عرفیہ عامہ علم منطق کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب ہہ ہے کہ محمول موضوع کے لیے دائمی طور پر ثابت ہے یا دائمی پر سلب ہے اس شرط کے ساتھ کہ موضوع معین وصف کے ساتھ متصف ہے۔ عرفیہ عامہ کا شمار قضیہ موجہہ بسیطہ میں ہوتا ہے۔
[ترمیم] قضیہ عرفیہ عامہ قضایا موجہہ بسیطہ کی اقسام میں سے ہے۔ عرفیہ عامہ میں محمول موضوع کے لیے دائمی طور پر ثابت یا سلب ہے اس شرط کے ساتھ کہ ذاتِ موضوع صفت کے ساتھ متصف ہو۔ یہ قضیہ اس اعتبار سے کہ اس میں محمول کے حمل کی شرط موضوع کا وصف سے متصف ہونا ہے مشروطہ عامہ سے مشابہ ہے۔
قضیہ موجبہ: ہر کاتب جب تک کاتب ہے دائمی طور پر انگلیوں کو حرکت دینے والا ہے۔ اس قضیہ میں انگلیوں کا تحرک اس پر شرط پر ہمیشگی کے ساتھ موضوع کے لیے ثابت ہے کہ موضوع کتابت کی صفت کے ساتھ متصف ہو، کیونکہ انگلیوں کے تحرک کا حکم ذات موضوع کے وجود سے مشروط نہیں ہے بلکہ کاتب یعنی وہ موضوع جو کتابت کے وصف کے ساتھ متصف ہے سے مشروط ہے۔ مثال قضیہ سالبہ: لا شیء من الکاتب بساکن الاصابع دائماً مادام کاتباً؛ اس مثال میں انگلیوں کے ساکن ہونے کو کاتب سے سلب کیا گیا ہے جب تک موضوع کتابت کے وصف کے ساتھ متصف ہے تب تک انگلیوں کے ساکن ہونے کو دائمی طور پر موضوع سے سلب کیا گیا ہے۔
[ترمیم] عرفیہ عامہ دو کلمات عرفیہ اور عامہ سے مرکب ہے۔ اس کو عرفیہ عرف کی وجہ سے کہتے ہیں کہ عرف قضیہ موجبہ اور قضیہ سالبہ سے مطلق صورت میں یہی معنی سمجھتی ہے، مثلا کل کاتب متحرک الأصابع، عرف جب اس قضیہ کو سنتی ہے تو یہ سمجھتی ہے کہ محمول دائمی طور موضوع کے لبے جب تک وہ حالتِ کتابت میں ہے کے لیے ثابت ہے۔ جبکہ عامہ کہنے کی وجہ اس کا خاصہ کے مقابلے میں ہونا ہے۔ قضایا موجہات مرکبہ کی اقسام میں سے ایک قسم عرفیہ خاصہ ہے۔ اہل منطق کی نظر میں عربی زبان میں دو قضیہ مشروطہ عامہ اور عرفیہ عامہ کو عامتان یعنی دو عمومی قضیہ بھی کہا جاتا ہے۔