قبالہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



قبالہ عربی زبان کا لفظ ہے جو قبول کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ مکتب امامیہ کی فقہی کتب میں قبالہ بمعنی معاوضہ بھی آیا ہے۔ فقہی کتب کے مختلف ابواب میں اس لفظ کے ذریعے معاملات کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں۔


قبالہ ایک فقہی معاملہ

[ترمیم]

فقہِ امامیہ میں خراج، جنگی غنائم اور صلح کے ابواب میں اس کا لفظ کا استعمال دکھائی دیتا ہے۔ فقہ میں یہ بعض اوقات معاوضہ کے معنی میں آتا ہے۔ بعض فقہاء نے تصریح کی ہے کہ قبالہ صلح، بیع، رہن و اجارہ وغیرہ کے مقابلے میں مستقل طور پر ایک شرعی معاملہ ہے۔ اس معاملہ کی صحت کی شرائط میں سے ہے کہ وہ معاملہ صلح یا بیع و خرید و فروخت نہ ہو۔

معاملات میں قبالہ کی صورت

[ترمیم]

علم فقہ میں قبالہ کی مختلف صورتیں بیان کی جاتی ہیں اور اس کے تفصیلی احکام ان معاملات کے ذیل میں ذکر کیے گئے ہیں، مثال کے طور بر دو صورتیں زیر نظر سطور میں بیان کی جاتی ہیں:
۱۔ دو افراد یا دو سے بیشتر افراد کھجور یا کسی بھی نوع کے درختوں میں شراکت داری رکھتے ہوں؛ وہ اپنے اخراجات نکالنے کے بعد حاصل ہونے والے نفع و فائدہ میں اس طرح معاملہ کریں کہ ان میں سے ایک فریق خاص مقدار دوسرے فریق کو دے اور دوسرا فریق اس کو قبول کر لے، فرق نہیں پڑتا اس نے قبالہ کے صیغہ کے ساتھ معاملہ کیا ہے یا نہیں، مثلا: پھلوں کے باغ میں اخراجات کی مقدار نکالنے کے بعد دو شرکاء یا متعدد شرکاء میں سے ایک فریق دوسرے کو اپنے حصہ کے بارے میں اس طرح سے کہے کہ میں اپنے اتنے درختوں کے اتنے فیصد مال یا نفع تمہیں دیتا ہوں، دوسرا اس کے مقابلے میں کہے میں قبول کرتا ہوں۔

۲۔ خراج کے مسائل کے ذیل میں وارد ہوا ہے کہ اگر مسلمانوں کے ہاتھ میں کوئی زمین آئے اور وہ غیر آباد ہو تو امام معصومؑ اس زمین کے باسیوں میں سے کسی ایک سے معاملہ کریں گے اور اس کو پیشکش کریں گے کہ وہ اس زمین کو آباد کرے اور اس کے اخراجات نکلنے کے بعد نفع کا تیسرا حصہ یا نصف حصہ جیسے امامؑ موافقت فرمائیں، وہ بیت المال جمع کرائے گا اور اگر اس کی زمین میں اگی ہوئی فصلیں زکات کے نصاب کو پہنچتی ہوں تو وہ عشر یا نصفِ عشر بھی ادا کرے گا۔ اس معاملہ کو جو شخص قبول کرے گا وہ مُتَقَبِّل کہلائے گا اور دونوں فریقین میں ہونے والے معاملہ کو قِبَالَۃ کہا جائے گا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرۃ، ج۲۱، ص۳۰۳۔    
۲. شہید ثانی، زین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، ج۳، ص۳۶۸۔    
۳. طباطبائی، سید علی، ریاض المسائل، ج۸، ص ۹۹.    
۴. شہید ثانی، زین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، ج۳، ص۳۶۸۔    
۵. محقق کرکی، علی بن حسین، قاطعۃ اللجاج فی تحقیق حل الخراج، ص ۴۴۔    


مأخذ

[ترمیم]

جابری عرب‌لو، محسن، فرہنگ اصطلاحات فقہ فارسی، ص۱۳۸۔
بعض مطالب اور حوالہ جات محققینِ ویکی فقہ اردو کی جانب سے اضافہ کیے گئے ہیں۔


اس صفحے کے زمرہ جات : فقہی اصطلاحات | لفظ شناسی




جعبه ابزار