قاعدہ الشیء ما لم یجب لم یوجد

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



الشیء ما لم یَجِب لم یوجد ایک فلسفی قاعدہ ہے جس کا معنی یہ ہے کہ ہر ممکن بالذات اس وقت تک وجود میں نہیں آ سکتا جب تک اس کا وجود واجب نہ ہو جائے۔ یعنی کوئی دوسرا وجود آ کر جب تک ممکن الوجود کے وجود کو واجب نہ کر دے اس وقت تک ممکن الوجود وجود میں نہیں آ سکتا۔


ممکنات کا موجود ہونا

[ترمیم]

جب تک ممکن بالذات واجب بالغیر نہ ہو جائے تب تک وجود میں نہیں آ سکتا۔ وجودِ ممکنات کے مورد میں اس قاعدہِ فلسفی کا طبیعی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ممکنات کے معدوم ہونے کے لیے بھی ضروری ہے کہ کوئی شیء ہو جو اس کے لیے عدم ضروری قرار دے۔ پس ممکن الوجود جب تک ممتنع بالغیر نہ ہو جائے تب تک معدوم نہیں ہو سکتا۔ البتہ یہ بات واضح کر دی جائے کہ وہ شیء جو ممکن کے عدم کو ضروری قرار دے وہ شیء خود بھی امرِ معدوم اور ممتنع ہو گی اور اس کا تعلق ممتنع بالذات سے ہو گا یا ممتنع بالغیر سے۔

متکلمین کا نظریہ اولویت

[ترمیم]

فلسفہِ اسلامی کے اس نظریہ کے مقابل بعض گروہِ متکلمین کا نظریہ ہے۔ یہ گروہِ متکلمین قائل ہے کہ ممکن بالذات وہ ہوتا ہے جس کی وجود اور عدم کی طرف نسبت برابر ہو اور اس کے وجود میں آنے کے لیے ضروری نہیں کہ اس کا وجود اس کے لیے واجب قرار پائے بلکہ ممکن بالذات کا اپنا وجود اپنے عدم پر برتری و رجحان حاصل کر کے وجود میں آ سکتا ہے۔ اس اعتبار سے اولویت کو رجحان اور ترجیح کا نام دیا جا سکتا ہے۔ عقلی طور پر اولویت کی متعدد صورتیں بنتی ہیں جن میں سے ایک اولویت ذاتی ہے جوکہ بالاتفاق تمام متکلمین کی نظر میں باطل ہے۔ اولویتِ ذاتی کا مطلب یہ ہے کہ ذاتِ ممکن وجود اور عدم کے مابین رہتے ہوئے خود سے وجود کی طرف رجحان پیدا کر لے۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ممكنات نے اپںے آپ کو خود ہی وجود دیا ہے جوکہ واضح طور پر باطل ہے كيونكہ اس صورت میں یہ ممکن نہیں رہے گا بلکہ واجب یا ممتنع بن جائے گا۔ لہذا متکلمین اولویت بالغیر کی طرف گئے اور اس بات کے قائل ہوئے کہ ممکن بالذات کا وجود کی طرف رجحان اور برتری کسی دوسرے موجود کی وجہ سے ہے جوکہ اس رجحان کی علت ہے البتہ اس صورت میں ذاتِ ممکن حدّ وجوب تک نہیں پہنچے گی۔ وجوداتِ ممکنات میں اس طرز کی اولویت کو اولویت بالغیر کہتے ہیں۔

← نظریہ اولویت اختیار کرنے کی وجہ


اس گروہِ متکلمین نے نظریہِ اولویت کو اس لیے پیش کیا تاکہ وہ عللِ فاعلی کو صاحب اختیار و قدرت ثابت کر سکیں۔ عللِ فاعلی کسی شیء کے وجود کی علت اور سبب بنتی ہے۔ اس کو علتِ فاعلی بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ سبحانہ اس سلسلہِ علل میں سب سے بالا اور برتر ہے اور عالی ترین علتِ فاعلی ہے۔ متکلمین یہ تصور کر رہے تھے کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ ممکنات اپنی علت کی جانب سے اس وقت وجود میں آتے ہیں جب مرحلہِ وجوب تک پہنچ جائیں تو یہ نظریہ علت کے خود مختار ہونے کے منافی ہے کیونکہ ممکنات کے وجود کے واجب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی علت اس کو ہر صورت میں وجود دے اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ ممکنات مرحلہِ وجوب تک پہنچیں لیکن علت وجود نہ دے۔ یہ بات واضح طور پر علت کے اختیار و ارادہ سے منافی ہے۔ البتہ فلاسفہ اس کا جواب دیتے ہوئے متکلمین کے اس تصور کو نا درست اور باطل قرار دیتے ہیں اور اسی بحث کے ضمن میں کلی طور پر اولویت کی نفی کرتے ہیں۔ فلاسفہ نے ممکنات کے وجود کے وجوب کو ضروری قرار دیتے ہوئے اس گروہِ متکلمین کی آراء کو دلائل کے ساتھ باطل کیا ہے۔

فلاسفہ اور بعض دیگر متکلمین کا استدلال

[ترمیم]

اس قاعدہ پر فلاسفہ کی دلیل یہ ہے کہ ذاتِ ممکن وہی ماہیت ہے جو وجود اور عدم کے مابین مساوی و برابر ہے۔ اگر ہم اس ماہیت کو وجود اور عدم سے صرفِ نظر کرتے ہوئے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ماہیت کے لیے نہ وجود ضروری ہے اور نہ ہی عدم۔ عقل ماہیت کو وجود اور عدم کی طرف نسبت دیتے ہوئے حکم سناتی ہے کہ ماہیت کی نسبت وجود اور عدم کی طرف مساوی پاتی ہے۔ اس جہت سے عقل طور پر ماہیت کا اپنے آپ کو خود وجود دینا محال ہے۔ چنانچہ لا محالہ ممکنات و ماہیات اپنے وجود کے لیے اپنے غیر کا محتاج ہوں گے جو ان کو مساوی کی نسبت سے باہر نکلے اور وجود سے متصف کرتے ہوئے اس عدم پر اس کے وجود کو برتری و بالاتری عطا کرے۔ پس ممکنات و ماہیات کی علت فراہم ہوتے ہی معلول یعنی ممکنات کا وجود میں آنا واجب ہو جاتا ہے۔
پس جب تک وجود کی طرف رجحان حدِ وجوب تک نہ پہنچ جائے اس وقت تک ذاتِ ممکن کے لیے عدم بھی جائز رہے گا۔اس صورت میں اگر ذات ممکن کے لیے وجود میں آنا رجحان پیدا کر چکا ہے لیکن ضروری اور واجب نہیں ہوا تو یہاں یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ممکن کی نسبت جب وجود اور عدم ہر دو کی طرف برابر ہے تو آخر کیوں رجحان وجود کی طرف رخ کرتا ہے؟ پس یہاں ترجیح بلا مرجّح لازم آتا ہے جوکہ باطل ہے۔ صرف اس صورت میں عدم کا احتمال کامل طور پر دور ہو سکتا ہے کہ جب عدم کا احتمال ممکن سے منقطع ہو جائے اور اس کی علت کی جانب سے وجود و وجوب اس کی تنہا ضرورت قرار پائے۔

← استدلال کا نتیجہ


اس استدلال کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ذاتِ ممکن کا وجود اس کی علت کی طرف سے ضروری و واجب نہ ہو تو ممکن وجود میں نہیں آ سکتا۔ بالفاظ دیگر ممکنات کی علت ان کے وجود میں آنے کو حدِّ وجوب تک پہنچاتی ہیں جس کی وجہ سے ممکنات وجود میں آتے ہیں۔ چنانچہ علت کی اپنے معلول کی طرف نسبت مثبت ہوتی ہے جس کی وجہ سے معلول کا وجود میں آنا واجب قرار پاتا ہے۔ اس طرف توجہ رہے کہ ممکنات کے وجود کا واجب ہونا وجوب بالغیر ہے۔ ممکنات کو واجب بالغیر بھی کہا جاتا ہے۔ ممکن کے وجود کے لیے وجوب چونکہ لازمی شرط ہے اور عقلی طور پر معلول کے وجود میں آنے سے پہلے وجوب کا تعلق اس سے قائم ہوتا ہے اور جب معلول واجب ہو جائے تو وجود میں آ جاتا ہے اس لیے فلاسفہ اس وجوب کو وجوب بالغیر کے علاوہ وجوب سابق سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔

متکلمین کا ردّ

[ترمیم]

اس استدلال سے جہاں فلاسفہِ اسلامی کا نظریہ ثابت ہوتا ہے وہاں متکلمین کا یہ نظریہ اولویت بھی باطل ہو جاتا ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ممکنات کے وجود کے لیے ایسا رجحان بھی کافی ہے جو ضروری اور وجوبی طور پر نہ ہو۔ پس معلول اس وقت علت سے صادر ہو گا جب علت تامہ ہو کیونکہ علتِ تامہ کی صورت میں معلول کا ہونا واجب ہو جاتا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. شیرازی، صدرالدین، الاسفار الاربعۃ، ج۱، ص۲۲۱۔    
۲. شیرازی، صدر الدین، الاسفار الاربعۃ، ج۱، ص۱۹۹۔    
۳. رازی، فخر الدین، الاربعین فی اصول الدین، ج ۱، ص۱۰۵۔    
۴. لاہیجی، عبد الرزاق، الشوارق الالہام، ج ۱، ص ۳۶۱۔    
۵. سبزواری، ملا ہادی، شرح المنظومۃ، ج۲، ص۲۷۲۔    
۶. تفتازانی، سعد الدین، شرح المقاصد، ج ۱، ص ۴۹۲۔    
۷. طباطبائی، سید محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ص۷۵۔    
۸. طباطبائی، سید محمد حسین، نہایة الحکمۃ، ص۷۴۔    
۹. ابن سینا، حسین بن عبد الله، الشفاء، ص ۲۷۷۔    
۱۰. علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد، ص۵۵۔    
۱۱. طباطبائی، سید محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ص۷۴۔    
۱۲. علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد، ص۵۵۔    
۱۳. شیرازی، صدرالدین، اسفار، ج۱، ص۲۲۴۔    
۱۴. طباطبائی، محمد حسین، بدایۃ الحکمۃ، ص ۸۶۔    


مأخذ

[ترمیم]
سایت پژوہہ،ماخوذ از مقالہ قاعدہ الشیء ما لم یجب لم یوجد۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : فلسفی قواعد




جعبه ابزار