فلسفیانہ افکار کی تاریخ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



بشر کی تاریخ تفکر،تخلیق انسانی کے ساتھ اسکے شانہ بشانہ اس زمانہ کو بھی شامل کئے ہوئے ہے جب تاریخ نویسی کی رسم نہیں تھی بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ جب سے انسان کا وجود ہے اس وقت سے انسان تفکر و تعقل کی ناقابل تفکیک صفت کا حامل ہے۔ انسان نے جہاں بھی اپنا قدم رکھا ہے وہاں اس نے اپنے ساتھ فکراور استدلال کو لیکر گیا ہے۔ مختلف بشری افکار میں سے شناخت وجود اور اسکے آغاز و اختمام سے مربوط فلسفی افکار کو مشرق زمین کی مذھبی افکار کے درمیان تلاش کرنا ضروری ہے۔
اسلام کے ظہور کے ساتھ علم اور دانش کو سیکھنے کی عالمگیر دعوت اور دنیا کی عظیم اور ترقی یافتہ اسلامی تہذیب اور ثقافت کے سایہ میں ، مختلف فلسفی افکار اور ہر طرح کے علم و فنون ،مختلف مقاصد کے ساتھ دوست اور دشمن کے ذریعہ اسلامی معاشرے میں داخل ہوئے اور مسلمان ان علوم و افکار کی نہ فقط اقتباس پر اکتفاء کیا بلکہ انکی تحقیق اورتنقید پر بھی کام کرنا شروع کیا۔
اسلامی حکومت کے علاقے میں توسیع کے سبب، دنیا کے بہت سے علمی مراکز، اسلامی دائرے کا حصہ بن گئے ۔ مختلف ہندی ، فارسی،یونانی ، لاطینی ، سریانی ، عبرانی ، وغیرہ زبانوں کے علماء کے مابین معلومات کا تبادلہ عربی زبان میں فلسفہ اور دیگر علوم و فنون کی ترقی کی رفتار میں تیزی لیکر آیا۔


فلسفہ علوم سے مراد

[ترمیم]

کبھی فلسفہ کا لفط کسی اور لفظ مل کر استعمال ہوتا ہے جیسے فلسفہ اخلاقیات،فلسفہ قانون و غیرہ۔۔۔۔۔
اس طرح کی تعبیرات بعض اوقات وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جنہوں نے علم کے لفظ کو تجرباتی علوم سے مخصوص جانا ہے اور فلسفہ کے لفظ کو انسانی علوم کے ان شعبوں میں استعمال کیا ہے جو حسی تجربے سے ثابت نہیں ہوسکتے ہیں؛ مثال کے طور پر وہ علم الہیات کہنے کے بجائے فلسفہ الہیات کہیں گے، یعنی فلسفہ الہیات میں الہیات کا اضافہ اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے ہے کہ فلسفہ کی گفتگو کا محور الہیات ہے ۔
اسی طرح سے وہ لوگ جو عملی اور اخلاقی امور کو تجرباتی علوم کا حصہ نہیں سمجھتے ہیں اور ان امور کے لئے خارج میں کوئی واقعیت اور اصل کے قائل نہیں ہیں ، بلکہ ان امور کو محض لوگوں کے تمایلات اور رغبتوں کے تابع سمجھتے ہیں،بعض اوقات یہ ہی لوگ ان امور کو فلسفہ کے دائرے میں متعارف کراتے ہیں، علم اخلاقیات کہنے کے بجائے فلسفہ اخلاقیات کہتے ہیں اور انکے نزدیک علم سیاست کو فلسفہ سیاست کہا جاتا ہے۔
لیکن بعض اوقات اس لفط کو ایسے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے جس سے دیگر علوم کے اصول اوربنیادوں کی وضاحت کی جاتی ہے جسے منطق کی اصطلاح میں مبانی علم کہتے ہیں اور جس میں ہر علم کی مختصر تاریخ،بانی ،ہدف،تحقیقی طریقہ کار اور اس علم کے مختلف اطوار جیسی چیزوں کا جائزہ لیا جاتا ہے ؛ یہ وہی ہشتگانہ مطالب ہیں جو سابق میں ہر کتاب کے مقدمہ میں رؤوس ثمانیہ کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔ یہ اصطلاح ،مثبتیت پسند اور ان جیسے افراد کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ لوگ بھی لفظ فلسفہ کو استعمال کرتے ہیں جو نہ فقط فلسفی اور اخلاقی امور کو علوم تجربیاتی کا حصہ جانتے ہیں بلکہ ان کے مطالعہ اور تحقیق کے طریقہ کار کو بھی تجربیاتی سمجھتے ہیں۔ پچھلی اصطلاح سے غلط فہمی نہ ہونے کی خاطر یہ لوگ اصطلاح کی ترکیب میں لفظ علم کا اضافہ کرتے ہیں ؛ بطور مثال وہ لوگ فلسفہ تاریخ کے بجائے فلسفہ علم تاریخ کہتے ہیں اور فلسفہ اخلاقیات کے برابر فلسفہ علم اخلاقیات کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

لفظ میٹافزیک کی تفصیل

[ترمیم]


علم تجربیات کے مقابل مِٹافزیک کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے لہذا ہمیں بھی اس لفظ کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے: یہ لفظ ، جو یونانی لفظ مٹاٹافوسیکا سے ماخوذ ہے، پہلے اس لفظ سے"ٹا" ہٹا دیا گیا اور پھر"فوسیکا"فزیک کی صورت میں تبدیل ہوکر مٹافزیک کا لفظ وجود میں آیا۔ یہ لفظ عربی زبان میں ما بعد الطبیعہ کی صورت میں ترجمہ کیا گیا ۔ مورخین فلسفہ کے مطابق سب سے پہلے ارسطو کی ایک کتاب کے نام کے طور پر یہ لفظ استعمال ہوا ، یہ کتاب،ارسطو کی کتابوں کے درمیان ترتیب کے اعتبار سے طبیعت کی کتاب کے بعد قرارپاتی ہے جس میں وجود کے عمومی امور پیش کئے گئے ہیں؛ یہ امور عصر اسلام میں امور عامہ کے نام سے پہچانے گئے ہیں اور بعض اسلامی فلاسفہ نے لفظ ما بعد الطبیعہ کو ان امور عامہ کےلئے مناسب جانا ہے۔
بظاہر یہ حصہ تھیالوجی یا اثولوجیا کے حصے سے جس کا معنی خدا شناسی ہے مختلف ہے لیکن اسلامی فلاسفہ کی کتابوں میں یہ دونوں حصے ملا دیئے گئے ہیں اور انھیں اجتماعی طور پر الہیات بالمعنی الاعم کہا جاتا ہے ؛اسی طرح خدا شناسی کے حصےکو الہیات باالمعنی الاخص کہا جاتا ہے۔
بعض افراد نے مٹافزیک کو ٹرانس فزیک کے مترادف جانا ہے جسکا معنی ماوراء طبیعت ہے؛ فلسفہ قدیم کے اس حصے کے نام کو کل کو جزء کے نام کی بنیاد پر جانا گیا ہے،چونکہ الہیات بالمعنی الاعم میں خدا اور ماوراء طبعیت میں موجود مجردات کے بارے میں بھی جائزہ لیا جاتا ہے؛ لیکن ایسا لگتا ہے کہ پہلی دلیل درست ہے.

بہ ہر حال مٹافزیک، نظریاتی عقلی مسائل کے مجموعہ کا نام ہے اور فلسفہ عام کا ایک حصہ این مسائل پر مشتمل ہے۔ بعض اوقات لفظ فلسفہ انہی مسائل سے مخصوص ہے اور فلسفہ، جدید اصطلاح کے پیش نظر مٹافزیک کے مترادف ہے۔مثبتیت پسندوں نے ایسے مسائل کو ]] غیر تجربیاتی جانا ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ مسائل حسی تجربہ سے ثابت نہیں ہوسکتی ہیں جیسا کہ کانٹ ایسے مسائل کو ثابت کرنے کے لئے عقل نظری [[کو کافی نہیں سمجھا ہے اور ان مسائل کو ڈیالکٹیک یا جدلیاتی مسائل کے نام سے متعارف کروایا ہے۔

علم ، فلسفہ اور مٹافزیک کے ما بین تناسب

[ترمیم]

علم اور فلسفہ کو دیئے گئے مختلف معانی کے پیش نظر ، یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ علم، فلسفہ اور مٹافزیک کے مابین تناسب، مختلف اصطلاحات کے تناظر میں متفاوت ہے۔ اگر علم ،مطلق آگاہی یا متناسب مطلق قضایا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو فلسفہ سے اسکا دائرہ وسیع ہوگا، اسلئے کہ اس معنی میں ذاتی قضایا ،قراردادی اور اعتباری علوم بھی شامل ہیں۔اگر علم، حقیقی عمومی قضایا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ علم، فلسفہ کے قدیمی معنی کے برابر ہوگا۔لیکن اگر علم کو تجرباتی قضایا کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے اس صورت میں علم کا دائرہ فلسفے کے قدیمی معنی سے کم ہوگا اور علم کا یہ معنی اس فلسفہ سے برعکس ہوگا جب فلسفہ، جدید اصطلاح کے مطابق غیر تجربیاتی قضایا کے مجموعہ کا نام ہو ؛ جسطرح سےمٹافزیک، قدیم فلسفہ کا حصہ ہے اور جدید فلسفے کے مترادف ہے۔

تاہم یہ بات غور کی جانی چاہئے کہ علم اور فلسفہ کو نئی اصطلاح میں ایک دوسرے کے مقابل قرار دینا ، اگرچہ مثبتیت پسند اور اس طرح کے لوگوں کے خیال میں یہ چیز فلسفی امور کی قدر کو کم کرنا ہے ،]] عقل کی منزلت اورعقلی ادراکات کی اہمیت سے انکار کرنا ہے، لیکن حقیقت برعکس ہے؛ شناخت شناسی [[ میں یہ واضح ہوجائے گا کہ [] عقلی ادراکات][ کی قدر نہ صرف حسی اور تجرباتی معلومات کی قدر سے کم نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے ، اور یہاں تک کہ تجرباتی علوم کی قدر و منزلت بھی عقلی ادراکات اور [] فلسفی قضایا [] کی قدر پر منحصر ہے۔
لہذا لفظ علم کو تجرباتی علوم اور لفظ فلسفہ کو غیر تجرباتی علوم سے مخصوص کرنا صرف ایک اصطلاح کے طور پر قابل قبول ہے اور ان دونوں اصطلاحات کے مابین تقابل کو غلط استعمال نہیں کیا جانا چاہئے اور اسکے ساتھ [] فلسفی مسائل]] اور مٹافزیکی امور کو مشتبہ اور خیالی امور کے طور پر دکھایا جانا نہیں چاہئے؛ چونکہ تجربیاتی لیبل کسی بھی فلسفیانہ رجحان کے لئے کوئی فائدہ ثابت نہیں کرتا ہے۔بنیادی طور پر ، یہ دو لیبل ایک ایسے بے رنگ پیوند ہیں جسے [] جہل]اس کے جعل سازوں کی دھوکہ دہی کی علامت سمجھا جاسکتا ہے اور یہ دعوی کرنا صحیح نہیں ہے کہ    مادیت    [ جیسے فلسفی اصول، تجرباتی قوانین سے اخذ کیے گئے ہیں کیونکہ جب کسی بھی علم کے قوانین کو دوسرے علوم میں عام نہیں کیا جاسکتا ہے پھر اس قوانین کو پوری کائنات میں عام کرنا ممکن نہیں ہے ، مثال کے طور پر ، قوانین نفسیات یا حیاتیات کو فزکس یا کیمسٹری یا ریاضی میں عام نہیں کیا جاسکتا ، اور اس کے برعکس ، ان علوم کے قوانین اپنے دائرہ کار سے باہر کام نہیں کرتے ہیں۔


اقسام علم اور علوم کی درجے بندی

[ترمیم]

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علوم کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی بنیادی محرک کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قابل شناخت مسائل، ایک وسیع دائرہ کو تشکیل دیتے ہیں ، اور جب کہ اس دائرے میں کچھ مسائل ایک دوسرےسے بہت قریب ہیں؛اسکے علاوہ دیگر ایسے مسائل بھی ہیں جو ایک دوسرے سے دور اور اجنبی ہیں اور ان کا ایک دوسرے سے بہت کم تعلق ہے۔
دوسری طرف کچھ معلومات کے سیکھنے کا انحصار دوسروں پر ہوتا ہے ،کم از کم ایک معلومات کے مجموعہ کو جاننے سے دوسرے معلومات کے مجموعہ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ، جبکہ معلومات کے دیگر زمروں کے مابین ایسا کوئی رشتہ نہیں ہوتا ہے۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ ہر محقق کے لئے تمام معلومات کو سیکھنا ممکن نہیں ہے ، اور یہ فرض کرلیا جائے کہ یہ ممکن ہے لیکن ہر ایک کے لئے ایسا محرک پایا نہیں جاتا ؛ چونکہ لوگوں کی شوق اور قابلیت، مختلف قسم کے امور کو سیکھنے میں الگ الگ ہوتی ہیں۔اس کے پیش نظر کہ کچھ علوم ایک دوسرے پر منحصر ہیں اور ایک کا سیکھنا دوسرے پر موقوف ہے ، محققین نے طویل عرصے سے متعلقہ اور مناسب امور کی درجہ بندی کرنے اور مخصوص علوم و فنون کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے۔دوسری طرف انہوں نے مختلف علوم کی درجہ بندی کرنے ، کسی دوسرے علم کے ذریعہ ہر ]] علم [[ کی ضرورت کو واضح کرنے اور اس کے نتیجے میں ایک دوسرے کو ترجیح دینے کا کام انجام دیا ہے تاکہ اول وہ لوگ جن کے پاس ایک خاص محرک یا ذائقہ اور ][۳]    [ ہوتی ہے وہ اپنی گمشدہ چیز کو لا تعداد مسائل کے درمیان پاسکتے ہیں اور اپنے مقصد تک پہنچنے کا راستہ جان سکتے ہیں۔اور دوم ، جو لوگ معلومات کے مختلف شعبہ جات سیکھنا چاہتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ پہلے کونسا شعبہ شروع کرنا ہے ، جو دوسرے شعبوں کو سیکھنے کی راہ ہموار کرے گا اور ان کو سیکھنے میں آسانی پیدا کرے گا۔

اس طرح ، علوم کو مختلف حصوں اور شعبوںمیں تقسیم کیا گیا اور ہر شعبے کو ایک مخصوص طبقے اور زمرے میں رکھا گیا؛ جسطرح سے کلی طور پر علوم کونظری اور عملی علوم میں تقسیم کیا گیا ہے ،پھر ]] نظری علوم کو طبیعیات ، ریاضیات اور الہیات میں تقسیم کیا گیاہے اور پھر عملی علوم کو اخلاقیات ، تدبیر منزل اور سیاست [[میں تقسیم کیا گیا ہے جسکی طرف اشارہ پہلےدیا جاچکا ہے۔

علوم کی حدبندی کا معیار

[ترمیم]

علوم کی درجہ بندی کی ضرورت واضح ہوجانے کے بعد ، ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس معیار کے ذریعہ علوم کی درجہ بندی اور اس کی حد بندی کی جانی چاہئے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ علوم کو مختلف معیاروں سے درجہ بندی کیا جاسکتا ہے ، جن میں سے سب سے اہم یہ ہیں:


طرز کے بنیاد پر

[ترمیم]

تحقیقی طریقہ کار و طرز کی بنیاد پر : ہم نے پہلے اشارہ کیا تھا کہ ایک ہی طریقہ سے سارے مسائل پر تحقیق نہیں کی جاسکتی ہے ، اور ہم نے یہ بھی بتایا کہ عمومی تحقیقی طریقوں کے مطابق تمام علوم کو تین قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
الف :عقلی علوم جس کی تحقیق صرف عقلی دلیلوں اور ذہنی نتائج سے کی جاسکتی ہے جیسے منطق اور الہی فلسفہ ۔
ب: تجرباتی علوم جو تجرباتی طریقوں سے ثابت ہوسکتے ہیں جیسے کیمیائی، طبیعیات اور حیاتیات ۔
ج: علوم نقلی جو منقول اور تاریخی دستاویزات کی بنیاد پر جانچے جاتے ہیں جیسے تاریخ علم رجال اور علم فقہ ۔

ہدف کی بنیاد پر

[ترمیم]

ہدف اور مقصد کی بنیاد پر: ایک اور کسوٹی جس کی بنیاد پر علوم کی درجہ بندی کی جاسکتی ہے وہ فائدہ اور نتیجہ ہے جو اس سے حاصل ہوتا ہے ۔ ہدف اور مقصد وہ چیزیں ہیں کہ محقق ان علوم کے مطالعہ دوران انہیں اپنی نظر میں رکھتا ہے ، جیسے مادی و روحانی اہداف اور انفرادی و معاشرتی اہداف۔
ظاہر ہے کہ جو شخص اپنی روحانی و معنوی تکامل کا راستہ جاننا چاہتا ہے اسے ایسی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کی ضرورت کا احساس اس شخص کے لئے نہیں ہوتا جو زراعت یا صنعت کے ذریعہ دولت حاصل کرتا ہے جیسا کہ ایک سماجی رہنما کو دوسرے معلومات کی ضرورت ہے ؛ پس علوم کو ان مختلف مقاصد کے مطابق درجہ بندی کیا جاسکتا ہے۔


موضوع کی بنیاد پر

[ترمیم]

موضوع کی بنیاد پر: تیسرا معیار جو علوم کی جدائی اور تفریق کا معیار ہوسکتا ہے وہ ان کے موضوعات ہیں؛ یعنی اس کے پیش نظر کہ ہر مسئلہ کا ایک خاص موضوع ہوتا ہے اور متعدد موضوعات کو ایک جامع عنوان میں شامل کیا جاتا ہے ، لہذا اس جامع عنوان کو محور قرار دیا جاتا ہے اور اس سے متعلق تمام امور کو ایک علم کے تحت جمع کرتے ہیں؛ جیسا کہ عدد ، علم حساب کا موضوع ، منسلک مقدار جیومیٹری کا موضوع اور انسانی جسم علم طب کا موضوع بنتا ہے۔
موضوع پر مبنی علوم کی تقسیم دوسرے معیارات کے نسبت جیسے ہدف اور محرک ، علوم کی بہتر جدائی و تفریق کا زمینہ فراہم کرتی ہے جیسا کہ موضوع کی محوریت پر،مسائل میں اندرونی ہم آہنگی اور ان کے نظم و ضبط کو بہتر طور پر محفوظ کیا جاتا ہے ، اسی وجہ سے فلاسفہ اور عظیم دانشوروں کے نزدیک یہ مسئلہ طویل عرصے سے توجہ کا مرکز بنا رہا لیکن دیگر معیارات کو ذیلی زمرے بندی کے لئے لحاظ کیا جاسکتا ہے ، مثال کے طور پر ، خداشناسی کے نام پر ایک علم کو مرتب کیا جاسکتا ہے اور اس کے مسائل کی توجہ کا مرکز خداوند متعال پر رکھا جاسکتا ہے اور اس کے بعد اس علم کو فلسفی ، عرفانی اور مذہبی شاخوں میں بانٹا جاسکتا ہے جہاں ہر شعبہ اپنے مخصوص طریقہ کار سے مربوطہ مسائل کی جانچ پڑتال کریگا اور حقیقت میں یہ ذیلی زمرے بندی تحقیقی طریقہ کار کی مرہون منت ہے؛اسی طرح ریاضیات کو بھی مختلف شاخوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ، جن میں سے ہر ایک کی وضاحت انکےمخصوص مقصد کے مطابق کی جاتی ہے ، جیسے طبیعی ریاضیات اور معاشی ریاضیات ؛ اس طرح مختلف معیاروں کا امتزاج پیدا ہوتا ہے۔


موضوعات کے مابین جامع عنوان

[ترمیم]

جامع عنوان جو مسائل کے موضوعات کے مابین لحاظ کیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر وہ علم وجود میں آتا ہے جو ہم آہنگ و مرتبط مسائل کا مجموعہ ہے ۔ کبھی کبھی اس کا عنوان کلی ہوتا ہے اور اس کے لئے بہت سارے افراد اور مثالیں بھی پائی جاتی ہیں ، اور بعض اوقات عنوان کل کی صورت میں ہوتا ہےور اس کے متعدد اجزا ہوتے ہیں۔ پہلی قسم کی مثال عدد یا مقدار کا عنوان ہے جس میں مختلف انواع اور اصناف ہوتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک ،مخصوص مسئلہ بناتا ہے۔ دوسری قسم کی مثال انسانی جسم ہے ، جس کے بہت سے اعضاء اور اجزاء ہیں اور ان میں سے ہر ایک، علم طب کے ایک حصے کا موضوع ہے۔

ان دو اقسام کے موضوعات کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ پہلی قسم میں ، علم کا جامع عنوان ،مسائل کے ان تمام موضوعات پر لاگو ہوتا ہے ، جو اس عنوان کے لئے افراد اور مثالیں ہیں ، برعکس دوسری قسم میں ، علم کا جامع عنوان ،مسائل کے تمام موضوعات پر پر صادق نہیں ہوتا ، بلکہ اجزاء کے مجموعے پر لاگو ہوتا ہے۔


علوم کی تقسیم بندی کے فائدے

[ترمیم]


پچھلی وضاحتوں سے یہ معلوم ہوا ہے کہ علوم کی تقسیم کو تعلیم میں آسانی اور تعلیم و تربیت کے اکثر و بیشتر اہداف کے حصول کے لئے انجام دیا گیا ہے،ابتدا میں جب انسانی معلومات محدود تھیں تو ان سب کو کچھ زمروں میں بانٹنا ممکن تھا ، مثال کے طور پر حیوان شناسی کو واحد علم کی طور پر سمجھنا اور یہاں تک کہ انسان سے متعلق امور بھی اس میں شامل کرنا،لیکن آہستہ آہستہ مسائل کے دائرے میں وسعت آتی گئی اور خاص طور پر تجرباتی امور پر تحقیق کے لئے مختلف تجربیاتی اوزار تیار کرنے کے بعد ، زیادہ تر تجرباتی علوم کو مختلف شاخوں میں تقسیم کیا گیا اور پھر ہر علم کو مزید ذیلی علوم میں تقسیم کیا گیا جسطرح سے ابھی بھی ایسی تقسیم بندی کا سلسلہ کثرت سے جاری ہے۔


علوم کی شعبہ بندی

[ترمیم]

عام طور پر علوم کی شعبہ بندی کئی طریقوں سے کی جاتی ہے:
•اس طرح سے کہ پورے موضوع کے چھوٹے اجزاء پر غور کیا جائے اور اس موضوع کے ہر جزو کو مادر علم کی ایک نئی شاخ میں رکھا جائے جیسے اینڈو کرینولوجی اور جینالوجی۔یہ واضح ہے کہ اس طرح کی شعبہ بندی ان علوم سے مخصوص ہے جہاں موضوع علم اور مسائل کے موضوعات کے مابین کل و جزء کا رابطہ پایا جاتا ہو۔

•اس طرح سے کہ عمومی عنوان کے جزئی انواع اور محدود اصناف پر غور کیا جاتا ہے جیسے اینٹومولوجی اور مائکروبیولوجی۔اس طرح کی شعبہ بندی اس علوم میں پیدا ہوتی ہے جہاں موضوع علم اور مسائل کے موضوعات کے مابین کلی اور جزئی کا رابطہ ہو،نہ کل اور جزء کا۔

•اس طرح سے کہ تحقیق کے مختلف طریقوں کو ثانوی معیار سمجھا جاتا ہے اور موضوع کی وحدت کو برقرار رکھتے ہوئے نئی شاخیں تشکیل دی جاتی ہیں ۔ یہ اس جگاہ ممکن ہے جہاں علم کے مسائل کو مختلف طریقوں سے پرکھا اور ثابت کیا جاسکتا ہے ، جیسے فلسفی خداشناسی ، عرفانی خداشناسی اور دینی خداشناسی۔

• اس طرح سے کہ متعدد اہداف کو ذیلی معیار سمجھا جانا چاہئے اور ہر ہدف سے مربوط، امور اور مسائل کو مادر علم کی ایک مخصوص شاخ کے طور پر پیش کیا جانا چاہئے ، جیسا کہ ریاضی میں بتایا گیا ہے۔


خلاصہ

[ترمیم]

۱۔ فلسفہ کبھی کبھی ترکیبی شکل میں غیر تجربیاتی معلومات کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، اور اس ترکیب میں کسی چیز کا اضافہ صرف معلومات کی نوعیت کو ظاہر کرنے کے لئے ہوتا ہے جیسے فلسفہ خدا شناسی ۔ فلسفہ کی ترکیب میں تجربیاتی علم کا اضافہ اسی طرح کا کردار ادا کرتا ہے جیسے علم حیاتیات۔
۲۔ لفظ فلسفہ بعض اوقات کسی خاص علم کی طرف اضافہ ہوجاتا ہے ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس علم کے اصولوں اور بنیادوں کی وضاحت کی جائے ، جس میں بعض اوقات تاریخ ، مقصد ، تحقیقی طریقہ کار ، علم کے مختلف اطوار اور ان جیسی چیزیں شامل ہوتی ہیں۔
۳۔ مٹافزیک عقلی مسائل کے ایک مجموعہ کا نام ہے جو تجرباتی طور پر ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔
۴۔ علم، فلسفہ اور مٹافزیک کے مابین تناسب ان کے مختلف معانی کے مطابق متفاوت ہے ؛ بعض اصطلاحات کے مطابق علم کا دائرہ فلسفہ سے وسیع ہےاور فلسفہ کا دائرہ مٹافزیک سے وسیع ہے۔
۵۔ علوم کی زمرہ بندی اور درجہ بندی کا مقصدیہ ہے کہ ہر ایک کے لئے یہ قابل بنانا ہے وہ الگ الگ مسائل کو سیکھ سکے اور علوم کی تعلیم کو آسان اور مفید بنائے۔
۶۔ علوم کی حد بندی مختلف معیارات جیسے طریقہ کار،ہدف اور موضوع پر انجام پاتی ہے اور مشہورعلوم کی تقسیم بندی عام طور پر موضوع کے اختلافات پر مبنی ہوتی ہے۔
۷۔ علم کے موضوع اور مسائل کے موضوعات کے مابین کبھی کل اور ]] جزء کا رابطہ ہوتا ہے اور کبھی کلی اور جزئی [[ کا رابطہ ہوتا ہے۔
۸۔ علوم کی شعبہ بندی کبھی موضوع کو محدود کرکے، کبھی اس کے دائرہ کار کو محدود کرکے، کبھی مختلف تحقیقی طریقہ کار کی بنیاد پر اور بعض اوقات مختلف اہداف کے ذریعہ سے حاصل کی جاتی ہے۔


منبع

[ترمیم]
سایت‌ اندیشه قم، برگرفته از مقاله «سیر تفکر فلسفی از آغاز تا عصر اسلامی»، ۱۳۹۶/۱۱/۲۳.    






جعبه ابزار