا۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگانی میں یہ جناب فاطمہؑ کے ہاتھوں میں تھا اور وہی انہوں نے ہی اس کا انتظام سنبھالا ہوا تھا۔ لیکن رحلتِ رسول ﷺ کے بعد حکومتِ وقت نے زور زبردستی کے ساتھ یہ چھین لیا۔
۶۔ امام علیؑ نے اس کی حدود اس وقت کی تمام ریاستِ اسلامی قرار دیا ہے۔ یعنی امام علیؑ کی نگاہ میں فدک ریاستِ اسلامی کی حکومت سے کنایہ ہے اور فدک حقیقت میں سیاسی حیثیت رکھتا ہے جس سے مراد پوری اسلامی ریاست میں رسول اللہ ﷺ کے جانشین کی ولایت ہے۔ اس لیے اگر فدک پلٹایا جائے تو اس سے مراد ریاستِ اسلامی کی حکومت ان کے اہل کو لوٹا دی جائے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج ۵، ص ۳۳۲۔    
۲. ازہری، محمد بن احمد، تہذیب اللغۃ، ج ۱۰، ص ۷۳۔    
۳. روم/سوره۳۰، آیت ۳۸۔    
۴. طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، ج ۳، ص ۳۷۱۔    


مأخذ

[ترمیم]

محققینِ ویکی فقہ اردو نے اس مقالہ کو ایجاد کیا ہے۔






جعبه ابزار