قاعدہ الواحد

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



قاعده الواحد، کو تمام مسلمان فلاسفہ قبول کرتے ہیں۔ مگر متکلمین نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قاعدے کو قبول کرنے کا مطلب خدا کی قدرت کو محدود کرنا ہے۔ اس قاعدے کا مطلب یہ ہے کہ ایک علت سے صرف ایک معلول صادر ہوتا ہے۔


متکلمین کا نقطہ نظر

[ترمیم]

اس قاعدے کو مسلمانوں کے تمام فلسفی مکاتب فکر بشمول (مشاء، اشراق اور حکمت متعالیہ) قبول کرتے ہیں۔ تاہم متکلمین نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اس قاعدے کو تسلیم کرنے کا لازمہ خدا کی قدرت کو محدود کرنا ہے، کیونکہ اس قاعدے کی بنیاد پر خدا جو واحد ہے، وہ صرف ایک مخلوق کو ایجاد کر سکتا ہے اور اس کا مطلب خدا کی قدرت کو محدود کرنا ہے۔ فلاسفہ جواب میں کہتے ہیں کہ علت واحدہ سے بہت سے معلولات کا صدور عقلی طور پر محال ہے اور وہ چیز جو محال ہو، خدا کی قدرت ہرگز اس سے متعلق نہیں ہوتی؛ جیسا کہ دیگر عقلی محالات ذات خدا سے صادر نہیں ہوتے اور اس کا لازمہ خدا کی قدرت کا محدود ہونا نہیں ہے۔ مگر متکلمین نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا لازمہ قدرت خدا کو محدود کرنا ہے کیونکہ اس قاعدے کی بنیاد پر خدا جو واحد ہے، ان فلاسفہ کے نزدیک ایک مخلوق کو ایجاد کر سکتا ہے اور یہ اس کی قدرت کو محدود کرنا ہے۔ فلاسفہ جواب میں کہتے ہیں کہ علت واحد، سے زیادہ معلولات کا صدور عقلی طور پر محال ہے اور جو چیز محال ہو خدا کی قدرت اس کے متعلق نہیں ہوتی؛ جیسا کہ دیگر عقلی محالات ذات خدا سے صادر نہیں ہوتے ہیں اور اس کا لازمہ قدرتِ خدا کا محدود ہونا نہیں ہے۔

فلاسفہ کا استدلال

[ترمیم]

فلاسفہ کے نزدیک یہ قاعدہ بدیہی و روشن ہے اور اس کیلئے کسی استدلال کی ضرورت نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف توضیحات فلاسفہ کی طرف سے پیش کی گئی ہیں۔ ابن سینا اس قاعدے کی تشریح کو ایک یاد آوری قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ بات بدیہی ہے۔ خواجہ طوسی نے شرح اشارات میں اس قاعدے کی مخالفت کی وجہ یہ بتائی ہے کہ لوگ، واحد حقیقی کے تصور سے غافل ہیں جبکہ وہ خود اس قاعدے کو بدیہی سمجھتے ہیں۔ شیخ اشراق نے مشاء کے فلسفی مکتب کے اس قاعدے کو قبول کیا ہے۔
واحد سے مقصود حقیقی واحد ہے کہ جس میں کسی قسم کی کثرت نہ ہو اور وہ ایسا موجود ہے جو نہ صرف ایک (واحد) ہے بلکہ اس کا کسی قسم کا کوئی حقیقی یا اعتباری جزء نہیں ہے اور ہر جہت سے بسیط ہو۔
[۱] شرح الاشارات و التنبیهات، نصیرالدین طوسی، تحقیق حسن حسن زاده آملی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۳، چاپ ۱، ج۳، ص۶۸۴۔


قاعدے کی تشریح

[ترمیم]

ہر علت اور اس کے معلول کے مابین تناسب و سنخیت کا ہونا ضروری ہے ورنہ لازم آئے گا کہ ہر معلول، ہر علت سے صادر ہو سکتا ہے خواہ اس علت کے ساتھ تناسب و سنخیت نہ رکھتا ہو، مثلا پانی جلا ڈالے اور آگ ٹھنڈا کرے۔ اگر ایک حقیقی واحد سے کثرت کے بغیر مختلف معلول صادر ہوں تو اس علت کی ذات میں جہتِ کثرت کا ہونا ضروری ہے تاکہ علت و معلول کی سنخیت ضائع نہ ہو حالانکہ یہ کہا گیا ہے کہ حقیقی واحد کسی قسم کی کثرت نہیں رکھتا؛ اس بنا پر حقیقی واحد سے صرف اور صرف ایک معلول صادر ہوتا ہے۔
فلاسفہ اس قاعدے کی بنیاد پر دنیا کو ایک طولی نظام کا حامل سمجھتے ہیں کہ جس میں صرف پہلا معلول بلا واسطہ اور براہ راست خدا سے صادر ہوا ہے اور اس طولی نظام کی دیگر موجودات اپنی ماقبل موجودات سے صادر ہوئی ہیں، نتیجہ یہ کہ وہ بالواسطہ ذات واجب کی معلول ہیں اور یہ طولی نظام عالمِ مادہ پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
[۲] مجموعه مصنفات، سهروردی، تصحیح هانری کربن و دیگران، تهران، پژوهشگاه علوم انسانی، ۱۳۸۰، چاپ ۳، ج۲، ص۱۲۶۔


چند نکات کا جائزہ

[ترمیم]

۱: اگر ایک معلول متعدد علل سے صادر ہو تو وہ واحد یا واحدِ نوعی ہے کہ جس کا ہر فرد یا ایک علت سے صادر ہوا ہے، (جیسے حرارت جو نوعِ واحد ہے اور اس کا ہر فرد جداگانہ علل جیسے آگ، خورشید، حرکت اور اس قبیل کی اشیا سے صادر ہوتا ہے) اور یا وہ کثیر علتیں جہت واحدہ کی حامل ہیں کہ معلولِ واحد اس اکیلی جہت کی طرف منسوب ہے اور اس کے سہارے پر قائم ہے۔
۲: اگر علتِ واحدہ سے متعدد معلول صادر ہوں تو اس علت میں جہتِ وحدت کے علاوہ کثیر جہات بھی موجود ہیں کہ ہر معلول اپنے سے سازگار جہت سے صادر ہوا ہے، جیسے انسانِ واحد جو مختلف جہات و ابعاد کا حامل ہے اور اس رو سے مختلف افعال اس سے سرزد ہوتے ہیں۔
[۳] نهایه الحکمه، طباطبائی، محمد حسین، تعلیقۀ غلام رضا فیاضی، قم، مؤسسه امام خمینی، ۱۳۸۲، چاپ ۱، ج۴، ص۶۴۳۔


قاعدہ الواحد خوانساری کے نقطہ نظر سے

[ترمیم]

آقا حسین خوانساری قاعدہ الواحد کے منجملہ سخت مخالفین میں سے ہیں۔ وہ اس قضیہ کے صغریٰ و کبریٰ دونوں پر نقد کرتے ہیں۔ ابتدا میں اس قضیہ کی بنیاد کے بارے میں ان کے نقد کی طرف اشارہ کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ دراصل اس مسئلے کی بنیاد کے مخالف ہیں اور اس کے مبنیٰ کو باطل سمجھتے ہیں۔ آقائے خوانساری نے شرح اشارات پر اپنے تعلیقات میں ابن سینا کے برہان پر خواجہ طوسی کی تقریر کے ذیل میں یہ حاشیہ لگایا ہے:
اگر آپ کا برہان یہ ہے کہ واحد سے دو چیزوں کے صدور سے واحد میں دو مختلف مفہوم حاصل ہوتے ہیں تو یہ اشکال واحد کے واحد سے صدور پر بھی موجود ہے۔ یہاں دو متغایر مفہوم پیدا ہوتے ہیں۔ ایک مفہوم اس حیثیت سے ہے کہ: علت سے معلول صادر ہوتا ہے اور دوسرا یہ مفہوم کہ: علت معلول پر مقدم ہے اور واضح ہے کہ تقدم کا مفہوم صدور کے مفہوم سے مغایر ہے۔ نتیجہ یہ کہ واحد سے واحد بھی صادر نہ ہو۔
[۴] خوانساری، حسین، تعلیقات شرح اشارات، ص۳۰۴۔

جیسا کہ واضح ہے وہ ایک مفہوم میں تکثر کو اس کے راستے کی رکاوٹ سمجھتے ہیں؛ حالانکہ جیسے فلسفے کے بزرگان نے کہا ہے کہ کسی مفہوم میں تکثر قاعدہ الواحد کی راہ میں کسی رکاوٹ کو ایجاد نہیں کرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مفہوم میں تکثر وجود میں تکثر سے متفاوت ہے۔ ہمارے قاعدے کا مدعا یہ ہے کہ ایک موجود اس جہت سے کہ واحد ہے، واحد کے سوا کسی کو صادر نہیں کرتا۔ اس مسئلے میں ہماری تاکید اولا موجودِ واحد اور ثانیا ’’اس جہت سے کہ واحد ہے‘‘ پر ہے۔ یعنی بفرض مثال واجب الوجود جو موجودِ واحد ہے اگرچہ مفہوم میں صفات و قوا کے تعدد کا حامل ہے مگر اپنی ایک جہت سے ایک معلول کو صادر کرتا ہے۔ پس آقای خوانساری کا اصل قاعدہ پر نقد ان لوگوں پر وارد ہے کہ جنہوں نے اس طریقے سے قاعدہ الواحد کی محدود تفسیر کی ہے۔ (یوں لگتا ہے کہ عظیم فلاسفہ جیسے ملا صدرا اور سہروردی کی یہ مراد نہیں تھی۔ مگر آگے چل کر آقائے خوانساری قاعدے کے صغریٰ پر بھی اعتراض کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر یہ قبول بھی کر لیں کہ یہ مسئلہ واحدِ حقیقی کیلئے (جو نہ حقیقی تکثر اور نہ مفہومی تکثر خواہ صدور سے پہلے یا بعد نہیں رکھتا) جاری ہے، پھر بھی قاعدے پر اشکال ہے؛ کیونکہ ایسے واحد کا کوئی وجود نہیں ہے حتی خدائے متعال جو اس قاعدے کی وضع کا حقیقی مقصود ہے، بھی ایسا واحد نہیں ہے۔
[۵] خوانساری، حسین، تعلیقات شرح اشارات، ص۳۰۴۔


امام فخر رازی اور غزالی کا نقطہ نظر

[ترمیم]

امام فخر رازی اور غزالی جیسے برجستہ متکلمین اس قاعدے پر اسی طرح کی تنقید کرتے ہیں کہ جو اکثر و بیشتر خداوند متعال کی قدرت پر ناظر ہے۔ یہ مخالفت اس حد تک آگے بڑھتی ہے کہ فخر رازی رسالہ ’’اربعین فی اصول الدین‘‘ میں اس اصول پر اعتقاد رکھنے والوں کو خدا کا منکر قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ وہ خدا کی قدرت کیلئے شریک قرار دیتے ہیں اور مشرک کا مصداق شمار ہوتے ہیں۔ ہم نے ذیل میں غزالی اور فخر رازی کی تنقید کو چند عناوین کے تحت بیان کیا ہے:

← قدرتِ خدا کی محدودیت


ان کے نزدیک قاعدہ الواحد کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کے موجودات کی تخلیق میں قدرتِ خدا کو محدود قرار دیا جائے۔ اس قاعدہ کا مضمون کچھ اس طرح ہے کہ خدا کا صرف ایک بلا واسطہ معلول ہے اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کل عالم (جہان) خدا کا فعل ہے۔
[۶] غزالی، محمد، تهافت الفلاسفه، ص۱۲۹۔
[۷] غزالی، محمد، تهافت الفلاسفه، ص۵۹۳۔
مسلم بات یہ ہے کہ دینداری کا مقام فلسفے اور غور و فکر کے مقام سے مختلف ہے۔ غزالی اور دیگر متکلمین اس استدلال کے دوران جس چیز میں گرفتار ہوئے ہیں وہ یہ ہے کہ انہیں یہ خوف لاحق ہو گیا کہ تعقل کی قدرت کے ذریعے خدا کی قدرت کا محدود ہونا لازم آ رہا ہے؛ حالانکہ ملا صدرا جیسے فلسفی قاعدہ الواحد کی جو تفسیر کرتے ہیں، وہ قدرت کو اس اعتراض سے محفوظ رکھتی ہے اور اس کے باعث اللہ تعالیٰ کے مطلق اختیارات پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔

← سنخیت کا اصول


تاہم فخر رازی کا ایک نہایت اہم اعتراض کہ جسے حال ہی میں متاخرین (ڈاکٹر یثربی) نے بھی از سر نو مرتب کیا ہے، سنخیت کے اصول پر ہے (جو قاعدہ الواحد کی بنیاد ہے)۔ وہ اپنے نقد کے ذریعے اس اصول کو بنیادی طور پر مسترد کر دیتے ہیں۔ متاخر ناقد سنخیت کے اصول کو بے بنیاد سمجھتے ہیں۔ انہوں نے یونانی فلاسفہ سے لے کر علامہ طباطبائی تک کے بیانات کو ذکر کیا ہے اور ان سب کو بے بنیاد کہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ علت و معلول میں سنخیت دو طرح سے ممکن ہے:
۱: کلی اور ہمہ جانبہ سنخیت جو کسی طور پر معقول نہیں ہے اور ممکن نہیں ہے کہ علت اولیہ اپنے معلول کے ساتھ ہمہ جہت سنخیت رکھتی ہو۔
۲: بعض جہات سے سنخیت؛ ایسا فرض بھی واجب الوجود کے ما بہ الاشتراک اور ما بہ الامتیاز سے مرکب ہونے کو مستلزم ہے اور واجب الوجود کی وحدت حقیقی کے ساتھ منافات رکھتا ہے۔
[۸] فخر رازی، محمد بن عمر، مباحث الشرقیه، به نقل از یثربی ص۲۵۸۔
اس بنا پر اگر ہم سنخیت کے اصول کو قبول کرنا چاہیں تو یہ صرف مادی علت و معلول میں جاری ہے اور علت العلل میں سرایت نہیں رکھتا۔ وہ آگے چل کر سنخیت سے مربوط تمام بیانات از ابن سینا تا ملا صدرا و علامہ طباطبائی و مطہری؛ پر تنقید کرتے ہیں اور ان سب کو مبہم اور مصادرہ بہ مطلوب قرار دیتے ہیں۔
تاہم خوش قسمتی سے تہران یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر جناب ڈاکٹر غفاری نے فصل نامہ فلسفہ کے موسم سرما ۱۳۸۷شمسی کے شمارے میں ان کے نظریے پر وارد ہونے والے اشکالات کی نشان دہی کی کہ ناقدین کا ’’اصلِ علیت‘‘ کے بارے میں درک ماہیتی ہے نہ وجودی! اگر علیت کو ملا صدرا کے فلسفہ کے مطابق وجودی صورت میں سمجھا جائے یعنی یہ کہیں کہ معلول ’’فقرِ مطلق‘‘ اور علت کی احتیاج کے احساس کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ صرف علت ہے کہ جس کا وجود ہے اور معلول صرف علت کی ایک تجلی ہے، اس وقت ہم دیکھیں کہ سنخیت کا اصول اصلِ علت کے پرتو میں ایک ناقابل تردید امر ہو گا۔ ضمنا یہ کہ متاخر ناقدین نے اسفار کے بیانات اور علامہ طباطبائی کے اس پر حواشی کو بطور ناقص ذکر کیا ہے، جن سے ان کا بطلان ظاہر ہوتا ہے؛ جیسا کہ ڈاکٹر غفاری نے اسے ناقص ذکر کیا ہے۔ ملا صدرا نے سنخیت کے ناقص ذکر (حالانکہ وہاں پر انہوں نے من باب المجاز اور تقریب ذہن کے عنوان سے اسے ذکر کیا تھا) سے چند صفحے قبل اس کی دقیق تشریح کی ہے اور اسے اصلِ علیت سے مربوط قرار دیا ہے۔ ضمنا علامہ طباطبائی نے بھی ان کی بات کے مجازی ہونے پر زور دیا ہے اور ملا صدرا کے سابقہ بیان پر تاکید ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصلِ علیت سے وابستہ اصلِ سنخیت، دقیقا اور بطور ملموس قابلِ اثبات ہے اور اس پر کوئی تنقید وارد نہیں کی جا سکتی۔

← منطقی تنقید


قاعدہ الواحد پر منطقی نقد کرنے والی واحد شخصیت، رسالہ مباحث المشرقیۃ میں فخر رازی ہیں۔ ابن سینا اس سے قبل معتقد تھے کہ اگر کوئی واحد الف کو صادر کرے تو وہ ب کو صادر نہیں کر سکتا؛ کیونکہ ب کثرت کی تبیین کیلئے ضروری ہے کہ لا الف ہو (یعنی وہی الف نہ ہو ) اور یہ محال ہے کہ ایک واحد الف اور لاالف دونوں کو صادر کرے۔ مگر فخر رازی کا خیال ہے: ب یعنی لاالف، مگر ب کی حیثیت لاالف کے صدور والی ہے نہ کہ الف کے عدم صدور والی! حالانکہ الف کے صدور کی نقیض الف کا عدم صدور ہے نہ لاالف کا صدور۔ اس بنا پر صدور الف و صدور لاالف عملی طور پر متناقض نہیں ہیں۔
[۹] غفاری، ص۴۲۔
ملا صدرا نے اپنی ضخیم کتاب اسفار اربعہ میں فخر رازی کی اس ہلکے نقد کی وجہ سے سرزنش کی ہے اور اس کے کام کو منطقی کے منطق کے بانی (ارسطو) پر نقد یا منطقی کے میزان کے بانی (ابن سینا) پر نقد کی طرح قرار دیا ہے۔
فخر رازی کا اشکال اس طرح رفع ہو گا: تناقض جیسا کہ فخر رازی کا کہنا ہے کہ الف و لاالف کے صدور میں نہیں ہے۔ تناقض اس میں ہے کہ ایک مطلق وجود اپنی کسی ایک حیثیت سے الف کو بھی صادر کرے اور لاالف کو بھی صادر کرے۔ بالفاظ دیگر یہ کہ لاالف کی اہمیت الف کی نقیض ہونے میں نہیں ہے بلکہ اس کی اہمیت کسی چیز میں الف کا غیر ہونے میں ہے۔ یعنی موجود مطلق صرف اپنی ایک حیثیت سے یا الف کے صدور کی قدرت رکھتا ہے یا ب کے صدور کی! وہ قادر نہیں ہے کہ ایک مقام سے ایک وقت میں الف کو بھی صادر کرے اور کسی دوسری چیز کو بھی صادر کرے۔ یہ منطقی کے نزدیک متناقض ہے۔ بعنوان مثال فرض کیجئے کہ علی اپنے پاؤں کے ساتھ جس وقت بھاگ رہا ہے، بیٹھا ہو۔ اگرچہ یہ مثال بہت چھوٹی سی ہے اور ناقص ہے، تاہم الف اور لاالف میں موجود تناقض کو بیان کر رہی ہے۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. شرح الاشارات و التنبیهات، نصیرالدین طوسی، تحقیق حسن حسن زاده آملی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۳، چاپ ۱، ج۳، ص۶۸۴۔
۲. مجموعه مصنفات، سهروردی، تصحیح هانری کربن و دیگران، تهران، پژوهشگاه علوم انسانی، ۱۳۸۰، چاپ ۳، ج۲، ص۱۲۶۔
۳. نهایه الحکمه، طباطبائی، محمد حسین، تعلیقۀ غلام رضا فیاضی، قم، مؤسسه امام خمینی، ۱۳۸۲، چاپ ۱، ج۴، ص۶۴۳۔
۴. خوانساری، حسین، تعلیقات شرح اشارات، ص۳۰۴۔
۵. خوانساری، حسین، تعلیقات شرح اشارات، ص۳۰۴۔
۶. غزالی، محمد، تهافت الفلاسفه، ص۱۲۹۔
۷. غزالی، محمد، تهافت الفلاسفه، ص۵۹۳۔
۸. فخر رازی، محمد بن عمر، مباحث الشرقیه، به نقل از یثربی ص۲۵۸۔
۹. غفاری، ص۴۲۔


ماخذ

[ترمیم]

پژوهه، برگرفته از مقاله «قاعده الواحد»۔    
سایت پژوهه، برگرفته از مقاله «مخالفان منطقی و عقلانی قاعده الواحد»، تاریخِ نظر ثانی ۱۳۹۵/۱۲/۳۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : پژوھہ کے مقالات | فلسفی قواعد




جعبه ابزار